MUFTI ABDUSSUBHAN MISBAHI
February 15, 2025 at 01:40 PM
*حضور سید عالم ﷺ کے اخلاق کریمانہ*
عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: خَدَمْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَ سِنِينَ، لَا وَاللَّهِ مَا سَبَّنِي سَبَّةً قَطُّ، وَلَا قَالَ لِي: أُفٍّ قَطُّ، وَلَا قَالَ لِشَيْءٍ فَعَلْتُهُ: لِمَ فَعَلْتَهُ، وَلَا لِشَيْءٍ لَمْ أَفْعَلْهُ: أَلَا فَعَلْتَهُ“• (مسند الإمام أحمد، مسند أنس بن مالك رضي الله عنه، حدیث نمبر:13034)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حضرتِ انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ ﷺ کی دس سال خدمت کی، قسم بخدا! نہ تو کبھی آپ ﷺ نے مجھے بُرا بھلا کہا، نہ کبھی اُف تک کہا، نہ کبھی کسی کام پر جو میں نے کیا، یہ فرمایا کہ: یہ کیوں کیا؟ اور نہ کبھی کسی کام پر جو میں نے نہ کیا، یہ فرمایا کہ: یہ کیوں نہ کیا؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*شرحِ حدیث*: دور حاضر کے تناظر میں:
حضور سیّد عالم ﷺ کے اخلاق کریمانہ، صبر، اور بلند ظرفی کی عظیم مثال ہے۔ آج کے دور میں، جہاں والدین بچوں پر چیخ رہے ہوتے ہیں، دفاتر میں باس ملازمین کو ڈانٹ ڈپٹ رہے ہوتے ہیں، اور لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کو طعنے دے رہے ہوتے ہیں، وہاں اس حدیث کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا بے حد ضروری ہے۔
1. *لیڈرشپ اور مینجمنٹ میں سبق*
ذرا تصور کریں!
آپ کسی بڑی عظیم الشان کمپنی کے CEO ہیں، اور آپ کا ایک اسسٹنٹ مسلسل چھوٹے موٹے کاموں میں غلطیاں کر رہا ہے۔ کبھی ای میل غلط بھیج دیتا ہے، کبھی میٹنگ کے نوٹس ٹھیک سے تیار نہیں کر پاتا، کبھی کوئی فائل غلط جگہ رکھ دیتا ہے۔ عام طور پر کیا ہوتا ہے؟ آپ غصے میں آ کر اسے جھڑک دیتے ہیں، یا کم از کم طنزیہ جملہ کہہ دیتے ہیں:
"اتنا بھی نہیں آتا؟ تمہاری ٹریننگ کس نے کی تھی؟"
یا پھر آپ گھر میں ہیں، اور آپ کا چھوٹا بھائی کوئی چیز غلطی سے توڑ دیتا ہے، بیوی کھانے میں نمک زیادہ ڈال دیتی ہے، یا کوئی دوست کسی وعدے پر پورا نہیں اترتا۔ ہم فوراً زبان کھولتے ہیں:
"یہ تم نے کیوں کیا؟ کیا سوچ کر ایسا کیا؟ تھوڑا دھیان نہیں دے سکتے؟"
یہ ہمارا عام رویہ ہے، مگر رسول اللہ ﷺ کا انداز اس سے بالکل مختلف تھا۔
یعنی: آج کے دور میں ہر شخص کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی کی رہنمائی کر رہا ہے، چاہے وہ والد ہو، ایک استاد ہو، ایک کمپنی کا CEO ہو یا ایک عام مینیجر۔ نبی کریم ﷺ کی یہ سنت مبارکہ ہمیں سکھاتی ہے کہ اگر آپ کو قیادت کرنی ہے، تو سختی اور ڈانٹ ڈپٹ کے بجائے شفقت اور نرمی اپنائیں۔ ایک اچھا باس وہ ہوتا ہے جو اپنے ملازمین کی غلطیوں کو نظر انداز کرے، ان کی حوصلہ افزائی کرے اور ان کی اصلاح محبت سے کرے، نہ کہ جھڑک کر۔
2. *ورک کلچر میں مثبت رویہ*
دفاتر میں اکثر لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر طعنہ زنی کرتے ہیں اور ماتحتوں کی غلطیوں پر انہیں نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کی سیرتِ مبارکہ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اگر کسی نے غلطی کر بھی دی تو نرمی اور محبت سے سمجھانا بہتر ہے بجائے اس کے کہ فوراً غصہ کیا جائے یا شرمندہ کیا جائے۔
3. *"غلطی ہوئی؟ کوئی بات نہیں!" – نیا مینجمنٹ ماڈل*
آج دنیا میں جدید مینجمنٹ اور لیڈرشپ کا ایک نیا تصور مقبول ہو رہا ہے: "Growth Mindset Leadership"، یعنی ایسا قائد بنو جو غلطیوں پر ملامت کرنے کے بجائے سیکھنے کا موقع دے۔
یہ وہی ماڈل ہے جو نبی کریم ﷺ نے 1450 سال پہلے ہمیں دیا ہے!
