Mufti Touqueer Badar Alqasmi Alazhari
                                
                            
                            
                    
                                
                                
                                February 20, 2025 at 08:23 AM
                               
                            
                        
                            https://whatsapp.com/channel/0029VanfrMPCcW4uesYGyc3N
_*ماہ شعبان میں مروجہ قرآن خوانی،قرآن سے لگاؤ یا قرآن مقدس کے ساتھ کھلواڑ...؟*_
السلام علیکم ورحمت اللہ و برکاتہ!
مفتی صاحب!
آج کل ماہ شعبان میں خصوصاً اور بعض جگہوں پر پورے سال عموماً مدارس و مکاتب میں پڑھنے والے چھوٹے چھوٹے بچے بچیاں اسی طرح بڑے طلبہ سبھی قرآن خوانی کرنے گھر گھر جاتے ہیں۔
 نہ وہ وضو کا اہتمام کرتے ہیں نہ تلاوتِ کلامِ پاک کے آداب کی رعایت کرتے ہیں؟ جیسا کہ بتایا ابھی ماہ شعبان میں یہ ہوتا ہے کہ جلدی جلدی ایک جگہ جیسے تیسے آدھے ادھورے آپس میں بات چیت کرتے ختم کر کے، یہ بچے دوسری جگہ، پھر وہاں بھی اسی طرح کرکے تیسری جگہ، اس طرح ایک ایک دن میں پانچ دس الگ الگ گھروں میں جاکر صبح سے شام تک قرآن خوانی کا یہ سلسلہ اسی طرح ان بچوں و طلباء کے دم سے جاری رہتا ہے۔اس طرح قرآن خوانی میں جانے والے بچوں کی تعلیم کا خصوصا اس ماہ میں ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔
اس حوالے سے ایک دو مرتبہ ہم نے ایک عالم صاحب کو ٹوکا، جو سبھی قرآن خوانی میں دعا کروانے پہونچتے رہے ہیں، تو انہوں نے بحث کرتے ہویے پہلے ہمیں "یہ وہ ہونے" کا طعنہ دیا پھر کہا " آپ کو کیا معلوم ،آپ سے زیادہ ہم جانتے ہیں!ویسے بھی ہمارے لیے یہی تو ایک موقع اور سیزن ہوتا ہے۔ہدیہ نذرانہ لینے کا،لوگ اسی موقع سے ہم سے ملتے ہیں،تو ہم کیا کریں؟"
تو اس حوالے سے پوچھنا یہ ہے کہ:
الف:قرآن کریم کیا ہے؟
 اسکی حقیقت واہمیت بتاتے ہویے یہ بتانے کی زحمت کریں کہ کیا عہد نبوی کے اندر ماہ شعبان میں یا صحابہ کرام کے زمانے میں اس ماہ میں اس طرح قرآن خوانی کا اہتمام ہوا کرتا تھا؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ ہم قرآن پاک کی تلاوت کے لیے کسے اپنا اسوہ بناسکتے ہیں؟
 ب:کیا شرعا یہ مذکورہ اہتمام کرنا درست ہے؟
ج:کیا قرآن مقدس کی اس بے قدری کی صورت میں ایسا کرنے والے اساتذہ اور مدارس و مکاتب کے ذمہ داران ہی قصوروار و گناہ گار ہونگے؟ 
یا عوام بھی اور بچے کے گارجین بھی؟ 
اگر یہ درست عمل نہیں ہے،جیسا کہ ہم نے بعض علماء کرام سے سنا ہے ،تو یہ بتائیں کہ اس پر روک کس طرح لگا سکتے ہیں؟
برایے کرم تفصیل سے حوالے کے ساتھ ہر ایک کا حکم بتائیں!
