MUFTI ABDUSSUBHAN MISBAHI
MUFTI ABDUSSUBHAN MISBAHI
February 14, 2025 at 01:49 PM
*نیکی وہ ہے جس پر تمہارا دل مطمئن ہو* عَنْ وَابِصَةَ بْنِ مَعْبَدٍ الْأَسَدِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِوَابِصَةَ: جِئْتَ تَسْأَلُ عَنِ الْبِرِّ وَالْإِثْمِ؟ قَالَ:قُلْتُ: نَعَمْ. قَالَ: فَجَمَعَ أَصَابِعَهُ فَضَرَبَ بِهَا صَدْرَهُ، وَقَالَ: اسْتَفْتِ نَفْسَكَ، اسْتَفْتِ قَلْبَكَ يَا وَابِصَةُ - ثَلَاثًا - الْبِرُّ مَا اطْمَأَنَّتْ إِلَيْهِ النَّفْسُ وَاطْمَأَنَّ إِلَيْهِ الْقَلْبُ، وَالْإِثْمُ مَا حَاكَ فِي النَّفْسِ وَتَرَدَّدَ فِي الصَّدْرِ، وَإِنْ أَفْتَاكَ النَّاسُ وَأَفْتَوْكَ“• (مسند الدارمي، كتاب البيوع، باب: دع ما يريبك إلى ما لا يريبك، حدیث نمبر: 2575) ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ حضرت وابصہ بن معبد اسدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: کیا تم نیکی اور گناہ کے بارے میں سوال کرنے آئے ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں! تو نبی کریم ﷺ نے اپنی انگلیوں کو اکٹھا کیا اور میرے سینے پر مارا، پھر فرمایا: اپنے دل سے فتویٰ لو، اپنے دل سے فتویٰ لو، اپنے دل سے فتویٰ لو (یہ جملہ تین بار فرمایا)۔ نیکی وہ ہے جس پر تمہارا دل مطمئن ہو اور تمہاری روح کو سکون ملے، اور گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے اور سینے میں شک و تردد پیدا کرے، چاہے لوگ تمہیں اس کے جواز کا فتویٰ ہی کیوں نہ دیں، اگرچہ وہ تجھے فتوی دیں۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ *شرح و بیان:* *غیب داں نبی ﷺ* حدیثِ مذکور سے معلوم ہوا کہ ہمارے پیارے آقا ﷺ لوگوں کے دلی حالات سے باخبر ہیں، تبھی تو سائل کو خود بتا دیا کہ تم اپنے دل میں یہ سوال لے کر آئے ہو۔ مرآۃ المناجیح میں ہے: یہ غیبی خبر ہے کہ حضرت وابصہ جو سوال دل میں لے کر آئے تھے، حضور ﷺ نے انہیں بغیر عرض کیے ہی ارشاد فرما دیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو دلوں کے حال پر مطلع فرمایا ہے۔ کیوں نہ ہو! انہیں تو پتھروں کے دلوں پر بھی اطلاع ہے، چنانچہ ارشاد فرماتے ہیں: اُحد پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے۔ (نیکی وہ ہے جس پر دل اور نفس مطمئن ہوں، اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے) یعنی آج سے اے وابصہ! نیکی اور گناہ کی پہچان یہ ہے کہ جس پر تمہارا دل اور نفسِ مطمئنہ جمے، وہ نیکی ہوگی، اور جسے تمہارا دل اور نفسِ مطمئنہ قبول نہ کرے، وہ گناہ ہوگا۔ عام لوگوں کے فتوے کا اعتبار نہ کرنا، بلکہ اپنے دل و نفس کا فتویٰ قبول کرنا، کیونکہ تمہارے دل کا فتویٰ ہمارا فیصلہ ہوگا۔ *دل کا فتویٰ اور جدید دنیا* یہ حدیث محض ایک اخلاقی اصول نہیں بلکہ ایک زندگی بدل دینے والا فارمولہ ہے، جو ہمیں سکھاتا ہے کہ زندگی کے اہم فیصلے کرنے میں اندرونی بصیرت اور ضمیر کی آواز کو نظرانداز نہ کیا جائے۔ جدید دور میں، جہاں ہمیں ہر طرف سے مختلف قسم کے مشورے، اور سوشل میڈیا کی آراء ملتی ہیں، یہ حدیث ایک "اخلاقی کمپاس" فراہم کرتی ہے۔ یہ حدیث زندگی کے ہر پہلو میں اخلاقی بصیرت اور روحانی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ 1. *دل کی گواہی پر اعتماد:* رسول اللہ ﷺ نے واضح فرمایا کہ بعض اوقات لوگوں کی آراء کے باوجود ہمارے اندرونی احساسات ہمیں صحیح اور غلط کا شعور دے سکتے ہیں۔ آج کے دور میں، جہاں سوشل میڈیا، دوستوں اور معاشرتی دباؤ کی وجہ سے لوگ اپنے فیصلے دوسروں کے مطابق کرنے لگے ہیں، وہاں دل کی آواز سننا بہت ضروری ہے۔ 2. *نیکی و بھلائی کی پہچان:* نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بھلائی وہ ہے جس پر دل کو سکون ملے۔ آج جب لوگ دوسروں کو متاثر کرنے کے لیے کام کرتے ہیں، انہیں سوچنا چاہیے: کیا یہ واقعی نیک عمل ہے یا صرف دکھاوا؟ کیا میرا دل اس پر راضی ہے؟ کیا میں سکون محسوس کر رہا ہوں؟ اگر کوئی کام سچائی، انصاف اور دیانت داری پر مبنی ہو، تو وہ نیکی و بھلائی ہے، اور اس سے دل کو بھی اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ 3. *گناہ کی پہچان:* حدیث میں گناہ کو وہ عمل قرار دیا گیا ہے جس پر دل میں خلش ہو، اور سینے میں اضطراب پیدا ہو۔ اگر کوئی عمل کرتے وقت دل میں عجیب سی بےچینی ہو، تو سمجھ لیں کہ کچھ غلط ہے۔ چاہے کوئی نام نہاد عالم یا دوست اسے جائز کہے، اگر دل مطمئن نہیں، تو رک جانا بہتر ہے۔ آج کل بہت سے لوگ حرام کمائی، سود، رشوت، دھوکہ، اور جھوٹ جیسے کاموں کو "نئی دنیا کے تقاضے" کہہ کر جائز سمجھنے لگے ہیں۔ لیکن حضور نبی کریمﷺ ہمیں یاد دلا رہے ہیں کہ اگر دل میں کھٹک ہو تو اسے چھوڑ دینا بہتر ہے۔ 4. *معاشرتی دباؤ اور اپنی راہ:* آج کے زمانے میں لوگوں کی رائے سب سے زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ لیکن حدیث ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ چاہے لوگ جو بھی کہیں، اگر دل گواہی دے کہ یہ غلط ہے، تو وہ غلط ہی ہے۔ اگر دوست بُری صحبت کی طرف مائل کریں، لیکن دل مطمئن نہ ہو، تو رک جاؤ! اگر معاشرہ کسی غلط کام کو "عام بات" کہے، لیکن تمہارا دل بے چین ہو، تو مت کرو! 5. *گوگل سے پہلے، اپنے دل سے رجوع کرو!* آج ہم کسی بھی سوال کا جواب جاننے کے لیے فوراً گوگل، یوٹیوب، یا انسٹاگرام کے مشوروں پر بھروسہ کرتے ہیں، لیکن نبی کریم ﷺ نے ہمیں ایک ایسا سرچ انجن دیا ہے جو کبھی غلط نہیں ہو سکتا: "اپنے دل سے فتویٰ لو!" یعنی کسی بھی فیصلے سے پہلے اپنے اندر کی گواہی پر غور کرو۔ *مثال:* اگر کوئی فیشن ٹرینڈ یا بزنس ڈیل تمہیں لالچ دلا رہی ہے، لیکن دل میں عجیب سی بےچینی ہے؟ تو رُک جاؤ! اگر تمہیں لگے کہ کوئی کام وقتی فائدہ دے گا، لیکن اندر کی آواز کہے "یہ صحیح نہیں!" تو سمجھ لو کہ وہی صحیح فیصلہ ہے۔ 6. *انسٹاگرام کی "لائکس" یا اللہ کی پسند؟* ہم میں سے بہت سے لوگ اپنی زندگی کا ہر قدم سوشل میڈیا کی مقبولیت کے مطابق اٹھاتے ہیں: "کیا یہ لباس پہننا چاہیے؟" (انسٹاگرام پر سب کر رہے ہیں!) "کیا یہ کام کرنا چاہیے؟" (لوگ کیا کہیں گے؟) لیکن نبی کریم ﷺ ہمیں بتا رہے ہیں: "جو کام تمہارے دل کو مطمئن کرے، وہی صحیح ہے، چاہے پوری دنیا کچھ اور کہے!" *مثال:* اگر کوئی چیز "ٹرینڈ" میں ہے، لیکن تمہیں لگتا ہے کہ یہ غلط ہے، تو تمہیں اسے اپنانے کی ضرورت نہیں! اگر کوئی گناہ عام ہو چکا ہے، مگر تمہارا دل مطمئن نہیں، تو وہی تمہارے لیے گناہ ہے، چاہے دنیا اسے جائز کہے۔ 7. *دوستوں کا دباؤ یا دل کا اطمینان؟* آج کل اکثر لوگ Peer Pressure (یعنی دوستوں کے دباؤ) میں غلط فیصلے کر بیٹھتے ہیں۔ "سب پارٹی کر رہے ہیں، تو مجھے بھی جانا چاہیے!" "یہ دھوکہ تو سب دے رہے ہیں، تو میں بھی کر لوں!" لیکن حضور فرما رہے ہیں کہ اگر کوئی کام تمہارے سینے میں کھٹک رہا ہے، تو وہ صحیح نہیں، چاہے تمہارا پورا گروپ اسے کر رہا ہو! *مثال:* اگر دوست تمہیں غلط کام پر اکسا رہے ہیں، لیکن تمہارا دل مطمئن نہیں، تو مت کرو! اگر کوئی لالچ، کمیشن، یا دھوکہ دہی والا بزنس ڈیل ہے، اور تمہیں عجیب سا احساس ہو رہا ہے، تو سمجھ جاؤ کہ یہی دل کا فتویٰ ہے! اور یہی درست ہے! 8. *رات کی نیند، دن کے سکون سے زیادہ قیمتی ہے!* یہ حدیث ہمیں ایک بہترین معیار دے رہی ہے کہ کسی بھی فیصلے کی سچائی کو جانچنے کے لیے دیکھو: "کیا میں اس کے بعد سکون سے سو سکتا ہوں؟" *مثال:* اگر کوئی حرام کمائی یا جھوٹ بولنے کے بعد تمہیں رات کو نیند نہیں آتی، تو یہ اس بات کی نشانی ہے کہ یہ صحیح نہیں تھا! اگر تمہیں کوئی کام کرنے کے بعد سکون اور راحت محسوس ہو، تو یہ نشانی ہے کہ وہ بھلائی تھی۔ 9. *آج کے زمانے کا سبق: "سب کر رہے ہیں" کافی نہیں!* آج کل لوگ کسی بھی غلط کام کو جائز ثابت کرنے کے لیے کہتے ہیں: "بھئی سب کر رہے ہیں!" لیکن حدیث ہمیں سکھاتی ہے: "چاہے پوری دنیا تمہیں کہے کہ یہ جائز ہے، اگر تمہارا دل بے چین ہے، تو وہ گناہ ہے!" *مثال*: اگر کوئی شخص کسی چیز کو جائز کہہ رہا ہو، لیکن تمہیں لگے کہ یہ اللہ کی رضا کے خلاف ہے، تو وہی فیصلہ صحیح ہے۔ اگر کوئی حرام کمائی یا رشوت عام ہو چکی ہو، اور لوگ اسے "نیا طریقہ" کہہ رہے ہوں، مگر تمہیں اندر سے برا محسوس ہو، تو یہی تمہاری رہنمائی ہے! 10. *"اندر کی آواز" سب سے بڑی گواہ ہے* یہ حدیث ہمیں خودمختاری، ایمانداری، اور روحانی بصیرت سکھاتی ہے۔اور ہمیں اندرونی بصیرت اور ضمیر کی رہنمائی پر عمل کرنے کا درس دیتی ہے۔آج جب دنیا میں دھوکہ، فریب اور حرام کو "معمول" بنا دیا گیا ہے ۔ آج کے مصنوعی ذہانت، سوشل میڈیا، اور جملے بازی کے دور میں، نبی کریم ﷺ نے ہمیں بتا دیا کہ اصل گواہی تمہارا دل ہے! پس اگر کسی کام میں دل بے چین ہو، تو چاہے دنیا کچھ بھی کہے، وہ صحیح نہیں! اور اگر کسی کام کے بعد دل میں روشنی، سکون اور اطمینان ہو، تو وہی نیکی ہے! "لائکس، فالو ورس اور دنیا کی رائے ایک طرف… اور تمہارا دل ایک طرف!" اب فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے! 11. *چند واقعات:* 1. *دِلی سکون چلا گیا:* منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت رابعہ عدویہ کو ایک عرصے تک بے چینی رہی، دلی سکون ختم ہوگیا۔ جب غور و فکر کیا تو معلوم ہوا کہ انہوں نے شاہی مشعل کی روشنی میں اپنی قمیص کا چاک سی لیا تھا۔ بس یہ خیال آتے ہی فوراً سِلا ہوا حصہ پھاڑ ڈالا، تب جا کر دل کو قرار و سکون ملا۔ 2. *گھی کے چالیس مٹکے بہا دیے:* حضرت امام ابن سیرین نے ایک مرتبہ چالیس مٹکے گھی خریدے۔ ان میں سے کسی ایک مٹکے سے غلام نے مرا ہوا چوہا نکالا۔ آپ نے پوچھا: یہ کس مٹکے سے نکلا ہے؟ غلام نے لاعلمی کا اظہار کیا تو آپ نے تمام مٹکے بہا دیے تاکہ کسی مسلمان تک شبہ والا مال نہ پہنچے۔ 3. *پرہیزگار گھرانہ:* حضرت بشر حافی کی ہمشیرہ حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل کے پاس آئیں اور عرض کی: ہم اپنے مکان کی چھت پر سوت کاتتے ہیں، تو بسا اوقات شاہی مشعلوں کی روشنی ہم پر پڑتی ہے۔ ہمارے لیے اس روشنی میں سوت کاتنا جائز ہے یا نہیں؟ یہ سن کر حضرت امام احمد بن حنبل نے پوچھا: آپ کون ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: میں بشر حافی کی بہن ہوں۔ یہ سن کر آپ رو پڑے اور فرمایا: سچی پرہیزگاری تمہارے گھر ہی سے نکلی ہے۔ تم ان مشعلوں کی روشنی میں سوت نہ کاتا کرو۔ 12. *حدیث سے حاصل ہونے والے فوائد:* 1. نیکیوں پر مطمئن اور گناہوں سے بے چین وہی دل ہوتا ہے جو خواہشات کی گندگیوں سے محفوظ ہو۔ 2. جس چیز کی حلت و حرمت میں شک ہو، تو علما سے راہنمائی لیے بغیر اسے ہرگز استعمال نہ کیا جائے۔ 3. نیک لوگ اگر غلطی سے کوئی مشکوک شے استعمال کرلیں، تو جب تک اس کا ازالہ نہ کریں، انہیں دلی سکون نہیں ملتا۔ 4. اللہ کے نیک بندے نہ تو خود شبہ والی اشیا استعمال کرتے ہیں، نہ ہی دوسروں کے لیے اسے روا رکھتے ہیں، خواہ اس کے لیے انہیں کتنا ہی مالی نقصان کیوں نہ اٹھانا پڑے۔ 