Mufti Touqueer Badar Alqasmi Alazhari WhatsApp Channel

Mufti Touqueer Badar Alqasmi Alazhari

219 subscribers

About Mufti Touqueer Badar Alqasmi Alazhari

You may know Islamic point of view about every step in your life including political, social, economical & cultural development.

Similar Channels

Swipe to see more

Posts

Mufti Touqueer Badar Alqasmi Alazhari
Mufti Touqueer Badar Alqasmi Alazhari
6/21/2025, 6:29:00 AM

_*علماء و ائمہ کے لیے مالی استحکام کی راہ*_ _*ت بدر آزاد*_ زندگی کے نشیب و فراز میں مالی پریشانیاں انسان کو گہرے اندھیروں میں دھکیل سکتی ہیں، اور جب یہ مصیبت ایک امامت جیسے عظیم منصب پر فائز شخصیت کو لاحق ہو، تو دل دکھ سے بھر جاتا ہے۔ حال ہی میں ایک امام کے مالی حالات سے تنگ آکر خودکشی کرنے کی خبر نے معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ یہ واقعہ ہر عالم و امام کے لیے ایک عظیم سبق ہے کہ مالی استحکام نہ صرف ان کی ذاتی زندگی،بلکہ ان کے دینی کردار اور معاشرتی اثر کو بھی مضبوط کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک امام، جو دین کی خدمت میں مصروف ہو، کس طرح حلال ذرائع سے مالی خودمختاری حاصل کرے تاکہ وہ خودکشی جیسے مایوس کن اقدام سے محفوظ رہے؟علماء و ائمہ کے لیے مالی استحکام کی راہ میں چند عملی اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے، وہ اپنی دینی تعلیمات کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے آن لائن تدریس، دینی کورسز، یا اسلامی لٹریچر کی تالیف کے ذریعے آمدن کے ذرائع پیدا کر سکتے ہیں۔ آج کل ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر اسلامی تعلیمات کی مانگ بڑھ رہی ہے، اور بہت سے علماء یوٹیوب، ویب سائٹس، یا آن لائن زوم کلاسز کے ذریعے معقول آمدنی حاصل کر رہے ہیں۔ دوسرا، حلال تجارت یا چھوٹے کاروبار کا آغاز بھی ایک مؤثر ذریعہ ہو سکتا ہے۔ کئی ائمہ حضرات مقامی سطح پر کتابوں کی دکانیں، اسلامی مصنوعات کی فروخت، یا حلال فوڈ کاروبار سے وابستہ ہو کر مالی استحکام پا رہے ہیں۔ یہ نہ صرف ان کی معاشی حالت بہتر کرتا ہے، بلکہ معاشرے میں حلال معیشت کو فروغ بھی دیتا ہے۔ تیسرا، جدید مالیاتی علوم سے استفادہ بھی ایک قابل عمل راستہ ہے۔ راقم سے جڑے کچھ ائمہ و مدرس حضرات نے اسٹاک مارکیٹ میں شرعی اصولوں کے مطابق سرمایہ کاری کر کے خاطر خواہ آمدنی حاصل کی ہے۔ اسلامی فنانس کے اصولوں پر مبنی اسٹاکس، ایکسچینج ٹریڈڈ فنڈز (ETFs)، یا سکوک جیسے آلات کے ذریعے وہ اپنی بچت کو نفع بخش بناتے ہیں۔ یہ راستہ نہ صرف حلال ہے، بلکہ مالیاتی تعلیم کے ساتھ اسے محفوظ اور پائیدار بھی بنایا جا سکتا ہے۔ آخر میں، معاشرے اور مساجد کے منتظمین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ائمہ کی مالی ضروریات کا خیال رکھیں۔ ایک باعزت تنخواہ، رہائش، اور دیگر سہولیات فراہم کر کے انہیں مالی پریشانیوں سے بچایا جا سکتا ہے۔ ائمہ کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے خودمختاری کی طرف قدم بڑھائیں۔ مالی استحکام نہ صرف ان کی زندگی کو سکون عطا کرے گا، بلکہ ان کے دینی پیغام کو بھی زیادہ مؤثر بنائے گا۔ہمارے معاشرے کو چاہیے کہ وہ اپنے علماء و ائمہ کی قدر کرے، ان کی مالی مشکلات کو سمجھے، اور انہیں عزت و وقار کے ساتھ جینے کے مواقع فراہم کرے۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں ایسی المناک خبروں سے بچا سکتا ہے۔ ==== ڈائریکٹر المرکز العلمی للافتاء و التحقیق سوپول بیرول دربھنگہ بہار 21/06/2025

Mufti Touqueer Badar Alqasmi Alazhari
Mufti Touqueer Badar Alqasmi Alazhari
6/21/2025, 6:29:48 AM

https://youtu.be/leOT2ZDwx8o?si=v0XVKXapvL8RhP44 *مسلم قوم اور یوگا؟چند معقول سوالات و جوابات* *21 June & Yoga Day* 👆 *Must listen to it & widely share it*

Mufti Touqueer Badar Alqasmi Alazhari
Mufti Touqueer Badar Alqasmi Alazhari
6/20/2025, 4:21:26 AM

https://youtu.be/AOX9Jt3s3sY?si=JbfsDuJjI_Fk-1JW *لوگوں کو جوا و سٹے کی نحوست سے آگاہ کریں* *मुस्लिम मुआशरा डिजिटल जुआ सट्टे में लुप्त* *ड्रीम इलेवन व अन्य फैंटेसी गेम पे पैसे लगाना हराम हराम हराम* *सतर्क रहे सेफ रहें।* 👆👆 *आगे सभी से ज़रूर शेयर करें।*

Mufti Touqueer Badar Alqasmi Alazhari
Mufti Touqueer Badar Alqasmi Alazhari
6/18/2025, 5:43:33 AM