حضرت انس رضی اللہ عنہ چھوٹے تھے، خدمت میں غلطیاں ہوتی ہوں گی، مگر نبی کریم ﷺ نے کبھی نہیں کہا: "یہ کیوں کیا؟"
اگر انس رضی اللہ عنہ کسی کام کو کرنا بھول جاتے، تو بھی کبھی نہیں کہا: "یہ کیوں نہیں کیا؟"
یہ ایک "Mentor Mindset" ہے، جہاں استاد یا رہنما اپنے شاگردوں کو حوصلہ دیتا ہے، نہ کہ انہیں خوف میں مبتلا کر دیتا ہے۔
4. *"ریلیشن شپ ہیکس" – ازدواجی زندگی میں کامیابی کا راز*
اگر آج کسی شوہر سے پوچھیں کہ بیوی کی کون سی عادت بری لگتی ہے، تو ایک لمبی لسٹ نکال لے گا!
"یہ بات مانتی نہیں!"
"ہر چیز میں اپنی مرضی چلانا چاہتی ہے!"
"کھانے میں کبھی مصالحہ زیادہ، کبھی کم!" وغیرہ وغیرہ!
یا کسی بیوی سے شوہر کے بارے میں پوچھیں، تو وہ بھی شکایتوں کی بارش کر دے گی۔
*لیکن غور کریں:*
نبی کریم ﷺ نے کبھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نہیں کہا کہ "یہ کیوں کیا؟" یا "یہ کیوں نہیں کیا؟"
یعنی اگر بیوی کوئی کام ویسے نہ کرے جیسے آپ چاہتے ہیں، تو تحمل رکھیں، نرمی سے سمجھائیں، طنز اور غصہ چھوڑ دیں۔
یہی بات شوہروں پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ اگر وہ کوئی کام نہ کریں یا غلط کریں، تو فوراً شکایتیں نہ کریں، بلکہ صبر، نرمی اور حکمت سے بات کریں۔
*گھریلو زندگی میں ہم آہنگی*
بیوی اور شوہر کے تعلقات میں بھی یہ حدیث بہترین رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ اگر آپ کا جیون ساتھی کوئی کام ویسا نہیں کرتا جیسا آپ چاہتے ہیں، تو اسے طنز کرنے یا جھڑکنے کے بجائے نرمی سے اس کی درست سمت کی طرف رہنمائی کریں۔
5. *"پرنٹنگ" – بچوں کی تربیت کا بہترین اصول*
آج کے والدین بچوں کو مسلسل کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
"بیٹا، یہ کیوں کیا؟"
"یہ کیوں نہ کیا؟"
"کتنی بار کہا ہے، پھر بھی غلطی کر رہے ہو!"