5. بعض چیزیں فتویٰ کے اعتبار سے جائز ہوتی ہیں، لیکن بطورِ تقویٰ ان سے بچنے میں ہی عافیت ہوتی ہے۔ 6. اولیائے کرام ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی بہت زیادہ احتیاط برتتے ہیں، جن کی طرف عام لوگ توجہ بھی نہیں دیتے۔ اللہ ہمیں نیکیوں پر مطمئن اور گناہوں سے بے چین ہونے والا دل عطا فرمائے، اور شبہات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین! ___________________________ *नेकी वह है जिस पर तुम्हारा दिल मुतमइन हो* हज़रत वाबिसा बिन मअबद असदी रज़ियल्लाहु अन्हु से रिवायत है कि रसूलुल्लाह ने उनसे फ़रमाया:क्या तुम नेकी और गुनाह के बारे में सवाल करने आए हो? मैंने अर्ज़ किया: जी हाँ! तो नबी करीम ने अपनी उंगलियों को इकट्ठा किया और मेरे सीने पर मारा, फिर फ़रमाया:अपने दिल से फतवा लो, अपने दिल से फतवा लो, अपने दिल से फतवा लो (यह जुमला तीन बार फ़रमाया)। नेकी वह है जिस पर तुम्हारा दिल मुतमइन हो और तुम्हारी रूह को सुकून मिले, और गुनाह वह है जो तुम्हारे दिल में खटके और सीने में शक पैदा करे, चाहे लोग तुम्हें उसके जवाज़ का फतवा ही क्यों न दें, अगरचे वे तुम्हें फतवा दें।" (मुस्नद दारमी, हदीस नंः 2575) *शरह व बयान:* हदीस-ए-मज़कूर से मालूम हुआ कि हमारे प्यारे आक़ा लोगों के दिली हालात से बाख़बर हैं, तभी तो साइल को खुद बता दिया कि तुम अपने दिल में यह सवाल लेकर आए हो। *मिरआतुल मनाजीह में है*: यह ग़ैबी ख़बर है कि हज़रत वाबिसा जो सवाल दिल में लेकर आए थे, हज़ूर ने उन्हें बिना अर्ज़ किए ही इरशाद फरमा दिया। मालूम होता है कि अल्लाह तआला ने अपने हबीब को दिलों के हाल पर मुत्तला फरमाया है। क्यों न हो! उन्हें तो पत्थरों के दिलों पर भी इत्तिला है, इरशाद फरमाते हैं: "उहुद पहाड़ हमसे मोहब्बत करता है।" (नेकी वह है जिस पर दिल और नफ्स मुतमइन हो, और गुनाह वह है जो तेरे दिल में खटके।) यानी आज से ऐ वाबिसा! नेकी और गुनाह की पहचान यह है कि जिस पर तुम्हारा दिल और नफ्से मुतमइन्ना जमे, वह नेकी होगी, और जिसे तुम्हारा दिल और नफ्से मुतमइन्ना क़ुबूल न करे, वह गुनाह होगा। आम लोगों के फतवे का एतबार न करना, बल्कि अपने दिल व नफ्स का फतवा क़ुबूल करना, क्योंकि तुम्हारे दिल का फतवा हमारा फैसला होगा। *दिल का फतवा और जदीद दुनिया* यह हदीस महज़ एक अख़लाकी उसूल नहीं बल्कि एक ज़िंदगी बदल देने वाला फार्मूला है, जो हमें सिखाता है कि ज़िंदगी के अहम फैसले करने में अंदरूनी बसीरत और ज़मीर की आवाज़ को नज़रअंदाज़ न किया जाए। जदीद दौर में, जहां हमें हर तरफ़ से मुख्तलिफ क़िस्म के मशवरे और सोशल मीडिया की राय मिलती हैं, यह हदीस एक "अख़लाक़ी कंपास" फराहम करती है, और ज़िंदगी के हर पहलू में अख़लाक़ी बसीरत और रुहानी रहनुमाई फराहम करती है। 