_*یہ صرف ایک جنگ نہیں،بلکہ انسانیت کو دھتکارنا بھی ہے*_ _✍️توقیر بدرالقاسمی الازہری_ --- دنیا کی تاریخ میں _قوم یہود_ ایک ایسا کردار ہے، جو نہ صرف الہامی کتب میں مذکور ہے، بلکہ عالمی سیاسی حرکیات میں بھی مسلسل سرگرم رہا ہے۔ قرآن مجید میں بنی اسرائیل کا تذکرہ بارہا آیا، جہاں ان کی ذہنی ساخت، اللہ کے انعامات کی ناشکری، اور اپنی قوم کو ’’منتخب‘‘ سمجھنے کے خبط پر بارہا روشنی ڈالی گئی: "وَقَالُوا نَحْنُ أَبْنَاءُ اللّٰہِ وَأَحِبَّاؤُہُ" "اور وہ (یہود)کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں" (المائدہ: 18) چناچہ دنیا جانتی ہے کہ یہود کی نفسیات میں برتری کا زعم، دوسروں کو کمتر سمجھنے کی جبلت، اور "غیر" کو بے وقعت جاننے کا جذبہ ہمیشہ غالب رہا ہے۔ یہی وہ ذہنیت ہے جس نے انہیں انبیاء کو قتل کرنے، توریت میں تحریف کرنے، اور ہر پیغمبر کے راستے میں رکاوٹ بننے پر آمادہ کیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب یہود نے بیت المقدس میں انبیاء کے پیغام کو ٹھکرایا، تو وہ نہ صرف سیاسی طور پر محکوم ہوئے، بلکہ ان پر بار بار عذابِ الٰہی نازل ہوا۔ قرآن میں ان پر لگائی گئی ذلت اور مسکنت کی مہر دراصل ان کی اندرونی اخلاقی کمزوریوں اور نسلی تکبر کا ہی مظہر ہے۔ "وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْکَنَةُ" (البقرہ: 61)ان یہودیوں پر ذلت و بیچارگی کی مہر لگادی گئی ہے۔ ان کا یہ مزاج کہ ہمیشہ خود کو خدا کا منظور نظر سمجھنا اور باقی انسانوں کو محض خدمت گزار یا دشمن، ان کے آج کے عالمی رویے میں بھی خوب خوب جھلکتا ہے۔ آج جب ایران و اسرائیل کے درمیان کشیدگی نے عسکری شکل اختیار کی ہے، اور فلسطین، لبنان، شام کے پس منظر میں ایک وسیع جنگی منظر بنتا جا رہا ہے، تو ایک نئی خبر نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا: "اسرائیل نے غیر ملکی(خواہ وہ ہندوستانی ہو )مزدوروں اور تارکین وطن کو جنگی حالات میں پناہ گاہوں (بنکر) میں اپنے ساتھ داخل ہونے سے روک دیا!" شاید یہ حرکات بھی بیجا حمایت کنندگان بھکتوں کی آنکھیں نہ کھول سکیں! یہ محض ایک وقتی فیصلہ نہیں بلکہ نسل پرستانہ ذہنیت کی وہ پرچھائی ہے،جو صدیوں سے یہود کے اندر رچی بسی ہے۔ ان کے بنکر — جو بظاہر انسانی جان بچانے کے لیے ہوتے ہیں — وہاں بھی نسلی چھانٹی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ دراصل یہود کے نزدیک "غیر یہودی" محض ایک عدد ہے، جس کی جان کی کوئی وقعت نہیں،چاہے وہ اسرائیل ہی میں مقیم کیوں نا ہو۔ مذکورہ خبر سے اندازہ لگایا جاسکتا کہ جب ریاستی سطح پر پناہ گاہوں کے دروازے نسل، قوم، اور مذہب کی بنیاد پر بند کر دیے جائیں، تو یہ صرف ایک انسان دوست نظام کی ناکامی نہیں بلکہ انسانی ضمیر کا جنازہ بھی ہے۔ مغربی دنیا جو ہر لمحہ انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے، وہ آج خاموش ہے، کیونکہ یہ نسلی تفریق کسی مسلم ملک میں نہیں بلکہ اسرائیل میں ہو رہی ہے — اس "منتخب قوم" کے ہاتھوں، جسے وہ اپنے دفاع کی علامت سمجھتے ہیں۔ یہودی نفسیات کا یہ پہلو — جو الہامی کتب، تاریخ، اور موجودہ سیاست تینوں میں نمایاں ہے — ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ جب کسی قوم کو اپنے "منتخب شدہ" ہونے کا خبط لاحق ہو جائے، اور وہ دنیا کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھے، تو وہاں انسانیت دم توڑتی ہے، اور ظلم کا نظام ہر سو مسلط ہو جاتا ہے۔ بہرحال ایران اسرائیل جنگ بھلے ایک سیاسی مظہر ہے، مگر اس میں چھپی ہوئی تہذیبی، نسلی اور دینی تفریق کی بو، آنے والے عالمی منظرنامے کے لیے ایک خطرناک الارم ہے۔ جس کی بنیاد پر ہر ایک صاحب شعور یہ کہہ سکتا ہے کہ "یہ صرف جنگ نہیں، انسانیت کو پناہ گاہوں سے دھتکار دیے جانے کا آغاز ہے" ======= ڈایریکٹر المرکز العلمی للافتاء والتحقیق سوپول بیرول دربھنگہ بہار انڈیا [email protected] +918789554895

Mufti Touqueer Badar Alqasmi Alazhari
Mufti Touqueer Badar Alqasmi Alazhari
5/24/2025, 7:51:06 AM

