
MUFTI ABDUSSUBHAN MISBAHI
346 subscribers
About MUFTI ABDUSSUBHAN MISBAHI
مدرس:– جامعہ صمدیہ دار الخیر پھپھوند شریف،ضلع:اوریا، اتر پردیش– بھارت– علمی، فنی، فکری اور عملی جہات میں تحریر و بیان، قرطاس و قلم اور سیاست سے مستفید و مستفیض اور مستنیر و بہرہ ور ہونے کے لیے ہمارے واٹس ایپ چینل: (مفتی عبد السبحان مصباحی) (MUFTI ABDUSSUBHAN MISBAHI) کو فالو کریں، ہماری گفتگو کا محور یہ اشعار رہیں گے: *قہاّری و غفاّری و قدّوسی و جبروت* *یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان* *یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن* *قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قُرآن!* Contact number: 0 9808170357
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

علم و ادب اور روحانیت کے مصطفیٰ آباد میں ایک دن تحریر:- خالد ایوب مصباحی شیرانی چیرمین: تحریک علمائے ہند پرانا "مصطفیٰ آباد" جسے اب "رام پور" کہا جاتا ہے، نہ صرف نوابوں کی نگری اور نوابوں کے واسطے سے شعر و سخن اور علم و ادب کا گہوارہ رہی ہے بلکہ کبھی اسلامی علوم کا سرچشمہ اور عظیم روحانی شخصیات کا عظیم روحانی مرکز بھی رہی ہے۔ بے ہنگم شاخہائے شجر کی طرح دائیں بائیں پھلتے پھولتے اور دیکھتے ہی دیکھتے بڑھتے جاتے شہروں کے بیچ یہ چھوٹا سا شہر، آج بھی اپنی آبادی اور آباد کاری پر ایک حد تک کنٹرول کیے ہوئے ہے اور بے ہنگم بڑھنے کی بجائے کافی حد تک خوب صورت اور منظم ہے، جس کی دیدہ زیبی میں نوابی عہد کے بعد انھی کی طرح دور جمہوریت میں یہاں کے ارباب سیاست نے بھی اپنا رول ادا کیا۔ 20/ فروری 2025 کو یہاں کے مدرسہ نور العلوم، اجیت پور کے سالانہ جلسہ دستار بندی کے موقع پر حاضری کی سعادت حاصل ہوئی اور اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے پری پلاننگ یہاں کے آثار اور بطور خاص عظیم علمی تراث "رام پور رضا لائبریری، رام پور" کا وزٹ طے پایا۔ میں شکر گزار ہوں حضرت مولانا چراغ احمد رام پوری، متعلم: جامعہ اسلامیہ، رام پور اور خطیب و امام: حسینی مسجد کا، جنھوں نے اولین ملاقات میں ہی ہمارے میزبان حضرت مولانا عارف برکاتی صاحب کی خواہش پر قدیم ترین تعلقات کی طرح رشتہ نبھاتے ہوئے پورا دن قربان کیا اور پوری اخلاص و محبت کے ساتھ بنا تکان بالترتیب درج ذیل اولیائے کرام اور علمائے حق کے مزارات مقدسہ کی زیارتیں کروائیں: (الف) حضرت مولانا مفتی ارشاد احمد مجددی علیہ الرحمہ (ب) رسول نما، حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ () گنج سلاسل حضرت مولانا شاہ عبد الکریم المعروف ملا فقیر اخوند تابعی علیہ الرحمہ (ج) تاج دار نقش بندیت، سیدنا حافظ شاہ جمال اللہ مجددی نقش بندی علیہ الرحمہ (د) شبیہ غوث اعظم، فیض بخش عالمیاں، محبوب الہیٰ حضرت شاہ درگاہی علیہ الرحمہ (ھ) خلیفہ اعلیٰ حضرت، حضرت مولانا سید ہدایت رسول قادری رام پوری علیہ الرحمہ (و) صاحب ملا حسن، امام معقولات حضرت ملا محمد حسن فرنگی محلی علیہ الرحمہ۔ اول الذکر صاحب انتصار الحق حضرت مفتی ارشاد احمد مجددی علیہ الرحمہ، حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کی نسل سے پیدا شدہ عظیم ترین عالم ربانی اور روحانی شخصیت ہیں، جن کے تعارف کے لیے اتنا بس ہے کہ امام اہل سنت شاہ امام احمد رضا خان محدث بریلوی علیہ الرحمہ نے آپ کو ہندوستان کے کبار علما میں شامل کیا اور آپ کے خلیفہ حضرت سید شاہ نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ نے تو سنیت کی تعریف ہی یہ کی: "سنی وہ ہے جو ما انا علیہ و اصحابی کا مصداق ہو۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو خلفائے راشدین، ائمہ دین، مسلم مشائخ طریقت اور متاخرین علمائے کرام میں سے حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی، ملک العلما، حضرت بحر العلوم فرنگی محلی، حضرت مولانا فضل حق خیر آبادی، حضرت مولانا شاہ فضل رسول بدایونی، حضرت مولانا مفتی ارشاد حسین رام پوری اور حضرت مولانا مفتی شاہ احمد رضا خاں بریلوی کے مسلک پر ہوں۔ رحمہم اللہ تعالیٰ۔" (الفقیہ، امر تسر 21/ اگست 1945، ص: 9) حضرت ملا فقیر آخوند تابعی کے بارے میں مزید تفصیلات حضرت سید شاہد میاں علیہ الرحمہ کی لکھی ہوئی سوانح حیات پڑھ کر ہوگا البتہ یہ پتہ چلا کہ آپ چاروں سلاسل کے علاوہ بہت سے ذیلی سلسلوں کے مجمع اور تابعی ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو ان کا وجود واقعتاً اس زمین ہی نہیں بلکہ اس پورے خطے کے لیے شرف کی بات ہے۔ حضرت سید شاہ جمال اللہ رام پوری مجددی نقش بندی علیہ الرحمہ سلسلہ نقش بندیہ کے عظیم روحانی پیشوا بلکہ زمین ہند کے علاوہ حدود ہند سے باہر بھی سلسلہ نقش بندیہ مجددیہ کی ترویج و اشاعت میں غیر معمولی کردار ادا کرنے والی ایک عظیم ذات ہیں۔ حضرت مولانا سید ہدایت رسول رام پوری قادری علیہ الرحمہ اپنے وقت کے عظیم مجاہد اور بلا لومۃ لائم احقاق حق کرنے والے بے باک خطیب تھے۔ بارگاہ رضا میں آپ کو غیر معمولی مقبولیت اور آپ کی شان خطابت کو پذیرائی حاصل تھی۔ انگریزی قوانین کے خلاف اپنا احتجاج درج کرواتے ہوئے کئی مرتبہ پابند سلاسل کیے گئے لیکن کبھی بھی حق کے لیے سمجھوتہ نہ کیا۔ حضرت شاہ درگاہی علیہ الرحمہ کی پائنتی جانب ایک نہایت سادہ جگہ پر دفن ہیں۔ بتاتے ہیں کہ یہ جگہ آپ کے لیے حضرت امام اہل سنت علیہ الرحمہ نے منتخب فرمائی۔ *جامع معقولات اور درس نظامی کی تقریباً سب سے ادق سمجھی جانے والی کتاب "ملا حسن" کے مصنف علامہ ملا محمد حسن فرنگی محلی علیہ الرحمہ سابق صدر المدرسین: مدرسہ عالیہ، رام پور بھی یہاں کے ایک گم نام قبرستان میں مدفون ہیں۔ تلاش کے بعد یہاں کے "مدرسہ کوہنا" پولیس اسٹیشن کے بغل میں دو قبرستانوں کے بیچ سے گزرتے ایک راستے کے کنارے دائیں طرف کے قبرستان میں آپ علیہ الرحمہ آسودہ خاک ہیں۔* جب ہم اپنے وقت کے اس عظیم معقولی کی قبر پر حاضر ہوئے تو کچھ دیر کے لیے سکتہ سا طاری ہو گیا۔قبر پر ایک چادر چڑھی ہوئی ہے، جو مسلسل دھول مٹی سے اٹ کر بوسیدہ ہو چکی ہے اور اس چادر سمیت پورے مزار کو ہوا کے جھونکوں کے ساتھ اڑتی ہوئی آوارہ پتیوں نے ڈھانپ رکھا ہے۔ اسی وقت خیال آیا کہ کیوں نہ فاتحہ کے ساتھ احاطہ مزار کی صفائی بھی کر دی جائے، سو یہ سعادت بھی حاصل ہوئی۔ دراصل رام پور کا مدرسہ عالیہ اپنی تاریخ کا وہ عظیم ادارہ رہا ہے جس نے نوابین رام پور کی علم دوستی اور مالی سرپرستی میں جانے کتنی ہی نابغہ روزگار ہستیوں کو اپنے دامن میں جمع کر رکھا تھا اور ماضی میں کتنے ہی سالوں اپنا علمی فیضان لٹاتا رہا۔ حضرت ملا حسن سے فارغ ہو کر ہم ایک ایسے قلعے میں داخل ہوئے جسے دنیا جہان کے دوسرے قلعوں سے اس کی عظیم علمی شناخت لائبریری نے نہ صرف یہ کہ ممتاز کر رکھا ہے بلکہ قلعوں کا استعمال کیسے ہوتا ہے، دنیا کو یہ ڈھنگ بھی سکھایا ہے۔ رام پور کے سابق نواب رضا علی خان سے منسوب "رام پور رضا لائبریری" ملک کی ممتاز ترین اور قدیم لائبریریوں میں سے ایک ہے، جو اسلامی ثقافت سے متعلق نوادار، مخطوطات اور قلمی نسخوں کا بڑا ذخیرہ رکھتی ہے۔ اس کی بنیاد ریاست کے بانی نواب فیض اللہ خان نے رکھی لیکن اس کتب خانے کی اصل ترقی کا دور نواب محمد سعید خان کی مسند نشینی سے شروع ہوا، جنھوں نے اس کی ترقی کی طرف خاص طور سے توجہ فرمائی اور قلمی کتابوں کی فراہمی کے ساتھ نادر و نایاب کتابوں کی نقلیں بھی کرائیں جبکہ نواب رضا علی خان کی قربانی یہ رہی کہ انھوں نے اس لائبریری کو قوم کے لیے وقف کر دیا۔ اس لائبریری کی تاریخ بجائے خود نہایت سنہری تاریخ رہی ہے، جس کے جھروکوں سے حکیم اجمل خان بھی اس کے ناظم اعلیٰ نظر آتے ہیں۔ ویسے تو اس کی واقعی عظمت جاننے کے لیے اس کی مکمل تاریخ پڑھنا اور اس کا وزٹ کرنا چاہیے، لیکن دور سے جاننے کے لیے مولانا شبلی نعمانی کا یہ تاثر بھی کم معنیٰ خیز نہیں: "اس کتب خانہ سے بارہا متمتع ہوا ہوں۔ ہندوستان کے کتب خانوں میں اس سے بہتر کیا، اس کے برابر بھی کوئی کتب خانہ نہیں۔ میں نے روم و مصر کے کتب خانے بھی دیکھے ہیں لیکن کسی کتب خانے کو مجموعی حیثیت سے اس سے افضل نہیں دیکھا"۔ نواب صاحب کے قلعے کے اندر واقع اس لائیبریری کی عمارت بھی کسی عالی شان محل سے کسی صورت کم نہیں، اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ لائیبریری کے کچھ حصوں پر سونے کی ملمع سازی کی گئی ہے۔ لائبریری کا اپنا مستقل پروٹوکول ہے جیسے ہی ہم لوگ انٹری کروا کے اندر داخل ہوئے، اتفاق سے لائبریری کے ڈائریکٹر پشکر مشرا جی سے ملاقات ہوئی، جنھوں نے وزٹ پر خوشی کا اظہار کیا۔ فی الوقت لائبریری کا جو حصہ زائرین کے لیے کھلا ہوا ہے، وہاں کتابوں کی بجائے نوابوں کے تیر و تفنگ اور شمشیر بھالے سجے ہوئے ہیں، جن میں اہل علم کو تو شاید زیادہ دل چسپی نہ ہو، البتہ الگ الگ گروپوں کی شکل میں آنے والے زائرین کا رنگ و آہنگ اور لونڈے بازیوں کے جتھے بتا رہے تھے کہ کپل کو اس نمائشی حصے میں خوب انٹرسٹ ہے اور یوں ایک علمی آماج گاہ، عام زیارت گاہ سی بنتی جا رہی ہے۔ لائبریری نے کچھ وقت پہلے ہی اپنی ابتدا کے ڈھائی سو سال مکمل ہونے کا جشن منایا ہے، جس کے جا بجا ہورڈنگس آویزاں ہیں۔ ہم کوئی تین گھنٹے الگ الگ رجسٹر ٹٹولتے رہے جن میں فنون کی ترتیب کے مطابق کتابوں کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں لیکن پریشانی یہ ہے کہ جو کتاب بھی درکار ہوتی ہے، وہ وہاں موجود کارندوں کی مدد سے منگوانی پڑتی ہے، زائرین راست کتابوں والے احاطے میں نہیں جا سکتے اور ظاہر ہے یہ لحاظ و مروت والا کام ایک حد تک ہی کیا جا سکتا ہے۔ ہم نے تاریخ اور تاریخ میں بھی راجپوتانہ کی تاریخ کے زمرے سے ڈاکٹر عبد اللہ چغتائی کی "کھٹو" کتاب منگوائی جو اگرچہ ہمارے پاس پی ڈی ایف فارمیٹ میں موجود ہے لیکن یہاں لائبریری موجود نسخے کی زیارت کا غیر ضروری کام بھی، ضروری تھا۔ ہم نے جاتے ہی پہلا اچھا کام یہ کیا کہ پبلشنگ سیکشن میں جا کر درج ذیل کتابوں کی خرید مکمل کر لی تاکہ بعد میں بھی لائبریری سے استفادے کی راہیں ہموار رہیں: (1-2) فہرست کتب عربیہ جلد اول و دوم (3) فہرست کتب اردو (4) تاریخ رام پور رضا لائیبریری (5) تاریخ روہیلہ (6) نعت محمدی (7) تاریخ مدرسہ عالیہ (8) دستور الفصاحت لائبریری سے فراغت کے بعد مولانا چراغ احمد صاحب کی مسجد میں ظہرانہ اور قدرے آرام ہوا اور بعد عصر پھر یہاں کی جامع مسجد جانا ہوا، جو بجائے خود ایک مقدس زیارت گاہ ہے۔ عالی شان مسجد نوابی مزاج اور شاہی طرز دونوں کا حسین امتزاج رکھتی ہے۔ اونچائی پر واقع مسجد اپنے نچلے حصے اور دیگر جہتوں سے بھیڑ بھڑکے والی دوکانوں سے گھری ہوئی ہے۔ مسجد کی بائیں جانب صولت پبلک لائیبریری ہے۔ اس لائبریری کو بھی 90 سال کا عرصہ مکمل ہو گیا ہے لیکن اندر بیٹھے ایک نہایت شریف النفس بزرگ اور ذمہ دار نے بتایا کہ بوجوہ یہ علمی دفتر ایک مدت تک دھول چاٹنے کے لیے مقفل تھا اور اسی وجہ سے اس کی کتابوں کا بڑا حصہ محض ایک بار ٹچ کرنے جیسا رہ گیا ہے اور فی الوقت ذمہ داروں کا زیادہ فوکس اس بات پر ہے کہ اپنے ہاں موجود ہزاروں قسم کے نایاب مخطوطات کو جتنا زیادہ ریختہ ویب سائٹ پر اپلوڈ کروا سکیں، کر دیں تاکہ یہ علمی ذخیرہ ضائع ہونے سے بچ جائے اور یہ سلسلہ بڑی تیزی کے ساتھ پورے اخلاص کے ساتھ جاری ہے۔ ہاں! اس خزینے میں کیا کچھ موجود ہے؟ اس کی کوئی مرتب فہرست دست یاب نہیں اور اسی وجہ سے اس سے استفادہ آسان نہیں۔ چوں کہ جامع مسجد اور صولت پبلک لائبریری کا وزٹ کرتے کرتے مغرب کا دھندلکا چھا چکا تھا، اس لیے خواہش کے باوجود مولانا چراغ احمد صاحب کے مخلصانہ اصرار پر ایک عدد رام پوری کیپ خریدنے کے علاوہ مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی کی آباد کاری اور مدرسہ عالیہ کی خانہ بربادی کا اپنی آنکھوں کو گواہ نہ بنا سکے، خیر مولانا چراغ احمد سا چراغ سلامت تو یہ خواہش بھی ان شاء اللہ تعالیٰ دیر سویر پوری ہو ہی جائے گی۔ فی الوقت مولانا صاحب رام پور کی عظیم علمی اور انقلاب آفریں شخصیت حضرت سید شاہد علی میاں علیہ الرحمہ اور ان کے خلف رشید حضرت سید فیضان میاں صاحب ازہری کی کتابیں جٹانے اور درج بالا کتابوں سمیت پورا بنڈل میرے ایڈریس پر روانہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ رب العزت ان کے اخلاص و محبت کو سلامت با کرامت رکھے۔ سید فیضان میاں صاحب کی شہر میں غیر موجودگی کی وجہ سے فون پر علیک سلیک کے علاوہ ان سے راست شرف لقا تو نہ حاصل ہو سکا لیکن مولانا چراغ صاحب اور دیگر احباب کی زبانی ان کی غیر معمولی علمی لیاقت اور حضرت سید شاہد میاں علیہ الرحمہ کی بے پناہ دینی خدمات کے تذکروں نے بہت متاثر کیا اور ان حضرات کی تربیت و درد مندی کے اثرات بھی صاف طور پر محسوس کیے۔

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ بیس سال قبل ہمارے والد صاحب کا انتقال ہوگیا تھا۔ ان کے کچھ روزے زندگی میں قضا رہ گئے تھے، جن کا فدیہ ہم اب دینا چاہتے ہیں۔ ہم کسی قسم کا حیلہ نہیں کرنا چاہتے، بلکہ پوری رقم ادا کرنا چاہتے ہیں۔ براہ کرم شرعی رہنمائی فرمائیں کہ فدیہ ادا کرنے میں کس سال کے صدقۂ فطر کی قیمت کا اعتبار ہوگا؟ جس سال والد صاحب کے روزے قضا ہوئے تھے، اس سال کے صدقۂ فطر کی قیمت معتبر ہوگی یا جب ہم فدیہ ادا کریں گے، اس وقت کے صدقۂ فطر کی قیمت کا اعتبار ہوگا؟ الجواب بعون الملک الوہاب پوچھی گئی صورت میں آپ کے والد صاحب کے جس سال کے روزے قضا ہوئے تھے، فدیہ کی ادائیگی میں اسی سال کے صدقۂ فطر کی قیمت کا اعتبار ہوگا۔ موجودہ سال کے صدقۂ فطر کی قیمت معتبر نہیں ہوگی، کیونکہ زکوٰۃ، صدقۂ فطر اور کفارات میں ان کے واجب ہونے کے وقت کی قیمت معتبر ہوتی ہے، نہ کہ ادائیگی کے وقت کی قیمت۔ زکوٰۃ کی ادائیگی میں لازم ہونے والے دن کی قیمت کے اعتبار سے فتاویٰ عالمگیری میں ہے: "تعتبر القيمة عند حولان الحول... وتعتبر قيمتها يوم الوجوب" (الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الزکوٰۃ، الفصل فی العروض، ج 1، ص 198، مطبوعہ کراچی) ترجمہ: زکوٰۃ کی ادائیگی میں قمری سال مکمل ہونے کے وقت کی قیمت کا اعتبار کیا جائے گا۔ (مثلاً) کسی شخص کے پاس دو سو قفیز گندم تجارت کے لیے تھی، جو دو سو درہم کے برابر تھی۔ جب اس پر سال مکمل ہوگیا، تو اگر وہ گندم کے ذریعے زکوٰۃ ادا کرے گا، تو پانچ قفیز دے گا، اور اگر قیمت کے ذریعے ادا کرے گا، تو جس دن زکوٰۃ واجب ہوئی تھی، اس دن کی قیمت کا اعتبار ہوگا۔ اسی طرح کفارہ وغیرہ سے متعلق در مختار میں ہے: "وجاز دفع القيمة في زكاة... وتعتبر القيمة يوم الوجوب" (در مختار مع رد المحتار، کتاب الزکوٰۃ، باب زکوٰۃ الغنم، ج 3، ص 250، مطبوعہ کوئٹہ) ترجمہ: زکوٰۃ، عشر، صدقۂ فطر، نذر اور غلام آزاد کرنے کے علاوہ دیگر تمام کفارات میں قیمت دینا جائز ہے اور اس قیمت کا تعین واجب ہونے کے دن کے اعتبار سے کیا جائے گا۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن روزے کے فدیہ سے متعلق فرماتے ہیں: "قیمت میں نرخ بازار آج کا معتبر نہ ہوگا جس دن ادا کر رہے ہیں، بلکہ روزِ وجوب کا۔ مثلاً اُس دن نیم صاع گندم کی قیمت دو آنے تھی، آج ایک آنہ ہے تو ایک آنہ کافی نہ ہوگا، دو آنے دینا لازم ہوگا، اور (اگر اُس وقت) ایک آنہ تھی، اب دو آنے ہوگئی، تو دو آنے ضروری نہیں، ایک آنہ کافی ہوگا۔" (فتاویٰ رضویہ، ج 10، ص 531، رضا فاؤنڈیشن، لاہور) واللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

*نادانوں کے رویے پر صبر – اہلِ علم کے شایانِ شان رویہ* ـــــــــــــــــــــــــــــــ آج کے دور میں کئی کہنہ مشق ائمہ مساجد اور باصلاحیت مدرسین، اپنی کمیٹیوں اور انتظامیہ کے ناسمجھ رویے سے نالاں نظر آتے ہیں۔ علم و حکمت سے آراستہ ہونے کے باوجود وہ ایسے لوگوں کی بے جا مداخلت، روک ٹوک اور ناپسندیدہ طرزِ عمل کا شکار رہتے ہیں، جو نہ ان کے علم وفن کی وسعت سے واقف ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کے مقام و مرتبے کو پہچانتے ہیں۔ یہ ایک تلخ مگر ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ علم و حکمت کی قدردانی ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔ آج کے دور میں کتنے ہی جید علما و ائمہ اپنی مساجد کی کمیٹیوں کے غیر معقول رویوں سے دلبرداشتہ ہیں، اور کتنے ہی اساتذہ اپنے ہی اداروں کی انتظامیہ کی بے جا مداخلت اور ناسمجھی سے پریشان۔ علم والے اپنی بصیرت اور قابلیت سے روشنی پھیلانا چاہتے ہیں، جبکہ اکثر جاہل ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ مسئلہ نیا نہیں، بلکہ ازل سے چلا آ رہا ہے۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ اگر دنیا پرست افراد، خادمانِ دین کی عزت و قدر کو سمجھ سکتے تو صورتحال یقیناً مختلف ہوتی، اور شاید یہ معاملات کبھی پیدا ہی نہ ہوتے۔ مگر حقیقت وہی ہے جسے امام ذہبی نے نہایت جامع انداز میں بیان کیا: *"وَلٰکِنَّ الجَاهِلَ لَا يَعلَمُ رُتْبَةَ نَفْسِه فَكَيْفَ يَعْرِفُ رُتْبَةَ غَيْرِهِ؟!!"* (سیر اعلام النبلاء: 11/321) (جاہل کو تو خود اپنا مقام و مرتبہ معلوم نہیں ہوتا، وہ کسی اور کے مقام و مرتبہ کو کیا پہچانے گا؟!) یہی وہ جہالت ہے جو نادان و جاہل کو حقیقت دیکھنے نہیں دیتی، جو کم فہم کو بڑوں کی عزت کرنے سے روکتی ہے، اور جو محدود سوچ والے کو علم و بصیرت کی قدر کرنے کے قابل نہیں بناتی۔ یہی حقیقت زندگی کے ہر میدان میں نظر آتی ہے۔ عربی کا ایک معروف مقولہ ہے: *"الناس أعداء لما جھلوا"* (لوگ اس چیز کے دشمن ہوتے ہیں، جسے وہ جانتے نہیں!) یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جو ہمیں اس رویے کی جڑ تک لے جاتا ہے۔ ایک جاہل اپنی حقیقت سے بے خبر ہوتا ہے، وہ اپنی کم علمی کو علم سمجھتا ہے، وہ اپنی نادانی کو عقل کامل خیال کرتا ہے، اور سب سے بڑھ کر، وہ یہ گمان کرتا ہے کہ وہی سب سے زیادہ فہیم اور صائبِ رائے ہے۔ اسی طرح فارسی کا مقولہ بھی ہے: *"قدر زر زرگر بداند، یا بداند جوہری"* (سونے کی قدر وقیمت یا تو سُنار جانتا ہے یا جوہری!) گویا یہ طے ہے کہ ہر دور میں جاہل، اہلِ علم کی راہ میں رکاوٹ بنے گا، ان کی صلاحیتوں کو شک کی نظر سے دیکھے گا، اور ان کی عزت کرنے کے بجائے ان پر حکم چلانے کی کوشش کرے گا۔ مگر اہلِ علم کا شایانِ شان طریقہ یہی ہے کہ وہ صبر اور حکمت سے اپنی راہ پر چلتے رہیں۔ اس سے واضح ہوا کہ ناسمجھی اور جہالت وہ گھٹا ٹوپ اندھیریں ہیں جو روشنی کی قدر نہیں جانتے۔ جو خود اپنی حیثیت سے بے خبر ہو، وہ بھلا کسی اور کی عزت و عظمت کو کیسے پہچانے گا؟ *قرآن و حدیث سے استدلال* یہی حقیقت ہمیں قرآن و حديث میں بھی نظر آتی ہے: 1️⃣ *مخالفتِ حق – تاریخ کی حقیقت* اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "بَلْ جَاءَهُمْ بِالْحَقِّ وَأَكْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ كَارِهُونَ" ( المؤمنون: 70) (بلکہ وہ (نبی) ان کے پاس حق لے کر آئے، مگر ان میں سے اکثر کو حق پسند نہیں!) یہی فطرت آج بھی قائم ہے۔ جو حق کی روشنی لے کر آتا ہے، وہ ہمیشہ تاریکی والوں کے نشانے پر ہوتا ہے۔ 2️⃣ *نادانوں کے رویے پر صبر کا حکم* اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "وَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيلًا"( المزمل: 10) (اور جو کچھ وہ کہتے ہیں، اس پر صبر کرو، اور انہیں خوبصورتی کے ساتھ چھوڑ دو!) یہی صبر کی وہ روش ہے جو انبیائے کرام علیہم السلام، اولیا کرام اور تمام اہلِ علم نے اپنائی ہے۔ 3️⃣ *تاریخی دلائل – اہلِ علم کا سامنا* علم ہمیشہ آزمائشوں کے دشت سے گزرتا آیا ہے۔ جو روشنی پھیلانے والا ہوتا ہے، وہی اندھیروں کے نشانے پر رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جید علما، کہنہ مشق ائمہ، اور صاحبِ بصیرت اساتذہ ہمیشہ ناسمجھوں کی مخالفت اور نادانوں کی بے جا مداخلت کا سامنا کرتے ہیں۔ یہ شکایت آج کی نہیں، بلکہ تاریخ کے ہر دور میں اہلِ علم کو نادانوں کی مخالفت جھیلنی پڑی ہے۔ 1️⃣ امام *ابو حنیفہ – فہمِ دین اور جاہلوں کی مخالفت* امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا علم و استنباط ایسا تھا کہ دنیا آج بھی اس سے روشنی لے رہی ہے، مگر آپ کے دور میں بعض کم فہم لوگ آپ پر اعتراض کرتے تھے۔ حتیٰ کہ حکومت وقت نے بھی آپ کی حق گوئی برداشت نہ کی، اور آپ رحمہ اللہ کو قید و بند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ آپ جاہلوں کی مخالفت سے ٹس سے مس نہ ہوئے اور حق پر ڈٹے رہے۔ 2️⃣ *امام احمد بن حنبل – صبر و استقامت کی معراج* مامون الرشید کے دور میں "خلقِ قرآن" کا فتنہ کھڑا کیا گیا، اور تمام علما پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ اس نظریے کو قبول کریں۔ جو نہ مانتا، اسے قید و بند میں ڈالا جاتا۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ پر کوڑے برسائے گئے، مگر آپ ثابت قدم رہے۔ آپ ناسمجھوں اور جاہل حکمرانوں کی مخالفت کے آگے جھکے نہیں، بلکہ صبر کے پہاڑ بن کر کھڑے رہے۔ 3️⃣ *امام بخاری – حق پرستی اور آزمائشیں* امام بخاری رحمہ اللہ جیسے جلیل القدر محدث، علم حدیث کے مسلم الثبوت بے تاج بادشاہ، امیر المومنین فی الحدیث، آپ کی کتاب صحیح بخاری آج بھی سند سمجھی جاتی ہے، آپ کو بھی اپنے وقت میں حسد، بغض، اور ناسمجھوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ آپ کو اپنے ہی شہر سے نکال دیا گیا، اور آپ پردیس میں وفات پا گئے۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ *سبق – نادانوں کے رویے پر صبر اور استقامت* ان تمام دلائل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ناسمجھوں اور جاہلوں کی مخالفت کوئی نئی بات نہیں، بلکہ یہ ہر دور میں اہلِ علم کی آزمائش رہی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ: 1️⃣ نادانوں کی باتوں پر دھیان نہ دیں – کیونکہ وہ آپ کی قدر نہیں جان سکتے۔ 2️⃣ اپنے مقصد پر ثابت قدم رہیں – کیونکہ حق کی راہ میں آزمائشیں آتی ہی ہیں۔ 3️⃣ محبت کرنے والوں کی محبت پر نظر رکھیں – کیونکہ جو علم کی روشنی کو پہچانتا ہے، وہی اس سے سیراب ہوتا ہے۔ 4️⃣ جاہلوں کے ترش و تلخ رویے کو نظر انداز کریں – کیونکہ ان کی مخالفت حقیقت میں ان کی کم علمی کا ثبوت ہے۔ *صبر ہی کامیابی کی کنجی ہے* دنیا میں کوئی بھی قیمتی چیز ہر شخص کی سمجھ میں نہیں آتی۔ علم بھی ایک قیمتی جوہر ہے، جس کی پہچان ہر کسی کو نہیں ہوتی۔ اگر لوگ آپ کی قدر نہیں کرتے، تو پریشان نہ ہوں، کیونکہ: "ہر جوہری، ہیرے کی پہچان نہیں رکھتا!" لہٰذا، نادانوں کی نادانی پر صبر کریں، اپنی روشنی کو مدھم نہ ہونے دیں، اور یاد رکھیں کہ: *"حق کی پہچان کرنے والے کم ہوتے ہیں، مگر تاریخ انہی کو یاد رکھتی ہے!"* *صبر اور استقامت – کامیابی کی کنجی* اے علما کرام! اے ائمہ مساجد و اساتذہ عظام! یہ دنیا دار لوگ تمہیں تمہاری اصل قدر نہیں دے سکتے، کیونکہ یہ خود اپنی قیمت سے بے خبر ہیں۔ تمہارا مقام نہ کسی کمیٹی کے چند افراد کے ہاتھ میں ہے، نہ کسی محدود سوچ رکھنے والی انتظامیہ کے رحم و کرم پر۔ تمہاری حیثیت وہی پہچانے گا جو "جوہری" ہوگا، جو دل کی بینائی رکھتا ہوگا۔ یہ دنیا آزمائش کی جگہ ہے، یہاں نادانوں کی تلخ رویوں، ناسمجھوں کی بے جا مداخلت اور کم ظرفوں کے طعنوں کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔ مگر یہی وہ لمحات ہیں جب صبر، حکمت اور استقامت کی ضرورت ہوتی ہے۔ *یاد رکھیں!* آپ کے علم، اخلاص اور خدمات کی حقیقت وہی پہچانے گا جو "جوہری" ہوگا، جو دل کی آنکھوں سے دیکھنے والا ہوگا۔ لہٰذا نادانوں کے طرزِ عمل پر پریشان نہ ہوں، بلکہ اپنے مقصد پر ثابت قدم رہیں۔ محبت کرنے والوں کی قدر کریں اور جاہلوں کی تلخیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے مشن کو جاری رکھیں، کیونکہ آپ کا حقیقی مقام عنداللہ ہے، اور وہی سب سے بہترین جزا دینے والا ہے! دنیا ہمیشہ اہلِ علم کو آزماتی آئی ہے، اور اہلِ علم نے ہمیشہ صبر، استقامت اور بے قدروں سے بے نیازی کا راستہ اختیار کیا ہے۔ *بس اپنا چراغ جلائے رکھو، کیونکہ اندھیرے والے روشنی کی قیمت نہیں سمجھتے!* ــــــــــــــــــ *ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں* *میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے*

*شجر کاری کی اہمیت و افادیت* شجر کاری (درخت لگانا) انسانی زندگی اور ماحول کے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ یہ صرف ایک سماجی یا ماحولیاتی عمل نہیں بلکہ اسلامی نقطۂ نظر سے بھی انتہائی پسندیدہ اور باعثِ اجر و ثواب ہے۔ 1. *ماحولیاتی فوائد:* درخت آکسیجن پیدا کرتے ہیں، جو زندگی کے لیے ناگزیر ہے۔ فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر کے گلوبل وارمنگ کو کم کرتے ہیں۔ آلودگی کو کم کرتے ہیں اور ہوا کو صاف بناتے ہیں۔ زمین کے کٹاؤ کو روکتے ہیں اور زمین کی زرخیزی کو بڑھاتے ہیں۔ بارش کے امکانات کو بڑھاتے ہیں اور پانی کو زمین میں جذب کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ 2. *اسلامی تعلیمات میں شجر کاری:* نبی کریم ﷺ نے درخت لگانے کو صدقہ جاریہ قرار دیا: ’’جو مسلمان درخت لگائے یا کھیتی کرے، پھر اس میں سے انسان، جانور یا پرندہ کھائے تو وہ اس کے لیے صدقہ ہے۔‘‘ (بخاری، مسلم) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہو، تو وہ اسے لگا دے، اگرچہ قیامت قائم ہو چکی ہو۔‘‘ (مسند احمد) درخت کاٹنے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے، خصوصاً بغیر ضرورت کے درخت کاٹنے کو ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے۔ 3. *سماجی و معاشی فوائد:* درخت پھل دیتے ہیں، جو خوراک کے طور پر کام آتے ہیں۔ لکڑی، ادویات اور دیگر ضروری اشیا فراہم کرتے ہیں۔ گھنے درخت گرمی میں سایہ فراہم کرتے ہیں، جو خاص طور پر شہری علاقوں میں ضروری ہے۔ درختوں کی بہتات سے علاقے کی خوبصورتی میں اضافہ ہوتا ہے، جو سیاحت اور اقتصادی فوائد کا باعث بنتا ہے۔ 4. *صحت پر مثبت اثرات:* درخت ذہنی سکون اور تازگی بخشتے ہیں۔ شجر کاری والا ماحول بیماریوں کی شرح کو کم کرتا ہے۔ درخت شور کی آلودگی کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ حاصل یہ ہے کہ شجر کاری نہ صرف ایک ماحولیاتی ضرورت ہے بلکہ دینی، اخلاقی، اور سماجی فریضہ بھی ہے۔ ہر فرد کو چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ درخت لگائے، انہیں محفوظ رکھے، اور دوسروں کو بھی اس کارِ خیر کی ترغیب دے۔ کیونکہ درخت لگانے کا فائدہ نہ صرف ہمیں بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی ملے گا۔ (مزید تفصیل کے لیے *”ضیائے حدیث“* ص:157— تا —161—، کا مطالعہ کریں)

لفظِ *صیغة* کونسا صیغہ ہے ؟ ـــــــــــــــــــــــــــــــ 💫 *مصدر* 💫 *ثلاثی مجرد* 💫 *اجوف واوی* 💫 *از باب: نصر ینصر* اصل میں *صِوْغة* تھا واو کو یاء سے بدلا تو *صیغة* بن گیا۔