*نتیجہ؟*
بچے خوداعتمادی کھو دیتے ہیں۔
وہ ہر وقت پریشر میں رہتے ہیں۔
بعض بچے بغاوت پر اتر آتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کا اصول دیکھیں: حضرت انس رضی اللہ عنہ، جو اس وقت ایک "ٹین ایجر" تھے، ان سے غلطیاں بھی ہوئیں، کوتاہیاں بھی ہوئیں، لیکن کبھی انہیں جھڑکا نہیں گیا۔ نتیجہ؟
انس رضی اللہ عنہ نبی ﷺ سے شدید محبت کرنے لگے۔
انہوں نے آپ کی ہر بات دل سے اپنائی۔
وہ زندگی بھر نبی ﷺ کی سنت پر عمل پیرا رہے۔
اگر والدین اسی سنت پر عمل کریں، تو بچے محبت سے سیکھیں گے، زبردستی سے نہیں۔
آج کل والدین ہر چھوٹی غلطی پر بچوں کو ڈانٹنے لگتے ہیں، جس سے بچے ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس حدیث سے ہمیں سیکھنا چاہیے کہ بچوں کو غلطیوں پر فوراً ڈانٹنا یا سوالات کی بوچھار کرنا ضروری نہیں، بلکہ صبر اور سمجھداری سے کام لینا زیادہ مؤثر ہے۔
6. *"سوشل میڈیا ایتھکس" – نرم لہجے کی طاقت*
آج کل سوشل میڈیا پر معمولی اختلافِ رائے پر لوگ فوراً سخت الفاظ استعمال کرتے ہیں:
"تمہیں کچھ پتا بھی ہے؟"
"یہ کتنی بیوقوفی کی بات کی ہے!"
"ایسی سوچ رکھنے والوں کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے!"
*لیکن نبی کریم ﷺ کا طریقہ دیکھیں:*
کسی کی بات غلط ہوتی، تب بھی "اُف" تک نہ کہتے۔
کوئی ناسمجھی کی بات کرتا، تب بھی نرم لہجے میں سمجھاتے۔
اگر ہم بھی یہی اپنائیں، تو آن لائن اور آف لائن دونوں دنیا میں زیادہ محبت، سکون اور برداشت پیدا ہو سکتی ہے۔
یعنی: آج کل سوشل میڈیا: یو ٹیوب، انسٹاگرام، واٹس ایپ اور فیس بک وغیرہ پر لوگوں کی عادت بن گئی ہے کہ اختلافِ رائے پر سخت الفاظ استعمال کرتے ہیں، تنقید کے نام پر لوگوں کو نیچا دکھاتے ہیں اور نفرت پھیلاتے ہیں۔ اگر ہم اس حدیث کی روشنی میں اپنی گفتگو کو نرمی اور حکمت کے سانچے میں ڈھال لیں، تو ہمارے معاشرے میں محبت اور بھائی چارے کو فروغ ملے گا۔
8.*عملی پیغام:*
عملی پیغام یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کے اخلاق کتنے عظیم تھے۔ نہ غصہ، نہ طعنہ، نہ سوالات کی بھرمار، بلکہ سراسر شفقت اور حسنِ سلوک۔ اگر ہم نبی کریم ﷺ کی اس سنت کو اپنی زندگی میں نافذ کریں، تو ہمارے تعلقات بہتر ہوں گے، ورک کلچر خوشگوار ہوگا، اور سب سے بڑھ کر، ہم دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کریں گے۔
9. *حضور نبی کریم ﷺ کے اخلاقِ حسنہ – قرآن و حدیث کی روشنی میں*
حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ مبارکہ حسنِ اخلاق کا کامل نمونہ تھی۔ آپ ﷺ کے اخلاق کی عظمت کا اعتراف خود خالقِ کائنات نے فرمایا:
*قرآن کریم میں نبی کریم ﷺ کے اخلاق*
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:
1. "وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ"
(اور بے شک آپ عظیم الشان خلق (اخلاق) پر فائز ہیں۔) (سورۃ القلم: 4)
یہ آیت اس بات کا اعلان ہے کہ نبی کریم ﷺ کی سیرت اور اخلاق تمام انسانیت کے لیے بہترین نمونہ ہیں۔
2. "لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ"
(بے شک تمہارے لیے رسول اللہ (ﷺ) کی ذات میں بہترین نمونہ ہے۔) (سورۃ الأحزاب: 21)
یہ آیت ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ ہر مسلمان کو اپنے اخلاق و کردار کو نبی اکرم ﷺ کے اخلاق کے مطابق بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
*حدیثِ مبارکہ میں نبی کریم ﷺ کے اخلاق*
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب کسی نے نبی اکرم ﷺ کے اخلاق کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:
"كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ"
(آپ ﷺ کے اخلاق قرآن تھے۔) (مسند احمد، مسلم)
