MUFTI ABDUSSUBHAN MISBAHI
MUFTI ABDUSSUBHAN MISBAHI
February 17, 2025 at 01:53 PM
*علم کی برکت: رزق کا حقیقی ذریعہ* عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ قَالَ: كَانَ أَخَوَانِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَانَ أَحَدُهُمَا يَأْتِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْآخَرُ يَحْتَرِفُ، فَشَكَا الْمُحْتَرِفُ أَخَاهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: لَعَلَّكَ تُرْزَقُ بِهِ“• (جامع الترمذي، أبواب الزهد عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، باب في التوكل علي الله، حدیث نمبر:2345) ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں دو بھائی تھے۔ ان میں سے ایک نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر رہتا تھا (یعنی دین سیکھنے میں مشغول رہتا) اور دوسرا محنت مزدوری کرتا تھا۔ ایک دن محنت مزدوری کرنے والے نے اپنے بھائی کی شکایت نبی کریم ﷺ سے کی۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا:ہو سکتا ہے کہ تمہیں اس کی وجہ سے رزق مل رہا ہو۔" ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ *شرح و بیان:* یہ حدیث آج کے دور میں ایک انقلابی پیغام دیتی ہے—ایک ایسا پیغام جو ہمارے طرزِ فکر کو جھنجھوڑتا ہے اور ہمیں بتاتا ہے کہ کامیابی صرف مالی خوشحالی کا نام نہیں، بلکہ روحانی برکت بھی ایک عظیم کامیابی ہے۔ 1. *دین اور دنیا کے توازن کا پیغام:* یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ دین اور دنیا میں توازن ضروری ہے۔ ایک بھائی دنیاوی وسائل کے لیے محنت کر رہا تھا، جبکہ دوسرا دین سیکھنے میں مشغول تھا۔ آج بھی، اگر کوئی شخص دینی علوم کے لیے وقت نکالتا ہے، تو ضروری نہیں کہ وہ "سُست" یا "کام چور" ہو، بلکہ وہ بھی ایک اہم فریضہ انجام دے رہا ہے، اور ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ سے گھر والوں پر اللہ کی برکتیں نازل ہو رہی ہوں۔ 2 *. اہلِ علم کی قدر کرنے کی ضرورت:* دورِ جدید میں ایک عام سوچ یہ ہے کہ صرف وہی لوگ قابلِ قدر ہیں جو مالی طور پر کامیاب ہوں، جبکہ دینی علوم حاصل کرنے والوں کو اکثر کمتر سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ اس حدیث میں یہ پیغام ہے کہ جو لوگ دین کے لیے خود کو وقف کرتے ہیں، ان کے طفیل اللہ دوسروں کو بھی رزق عطا کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سب لوگ روزگار چھوڑ دیں، بلکہ یہ کہ دین کے طلبہ اور علماء کی عزت اور مدد کی جائے۔ 