 نوازش ہوگی۔
دل نواز دہلی/ ذیشان مدھوبنی بہار 
_____
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته
{قرآن اور قرآن خوانی کے حوالے سے آپ دونوں کے الگ الگ سوالات سامنے تھے،راقم نے دونوں کو ایک کرکے جواب رقم کرنے کی کوشش کی ہے۔آپ دونوں دیگر اہل علم سے بھی اس سلسلے میں رابطہ کرسکتے ہیں۔توقیر بدر}
اب جواب ملاحظہ فرمائیں||
قرآن مقدس اللہ تعالیٰ کی آخری آسمانی وہ کتاب ہے،جو آخری نبی و رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی۔ یہ انسانیت کی ہدایت، رہنمائی اور فلاح کا مکمل ایک دستور ہے۔قرآن کریم ہمیشہ حق و باطل میں فرق کرنے اور بتانے والا، زندگی گزارنے کے لیے بہترین راستہ دکھانے والا اور ہر دور و عہد ،ہر زمان و مکان اور اس عہد و مکان اور سارے جہان کے انسان کے لیے جامع راہبر و راہنما ہے۔
قرآن مقدس، اللہ رب العزت کا وہ بے مثال کلام ہے ،جو ساری کائنات و انسانیت کی رہنمائی کے لیے نازل ہوا۔یہ وہ نور ہدایت ہے،جو دلوں کی تاریکی کو مٹا کر انہیں ایمان کی روشنی سے منور کرتا ہے۔
قرآن مقدس صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں،بلکہ حیات انسانی کا مکمل دستور ہے، 
جو ہر دور، ہر قوم اور ہر فرد کے لیے یکساں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔اس کی صداقت پر زمانے کی گرد بھی اثر نہیں ڈال سکی اور نہ ڈال سکے گی، کیونکہ یہ کلام خود ربِ کائنات کی حفاظت میں ہے۔
قرآن پاک کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا پہلا لفظ "اقرأ" یعنی "پڑھ" ہے، جو علم و فہم کی طرف دعوت دیتا ہے۔ اس میں عقائد، عبادات، معاملات اور اخلاقیات کے وہ اصول بیان کیے گئے ہیں،جو انسان  کو بحیثیت فرد و معاشرہ ہر دو سطح پر کامیاب زندگی کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔
قرآن کریم کی آیات کی خاصیت یہ ہے کہ یہ دلوں کو سکون بخشتی اور روح کو طمانیت عطا کرتی ہیں۔یہ کتاب انسان کو ظلمت سے نکال کر نور کی طرف لے جاتی ہے، حق و باطل کے درمیان فرق ظاہر کرتی ہے اور انسان کو مقصدِ حیات سے آشنا کرتی ہے۔
قرآن کی عظمت کا عالم یہ ہے کہ اس کی تلاوت سے نہ صرف انسانی دل نرم ہوتے ہیں،بلکہ فرشتے بھی اس کی مجلسوں میں حاضر ہوتے ہیں۔ اس کے الفاظ میں ایسی مٹھاس ہے جو سننے سمجھنے والے کو مسحور کر دیتی ہے۔ اس کا ہر حرف باعثِ ثواب اور ہر حکم سراپا رحمت ہے۔ جو قرآن کو مضبوطی سے تھام لیتا ہے،وہ کبھی گمراہ نہیں ہوتا۔
قرآن پاک صرف پڑھی جانے والی کتاب نہیں،بلکہ سبھی اہم معاملے میں اس سے راہنمائی لینے اور کامیابی سے ہمکنار ہونے کے واسطے یہ عملاً اپنایے جانیوالی کتاب ہے۔
یہ فقط اپنی تلاوت کی ہی ترغیب دینے والی نہیں،بلکہ اپنی آیات پر عمل کرنے کی دعوت دینے والی کتاب ہے۔اس کی تعلیمات پر عمل کرنے سے فرد اور معاشرہ دونوں سنور جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جو قومیں قرآن سے جڑ گئیں،وہ عروج پا گئیں اور جو اس سے غافل ہوئیں، وہ زوال کا شکار ہو گئیں! انسانی و مذہبی تاریخ اس کی بہترین گواہ ہے۔
آپ کا سوال بہت ہی اہم اور انتہائی حساس ہے،خاص طور پر ماہِ شعبان میں قرآن خوانی کے حوالے سے جو عمل مدارس و مکاتب اور مسلم محلے میں دیکھا جا رہا ہے۔اس پر سبھی حساس و انصاف پسند، خدا ترس اہل علم کو توجہ دینے کی  ضرورت ہے۔
آپ کے سوال کا پہلا جز یہ کہ 
:کیا عہد نبوی میں ماہِ شعبان کے اندر مذکورہ انداز میں اجتماعی قرآن خوانی ہوتی تھی؟یا صحابہ کرام اپنے عہد میں اس طرح جمع ہوکر قرآن خوانی کا اہتمام کرتے تھے؟
تو اس حوالے سے آپ یہ اچھی طرح سے جان لیں کہ زمانہ رسالت میں اور 
صحابہ کرام کے دور میں جمع ہو کر قرآن خوانی کا نہ تو کوئی مخصوص مہینہ ہوتا تھا نہ کوئی موسم،اس وقت نہ ایسا کوئی سیزن ہوتا تھا نہ اس قسم کا کوئی سلسلہ!