یعنی نبی کریم ﷺ کی عملی زندگی قرآن کی عملی تفسیر تھی۔ آپ ﷺ جو کچھ قرآن میں موجود ہے، وہی اپنی زندگی میں نافذ فرماتے تھے۔
*نبی کریم ﷺ کے اخلاق کی نمایاں خصوصیات*
1. *حلم و بردباری*
آپ ﷺ کا حلم اور صبر بے مثال تھا۔ جب اہلِ طائف نے آپ ﷺ کو پتھر مار کر زخمی کر دیا، تب بھی آپ نے ان کے لیے بددعا نہ کی بلکہ اللہ تعالیٰ سے ان کی ہدایت کی دعا فرمائی۔
2. *عفو و درگزر*
فتح مکہ کے موقع پر جب قریش کے وہی لوگ آپ ﷺ کے سامنے کھڑے تھے جنہوں نے آپ کو طرح طرح کی اذیتیں دی تھیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا:
"لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ، اذْهَبُوا فَأَنْتُمُ الطُّلَقَاءُ"
(آج تم پر کوئی گرفت نہیں، جاؤ، تم سب آزاد ہو۔) (سیرت ابن ہشام)
یہ وہ اعلیٰ ظرفی ہے جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔
3. *رحمت و شفقت*
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو "رحمت للعالمین" بنا کر بھیجا:
"وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ"
(اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔) (سورۃ الأنبیاء: 107)
نبی کریم ﷺ بچوں، یتیموں، عورتوں، غلاموں، حتیٰ کہ جانوروں تک پر بھی بے پناہ شفقت فرمایا کرتے تھے۔
4. *سادگی اور عاجزی*
آپ ﷺ کی سادگی بے مثال تھی۔ آپ عام لوگوں کی طرح رہتے، خود کام کرتے، دوسروں کی مدد فرماتے اور تکلف سے دور رہتے تھے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"میں نے قیصر و کسریٰ کے بادشاہوں کے دربار دیکھے، لیکن محمد ﷺ سے زیادہ سادہ اور باوقار شخصیت کسی کی نہ دیکھی۔"
5. *سچائی اور دیانت داری*
نبی کریم ﷺ کو "صادق" اور "امین" کہا جاتا تھا۔ آپ ﷺ نے کبھی کسی سے جھوٹ نہیں بولا، نہ کبھی وعدہ خلافی کی۔
حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"جب میں نے پہلی مرتبہ نبی کریم ﷺ کے چہرے کو دیکھا تو پہچان گیا کہ یہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہو سکتا۔" (ترمذی)
نبی کریم ﷺ کے اخلاق کا ہر پہلو بہترین اور کامل ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان اخلاقِ حسنہ کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں تاکہ دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو سکیں۔ نبی اکرم ﷺ کی سیرت کو اپنانا ہی حقیقی کامیابی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم ﷺ کے اخلاقِ حسنہ کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
*حتمی نتیجہ: کامیابی کا گولڈن فارمولا!*
اگر آپ زندگی میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں، تو نبی کریم ﷺ کے اس اصول کو اپنا لیں:
"نہ غیر ضروری تنقید کرو، نہ طنز کرو، نہ سخت جملے بولو۔ اگر کوئی غلطی کرے، تو نرمی اور محبت سے اس کی اصلاح کرو۔"
یہی اصول:
✅ بہترین لیڈر بننے کا راز ہے۔
✅ بہترین شوہر/بیوی بننے کا راز ہے۔
✅ بہترین والدین بننے کا راز ہے۔
✅ بہترین دوست بننے کا راز ہے۔
✅ آن لائن اور آف لائن، ہر جگہ محبت پھیلانے کا راز ہے۔
کیا آپ اس حدیث پر عمل کرنے کے لیے تیار ہیں؟ چیلنج قبول ہے؟
*हज़ूर सैयद आलम के अख़्लाक़े करीमाना*
*शरह-ए-हदीस: दौर-ए-हाज़िर के तनाज़ुर में*
यह हदीस हुज़ूर सैय्यद-ए-आलम के अख़लाक़-ए-करीमाना, सब्र और बुलंद ज़र्फ़ी की अज़ीम मिसाल है। आज के दौर में, जहाँ वालिदैन बच्चों पर चीख़ रहे होते हैं, दफ्तरों में बॉस मुलाज़मीन को डाँट-डपट रहे होते हैं, और लोग छोटी-छोटी बातों पर एक-दूसरे को ताने दे रहे होते हैं, वहाँ इस हदीस को समझना और इस पर अमल करना बेहद ज़रूरी है।
1. *लीडरशिप और मैनेजमेंट में सबक़*
ज़रा तसव्वुर करें!