3. *دینی تعلیم حاصل کرنے والوں کو سپورٹ کرنا:* یہ حدیث معاشرے کو یہ سکھاتی ہے کہ جو لوگ دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ان کی مدد اور سپورٹ کرنا خود ایک باعثِ برکت عمل ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے آج اسکالرشپ، انویسٹمنٹ، اور اسپانسرشپ کے ذریعے دنیاوی تعلیم حاصل کرنے والوں کی مدد کی جاتی ہے، اسی طرح دینی علوم حاصل کرنے والوں کی بھی مدد ہونی چاہیے۔ 4. *دور حاضر میں اس حدیث کی اہمیت*: ایک شخص جو مسجد میں وقت دیتا ہے، علمِ دین حاصل کرتا ہے، یا اصلاحِ معاشرہ کے لیے کام کرتا ہے، اس کا کام بھی اتنا ہی قیمتی ہے جتنا کہ کسی انجینئر، ڈاکٹر، یا کاروباری شخص کا۔ اگر آپ کسی دینی ادارے یا طالب علم کی مدد کر رہے ہیں، تو ہوسکتا ہے کہ آپ کی روزی میں جو برکت ہے، وہ انہی کی وجہ سے ہو۔ ماڈرن دنیا میں، جہاں "Productivity" اور "Output" کو ہی سب کچھ سمجھا جاتا ہے، یہ حدیث ہمیں ایک نئی سوچ دیتی ہے کہ روحانی ترقی اور دینی تعلیم بھی ایک بڑی انویسٹمنٹ ہے۔ 5. *"پروڈکٹیویٹی" کا اصل مطلب کیا ہے؟* آج کے دور میں پروڈکٹیویٹی کا مطلب ہے: کتنے گھنٹے کام کیا؟ کتنے پیسے کمائے؟ کتنی مادّی ترقی کی؟ لیکن نبی کریم ﷺ کی تعلیمات پروڈکٹیویٹی کو ایک نئی جہت دیتی ہیں— کسی کے وجود سے ملنے والی برکت اور روحانی فائدہ بھی پروڈکٹیویٹی کا حصہ ہے! ایک ماں، جو بچوں کی دینی تربیت کرتی ہے، وہ بھی پروڈکٹیو ہے۔ ایک استاد، جو علمِ دین پھیلاتا ہے، وہ بھی پروڈکٹیو ہے۔ ایک حافظِ قرآن، جو دن رات قرآن سے جُڑا ہوا ہے، وہ بھی پروڈکٹیو ہے۔ یعنی پروڈکٹیویٹی صرف مالی یا مادی کامیابی کا نام نہیں، بلکہ اللہ کی نظر میں وہی پروڈکٹیو ہے جو دوسروں کے لیے برکت کا ذریعہ بنے! 6. *آج کا "Workaholic کلچر" اور اس حدیث کی حکمت* آج ہم اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ جو شخص دن رات پیسہ کما رہا ہے، ہم اسے کامیاب سمجھتے ہیں، اور جو دین کے لیے وقت نکالتا ہے، اسے "فارغ" سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہ حدیث بتاتی ہے کہ: ہو سکتا ہے کہ جو شخص دین میں لگا ہوا ہے، وہ تمہارے لیے اللہ کی رحمت اور تمہارے رزق میں اضافے کا سبب ہو! یہ ہمارے مادی سوچ کے خلاف ایک زبردست جھٹکا ہے۔ تمہارے گھر میں اگر کوئی پانچ وقت کا نمازی ہے، تو شاید اس کی عبادت کی برکت سے تمہاری نوکری چل رہی ہے! تمہاری کمپنی میں اگر کوئی ایماندار، اللہ والا ملازم ہے، تو شاید اس کے صدقے تمہارا بزنس ترقی کر رہا ہے! تمہارے علاقے میں اگر کوئی بزرگ یا عالم دین ہے، تو ہو سکتا ہے کہ ان کی دعاؤں کی وجہ سے تم پر آزمائش نہ آئے! 7. *"سیلف میڈ" کا غلط نظریہ* آج ہر کوئی کہتا ہے: "میں اپنی محنت سے یہاں تک پہنچا ہوں!" لیکن یہ حدیث بتاتی ہے کہ شاید تمہاری ترقی کسی اور کی وجہ سے ہو رہی ہے— ماں کی دعاؤں کی وجہ سے، کسی بزرگ یا عالم دین کی برکت سے، کسی نیک آدمی کی صحبت کی بدولت۔ دنیا میں کوئی بھی مکمل "سیلف میڈ" نہیں ہوتا! اللہ مختلف لوگوں کے ذریعے ایک دوسرے کی مدد کرتا ہے، اور ہم میں سے کچھ لوگ دوسروں کے لیے "رزق کا ذریعہ" بنتے ہیں۔ 8. *اس حدیث پر عمل کیسے کریں؟* ✅ دینی طلبہ اور علماء کی عزت کریں، انہیں بوجھ نہ سمجھیں بلکہ باعثِ برکت سمجھیں۔ ✅ گھر میں جو افراد دین کی طرف زیادہ مائل ہیں، ان کو appreciate کریں۔ ✅ علماءِ دین اور دینی اداروں کو سپورٹ کریں، کیونکہ شاید آپ کا رزق انہی کی برکت سے بڑھ رہا ہو۔ ✅ اپنے اردگرد کے نیک اور متقی افراد سے جُڑے رہیں، کیونکہ وہ آپ کے لیے رحمت کا ذریعہ ہو سکتے ہیں۔ 9. *عملی پیغام:* یہ حدیث ہمیں معاشرتی رویوں پر غور کرنے، دین و دنیا میں توازن قائم رکھنے، اور علمائے دین کی عزت کرنے کا سبق دیتی ہے۔ جو لوگ دین سیکھنے میں مشغول ہیں، وہ کسی پر بوجھ نہیں، بلکہ رحمت اور برکت کا سبب ہیں۔ لہٰذا، ہمیں ایسے افراد کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور اپنے مال و وسائل کے ذریعے ان کی مدد کرنی چاہیے، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ہمارا رزق انہی کی وجہ سے ہمیں عطا ہو رہا ہو۔ 10. *نتیجہ: دین اور دنیا ساتھ ساتھ چلتے ہیں!* یہ حدیث بتاتی ہے کہ معاشرے میں ہر کردار کی اپنی جگہ ہے۔ کوئی معاشی جدوجہد کرتا ہے، تو کوئی دین کا چراغ روشن رکھتا ہے۔ اگر ایک بھائی روزگار میں مشغول ہے اور دوسرا دین کے حصول میں، تو یہ شکایت کی بات نہیں، بلکہ یہ نظامِ قدرت ہے! ہم سب کو اپنی سوچ بدلنی ہوگی—صرف مادی کامیابی کو معیار نہ بنائیں، بلکہ روحانی برکت اور دین کی خدمت کو بھی کامیابی سمجھیں! *इल्म की बरकत: रिज़्क़ का हक़ीक़ी ज़रिया* हज़रत अनस बिन मालिक रज़ियल्लाहु अन्हु से रिवायत है कि हुज़ूर नबी-ए-करीम सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम के ज़माने में दो भाई थे। उनमें से एक नबी-ए-करीम की ख़िदमत में हाज़िर रहता था (यानी दीन सीखने में मशगूल रहता) और दूसरा मेहनत मज़दूरी करता था। एक दिन मेहनत मज़दूरी करने वाले ने अपने भाई की शिकायत नबी-ए-करीम से की, तो हुज़ूर नबी-ए-करीम सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ने फ़रमाया: हो सकता है कि तुम्हें उसकी वजह से ही रिज़्क़ मिल रहा हो। (तिरमिजी़ शरीफ़, हदीस नंः 2345) *शरह व बयान:* यह हदीस आज के दौर में एक इनक़लाबी पैग़ाम देती है—एक ऐसा पैग़ाम जो हमारे तर्ज़-ए-फ़िक्र को झिंझोड़ता है और हमें बताता है कि कामयाबी सिर्फ़ माली ख़ुशहाली का नाम नहीं, बल्कि रूहानी बरकत भी एक अज़ीम कामयाबी है। 