_*"احتسابِ نفس:زوال سے عروج کی سمت:ایک مطالعہ"*_ ✍️ _*توقیر بدر القاسمی الازہری*_ گزشتہ دنوں راقم ایک دینی مجلس میں شریک بلکہ اس کا ایک حصہ تھا۔ وہاں ایک ایسے نوجوان سے ملاقات ہویی ،جو باتوں سے نہ تو زیادہ پڑھا لکھا لگا،نہ حلیہ انکا کسی ملا یا مسٹر کا پتا دیے رہا تھا۔البتہ ذاتی مطالعہ اور تبلیغ کی محنت سے "معاشرے میں پھیلی عوامی و علمی انتشار و ابتری اور احادیث کی روشنی میں اس کا علاج" اسکی فکر و کڑھن اور دل و دماغ میں بن رہے منصوبے کا خلاصہ تھا۔ انہوں نے راقم کو اسی موضوع پر بیان کرنے کا پابند بنایا اور کہا موقع ملے تو ان نکات کو قلم بند بھی ضرور کیجیے گا۔ آج اسٹاک مارکیٹ آف off تھا، تو فرصت پاکر سوچا اس نوجوان کی خواہش کا احترام ضرور کیا جایے۔ ____ قارئین عظام! الفاظ کی دنیا میں کچھ صدائیں ایسی ہوتی ہیں جو دل کو چھو لیتی ہیں، اور کچھ مفاہیم ایسے ہوتے ہیں جو اقوام کی تقدیر بدل دیتے ہیں۔ انسانی تاریخ میں اگر کوئی پیغام ایسا ہے جو فطرتِ انسانی کی رہنمائی کرتا ہے، تو وہ کلامِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے، جو نہ صرف فرد کی اصلاح کا ذریعہ ہے، بلکہ قوموں کی فلاح و بہبود کا منبع و سرچشمہ بھی۔ زمانۂ جدید کے شور و ہنگامہ، سائنسی ترقیات، اور تہذیبی تصادم کے درمیان جب امت مسلمہ اپنی حالت پر نظر ڈالتی ہے، تو وہ لمحۂ فکریہ ہوتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اندر سے آواز آرہی ہو کہ کیا ہم نے اپنی اصل کو کھو دیا؟ کیا ہمارے زوال کا سبب صرف خارجی سازشیں ہیں یا داخلی غفلتیں بھی ان میں شامل ہیں؟ کیا ہماری دینی میراث، بالخصوص حدیثِ رسول، ہماری زندگیوں میں محض نصابی مواد بن چکی ہے؟ دراصل یہی وہ سوالات ہیں، جو احتسابِ نفس کے دروازے کھولتے ہیں۔ *حدیثِ رسول:سرچشمۂ ہدایت و حکمت* اہل علم پر یہ نکتہ مخفی نہیں،کہ قرآنِ کریم کے بعد اگر کسی چیز کو حجت، دلیل، اور شارع کا درجہ حاصل ہے تو وہ حدیثِ رسول ہے۔ احادیث نبویہ فقط الفاظ کا مجموعہ نہیں، بلکہ ان میں حیاتِ انسانی کے ہر گوشے کے لیے ہدایت، حکمت، اور بصیرت پوشیدہ ہے۔ چناچہ آقا صلّی اللہ علیہ وسلم نے جہاں "علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین" فرمایا، وہیں اس بابت ایک سرخ لکیر بھی کھینچ دی "من عمل عملاً لیس علیه أمرنا فهو ردٌّ" (مسلم) (جس نے کوئی ایسا عمل کیا جو ہمارے طریقے کے مطابق نہ ہو، وہ مردود ہے۔) مذکورہ احادیث اپنے اندر دین کی تبلیغ و تطہیر کا وہ اصولی تصور رکھتی ہے جو آج بھی جدید دینی تحریکوں کے لیے proper guide و رہنما ہے۔ یہ فقہ، اصولِ فقہ، اور اسلامی شریعت کے لیے ایک بنیاد ہے، جو ظاہر کرتی ہے کہ عمل کی مقبولیت، سنتِ نبوی کی پیروی پر ہی موقوف ہے۔ *احتسابِ نفس:زوال سے عروج کی راہ کا سفر* حدیث نبوی میں آیا: "حاسِبوا أنفسكم قبل أن تُحاسَبوا" (اپنے نفس کا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے۔) یہ حدیث ہمیں خود شناسی، خود احتسابی، اور ذاتی تطہیر کی دعوت دیتی ہے۔ جو قوم فرد کے محاسبے سے غافل ہو جائے، وہ اجتماعی انحطاط کی طرف بڑھتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں اب یہ عنصر مفقود ہوتا جارہا ہے۔ ہم دوسروں کی غلطیاں تو گنواتے ہیں،مگر خود کو آئینہ دکھانے سے ڈرتے ہیں۔ *فقہی تبصرہ:حدیث اور اجتہاد کی ہم آہنگی* اسلامی فقہ کی عمارت دو ستونوں پر قائم ہے:قرآن اور حدیث۔فقہاے اسلام نے حدیث کو صرف روایتی انداز میں نقل نہ کیا،بلکہ اس سے استنباط، اجتہاد، اور استدلال کا در بھی کھولا۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے کیا خوب کہا ہے: "كل ما حكم به رسول الله فهو مما فهمه من القرآن."دیکھے (الرسالہ) (رسول اللہ کا ہر فیصلہ قرآن ہی کے فہم پر مبنی ہوتا ہے۔) مگر آج جب ہم "فقہ" پر نظر ڈالتے ہیں، تو دو انتہاؤں سے واسطہ پڑتا ہے:ایک طرف جامد تقلید، دوسری طرف بے قاعدہ تجدید! ان دونوں کے بیچ ایک متوازن راہ، سنت اور اجتہاد کی ہم آہنگی ہے،جس کی مثال ہمیں سیرتِ صحابہ میں ملتی ہے۔ *عمرانی پہلو:امت کا اجتماعی شعور اور اس کا زوال* دنیا جانتی ہے کہ اسلام ہی ایک ایسا دین ہے، جس کی بنیاد صرف انفرادی طہارت پر نہیں،بلکہ اجتماعی تطہیر اور سماجی انصاف پر بھی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت جہاں ایک ایک فرد کی اصلاح کے لیے تھی، وہیں ایک مثالی معاشرہ کے قیام کے لیے بھی تھی —ایسا معاشرہ جو عدل، اخوت، مساوات، اور شرافتِ انسانی کا مظہر ہو۔ اس مثالی معاشرے کی بنیاد مندرجہ ذیل پہلو سے نمایاں ہوتی رہی۔ (1)معاشرتی تنظیم: حدیث: "المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضاً." (مومن، دوسرے مومن کے لیے دیوار کی مانند ہے جو ایک دوسرے کو سہارا دیتا ہے۔) یہ حدیث عمرانیات کا وہ اصولی تصور دیتی ہے،جس میں سماج کو ایک جاندار اکائی کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔جب سماج کے افراد ایک دوسرے کے لیے سہارا بن جائیں، تبھی وہ سماج پنپتا ہے،مگر آج ہم نے اس رشتۂ اخوت کو ذاتی مفادات، نسلی تعصبات، اور فرقہ وارانہ تقسیم و تفریق کے سپرد کر دیا ہے۔ (2) سماجی نابرابری اور حدیث کی تعلیمات: اسلامی معاشرہ رنگ، نسل، قوم اور زبان کی بنیاد پر امتیاز کو رد کرتا ہے۔ "لا فضل لعربي على أعجمي إلا بالتقوى." مگر آج مسلم دنیا کے اکثر معاشروں میں سماجی نابرابری شدید صورت اختیار کر چکی ہے۔ طبقاتی تفریق و علاقائی تقسیم ،لسانی و لونی امتیاز اور جات پات کے رنگ ڈھنگ نے اسلامی مساوات کا جنازہ نکال دیا ہے۔ ملازمت، شادی، تعلیم، اور عزت و عظمت کے پیمانے اب حلم و علم ،عدل و تقویٰ کے بجائے دولت اور حسب و نسب بن چکے ہیں۔ یہی وہ سماجی انحراف ہے جو اب اجتماعی زوال کی علامت بن چکا ہے۔ (3)شہری ذمہ داری اور مدنی شعور: حدیث: "كلكم راعٍ وكلكم مسؤولٌ عن رعيته." یہ حدیث شہری ذمہ داری کا عالمگیر منشور ہے۔ایک سماج تب ہی ترقی کرتا ہے جب ہر فرد اپنی اجتماعی ذمہ داری کو سمجھتا ہو، مگر آج ہم صرف حقوق کے طالب ہیں، فرائض سے فرار چاہتے ہیں۔حکومت سے شکوہ کرتے ہیں،مگر خود اخلاقی و سماجی نظم کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ ہم ووٹ تو ڈالتے ہیں، مگر احتساب کے نظام سے یکسر نابلد و ناواقف ہیں۔ (4)تمدنی زوال کے اسباب: ابن خلدون جیسے ماہر عمرانیات کے نزدیک تمدن کا زوال اس وقت شروع ہوتا ہے جب: الف:لوگ عیش پرستی میں مبتلا ہو جائیں۔ ب:اجتماعی نظم بکھر جائے۔ ج: انصاف و اتحاد کی جگہ ذاتی مفاد نے لے لی ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی اسباب کا قبل از وقت سدباب کیا: الف:صبر و قناعت کو فروغ دیا۔ ب:زکٰوۃ کے ذریعے دولت کی تقسیم کا عملی نظام قائم کیا۔ ج:نفاق اور خود غرضی کے خلاف ج ہاد کو فرض قرار دیا۔ پر افسوس آج ہم ان تمام تعلیمات کو بھلا چکے ہیں، اور یہی وہ عمرانی بگاڑ ہے ،جو ہمیں تمدنی موت کی طرف دھکیل رہا ہے۔ (5) سوشیالوجی میں "Collective Conscience" اور اسلامی شعور: جدید مطالعہ و عصری تحقیق کے متوالے کیلیے عرض ہے ۔ سوشیالوجسٹ ایمیل دورکائم کے مطابق ایک معاشرہ اُس وقت تک برقرار رہتا ہے، جب تک اس کا اجتماعی ضمیر (Collective Conscience) زندہ ہو۔ اسلام میں یہی "اجتماعی ضمیر" امر بالمعروف اور نہی عن المنکر" کی صورت میں موجود ہے۔ "من رأى منكم منكراً فليغيره بيده. الخ" (تم میں سے جو کسی برائی کو دیکھے، اسے ہاتھ سے روکے.) یہ حدیث ہمیں ایک فعال سماجی کردار کی دعوت دیتی ہے۔ پر افسوس کے ساتھ یہ اعترف کرنا پڑ رہا ہے کہ آج ہمارا رویہ تماشائی بن چکا ہے، ہم برائیوں کو دیکھ کر بھی اپنے مفاد و مقام کے دائرے میں رہ کر خاموش رہتے ہیں۔ یوں سماجی و اجتماعی خاموشی "سوشیا لوجیکل سائلنس" نے ہمارے معاشروں کو آج اخلاقی پستی میں دھکیل دیا ہے۔ بہر حال اب بھی ہم یہ کرسکتے ہیں! *اجتماعی شعور:ملتِ اسلامیہ کا آئینہ بنے* حدیثِ نبوی کا ایک اہم پہلو اجتماعی شعور کو بیدار کرنا رہا ہے۔ "من لا يهتم بأمر المسلمين فليس منهم" (جو مسلمانوں کے معاملات سے بے پروا ہو وہ ان میں سے نہیں۔) یہ ایک تنبیہ ہے اور ایک صدا بھی۔ ہم نے اپنے ذاتی مفادات کو قومی مقاصد پر ترجیح دی۔ ہماری مساجد بھر گئیں، مگر صفیں اتحاد سے خالی رہ گئیں؛ہم نے وظیفے اپنائے،مگر مقصد فراموش کر دیا۔ ایک ملت جو اجتماعی شعور سے محروم ہو، اس کا مقدر تنزلی کے سوا کچھ نہیں۔ *ترقی و تنزلی:سائنسی و سماجی توجیہات* (1) سائنسی زاویہ: دنیا کی اقوام جب سائنسی اصولوں پر زندگی گزارتی ہیں تو ترقی کرتی ہیں۔ مسلمانوں کے ابتدائی عہد میں تجربہ، مشاہدہ، اور علم کی ترویج سنتِ نبوی سمجھی جاتی تھی،مگر آج ہم سائنسی تفکر کو مغربی تہذیب کا طعنہ سمجھتے ہیں۔ آقا صلّی اللہ و علیہ و سلم نے تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تربیت یوں کی تھی: "أنتم أعلم بأمر دنياكم" (تم دنیا کے معاملات میں مجھ سے زیادہ جاننے والے ہو۔) یہ تربیتی ہدایت دراصل ایک عظیم علمی اصول ہے،کہ دینی و دنیاوی علوم میں تفریق نہیں، بلکہ تخصیص ہے۔ آج اگر ہم نے سائنس کو دین سے جدا نہ کیا ہوتا، تو آج ہم علم، تحقیق، اور ترقی میں بھی اقوامِ عالم کے رہنما ہوتے۔ (2) سماجی زاویہ: سماج تب ہی ترقی کرتا ہے جب اس کی بنیاد عدل، مساوات، اور اخلاق پر ہو۔ مگر آج ہمارا معاشرہ طبقاتی تقسیم، نسلی امتیاز، اور مفاد پرستی و عہدہ طلبی کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ حدیث: "انما اهلك الذين قبلكم انهم كانوا اذا سرق فيهم الشريف تركوه و اذا سرق فيهم الضعيف اقاموا عليه الحد." (تم سے پہلے کی قومیں اس لیے ہلاک ہوئیں کہ وہ طاقتور کو چھوڑ دیتے اور کمزور پر حد جاری کرتے۔) آج ہمارا عدالتی، تعلیمی، تنظیمی اور معاشی نظام بھی اسی بیماری میں مبتلا ہے۔ ترقی محض انفرااسٹرکچر سے نہیں، بلکہ اخلاقی و سماجی عدل سے آتی ہے۔ *نئی نسل اور حدیث کا رشتہ* حدیث کا تعلق صرف مدارس یا علماء سے نہیں، بلکہ یہ ہر فرد، ہر طالبعلم، ہر پروفیشنل کی زندگی کا مرکز ہونا چاہیے۔ مگر آج کی نسل سوشل میڈیا کے طوفان میں ایسی گم ہوئی ہے کہ حدیث کی روشنی اسے اجنبی لگتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے، کہ ہم احادیث کو جدید تعلیمی نظام کا حصہ بنائیں، ان کے مقاصد کو زندگی سے ہم آہنگ کریں، اور نوجوانوں کو بتائیں کہ سنتِ نبوی صرف تابناک ماضی کی کہانی نہیں، یہ مضبوط حال کی رہنمائی اور روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔ *خلاصہ مدعا:* حدیثِ رسول فقط الفاظ کا مجموعہ نہیں، بلکہ وہ حیاتِ نو کی کنجی ہے۔ اگر ہم سنجیدگی سے احتسابِ نفس کریں، اجتماعی شعور بیدار کریں، فقہی و علمی بصیرت سے کام لیں، اور سائنسی و سماجی ترقی کے اصولوں کو اپنا لیں، تو زوال کو عروج میں بدلا جا سکتا ہے۔ امت مسلمہ کو آج جس رہنمائی کی ضرورت ہے، وہ نہ صرف قرآنی تعلیمات میں ہے، بلکہ حدیثِ رسول کی روشنی میں ایک عملی، فکری، اور متوازن نظامِ زندگی میں بھی موجود ہے۔ شاعر کیا خوب کہا ہے: ہر ابتدا سے پہلے ہر انتہا کے بعد ذات نبی بلند ہے ذات خدا کے بعد --- حوالہ جات: 1.صحیح بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ 2.صحیح مسلم، کتاب القضاء 3.امام شافعی، الرسالہ 4.ابن خلدون، مقدمہ 5.مولانا شبلی نعمانی، سیرۃ النبی 6.ڈاکٹر محمد حمید اللہ، خطبات بہاولپور 7.علامہ اقبال، تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ 8.معاصر سوشیالوجی و پالیسی مطالعات =========== ڈائیریکٹر المرکز العلمی للافتاء والتحقیق سوپول بیرول دربھنگہ بہار انڈیا. 24/05/2025 [email protected] +918789554895