आप किसी बड़ी अज़ीम-ओ-शान कंपनी के CEO हैं, और आपका एक असिस्टेंट लगातार छोटे-मोटे कामों में ग़लतियाँ कर रहा है। कभी ईमेल ग़लत भेज देता है, कभी मीटिंग के नोट्स ठीक से तैयार नहीं कर पाता, कभी कोई फाइल ग़लत जगह रख देता है। आम तौर पर क्या होता है?
आप ग़ुस्से में आकर उसे झिड़क देते हैं, या कम अज़ कम तंज़ीया जुमला कह देते हैं:
"इतना भी नहीं आता? तुम्हारी ट्रेनिंग किसने की थी?"
या फिर आप घर में हैं, और आपका छोटा भाई कोई चीज़ ग़लती से तोड़ देता है, बीवी खाने में नमक ज़्यादा डाल देती है, या कोई दोस्त किसी वादे पर पूरा नहीं उतरता। हम फ़ौरन ज़बान खोलते हैं:
"ये तुमने क्यों किया? क्या सोचकर ऐसा किया? थोड़ा ध्यान नहीं दे सकते?"
यह हमारा आम रवैया है, मगर हुज़ूर नबी-ए-करीम का अंदाज़ इस से बिलकुल मुख़्तलिफ़ था।
यानी:
आज के दौर में हर शख्स कहीं न कहीं किसी न किसी की रहनुमाई कर रहा है, चाहे वह वालिद हो, एक उस्ताद हो, एक कंपनी का CEO हो या एक आम मैनेजर। नबी करीम की यह सीरते मुबारका हमें सिखाती है कि अगर आपको क़ियादत करनी है, तो सख़्ती और डाँट-डपट के बजाय शफ़क़त और नरमी अपनाएँ।
2. *वर्क कल्चर में सकारात्मक रवैया*
दफ्तरों में अक्सर लोग छोटी-छोटी बातों पर ताना ज़नी करते हैं और मातहतों की ग़लतियों पर उन्हें नीचा दिखाने की कोशिश करते हैं। नबी करीम की सीरत-ए-मुबारका हमें यह सिखाती है कि अगर किसी ने ग़लती कर भी दी तो नरमी और मुहब्बत से समझाना बेहतर है बजाय इस के कि फ़ौरन ग़ुस्सा किया जाए या शर्मिंदा किया जाए।
3. *"ग़लती हुई? कोई बात नहीं!" – नया मैनेजमेंट मॉडल*
आज दुनिया में जदीद मैनेजमेंट और लीडरशिप का एक नया तसव्वुर मक़बूल हो रहा है: "Growth Mindset Leadership", यानी ऐसा क़ाइद बनो जो ग़लतियों पर मलामत करने के बजाय सीखने का मौक़ा दे।
यह वही मॉडल है जो नबी करीम ने 1450 साल पहले हमें दिया है!
हज़रत अनस छोटे थे, ख़िदमत में ग़लतियाँ होती होंगी, मगर नबी करीम ने कभी नहीं कहा:
"यह क्यों किया?"