1. *दीन और दुनिया के संतुलन का पैग़ाम:* यह हदीस हमें यह बताती है कि दीन और दुनिया में संतुलन ज़रूरी है। एक भाई दुनियावी ज़रूरतों के लिए मेहनत कर रहा था, जबकि दूसरा दीन सीखने में मसरूफ़ था। आज भी, अगर कोई शख़्स दीन की तालीम के लिए वक़्त निकालता है, तो यह ज़रूरी नहीं कि वह "सुस्त" या "कामचोर" हो, बल्कि वह भी एक अहम फ़रीज़ा अंजाम दे रहा है, और हो सकता है कि उसकी वजह से ही घर वालों पर अल्लाह की बरकतें नाज़िल हो रही हों। 2. *अहले इल्म की क़द्र करने की ज़रूरत:* आज के दौर में आमतौर पर यह सोचा जाता है कि सिर्फ़ वही लोग क़ाबिले क़द्र हैं जो माली तौर पर कामयाब हैं, जबकि दीन की तालीम हासिल करने वालों को कमतर समझा जाता है। लेकिन इस हदीस में यह पैग़ाम है कि जो लोग दीन के लिए ख़ुद को वक़्फ़ करते हैं, उनके तुफ़ैल अल्लाह दूसरों को भी रिज़्क़ अता करता है। इसका मतलब यह नहीं कि सभी लोग रोज़गार छोड़ दें, बल्कि यह कि अहले इल्म की इज़्ज़त और मदद की जाए। 3. *दीन की तालीम हासिल करने वालों को सपोर्ट करना:* मालूम हुआ कि जो लोग दीन की तालीम हासिल कर रहे हैं, उनकी मदद और हिमायत करना ख़ुद एक बड़ा नेक अमल है। जिस तरह आजकल स्कॉलरशिप, इन्वेस्टमेंट, और स्पॉन्सरशिप के ज़रिए दुनियावी तालीम हासिल करने वालों की मदद की जाती है, उसी तरह दीन की तालीम हासिल करने वालों की भी मदद होनी चाहिए। 4. *इस हदीस की आज के दौर में अहमियत:* एक शख़्स जो मस्जिद में वक़्त देता है, इल्म-ए-दीन सीखता है, या इस्लाही काम करता है, उसका काम भी उतना ही क़ीमती है जितना कि किसी इंजीनियर, डॉक्टर, या ताजिर (बिजनेसमैन) का। अगर आप किसी दीनी इदारे या तलबा की मदद कर रहे हैं, तो हो सकता है कि आपकी रोज़ी में जो बरकत है, वह उन्हीं की वजह से हो। आज की दुनिया में, जहां सिर्फ़ "Productivity" और "Output" को अहमियत दी जाती है, यह हदीस हमें यह सिखाती है कि रूहानी तरक़्क़ी और दीनी तालीम भी एक बड़ी इन्वेस्टमेंट है। 5. *"प्रोडक्टिविटी" का असली मतलब क्या है?* आज के दौर में प्रोडक्टिविटी का मतलब है: ✔ कितने घंटे काम किया? ✔ कितने पैसे कमाए? ✔ कितनी मादी तरक़्क़ी की? लेकिन नबी-ए-करीम सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम की तालीमात प्रोडक्टिविटी को एक नई जहत (दिशा) देती हैं— किसी के वुजूद से मिलने वाली बरकत और रूहानी फ़ायदा भी प्रोडक्टिविटी का हिस्सा है! ✔ एक माँ, जो बच्चों की दीनी तर्बियत करती है, वह भी प्रोडक्टिव है। ✔ एक उस्ताद, जो इल्म-ए-दीन फैलाता है, वह भी प्रोडक्टिव है। ✔ एक हाफ़िज़-ए-क़ुरआन, जो दिन-रात क़ुरआन से जुड़ा हुआ है, वह भी प्रोडक्टिव है। यानी प्रोडक्टिविटी सिर्फ़ माली या मादी कामयाबी का नाम नहीं, बल्कि अल्लाह की बारगाह में वही प्रोडक्टिव है जो दूसरों के लिए बरकत का ज़रिया बने! 