Mufti Touqueer Badar Alqasmi Alazhari
Mufti Touqueer Badar Alqasmi Alazhari
5/22/2025, 9:55:06 AM

_*دوسو فنون اور آپ*_ "تصور کریں کہ اگر آپ کے پاس روزانہ تین گھنٹے ہوں جو آپ محض خوشی خوشی صرف کریں، اور ہر دن آپ ان تین گھنٹوں میں ہر فن سے صرف تین جملے یاد کریں، تو میرے دوست! دو سال میں آپ دو سو فنون میں مہارت حاصل ہو جائے گی، چاہے وہ حفظ ہو، مطالعہ ہو یا دیگر ذرائع تعلیم! یہ دو سال کا حاصل یہ ہو گا کہ آپ اپنے نوٹس، اپنی تحریروں، اپنی کتابوں اور اپنے خلاصوں کو دیکھیں گے، جو آپ نے وقت کے ساتھ اکٹھے کیے ہوں گے، اور آپ گو حیرت ہو گی کہ آپ نے یہ سب کچھ حاصل کیسے کیا! آپ نے کتنی کتابیں یاد کیں، کتنی تحریریں لکھیں، اور کتنا کچھ پڑھا۔ پس، مجھے اپنی صلاحیتوں اور مستقبل کی بڑی بڑی امیدوں کی باتیں نہ سناؤ۔ مجھے صرف اپنے روزانہ کے معمولات اور کارکردگی کے بارے میں بتاؤ، کیونکہ وہی تمہاری امیدوں کی حقیقت اور تمہارے خوابوں کا عنوان ہے۔ امام احمد امین (رحمہ اللہ) نے فرمایا: "وقت کا تھوڑا سا حصہ مخصوص کرو روزانہ کسی معین کام کے لیے، کیونکہ وقت گزر جائے گا، زندگی میں شغل آ جائے گا، اور تمہیں معلوم بھی نہ ہو گا کہ تم نے کتنا کچھ حاصل کر لیا ہے اور کہاں تک پہنچ گئے ہو."

