
MUFTI ABDUSSUBHAN MISBAHI
February 20, 2025 at 12:58 PM
*گالی دینا سخت ممنوع و گناہ ہے*
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِنْ أَكْبَرِ الْكَبَائِرِ أَنْ يَلْعَنَ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ“• قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ يَلْعَنُ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ؟ قَالَ: يَسُبُّ الرَّجُلُ أَبَا الرَّجُلِ، فَيَسُبُّ أَبَاهُ وَيَسُبُّ أُمَّهُ“• (صحيح البخاري، كتاب الأدب، باب لا يسب الرجل والديه، حدیث نمبر:5973)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:بے شک سب سے بڑے (كبیرہ) گناہوں میں سے ایک یہ ہے کہ کوئی آدمی اپنے والدین پر لعنت کرے۔
(صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کوئی شخص اپنے والدین پر کیسے لعنت بھیج سکتا ہے؟)
آپ ﷺ نے فرمایا: وہ کسی دوسرے کے باپ کو گالی دیتا ہے، تو وہ (جواباً) اس کے باپ کو گالی دیتا ہے، اور وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*شرح و بیان:*
*کبھی سوچا ہے کہ ہم انجانے میں خود اپنے والدین کی بے عزتی کا سبب بن سکتے ہیں؟*
یہ حدیث ایک ایسی حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے جو آج کی دنیا میں پہلے سے بھی زیادہ عام ہو چکی ہے۔ اگر غور کریں تو یہ حدیث محض گالی گلوچ سے بچنے کا درس نہیں دیتی بلکہ اس کے پیچھے ایک گہرا سماجی اور اخلاقی اصول موجود ہے۔
1️⃣ *والدین کی عزت = دوسروں کی عزت*
آج کل ہم سوشل میڈیا، دفاتر، سڑکوں اور نجی محافل میں دیکھتے ہیں کہ لوگ ایک دوسرے پر طنز کرتے ہیں، بدتمیزی کرتے ہیں اور بدلے میں وہی چیز خود بھگتتے ہیں۔
اس حدیثِ مبارک سے ایک اہم اخلاقی اصول سامنے آتا ہے: *"اگر چاہتے ہو کہ تمہارے والدین کی عزت ہو، تو دوسروں کے والدین کی عزت کرو!"*
*اپنے والدین کی عزت کا تحفظ دوسروں کے والدین کی عزت سے جڑا ہوا ہے۔*
یعنی اگر ہم دوسروں کے والدین کی توہین و تذلیل کریں گے تو اس کا بدلہ ہمیں اپنے والدین کی بے عزتی کی صورت میں ملے گا۔
2️⃣ *گالی دینا صرف زبان کا عمل نہیں، ایک رویہ ہے*
حدیث صرف زبان سے نکلنے والے الفاظ کے بارے میں نہیں سکھاتی، بلکہ یہ بتاتی ہے کہ ہماری زبان، ہمارا رویہ، اور ہمارے اعمال ایسے ہونے چاہئیں کہ ہمارے والدین کی عزت پر کبھی حرف نہ آئے۔
اگر ہم غصے میں آ کر کسی کو برا بھلا کہیں گے، تو وہ بھی ہمارے پیاروں کے خلاف کچھ کہہ سکتا ہے۔
اگر ہم دوسروں کے والدین کا احترام کریں گے، تو ہمارا معاشرہ عزت و احترام کا گہوارہ بن جائے گا۔
3️⃣ *عملی مثال: سوشل میڈیا اور جدید زندگی*
آج کل سوشل میڈیا اور حقیقی زندگی میں اکثر دیکھا جاتا ہے کہ لوگ بحث و مباحثے میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے ہیں، اور پھر بات بڑھ کر والدین تک پہنچ جاتی ہے۔