6. *आज का "Workaholic कल्चर" और इस हदीस की हिकमत* आज हम इस नहज पर पहुँच चुके हैं कि जो शख़्स दिन-रात पैसा कमा रहा है, हम उसे कामयाब समझते हैं, और जो दीन के लिए वक़्त निकालता है, उसे "फारिग़" (बेकार) समझा जाता है। लेकिन यह हदीस बताती है कि: हो सकता है कि जो शख़्स दीन में लगा हुआ है, वह तुम्हारे लिए अल्लाह की रहमत और तुम्हारे रिज़्क़ में इज़ाफ़े का सबब हो! ✅ तुम्हारे घर में अगर कोई पाँच वक़्त का नमाज़ी है, तो शायद उसकी इबादत की बरकत से तुम्हारी नौकरी चल रही है! ✅ तुम्हारी कंपनी में अगर कोई ईमानदार, अल्लाह वाला मुलाज़िम (कर्मचारी) है, तो शायद उसके सदके तुम्हारा बिज़नेस तरक़्क़ी कर रहा है! ✅ तुम्हारे इलाक़े में अगर कोई बुज़ुर्ग या आलिम-ए-दीन है, तो हो सकता है कि उनकी दुआओं की वजह से तुम पर आज़माइश न आए! 7. *"Self-Made" का ग़लत नज़रिया* आज हर कोई कहता है: "मैं अपनी मेहनत से यहाँ तक पहुँचा हूँ!" लेकिन यह हदीस बताती है कि शायद तुम्हारी तरक़्क़ी किसी और की वजह से हो रही है— ✔ माँ की दुआओं की वजह से, ✔ किसी बुज़ुर्ग या आलिम-ए-दीन की बरकत से, ✔ किसी नेक आदमी की सोहबत (संगति) की बदौलत। दुनिया में कोई भी मुकम्मल "Self-Made" नहीं होता! अल्लाह मुख़्तलिफ़ लोगों के ज़रिए एक-दूसरे की मदद करता है, और हम में से कुछ लोग दूसरों के लिए "रिज़्क़ का ज़रिया" बनते हैं। 8. *इस हदीस पर अमल कैसे करें?* ✅ दीनी तलबा और उलेमा की इज़्ज़त करें, उन्हें बोझ न समझें बल्कि बाइस-ए-बरकत समझें। ✅ घर में जो अफ़राद दीन की तरफ़ ज़्यादा माइल हैं, उनको appreciate करें। ✅ उलेमा-ए-दीन और दीनी इदारों को support करें, क्योंकि शायद आपका रिज़्क़ उन्हीं की बरकत से बढ़ रहा हो। ✅ अपने आसपास के नेक और मुत्तक़ी अफ़राद से जुड़े रहें, क्योंकि वे आपके लिए रहमत का ज़रिया हो सकते हैं। 9. *अमली पैग़ाम:* यह हदीस हमें समाजी रवैयों पर ग़ौर करने, दीन व दुनिया में तवाज़ुन (संतुलन) क़ायम रखने, और अहले इल्म की इज़्ज़त करने का सबक़ देती है। जो लोग दीन सीखने में मसरूफ़ हैं, वे किसी पर बोझ नहीं, बल्कि रहमत और बरकत का सबब हैं। लिहाज़ा, हमें ऐसे अफ़राद की हौसला अफ़ज़ाई करनी चाहिए और अपने माल व वसाइल के ज़रिए उनकी मदद करनी चाहिए, क्योंकि हो सकता है कि हमारा रिज़्क़ उन्हीं की वजह से हमें अता हो रहा हो। 10. *नतीजा: दीन और दुनिया साथ-साथ चलते हैं!* यह हदीस बताती है कि मुआशरे (समाज) में हर किरदार की अपनी जगह है। कोई मआशी (आर्थिक) जद्दोजहद करता है, तो कोई दीन का चराग़ रोशन रखता है। अगर एक भाई रोज़गार में मशग़ूल है और दूसरा दीन के हुसूल में, तो यह शिकायत की बात नहीं, बल्कि यह निज़ाम-ए-कुदरत है! हमें अपनी सोच बदलनी होगी— सिर्फ़ मादी कामयाबी को मयार (मानदंड) न बनाएं, बल्कि रूहानी बरकत और दीन की ख़िदमत को भी कामयाबी समझें!
❤️ 1

Comments