Mufti Touqueer Badar Alqasmi Alazhari
Mufti Touqueer Badar Alqasmi Alazhari
5/21/2025, 7:41:34 AM

_*خواتین،جم اور فٹنس: ایک جائزہ*_ جم میں خواتین کے غیر مناسب لباس، جسم کی نمائش اور بعض اوقات مردوں سے بے تکلف تعلقات دراصل ایک وسیع تر معاشرتی، نفسیاتی اور ثقافتی پس منظر کا نتیجہ ہیں۔ ہمیں ان پہلوؤں کو بہتر انداز میں سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی پر صرف الزام نہ لگایا جائے بلکہ اصل وجوہات کا ادراک کر کے اصلاح کی کوشش کی جائے۔ **1. مغربی ثقافت کا اثر:** آج کل میڈیا، فلمیں، سوشل میڈیا اور فیشن انڈسٹری مسلسل ایک مخصوص طرز زندگی کو پروموٹ کر رہی ہیں۔ یہ اندازِ زندگی خواتین کو باور کرواتا ہے کہ خوبصورتی، جسمانی نمائش، اور بولڈ لباس ہی کامیابی اور توجہ حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ اس فریب کا شکار اکثر وہ خواتین ہوتی ہیں جو اندرونی طور پر احساسِ کمتری یا غیر یقینی کا شکار ہوتی ہیں۔ **2. کمزور خاندانی تربیت اور دینی شعور کی کمی:** خواتین کی شخصیت سازی میں ان کے والدین، تعلیمی ادارے، اور مذہبی تربیت کا بڑا کردار ہوتا ہے۔ جب لڑکیوں کو حیا، وقار، اور خود اعتمادی کا درست فہم نہیں دیا جاتا تو وہ بیرونی دنیا کی طرف جھکاؤ رکھتی ہیں۔ نتیجتاً وہ خود کو دوسروں کی نظر میں مقبول بنانے کے لیے لباس، باڈی شیپ، اور تعلقات کو استعمال کرتی ہیں۔ **3. فٹنس کے نام پر فیشن اور سیکس اپیل:** جم میں جانا محض فٹنس کے لیے نہیں بلکہ اکثر خواتین کے لیے "خود کو دکھانے" کا ایک پلیٹ فارم بھی بن جاتا ہے۔ ٹائٹ کپڑے، میک اپ، سیلفیاں، اور سوشل میڈیا پر تصویریں ڈالنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اصل مقصد صحت نہیں بلکہ سوشل توجہ، جسم کی تشہیر، اور جنسیت کی پروموشن ہے۔ **4. لڑکوں سے دوستی اور آزاد روی:** جم کی مخلوط فضا اور بے پردگی اکثر ایسے ماحول کو جنم دیتی ہے جہاں خواتین اور مردوں کے درمیان حدود ختم ہو جاتی ہیں۔ ورزش کے نام پر ایک دوسرے کے قریب آنا، بات چیت، نمبروں کا تبادلہ، اور پھر دوستیوں کا آغاز، یہ سب غیر محسوس طریقے سے ایک غیر اخلاقی فضا کو جنم دیتا ہے۔ ایسی تعلقات بعض اوقات گھر تباہ کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔ **5. احساسِ برتری یا نسوانی طاقت کا غلط تصور:** کچھ خواتین اس خیال میں مبتلا ہو جاتی ہیں کہ وہ آزاد ہیں، ان کے جسم پر ان کا حق ہے، اور وہ جو چاہیں پہن سکتی ہیں۔ یہ سوچ مغرب سے درآمد شدہ ہے جہاں عورت کی "آزادی" کو اس کی عریانی سے جوڑ دیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حقیقی آزادی کردار، عزت اور علم سے آتی ہے نہ کہ لباس اتارنے سے۔ **6. سوشل میڈیا اور انفلوئنسرز کا کردار:** بہت سی خواتین جم میں جو کچھ کرتی ہیں وہ دراصل سوشل میڈیا پر موجود "فٹنس ماڈلز" اور "انفلوئنسرز" کی نقالی ہوتی ہے۔ بغیر سوچے سمجھے دوسروں کی طرز زندگی اپنانا دراصل اپنی شناخت کھو دینے کے مترادف ہے۔ --- **اصلاحی پیغام:** اسلام عورت کو عزت، وقار اور حیا کا پیکر بناتا ہے۔ جسم کی نمائش، فیشن پرستی، اور غیر محرموں سے بے تکلفی دراصل ایک عورت کے تقدس اور روحانی وقار کو کمزور کر دیتی ہے۔ مسلمان عورت وہ ہے جو اللہ کے حکم کو مقدم رکھے، حیا کو زیور سمجھے، اور خود کو دوسروں کے لیے نہیں، اپنے رب کے لیے سنوارے۔ ہر خاتون کو سوچنا چاہیے کہ وہ معاشرے کو کیا پیغام دے رہی ہے؟ کیا وہ جسم کی نمائش کے ذریعے اپنا مقام بنانا چاہتی ہے یا کردار اور حیا سے؟ جم جانا برائی نہیں، لیکن وہاں کا لباس، رویہ اور نیت ضرور قابلِ غور ہے۔

Mufti Touqueer Badar Alqasmi Alazhari
Mufti Touqueer Badar Alqasmi Alazhari
5/25/2025, 3:06:10 PM