1. *दिल की गवाही पर एतबार* : रसूलुल्लाह ने वाज़ेह फरमाया कि कुछ मौक़ों पर लोगों की राय के बावजूद हमारे अंदरूनी एहसास हमें सही और ग़लत का शऊर दे सकते हैं। आज के दौर में, जहां सोशल मीडिया, दोस्तों और मुआशरती दबाव की वजह से लोग अपने फैसले दूसरों के मुताबिक़ करने लगते हैं, वहां दिल की आवाज़ सुनना बहुत ज़रूरी है। 2. *नेकी व भलाई की पहचान:* नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ने फरमाया कि नेकी व भलाई वह है जिस पर दिल को सुकून मिले। आज जब लोग दूसरों को मुतास्सिर करने के लिए काम करते हैं, उन्हें सोचना चाहिए: क्या यह वाक़ई नेक अमल है या सिर्फ दिखावा? क्या मेरा दिल इस पर राज़ी है? क्या मैं सुकून महसूस कर रहा हूँ? अगर कोई अमल सचाई, इंसाफ़ और दयानतदारी पर मबनी हो, तो वह नेकी व भलाई है, और इससे दिल को भी इत्मिनान हासिल होता है। 3. *गुनाह की पहचान*: हदीस में गुनाह को वह अमल क़रार दिया गया है जिस पर दिल में खलिश हो और सीने में इज़्तेराब पैदा हो। अगर कोई अमल करते वक़्त दिल में अजीब सी बेचैनी हो, तो समझ लें कि कुछ ग़लत है। चाहे कोई नाम निहाद आलिम या दोस्त उसे जायज़ कहे, अगर दिल मुतमइन नहीं, तो रुक जाना बेहतर है। आजकल बहुत से लोग हराम कमाई, सूद, रिश्वत, धोखा, और झूठ जैसे कामों को "नई दुनिया के तकाज़े" कहकर जायज़ समझने लगे हैं। लेकिन हज़ूर नबी करीम हमें याद दिला रहे हैं कि अगर दिल में खटक हो तो उसे छोड़ देना। 4. *मुआशरती दबाव और अपनी राह:* आज के ज़माने में लोगों की राय सबसे ज़्यादा अहमियत इख्तियार कर गई है। लेकिन हदीस हमें यह सिखाती है कि चाहे लोग जो भी कहें, अगर दिल गवाही दे कि यह ग़लत है, तो वह ग़लत ही है। अगर दोस्त बुरी सोहबत की तरफ माइल करें, लेकिन दिल मुतमइन न हो, तो रुक जाओ! अगर मुआशरा किसी ग़लत काम को "आम बात" कहे, लेकिन तुम्हारा दिल बेचैन हो, तो मत करो! 5. *गूगल से पहले, अपने दिल से रुजू करो!* आज हम किसी भी सवाल का जवाब जानने के लिए फौरन गूगल, यूट्यूब, या इंस्टाग्राम के मशवरों पर भरोसा करते हैं, लेकिन नबी करीम ने हमें एक ऐसा "सर्च इंजन" दिया है जो कभी ग़लत नहीं हो सकता: "अपने दिल से फतवा लो!" यानी किसी भी फैसले से पहले अपने अंदर की गवाही पर ग़ौर करो। *मिसाल:* अगर कोई फैशन ट्रेंड या बिजनेस डील तुम्हें लालच दिला रही है, लेकिन दिल में अजीब सी बेचैनी है? तो रुक जाओ! अगर तुम्हें लगे कि कोई काम वक़्ती फ़ायदा देगा, लेकिन अंदर की आवाज़ कहे "यह सही नहीं!" तो समझ लो कि वही सही फैसला है। 6. *इंस्टाग्राम की "लाइक्स" या अल्लाह की पसंद?