अगर हज़रत अनस किसी काम को करना भूल जाते, तो भी कभी नहीं कहा:
"यह क्यों नहीं किया?"
यह एक "Mentor Mindset" है, जहाँ उस्ताद या रहनुमा (मार्गदर्शक) अपने शिष्यों को हौसला देता है, न कि उन्हें भय में डालता है।
4. *"रिलेशनशिप हैक्स" – शादीशुदा ज़िंदगी में कामयाबी का राज़*
अगर आज किसी शौहर से पूछें कि बीवी की कौन सी आदत बुरी लगती है, तो एक लंबी लिस्ट निकाल लेगा!
"यह बात मानती नहीं!"
"हर चीज़ में अपनी मर्ज़ी चलाना चाहती है!"
"खाने में कभी मसाला ज़्यादा, कभी कम!"
या किसी बीवी से शौहर के बारे में पूछें, तो वह भी शिकायतों की बारिश कर देगी।
मगर ग़ौर करें:
नबी करीम ने कभी हज़रत आयशा से नहीं कहा कि "यह क्यों किया?" या "यह क्यों नहीं किया?"
यानी अगर बीवी कोई काम वैसे न करे जैसे आप चाहते हैं, तो तहम्मुल रखें, नरमी से समझाएँ, तंज़ और ग़ुस्सा छोड़ दें।
बीवी और शोहर के रिश्ते में भी यह हदीस बेहतरीन रहनुमाई फराहम करती है। अगर आपका जीवन साथी कोई काम वैसा नहीं करता जैसा आप चाहते हैं, तो उसे तंज करने या झिड़कने के बजाय नरमी से उसकी सही दिशा में रहनुमाई करें।
5. *"प्रिंटिंग उसूल" – बच्चों की तर्बियत का बेहतरीन उसूल*
आज के वालिदैन बच्चों को मुसलसल कंट्रोल करने की कोशिश करते हैं।
"बेटा, यह क्यों किया?"
"यह क्यों न किया?"
"कितनी बार कहा है, फिर भी ग़लती कर रहे हो!" वगै़रह वगै़रह।
*नतीजा?*
बच्चे ख़ुद एतमादी खो देते हैं।
वह हर वक़्त प्रेशर में रहते हैं।
कुछ बच्चे बग़ावत पर उतर आते हैं।
नबी-ए-करीम सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम का उसूल देखें:
हज़रत अनस जो उस वक़्त एक "टीन एजर" थे, उनसे ग़लतियाँ भी हुईं, कोताहियाँ भी हुईं, लेकिन कभी उन्हें झिड़का नहीं गया।
नतीजा?
अनस (रज़ियल्लाहु अन्हु) नबी-ए-करीम से शदीद मोहब्बत करने लगे।
उन्होंने आपकी हर बात दिल से अपनाई।
वह जिंदगी भर नबी-ए-करीम की सुन्नत पर अमल करते रहे।
अगर वालिदैन इसी सुन्नत पर अमल करें, तो बच्चे मुहब्बत से सीखेंगे, ज़बरदस्ती से नहीं।
आजकल वालिदैन हर छोटी ग़लती पर बच्चों को डांटने लगते हैं, जिससे बच्चे मानसिक दबाव का शिकार हो जाते हैं।
इस हदीस से हमें सीखना चाहिए कि बच्चों को ग़लतियों पर फौरन डांटना या सवालात की बौछार करना ज़रूरी नहीं, बल्कि सब्र और समझदारी से काम लेना ज़्यादा मुअस्सिर है।
6. *"सोशल मीडिया एथिक्स" – नरम लहजे की ताक़त*
आजकल सोशल मीडिया पर मामूली इख़्तिलाफ़-ए-राय पर लोग फ़ौरन सख़्त अल्फ़ाज़ इस्तेमाल करते हैं:
"तुम्हें कुछ पता भी है?"
"यह कितनी बेवकूफ़ी की बात की है!"
"ऐसी सोच रखने वालों की अक़्ल पर मातम ही किया जा सकता है!"