یہ عمل سراسر غیر اسلامی اور غیر اخلاقی ہے، کیونکہ اگر ہم کسی کے ماں باپ کو برا کہیں گے تو بدلے میں ہمارے والدین کو بھی برا کہا جائے گا۔
*ذرا سوچیں!*
سوشل میڈیا پر ہم اکثر سخت زبان استعمال کرتے ہیں، سیاست، مذہب یا کسی بھی معاملے پر بحث کے دوران ہم دوسروں کے والدین تک پہنچ جاتے ہیں۔
روڈ پر کوئی غلط ڈرائیونگ کرے، تو لوگ غصے میں بدتمیزی پر اتر آتے ہیں، اور بدلے میں ان کے اپنے گھر والے برا بھلا سنتے ہیں۔
کھیل کے میدان میں، دوستوں کی محفل میں، یا کسی بھی جگہ اگر ہم گالی گلوچ کو معمول بنا لیں تو یہ برائی ہمارے ہی گھر تک لوٹ کر آتی ہے۔
اس حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں زبان اور رویے پر قابو رکھنا سیکھنا ہوگا، ورنہ نقصان ہمارے ہی والدین اور خاندان کو پہنچ سکتا ہے۔
4️⃣. *عملی پیغام:*
کسی سے بھی اختلاف ہو، لیکن اس کی فیملی کو نشانہ نہ بنایا جائے۔
گالی گلوچ کے بجائے دلیل اور مثبت گفتگو سے معاملات حل کیے جائیں۔
اگر کوئی ہمیں یا ہمارے والدین کو برا کہے، تو ہم صبر اور اخلاق سے کام لیں، تاکہ یہ برائی ہم میں نہ آئے۔
سوشل میڈیا پر غیر اخلاقی تبصروں سے بچیں اور اپنی زبان کو قابو میں رکھیں۔
5️⃣. *آج کی دنیا میں اطلاق*
یاد رہے کہ عزت و احترام صرف والدین تک محدود نہیں، بلکہ معاشرے میں سب کے بڑوں کی عزت کرنا ضروری ہے۔ چاہے وہ کسی بھی مذہب، قوم، یا طبقے سے تعلق رکھتے ہوں، اگر ہم ان کی عزت کریں گے تو ہمیں بھی عزت ملے گی۔
6️⃣ *حدیث پر عمل کرنے کے 3 آسان طریقے*
✅ 1. *گفتگو میں نرمی اپنائیں*
"الفاظ کا انتخاب، شخصیت کا آئینہ ہوتا ہے!"
کوشش کریں کہ گفتگو ہمیشہ عزت و احترام کے دائرے میں رہے، چاہے معاملہ کتنا ہی جذباتی کیوں نہ ہو۔
✅ 2. *دوسروں کے والدین کی عزت کریں*
یہ ایک اصول بنا لیں کہ کسی بھی حال میں کسی کے والدین کے بارے میں غلط بات نہیں کرنی۔ اگر ہم عزت دیں گے، تو بدلے میں ہمیں بھی عزت ملے گی۔
✅ 3. *غصے کو کنٹرول کریں*
کسی کے تلخ رویے پر جذبات میں آکر جواب دینا صرف مسئلے کو بڑھاتا ہے۔ غصے میں کہے گئے الفاظ بعض اوقات ایسی دشمنیاں پیدا کر دیتے ہیں جن کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔
✨ *نچوڑ: عزت دو، عزت لو!*
اگر ہم اپنی عزت اور اپنے والدین کی عزت کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں خود دوسروں کے ساتھ عزت سے پیش آنا ہوگا۔ زبان اور رویے کی درستگی صرف دینی تعلیمات کا حصہ نہیں، بلکہ کامیاب زندگی گزارنے کا بہترین اصول بھی ہے۔
یہ حدیث دراصل ایک سنہرا اصول کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ: *جو عزت دے گا، وہی عزت پائے گا۔"* اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے والدین کی عزت کی جائے، تو ہمیں دوسروں کے والدین کی عزت کرنی ہوگی۔
سوچیں! اگر ہر انسان اس حدیث پر عمل کرنے لگے، تو دنیا کتنی خوبصورت ہو جائے!