* हम में से बहुत से लोग अपनी ज़िंदगी का हर क़दम सोशल मीडिया की मक़बूलियत के मुताबिक़ उठाते हैं: "क्या यह लिबास पहनना चाहिए?" (इंस्टाग्राम पर सब कर रहे हैं!) "क्या यह काम करना चाहिए?" (लोग क्या कहेंगे?) लेकिन नबी करीम हमें बता रहे हैं: "जो काम तुम्हारे दिल को मुतमइन करे, वही सही है, चाहे पूरी दुनिया कुछ और कहे!" *मिसाल:* अगर कोई चीज़ "ट्रेंड" में है, लेकिन तुम्हें लगता है कि यह ग़लत है, तो तुम्हें इसे अपनाने की ज़रूरत नहीं! अगर कोई गुनाह आम हो चुका है, मगर तुम्हारा दिल मुतमइन नहीं, तो वही तुम्हारे लिए गुनाह है, चाहे दुनिया उसे जायज़ कहे। अल्लाह हमें नेकी करने वाला और गुनाहों से बचने वाला दिल अता फरमाए, आमीन! 7. *दोस्तों का दबाव या दिल का इत्मिनान?* आजकल अक्सर लोग Peer Pressure (यानी दोस्तों के दबाव) में ग़लत फैसले कर बैठते हैं। "सब पार्टी कर रहे हैं, तो मुझे भी जाना चाहिए!" "ये धोखा तो सब दे रहे हैं, तो मैं भी कर लूं!" लेकिन हज़रत मुहम्मद सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम फ़रमा रहे हैं कि अगर कोई काम तुम्हारे सीने में खटक रहा है, तो वह सही नहीं, चाहे तुम्हारा पूरा ग्रुप उसे कर रहा हो! *उदाहरण:* अगर दोस्त तुम्हें गलत काम पर उकसा रहे हैं, लेकिन तुम्हारा दिल मुतमइन नहीं, तो मत करो। अगर कोई लालच, कमीशन, या धोखाधड़ी वाला बिज़नेस डील है, और तुम्हें अजीब सा एहसास हो रहा है, तो समझ जाओ कि यही दिल का फ़तवा है! और यही सही है! 8. *रात की नींद, दिन के सुकून से ज्यादा क़ीमती है!* यह हदीस हमें एक बेहतरीन मापदंड दे रही है कि किसी भी फैसले की सच्चाई को जानने के लिए देखो: "क्या मैं इसके बाद सुकून से सो सकता हूँ?" *उदाहरण:* अगर कोई हराम कमाई या झूठ बोलने के बाद तुम्हें रात को नींद नहीं आती, तो यह इस बात की निशानी है कि यह सही नहीं था! अगर तुम्हें कोई काम करने के बाद सुकून और राहत महसूस हो, तो यह निशानी है कि वह भलाई थी। 9. *आज के ज़माने का सबक़: "सब कर रहे हैं" काफ़ी नहीं!* आजकल लोग किसी भी गलत काम को जायज़ साबित करने के लिए कहते हैं: "भाई, सब कर रहे हैं!" लेकिन हदीस हमें सिखाती है: "चाहे पूरी दुनिया तुम्हें कहे कि यह जायज़ है, अगर तुम्हारा दिल बेचैन है, तो वह गुनाह है!" *मिसाल:* अगर कोई शख़्स किसी चीज़ को जायज़ कह रहा हो, लेकिन तुम्हें लगे कि यह अल्लाह की रज़ा के खिलाफ़ है, तो वही फैसला सही है। अगर कोई हराम कमाई या रिश्वत आम हो चुकी हो, और लोग इसे "नया तरीक़ा" कह रहे हों, मगर तुम्हें अंदर से बुरा महसूस हो, तो यही तुम्हारी रहनुमाई है! 10. *"अंदर की आवाज़" सबसे बड़ी गवाह है!* यह हदीस हमें खुदमुख्तारी, ईमानदारी और रूहानी बसीरत सिखाती है। आज जब दुनिया में धोखा, फरेब और हराम को "मामूल" बना दिया गया है, नबी करीम ﷺ ने हमें बता दिया कि असली गवाही तुम्हारा दिल है! 