मगर नबी करीम का तरीक़ा देखें:
किसी की बात ग़लत होती, तब भी "उफ़" तक न कहते।
कोई नासमझी की बात करता, तब भी नरम लहजे में समझाते।
अगर हम भी यही अपनाएँ, तो ऑनलाइन और ऑफलाइन दोनों दुनिया में ज़्यादा मुहब्बत, सुकून और बर्दाश्त पैदा हो सकती है।
यानी: आजकल सोशल मीडिया: यूट्यूब, इंस्टाग्राम, व्हाट्सएप और फेसबुक वगैरह पर लोगों की आदत बन गई है कि इख्तिलाफ-ए-राय पर सख्त अल्फ़ाज़ इस्तेमाल करते हैं, तन्क़ीद के नाम पर लोगों को नीचा दिखाते हैं और नफरत फैलाते हैं। अगर हम इस हदीस की रोशनी में अपनी गुफ्तगू को नरमी और हिकमत के सांचे में ढाल लें, तो हमारे समाज में मोहब्बत और भाईचारे को फरोग मिलेगा।
8. *अमली पैग़ाम:*
अमली पैग़ाम यह है कि नबी करीम के अख़लाक़ कितने अज़ीम थे। न ग़ुस्सा, न तंज़, न सवालात की भरमार, बल्कि सरासर शफ़क़त और हुस्न-ए-सुलूक। अगर हम नबी करीम की इस सुन्नत को अपनी ज़िंदगी में नाफ़िज़ करें, तो हमारे ताल्लुक़ात बेहतर होंगे, वर्क कल्चर ख़ुशगवार होगा, और सबसे बढ़कर, हम दुनिया और आख़िरत में कामयाबी हासिल करेंगे।
9. *हज़रत नबी करीम के अख़लाक़-ए-हसना – क़ुरआन और हदीस की रोशनी में*
हज़रत हुज़ूर नबी-ए-करीम की ज़ात-ए-मुबारका हुस्न-ए-अख़लाक़ का एक मुकम्मल नमूना थी। हुज़ूर नबी-ए-करीम के अख़लाक़ की अज़मत का एतराफ़ खुद ख़ालिक-ए-कायनात ने फ़रमाया।
*क़ुरआन करीम में नबी करीम के अख़लाक़*
अल्लाह तआला ने क़ुरआन में फ़रमाया:
1. "وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ"
(और बेशक आप अज़ीम-उश-शान अख़लाक़ पर फ़ाइज़ हैं।) (सूरह अल-क़लम: 4)
यह आयत इस बात का ऐलान है कि नबी करीम की सीरत और अख़लाक़ तमाम इंसानियत के लिए बेहतरीन नमूना हैं।
2. "لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ"
(बेशक तुम्हारे लिए रसूलुल्लाह की ज़ात में बेहतरीन नमूना है।) (सूरह अल-अहज़ाब: 21)
यह आयत हमें यह पैग़ाम देती है कि हर मुसलमान को अपने अख़लाक़ व किरदार को हुज़ूर नबी-ए-करीम के अख़लाक़ के मुताबिक़ बनाने की कोशिश करनी चाहिए।
*हदीस-ए-मुबारका में नबी करीम के अख़लाक़*
हज़रत आयशा रज़ियल्लाहु अन्हा से जब किसी ने हुज़ूर नबी-ए-करीम सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम के अख़लाक़ के बारे में पूछा तो आपने फ़रमाया:
"كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ"
(हुज़ूर नबी-ए-करीम का अख़लाक़ क़ुरआन था।) (मुसनद अहमद, मुस्लिम)
यानी नबी करीम की अमली ज़िंदगी क़ुरआन की अमली तफ़सीर थी। हुज़ूर जो कुछ क़ुरआन में मौजूद है, वही अपनी ज़िंदगी में नाफ़िज़ फ़रमाते थे।
*नबी करीम के अख़लाक़ की नुमायां ख़ुसूसियात*
1. *सब्र और बुर्दबारी*
