MUFTI ABDUSSUBHAN MISBAHI
MUFTI ABDUSSUBHAN MISBAHI
February 15, 2025 at 05:32 PM
سلَفِ صالحین پر تیشہ زنی (قسط : 2) تحریر : نثار مصباحی [حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کی اولیت] ایمان لانے میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کی اولیت کا قول حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ، امام ابن شہاب زہری، امام قتادہ سدوسی، وغیرہ صحابہ و تابعین اور امام موسی بن عقبہ مدنی، امام ابن اسحاق، اور علامہ واقدی وغیرہ ائمۂ سیر و مغازی سے منقول ہے۔ (مقدمۂ ابن صلاح، شرح الزرقانی علی المواھب) کئی ائمہ و محدثین نے اسی کو صحیح و راجح مانا ہے۔ حتی کہ امام ثعلبی مفسر رحمه الله(متوفی 427ھ) اور امام ابن عبد البر قرطبی رحمه الله (متوفی 463ھ) اور امام ابن الأثیر جزری وغیرہ نے اس پر اجماع و اتفاق کا بھی دعوی کیا ہے، اور کہا ہے کہ ان کی اولیت میں کوئی اختلاف نہیں۔ جو اختلاف ہے وہ ان کے بعد ہے۔ یعنی اُن کے بعد کون ایمان لائے، اس میں اختلاف ہے، نہ کہ حضرت خدیجہ کی اولیت میں۔!! امام قرطبی مفسر فرماتے ہیں: ادَّعَى الثَّعْلَبِيُّ الْمُفَسِّرُ اتِّفَاقَ الْعُلَمَاءِ عَلَى أَنَّ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ خَدِيجَةُ، وَأَنَّ اخْتِلَافَهُمْ إِنَّمَا هُوَ فِيمَنْ أَسْلَمَ بَعْدَهَا. (تفسير القرطبي = الجامع لأحكام القرآن، تفسير سورة التوبة (٩): آية ١٠٠، ج ٨، ص ٢٣٧) المواهب اللدنيه میں امام قسطلانی رحمه الله(متوفى 923ھ) لکھتے ہیں: قال (ابن عبد البر) : واتفقوا على أن خديجة أول من أسلم مطلقا" اھ۔ اس کے تحت علامہ زرقانی رحمہ اللہ(متوفی 1122ھ) لکھتے ہیں: و وافقه -على حكاية الاتفاق- الثعلبي والسهيلي. ((شرح الزرقاني على المواهب، ١/٤٥١، دار الكتب العلمية، بيروت)) علامہ زرقانی لکھتے ہیں: "قال ابن الأثير: لم يتقدمها رجل ولا امرأة بإجماع المسلمين" (شرح الزرقاني على المواهب، ١/٤٤٣، ذكر أول من آمن بالله ورسوله) یعنی ابن اثیر کے مطابق حضرت خدیجہ کی اولیتِ مطلقہ پر مسلمانوں کا اجماع ہے!! ان حضرات نے سیدتنا خدیجہ کی اولیتِ مطلقہ پر اجماع کا دعوی تو کر دیا مگر ان کا یہ دعوی مقبول نہیں ہو سکا۔ کیوں کہ اگر یہ اجماعی بات ہوتی تو زمانۂ سلف سے ہی مختلف فیہ کیسے ہوتی؟ ہاں یہ بات صحیح ہے کہ محدثین کی ایک بڑی جماعت اسی قول کو راجح اور درست مانتی ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا سب سے پہلے ایمان لائیں۔ امام ابن الملقن رحمہ اللہ(متوفی 804ھ) لکھتے ہیں: اخْتَلَف السّلف فِي أَوَّلهمْ إسلاما، فَقيل: أبو بكر الصديق، و قيل: علي،.(وقيل:) زيد بن حارثة، وَقيل : خَدِيجَة. وَادّعى الثَّعْلَبِيّ فِيهِ الْإِجْمَاع وَأَن الْخلاف فِيمَن بعْدهَا. قلت: وَهُوَ الصَّوَاب عِنْد جمَاعَة من الْمُحدثين. ((ملتقطا: المقنع في علوم الحديث ، لابن الملقن، ٢/٥٠٠ ٢/٥٠١، النوع التاسع والثلاثون: معرفة الصحابة)) اب یہاں ڈاکٹر جائسی سے ایک برمحل سوال ہو سکتا ہے کہ جب "مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابو بکر اور غلاموں میں حضرت زید بن حارثہ سب سے پہلے ایمان لائے" اس طرح تفصیل بیان کرنے والے لوگ -آپ کے بقول- مولا علی کی اولیتِ مطلقہ کو چھپانے کے لیے ایسا قول کر رہے تھے تو جن لوگوں نے مولا علی -كرّم الله تعالى وجهه- کی اولیت ماننے کے بجائے حضرت خدیجہ -رضي الله تعالى عنها- کے لیے نہ صرف اولیت مانی بلکہ اس پر اتفاقِ علما اور اجماعِ مسلمین کا دعوی بھی کیا ہے، کیا ان حضرات نے بھی مولا علی کی اولیت چھپانے کے لیے یہ قول کیا ہے؟ امام نووی رحمہ اللہ(متوفی 676ھ) نے تو ترجیح دیتے ہوئے صاف لکھا ہے: "والصحيح : خديجة، ثم أبو بكر، ثم علي" یعنی صحیح بات یہ ہے کہ پہلے حضرت خدیجہ ایمان لائیں، پھر حضرت ابو بکر، پھر حضرت علی۔ رضی اللہ تعالی عنہم (تھذیب الأسماء واللغات، ۱/۳۴۴، ترجمۃ علی بن أبی طالب رضی اللہ تعالی عنہ) البتہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے دو سطر بعد ہی انھوں نے اسی تطبیق و تقسیم کو زیادہ ورع و احتیاط پر مبنی کہتے ہوئے ذکر بھی کیا ہے جو ڈاکٹر جائسی کے بقول : مولا علی کرم اللہ تعالی وجہہ کی اولیت مطلقہ پر پردہ ڈالنے اور اسے چھپانے کے لیے کی گئی ہے!! امام قسطلانی بھی "مواہب لدنیہ" میں اسی ترتیب کے قائل ہیں جسے یہاں امام نووی نے صحیح کہا ہے۔ کیا ڈاکٹر جائسی اِن اکابر کا بھی ارادہ مشکوک بلکہ غلط ٹھہرانے کی ناروا کوشش کریں گے؟ (نوٹ : مضمون میں ابھی بہت کچھ آنا باقی ہے۔) (( جاری )) نثار مصباحی (خلیل آباد) ۱۶ شعبان ۱۴۴۶ ھ (شنبہ)

Comments