کیونکہ اس عہد میں قرآن مجید کی تلاوت کو ایک رسمی،معمولی و وقتی عمل نہیں سمجھا جاتا تھا،بلکہ اس کے لیے ہر لمحہ،ہر گھڑی  انتہائی احترام، بے پناہ آداب اور منظم تجوید و ترتیل کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ پنچ وقتہ نمازوں کے ساتھ انکے یہاں کثرت نوافل اور ان میں تلاوت کلام پاک کا اہتمام اور اس میں انہماک قابل رشک ہوتا تھا۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی میں خواہ وہ سفر میں ہوں یا حضر میں ،حالت امن میں ہوں یا جنگ میں،ہر حال میں قرآن مقدس کے ساتھ انکا تعلق ایک مستقل عبادت کے طور پر رہا کرتا تھا، جو ان کے روز مرہ کے معمولات کا ایک محترم و اہم حصہ ہوتا تھا۔
آپ حیات الصحابہ پڑھ جایئں آپ دیکھیں گے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ، حضرت عثمانؓ، اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے قرآن کو ہر وقت کی تلاوت اور غور و تدبر کے لیے خاص کر رکھا تھا۔ان کی زندگیوں میں قرآن کریم کی تلاوت اور اسکا احترام ایک مستقل عمل تھا،جو نہ تو کسی مخصوص مہینے یا موسم تک محدود تھا  نہ کسی موقع و تقریب کے ساتھ مخصوص تھا۔
یہ بات بھی واضح رہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے کبھی بھی کسی خاص مہینے میں مروجہ قرآن خوانی کے لیے گھروں کا دورہ کرنے کو اپنا معمول نہیں بنایا۔انکی پوری تاریخ اس سے خالی و بری ہے۔
اس لیے شعبان یا کسی اور مہینے میں اس طرح کی قرآن خوانی،جس میں چھوٹے بڑے جمع ہوں،وضو و تجوید کی رعایت کا فقدان ہو اور جلدی جلدی جیسے تیسے کچھ تلاوت کچھ بات چیت کے ساتھ پڑھ کر دعا کا التزام ہو،جیسا کہ آج کل یہ مخصوص ماہ میں رواج پاچکا ہے۔انکی شریعت اسلامیہ میں نہ تو کوئی مستند دلیل یا روایت ملتی ہے نہ اسکی کوئی گنجائش ہوسکتی ہے!
یہی وجہ ہے کہ آج کے اس مروجہ قرآن خوانی کو دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء نے "خلاف سنت " عمل قرار دیا ہے۔ 
جہاں تک تلاوت کلام پاک کے لیے اسوۂ بنانے کی بات ہے تو اس سلسلے میں اچھی طرح سے یہ ذہن میں ثبت کرلیں کہ
تلاوتِ کلامِ پاک کے لیے اصل اور کامل اسوہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف قرآن کے اولین قاری تھے،بلکہ اس کے عملی پیکر بھی تھے۔آپ کی تلاوت میں الفاظ کی درست ادائیگی، صوتی حسن اور معانی کی گہرائی کا حسین امتزاج ہوتا تھا،جس سے سننے والوں کے دل پگھل جاتے اور آنکھیں اشکبار ہو جاتیں تھیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن سنتے تو خشیتِ الٰہی سے آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے (صحیح بخاری)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت میں ٹھہراؤ، تدبر اور حلاوت ہوتی تھی، جو قرآن کی روح میں اترنے کا ذریعہ بنتی۔ لہذا آج بھی جو دل میں اثر، زبان پر سوز اور عمل میں نور چاہتا ہے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت کے اسوہ کو اپنائے۔
آپ کے سوال کا دوسرا جز ہے کہ:کیا شرعاً ایسا کرنا درست ہے؟
تو اس حوالے سے یہ یاد رہے کہ شریعت میں قرآن کریم کی تلاوت کے مخصوص آداب و اکرام مثلأ وضو و عطر، اس کی عزت و توقیر مثلأ باوقار مجلس اور ترتیل قرات و تدبر معانی پر بہت زور دیا گیا ہے۔ 
ان کے برعکس آپ کے ذکر کردہ قرآن خوانی میں جو خرابیاں ہیں، وہ درج ذیل ہیں:
1)وضو کا اہتمام نہ کرنا: حال آں کہ جمہور علماء کرام و ائمہ اربعہ کے یہاں قرآن کو چھونے کے لیے طہارت (وضو) ضروری ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ
"اسے صرف پاکیزہ لوگ ہی چھوتے ہیں۔" (الواقعہ: 79)
حدیث میں بھی آیا ہے کہ بغیر وضو کے قرآن کو چھونا جائز نہیں ہے:
لَا يَمَسُّ الْقُرْآنَ إِلَّا طَاهِرٌ
"قرآن کو صرف پاک شخص ہی چھوئے۔" (ابوداؤد و نسائی شریف)
2)تلاوت کے آداب کی رعایت نہ کرنا:جب کہ قرآن مجید کی تلاوت کرتے وقت پاکی کے ساتھ ساتھ تجوید، ترتیل اور تدبر معانی کا اہتمام ضروری ہے۔دیکھیے (سورہ مزمل:آیت ٣) جلدی جلدی قرآن پڑھنا اور آداب کی رعایت نہ کرنا، قرآن کی حرمت و توقیر کے  سراسر خلاف ہے.(دیکھیے سورہ قیامہ آیت ١٦)
3)جلدی جلدی مختلف گھروں میں پڑھنے کے واسطے جانے کے لیے جیسے تیسے ایک دور مکمل کرنا:یہ أصلا قرآن کی تلاوت میں جلد بازی اور بے ادبی کو فروغ دینا ہے، جو ایک بڑی سنگین غلطی اور رب کی ناراضگی کو دعوت دینے والا عمل ہے۔اوپر محولہ آیات اس پر شاہد ہیں۔ 
آپ کے سوال کا تیسرا جز "ماہ شعبان میں قرآن خوانی، ہدیہ و نذرانہ وصولنے کا ایک موسم" کے پس منظر میں ہے تو اس بابت عرض ہے کہ ممکن ہے کہ جس عالم سے آپ کی بات چیت ہوئی ہو،انہوں نے ازراہ مذاق ایسا کہا ہو، کیونکہ سنجیدگی کے عالم میں کسی عام انسان و مسلمان سے بھی اس قسم کے جواب کا تصور نہیں کیا جاسکیا،چہ جائیکہ ایسا جواب کوئی عالم دے!اعاذنا اللہ منہ!
تاہم یہ اصول اپنی جگہ مسلم ہے کہ قرآن کریم اور اسکی تلاوت کا کوئی دنیوی بدل و مول ہے اور نہ ہوسکتا ہے! یہ خالص "انمول" ہے۔
چنانچہ اگر یہ عمل محض لوگوں سے پیسہ یا ہدیہ لینے کے لیے ہی کیا یا کروایا جاتا ہے، تو یہ شریعت اسلامیہ کے سراسر خلاف ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"مَن تَعَلَّمَ العِلْمَ لِيُبَاهِيَ بِهِ العُلَمَاءَ، أَو يُمَارِيَ بِهِ السُّفَهَاءَ، أَو يَصْرِفَ وُجُوهَ النَّاسِ إِلَيْهِ، أَدْخَلَهُ اللَّهُ النَّارَ."
(سنن ابن ماجہ، حدیث: 253)
ترجمہ: "جو شخص علم اس لیے حاصل کرے کہ علماء سے مقابلہ کرے، جاہلوں سے بحث کرے، یا لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرے، اللہ اسے جہنم میں داخل کرے گا۔"
اس لیے شرعاً ایسا اقدام کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ اس میں مال وصولنے کے چکر میں ایک "انمول" کا مول بھاؤ کرنا اور زیادہ سے زیادہ نذرانہ وصول کرنے کے فراق میں قرآن مقدس کی عزت و تکریم، وضو و تجوید اور تدبر و ترتیل جیسے سارے شرائط و آداب کے ساتھ کھلواڑ کرنا پڑتاہے، جو انتہائی سخت گناہ و شدید ترین خدائی گرفت اور قرآنی پھٹکار کا سبب بن سکتا ہے۔اوپر ذکر کردہ حدیث آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔
آپ کے سوال کا آخری جز یہ ہے کہ کیا ایسا کرنے والے اساتذہ اور مدارس و مکاتب کے ذمہ داران ہی قصوروار و گناہ گار ہوں گے؟یا عوام بھی اور بچے کے گارجین بھی؟
تو اس تعلق سے یہ ذہن نشین کرلیں کہ قرآن مقدس کے ساتھ اس کھلواڑ والے عمل میں خواہ کوئی _براہ راست شامل ہو جیسے اساتذہ و ہوشیار طلبہ،یا بالواسطہ جیسے مدارس و مکاتب کے ذمہ داران و بچے کے والدین و گارجین_ یہ سبھی عنداللہ قصوروار و گناہ گار ہونگے!اوپر بیان کردہ آیات و احادیث دوبارہ دیکھ لیں!