हुज़ूर नबी-ए-करीम का सब्र और बुर्दबारी बेमिसाल था। जब अहल-ए-ताइफ़ ने आपको पत्थर मार कर ज़ख़्मी कर दिया, तब भी आपने उनके लिए बद्दुआ न की बल्कि अल्लाह तआला से उनकी हिदायत की दुआ फ़रमाई।
2. *अफ़्वो-दरगुज़र (माफ़ करने की आदत)*
फ़तह-ए-मक्का के मौके पर जब क़ुरैश के वही लोग आपके सामने खड़े थे जिन्होंने आपको तरह-तरह की अज़ीयतें दी थीं, तो आपने फ़रमाया:
"لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ، اذْهَبُوا فَأَنْتُمُ الطُّلَقَاءُ"
(आज तुम पर कोई गिरफ़्त नहीं, जाओ, तुम सब आज़ाद हो।) (सीरत इब्ने-हिशाम)
यह वह आला ज़र्फ़ी है जिसकी मिसाल दुनिया में नहीं मिलती।
3. *रहमत और शफ़क़त*
अल्लाह तआला ने नबी करीम को "रहमतुल्लिल-आलमीन" बना कर भेजा:
"وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ"
(और हमने आपको तमाम जहानों के लिए रहमत बना कर भेजा है।) (सूरह अल-अंबिया: 107)
नबी करीम बच्चों, यतीमों, औरतों, ग़ुलामों, यहाँ तक कि जानवरों तक पर भी बेपनाह शफ़क़त फ़रमाया करते थे।
4. *सादगी और आजिज़ी*
हुज़ूर नबी-ए-करीम की सादगी बेमिसाल थी। आप आम लोगों की तरह रहते, खुद काम करते, दूसरों की मदद फ़रमाते और तकल्लुफ़ से दूर रहते थे।
हज़रत उमर फ़ारूक़ रज़ियल्लाहु अन्हु फ़रमाते हैं:
"मैंने कैसर और किसरा के बादशाहों के दरबार देखे, लेकिन मुहम्मद सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम से ज़्यादा सादा और बाऔक़ार शख़्सियत किसी की न देखी।"
5. *सचाई और अमानतदारी*
हुज़ूर नबी-ए-करीम सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम को "सादिक़" और "अमीन" कहा जाता था। हुज़ूर नबी-ए-करीम ने कभी किसी से झूठ नहीं बोला, न कभी वादा ख़िलाफ़ी की।
हज़रत अब्दुल्लाह बिन सलाम रज़ियल्लाहु अन्हु फ़रमाते हैं:
"जब मैंने पहली मर्तबा नबी करीम के चेहरे को देखा तो पहचान गया कि यह किसी झूठे का चेहरा नहीं हो सकता।" (तिर्मिज़ी)
नबी करीम के अख़लाक़ का हर पहलू बेहतरीन और कामिल है। हमें चाहिए कि इन अख़लाक़-ए-हसना को अपनी ज़िंदगी का हिस्सा बनाएं ताकि दुनिया और आख़िरत में कामयाब हो सकें। नबी-ए-करीम की सीरत को अपनाना ही हक़ीक़ी कामयाबी है।
अल्लाह तआला हमें नबी करीम के अख़लाक़-ए-हसना को अपनाने की तौफ़ीक़ अता फ़रमाए। आमीन।
10. *हत्मी नतीजा: कामयाबी का गोल्डन फ़ॉर्मूला!*
अगर आप ज़िंदगी में कामयाब होना चाहते हैं, तो नबी करीम के इस उसूल को अपना लें:
"न गै़र ज़रूरी तनक़ीद करो, न तंज़ करो, न सख़्त जुमले बोलो। अगर कोई ग़लती करे, तो नरमी और मुहब्बत से उसकी इस्लाह करो।
यही उसूल:
✅ बेहतरीन लीडर बनने का राज़
✅ बेहतरीन शौहर/बीवी बनने का राज़
✅ बेहतरीन वालिदैन बनने का राज़
✅ बेहतरीन दोस्त बनने का राज़
✅ हर जगह मुहब्बत फैलाने का राज़
क्या आप इस हदीस पर अमल करने के लिए तैयार हैं? चैलेंज क़बूल है?