👉 अगर किसी काम में दिल बेचैन हो, तो चाहे दुनिया कुछ भी कहे, वह सही नहीं! 👉 और अगर किसी काम के बाद दिल में रौशनी, सुकून और इत्मिनान हो, तो वही नेकी है! 📌 "लाइक्स, फॉलोवर्स और दुनिया की राय एक तरफ… और तुम्हारा दिल एक तरफ!" अब फैसला तुम्हारे हाथ में है! 11. कुछ वाक़िआत (घटनाएँ): 1. *दिली सुकून चला गया:* एक बार हज़रत राबिया अदविया को बहुत बेचैनी महसूस हुई। जब उन्होंने गौर किया तो पता चला कि उन्होंने शाही मशाल की रौशनी में अपनी क़मीस का चाक सिल लिया था। बस यह ख्याल आते ही उन्होंने वह हिस्सा फाड़ डाला, तभी जाकर दिल को सुकून मिला। 2. *घी के चालीस मटके बहा दिए:* हज़रत इमाम इब्ने सीरीन ने एक बार 40 मटके घी खरीदे। एक मटके में मरा हुआ चूहा निकला। उन्होंने पूछा: "यह किस मटके से निकला?" जब जवाब न मिला तो उन्होंने सभी मटके बहा दिए ताकि किसी मुसलमान तक शक वाला माल न पहुँचे। 3. *परहेज़गार घराना:* हज़रत बिशर हाफ़ी की बहन हज़रत इमाम अहमद बिन हंबल के पास आईं और पूछा: "हम छत पर सूत कातते हैं और कभी-कभी शाही मशाल की रौशनी हम पर पड़ती है। क्या इस रौशनी में सूत कातना जायज़ है?" इमाम अहमद बिन हंबल ने पूछा:आप कौन हैं?" उन्होंने जवाब दिया: मैं बिशर हाफ़ी की बहन हूँ।" इमाम रो पड़े और बोले: सच्ची परहेज़गारी तुम्हारे घर से ही निकली है! तुम शाही मशाल की रौशनी में सूत न काता करो। *12. हदीस से मिलने वाले सबक़:* 1. नेकी पर दिल मुतमइन होता है, गुनाह पर बेचैनी होती है। 2. हर शक वाली चीज़ से बचना चाहिए। 3. सच्चे नेक लोग हराम और शक वाली चीज़ों से भी दूर रहते हैं। 4. परहेज़गार लोग छोटी-छोटी बातों में भी एहतियात बरतते हैं। 5. नेकीयों से संतुष्ट और गुनाहों से बेचैन वही दिल होता है, जो इच्छाओं की गंदगियों से सुरक्षित हो। 6. जिस चीज़ की हलाल और हराम होने में संदेह हो, तो बिना उलेमा से मार्गदर्शन लिए उसे कभी उपयोग न किया जाए। 7. नेक लोग यदि गलती से कोई संदिग्ध चीज़ इस्तेमाल कर लें, तो जब तक उसका प्रायश्चित न कर लें, उन्हें दिली सुकून नहीं मिलता। 8. अल्लाह के नेक बंदे न तो खुद संदेहास्पद चीजें इस्तेमाल करते हैं, और न ही दूसरों के लिए उसे उचित ठहराते हैं, चाहे इसके लिए उन्हें कितना ही आर्थिक नुकसान क्यों न उठाना पड़े। 9. कुछ चीजें फतवे के अनुसार जायज़ होती हैं, लेकिन तक़्वा के लिहाज से उनसे बचना ही बेहतर होता है। 10. औलिया-ए-किराम ऐसी छोटी-छोटी बातों में भी बहुत अधिक एहतियात बरतते हैं, जिन पर आम लोग ध्यान भी नहीं देते। 🤲 अल्लाह हमें ऐसा दिल अता करे जो नेकी पर मुतमइन हो और गुनाह से बेचैन हो! आमीन!

Comments