*عمرہ پر جانے والے کا طواف؟؟* السلام علیکم و رحمۃ اللہ مفتی صاحب معلوم یہ کرنا ہے ابھی سعودی حکومت نے معتمرین کے واسطے خانہ کعبہ کے گرد نیچے مطاف میں طواف کے لیے انتظامی طور پر احرام میں ہونا شرط قرار دے رکھا ہے۔ تو کیا عمرہ پر گیا ہوا کوئی غیر محرم فقط سفید لنگی و احرام والی چادر اوڑھ کر طواف کرسکتا ہے؟ جبکہ یہ انتظامیہ کو ایک طرح سے چکمہ دینا ہے،مگر طواف کنندہ اسے بیجا سرکاری مداخلت اور اپنے شوق عبادت کی تکمیل جانتے ہوئے اسے اپناتا ہے۔ واضح رہے جبکہ اوپری حصے مسجد کی چھت سے بنا احرام کے بھی طواف کی اجازت ہے۔ یہاں نیچے نیچے طواف کرنے کے واسطے یہ سب کرنا ہے۔ براہ کرم مدلل راہنمائی کی زحمت کریں! آپ کا نیاز مند قمر قاسمی سوپول پیرول دربھنگہ -------- وعلیکم السلام ورحمت اللہ آپ نے معتمرین کے واسطے مطاف میں طواف کے متعلق جو دریافت کیا،اس سلسلے میں راقم کی تحقیق کے مطابق علماء کی آراء مختلف ہیں۔ بعض علما یہ کہتے ہیں کہ جائز نہیں ہے ،کیونکہ اس میں انتظامیہ کو "چکمہ دینا" ہے۔یہ ایک مؤمن و معتمر کی شان سے فروتر اور حاکم کے انتظامی امر کی مخالفت کرنا ہے،جبکہ حاکم کے انتظامی امر کی مخالفت جائز نہیں ہے۔ اس کے مقابل دوسرے علماء حضرات  کی یہ رائے ہے کہ اگر نیچے والے  حصے میں طواف کی گنجائش ہو،تو احرام جیسی حالت بناکر طواف کرسکتے ہیں،اس لئے کہ ممانعت اصلا عورتوں کی راحت کے لئے ہے۔سو اگر کسی وقت اگر جگہ خالی نظر آتی ہے،تو وہاں طواف کرنے میں کسی طرح کا کویئ حرج نہیں ہے۔ البتہ چکمہ دیکر حاکم کی مخالفت اس درجے کا نہیں ہے کہ "اس میں کسی کا جانی یا مالی نقصان ہو" ویسے بھی احرام جیسا لباس پہننا عام حالت میں بھی جائز ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمومی لباس یہی  تھا۔ ان تفصیلات کی روشنی میں بہتر صورت یہی ہے کہ مرد معتمرین بنا احرام مطاف سے الگ اوپری حصے میں طواف کریں اور انتظامیہ کی مخالفت سے بچیں‌‌!اور اگر کوئ پھر بھی گنجائش دیکھ کر مطاف میں طواف کرلے،تو اسکا بھی طواف ہوجائے گا۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کا فتویٰ بھی اس کی موافقت میں ہے۔ ھذا عندی والصواب عنداللہ آپ کا خیر اندیش توقیر بدر القاسمی الازھری ڈایریکٹر المرکزالعلمی للافتا والتحقیق سوپول پیرول دربھنگہ بہار سابق لیکچرار المعھد العالی برائے قضا و افتاء امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ بہار اندیا ۱٣/۱۲/۲۰۲۳ +918789554895

Mufti Touqueer Badar Alqasmi Alazhari
Mufti Touqueer Badar Alqasmi Alazhari
5/20/2025, 2:00:26 PM

_*हज-ए-बदल से संबंधित एक महत्वपूर्ण मसला*_ _______ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! मौलाना मुफ़्ती साहब! कृपया यह बताएं कि जो व्यक्ति किसी और की ओर से हज-ए-बदल कर रहा हो, अगर वह पहला उमरा करे तो वह किसके लिए होगा और किसकी तरफ से नीयत करनी चाहिए? कृपया मार्गदर्शन करें। जज़ाक अल्लाह आपका शुभचिंतक: ज़ैफ़ी हुसैन प्रोफ़ेसर ज़ाकिर हुसैन टीचर ट्रेनिंग कॉलेज, दरभंगा, बिहार --- وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! सिद्धांत के अनुसार, जब कोई व्यक्ति किसी दूसरे की ओर से हज-ए-बदल कर रहा होता है और मक्का मुअज़्ज़मा पहुंचकर उमरा भी करता है (जैसे कि हज-ए-तमत्तुअ या हज-ए-क़िरान की स्थिति हो — और आजकल भारत से जाने वाले ज़्यादातर लोगों को यही तरीका अपनाना पड़ता है), तो पहला उमरा भी उसी शख्स की तरफ से होगा जिसकी ओर से वह हज कर रहा है। इसकी बेहतरीन व्याख्या हदीस शरीफ़ में मिलती है: अबू दाऊद में है: "अबू रज़ीन बिन आमिर नामी एक व्यक्ति ने अर्ज़ किया: ऐ अल्लाह के रसूल! मेरा पिता एक बूढ़ा आदमी है जो न हज कर सकता है, न उमरा और न ही सफ़र की ताक़त रखता है। आप (स.अ.) ने फ़रमाया: अपने बाप की तरफ से हज और उमरा दोनों करो। (सहीह अबू दाऊद: 1810) इसलिए अगर आज कोई व्यक्ति हज-ए-तमत्तुअ या हज-ए-क़िरान की हालत में किसी की तरफ से हज कर रहा है, तो पहला उमरा भी उसी की तरफ से किया जाएगा और नीयत भी उसी की तरफ से करनी चाहिए। रद्दुल-मुहतार (जिल्द 2, पृष्ठ 594) में है: "باب الحج عن الغير: الأصل أن كل من أتى بعبادة ما، له جعل ثوابها لغيره" (अर्थ: दूसरों की तरफ से की जाने वाली इबादतों का मूल सिद्धांत यह है कि जो भी कोई इबादत अदा करता है, उसका सवाब किसी और को अर्पित कर सकता है।) हाँ, यदि हज-ए-बदल करने वाला व्यक्ति अपने लिए अलग से नफ़्ली (स्वैच्छिक) उमरा करना चाहता हो —जैसे कि हज के बाद मक्का में रुककर, या पहले ही समय मिल जाने पर — तो वह अपनी तरफ से नीयत करके उमरा कर सकता है, बशर्ते कि वह स्पष्ट करे कि यह नफ़्ली उमरा है। यह मेरी राय है और सही बात अल्लाह ही बेहतर जानता है। ----- तौक़ीर बदर अलक़ासिमी अलअज़हरी डायरेक्टर, अल-मरकज़ुल-इल्मी लिल-इफ्ता वल-तहक़ीक़, सूपौल बीरौल, दरभंगा, बिहार 18/05/2025 [email protected] +91 8789554895