اس سے بچاو کے تدابیر مندرجہ ذیل ہوسکتے ہیں 
1)اساتذہ اور مدارس کے ذمہ داروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پوری ذمہ داری و شعور کے ساتھ بچوں کو قرآن کریم کی اہمیت و عظمت، تلاوت کے آداب اور تجوید و ترتیل کی انہیں عملی و علمی تعلیم دیں اور اس کا شبانہ روز بھر پور نظم و نسق کریں!
 اساتذہ کو قرآن پڑھانے سے پہلے بچوں کو وضو اور تلاوت کے آداب و اہمیت سے آگاہ کرنا چاہیے،تاکہ وہ قرآن کو پوری عظمت کے ساتھ صحیح طریقے سے پڑھ سکیں!
لہذا گر اساتذہ و ذمہ دار اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی کرتے ہیں، اور یوں عملاً قرآن خوانی کے مذکورہ غلط طریقے کو فروغ دیتے ہیں یا اس کی اجازت دیتے ہیں، تو وہ شرعی طور پر گناہ گار ہوں گے۔ اس کا وبال انکے سر ہوگا۔
اس لیے اساتذہ و ذمہ داران مدارس و مکاتب کو اس بات کا ہر حال میں اہتمام کرنا ہے،کہ بچوں کو انہیں قرآن پڑھنے، پڑھانے میں آداب و شرائط کا جہاں خیال رکھنا ہے، وہیں بچوں کو اسکے موافق ماحول کی درست طریقے سے راہنمائی بھی کرنا ہے۔
2) بچوں کے صاحب استطاعت والدین اور عام عوام کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے و قوم کے  بچوں کے لیے انکی بہتر زندگی اور بہتر مستقبل کے پیش نظر ان مکاتب و مدارس کا انتخاب و چناؤ کریں،جہاں بہتر و برتر دینی تعلیم و تربیت کا پورے سال بھرپور معقول نظم ہو،تاکہ بچے وہاں تعلیم کے وقت میں گھر گھر مروجہ قرآن خوانی یا بیجا سیر سپاٹے میں ادھر ادھر پھرنے کے بجائے، تعلیم و تربیت میں مصروف رہیں اور یہ وقت ان کی تعلیم و تربیت کے لیے بہترین مصرف بن سکے!انہیں یہ احساس ہو اور کرایا جایے کہ گزرجانے والا وقت اور پچپن کی یہ فراغت اور سکون و اطمینان پھر کبھی واپس نہیں ملنے والا!
وہاں قرآن کی تلاوت کے آداب و شرائط سکھایے جائیں اور عملاً اسکی مشقیں کروائی جایے!مسلم معاشرے میں ایسے مکاتب و مدارس کو ہی ماہانہ فیس پر مبنی فروغ دینے کی ضرورت ہے، جہاں انہیں ہر حال میں غیر شرعی طریقے سے قرآن پڑھنے یا اس سے کھلواڑ کرنے سے روکا جاسکے۔
اس کے لیے والدین و گارجین کو پیسے صرف کرنا ہونگے،اور ہفتے و مہینے میں وقت بھی دینا ہوگا،تاکہ وہ بہتر تعلیم و تربیت کی جہاں ایک طرف ایسے مدارس و مکاتب سے توقع رکھ سکیں،وہیں وہ ان کی کمی پر مدارس و مکاتب کے ذمہ داران سے بازپرس بھی کرسکیں!
یہ بچوں کا حق بھی ہے اور والدین کا فرض بھی کہ وہ اپنے بچوں کو شریعت کے مطابق تعلیم و تربیت دیں!قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا"
"اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاؤ۔"
(سورۃ التحریم: 6)
اس آیت کی تفسیر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"ان کو ادب سکھاؤ اور علم کی تعلیم دو۔"
(دیکھیے تفسیر ابن کثیر)
اسی طرح حدیث مبارکہ یں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ..."
"تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا... اور مرد اپنے اہل و عیال کا نگہبان ہے اور اس سے ان کے بارے میں سوال ہوگا۔"
(صحیح بخاری، حدیث: 893؛ صحیح مسلم، حدیث: 1829)
عوام کو بھی قرآن کی تلاوت کی اہمیت اور اس کے آداب کا شعور ہونا چاہیے،قرآن کی خدمات پر مامور معلمین و مدرسین سے مل کر قرآن خوانی کے بدلے کے بجائے فقط معلم قرآن اور خادم دین ہونے کے ناطے انکی گاہے بگاہے مالی کفالت و خدمت کرنی چاہیے، اسے وہ  فی ذاتہ بڑے ثواب کا کام جانے، تاکہ وہ اساتذہ اپنی دنیوی ضرورت کی تکمیل بروقت کرسکیں!فقط وہ ماہ شعبان و رمضان کے بھروسے نہ رہیں!نیز گھر پر بلا کر بچوں سے قرآن خوانی کروانے کے بجائے اولا اپنے اپنے گھروں میں خود روزانہ تلاوت کا التزام کریں!
مدارس کے اندر درس میں ہونے والی تلاوت اور اساتذہ کو سنتے سناتے وقت کی جانے والی قرأت پر دعا کروانے کا اہتمام کریں!تاکہ بچوں کا تعلیمی وقت یہاں وہاں پھرنے میں برباد نہ ہو!
اگر عوام ایسا نہیں کرتے،فقط شعبان و رمضان میں ہی طلبا و اساتذہ کو مروجہ قرآن خوانی گھر پر بلا کر کرواتے ہیں اور اس بہانے ہدیہ و نذرانہ وصول کرنے پر مجبور کرتے ہیں،تو یاد رہے ایسی حرکت کے قصوروار و گناہ گار ایسا کروانے والے وہ عوام بھی ہونگے!آقا صلی اللہ وسلم کا فرمان ہے:
"اقرءوا القرآن ولا تأكلوا به ولا تستكثروا به، ولا تجفوا عنه، ولا تغلوا فيه."
"قرآن پڑھو لیکن اس قرآن (یا اسکی تلاوت) کو کھانے کا سامان نہ بناؤ، اس کے ذریعے مال نہ بڑھاؤ، اس سے منہ نہ موڑو اور اس میں غلو نہ کرو۔"
(سنن دارمی، حدیث: 3383)
____
بہر کیف ہم سے ہر ایک کو اپنے اپنے عمل و کردار سے قرآن کی عزت و حرمت اور اسکی تعظیم و تکریم کا پاس و لحاظ رکھنا ہوگا۔
تلاوت آیات و تدبر معانی کو یومیہ اپنانا ہوگا۔ 
بچوں کی تعلیم و تربیت اور معلمین کی خدمت و کفالت کا معقول نظم کرنا ہوگا،
جب یہ سب خوش دلی اور عظمت کے ساتھ کریں گے، تبھی ہم سب کل قیامت میں قرآن مقدس کا بہتر سامنا کرسکیں گے،ورنہ قرآن کریم مدعی ہوگا اور ہم سب مدعاعلیہ!(دیکھیے سورہ فرقان آیت ٣٠)
اللہم احفظنا منہ!
خلاصہ کلام!
(الف)ماہِ شعبان میں مروجہ قرآن خوانی کی شرعی کوئی اثباتی حیثیت نہیں ہے،بلکہ مجموعی طور پر یہ اپنے آپ میں ایک "خلاف سنت" عمل ہے۔
(ب)قرآن کریم کی تلاوت کے لیے جسمانی طہارت و وضو اور قلبی تکریم و تعظیم اور زبانی ترتیل و تجوید کا اہتمام ضروری ہے۔
(ج)اساتذہ، مدارس اور بچوں کے والدین اور عوام سب کی ذمہ داری ہے کہ وہ قرآن مقدس کی عزت و احترام کو اپنے عمل و کردار سے قائم و دائم رکھیں اور کسی ماہ و ہفتے کی تعیین کیے بغیر پورے سال و ماہ یومیہ اس کی تلاوت کیلیے صحیح طریقہ کار اختیار کریں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی اس کتاب عظیم کی صحیح صحیح تلاوت اور اسکے آداب کی رعایت کرنے نیز اس کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے آمین۔
=====
توقیر بدر القاسمی الازہری ڈائریکٹر المرکز العلمی للافتاء والتحقیق سوپول بیرول دربھنگہ بہار سابق لیکچرار المعھد العالی للتدریب فی القضاء والافتا امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ بہار
٢٠/٠٢/٢٠٢٥
+918789553895
[email protected]