Mufti Touqueer Badar Alqasmi Alazhari
Mufti Touqueer Badar Alqasmi Alazhari
5/20/2025, 5:26:42 AM

میں نے ہم انسانوں کو سالہا سال اسٹڈی کیا ہے اور ان کی نفسیات کے بارے دو اہم ترین باتیں سمجھی ہیں کہ انسانوں کی غالب ترین اکثریت دو چیزیں شدت سے چاہتی ہے: 1- تن آسانی 2- لذت ہم سب جانتے ہیں کہ ورزش کرنا، چلنا پھرنا کس قدر ضروری ہے اس کے باوجود ہم ورک آؤٹ نہیں کرتے کیوں؟ ہم تن آسان یا کاہل ہیں۔۔۔۔۔۔۔ ہم سب جانتے ہیں کہ چینی سخت نقصان دہ ہے لیکن کھانے کے دوران جب کولڈ ڈرنکس سامنے آجائیں تو ہم خود کو روک نہیں پاتے کیوں؟ ہم لذت پر مرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ ہم جانتے ہیں کہ اپنی روٹین سے تھوڑا ہٹ کر کسی بزنس، کسی کام یا اسکل پر فوکس کریں اور چند ماہ تسلسل سے کوشش کریں تو ہماری فنانشل لائف کافی بہتر ہوسکتی ہے لیکن اس کے باوجود ہم بس سوچتے، پلان کرتے ہی رہ جاتے ہیں کیوں؟ تن آسانی۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسی ہزاروں مثالیں دی جاسکتی ہیں ہم انسانوں کی 99 فیصد تعداد روزانہ کی بنیاد پر تن آسانی اور لذت کو chase کررہے ہوتے ہیں لیکن، اگر کوئی انسان، سو فیصد بھی نہیں بلکہ 50 فیصد ہی اپنی ان "جبلی خواہشات" پر قابو پانا سیکھ لے، تو اس کی زندگی بدلنا شروع ہوجائے گی۔ یعنی کچھ کچھ معاملات میں تن آسانی اور لذت کو ترک کرنا شروع کردے۔ صبح فجر میں اٹھنے میں کسلمندی کا سامنا ہو، تن آسانی اسے روک رہی ہو لیکن پھر بھی اٹھے اور فجر پڑھ لے۔ چائے یا کولڈ ڈرنک دستیاب ہو لیکن انھیں جان بوجھ کر ترک کردے۔ موبائل اسکرول کرتے کوئی فحش منظر سامنے ہو لیکن اسکرول کرکے آگے بڑھ جائے۔ کسی عمارت میں اوپر یا نیچے جاتے لفٹ میسر ہو لیکن پھر بھی سیڑھیوں کا استعمال کرلے یہاں ایسی تن آسانی اور لذت چھوڑنے کی بات کررہا ہوں جس کے آپ پہلے سے عادی نہ ہوں۔ یعنی آپ کو اپنی عادت کے خلاف جانا پڑ رہا ہو ایسی چھوٹی چھوٹی wins آپ کی نفسیاتی rewiring کرنے لگیں گی۔ آپ 99 فیصد انسانوں سے ممتاز ہونے لگیں گے۔ یہ خود کو کنٹرول کرنے کی طرف ایک اہم قدم ہوگا۔ آپ ایک ایسے انسان بننے لگیں گے جس پر یہ مادی دنیا کنٹرول کھونے لگے گی۔ کوئی افلوئنسر، کوئی چینل آپ کی توجہ حاصل نہیں کرسکے گا۔ کوئی سوشل میڈیا پلیٹ فارم آپ کا وقت ضائع کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گا۔ پیپسی، کوکا کولا، چائے کے برانڈز، سگریٹ کمپنیاں آپ کو اپنا کسٹمر نہیں بنا سکیں گی۔ اس کے بعد آپ ہسپتالوں، ڈاکٹروں اور فارما کمپنیوں کے بھی چنگل سے دور ہوجائیں گے دھیرے دھیرے دنیا کا آپ پر سے کنٹرول کم، اور خود آپ کا بڑھتا جائے گا۔ پھر ایک وقت آئے گا کہ آپ کے اندر کچھ بڑا اچیو کرنے کی خواہش جاگنا شروع ہوجائے گی۔ آپ میں ویژن پیدا ہونے لگے گا۔ آنے والے وقت میں دور تک جھانکنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے گی۔ آپ کا وقت قیمتی ہوتا چلا جائے گا اور بالآخر آپ وہ کچھ حاصل کرنے کے قابل ہو جائیں گے جس کا باقی 99 فیصد انسان صرف خواب دیکھتے اس دنیا سے خالی ہاتھ چلے جاتے ہیں۔۔۔۔!!!! شہزاد حسین .

❤️ 👍 2
Link copied to clipboard!