MUFTI ABDUSSUBHAN MISBAHI
MUFTI ABDUSSUBHAN MISBAHI
February 23, 2025 at 05:36 PM
*عوام سے کٹے حکمران — اقتدار کے بند دروازے* عَنْ أَبِي الشَّمَّاخِ الْأَزْدِيِّ، عَنِ ابْنِ عَمٍّ لَهُ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى مُعَاوِيَةَ فَدَخَلَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنْ وَلِيَ أَمْرًا مِنْ أَمْرِ النَّاسِ ثُمَّ أَغْلَقَ بَابَهُ دُونَ الْمِسْكِينِ وَالْمَظْلُومِ أَوْ ذِي الْحَاجَةِ، أَغْلَقَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى دُونَهُ أَبْوَابَ رَحْمَتِهِ عِنْدَ حَاجَتِهِ وَفَقْرِهِ أَفْقَرَ مَا يَكُونُ إِلَيْهَا“ (مسند الإمام أحمد، مسند المكيين، مسند رجل من أصحاب النبي ﷺ، حدیث نمبر: 15651) ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ابو الشماخ الازدی اپنے چچا زاد بھائی سے روایت کرتے ہیں، جو نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں سے تھے۔ وہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے ملاقات کی۔ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "جو شخص لوگوں کے کسی معاملے کا والی (ذمہ دار) بنے، پھر وہ مسکین، مظلوم یا ضرورت مند کے لیے اپنا دروازہ بند کر لے، تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کی سخت ترین ضرورت اور تنگدستی کے وقت اپنی رحمت کے دروازے بند کر دے گا۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ *حدیثِ نبوی ﷺ: جدید دور میں قیادت اور عوامی خدمت کا سنہرا اصول* یہ حدیث صرف ساتویں صدی کے عرب حکمرانوں کے لیے نہیں، بلکہ آج کے دور کے حکمرانوں، سیاستدانوں، بیوروکریٹس، اور تمام طاقتور لوگوں کے لیے بھی ایک زبردست تنبیہ ہے۔ اسلامی حکمرانی کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ: عوامی خدمت ایک امانت ہے، نہ کہ ذاتی مفاد کا ذریعہ! رسول اللہ ﷺ نے حکمرانوں کو عوام کے ساتھ کھلا، ہمدردانہ اور انصاف پر مبنی رویہ اختیار کرنے کی ہدایت دی۔ ایک حکمران یا عہدیدار اگر غریبوں، مظلوموں اور محتاجوں کے لیے اپنے دروازے بند کر لے، تو وہ گویا اللہ کی رحمت سے خود کو محروم کر رہا ہے۔ *ذرا تصور کریں:* آپ کسی دفتر میں گئے ہیں، مسئلہ حل کرانے کے لیے۔ دروازے پر گارڈ کھڑا ہے، اندر سے جواب آتا ہے: صاحب ابھی مصروف ہیں، کل آئیں! آپ واپس لوٹ آتے ہیں، ناامیدی کے ساتھ! *اب ایک اور منظر دیکھیں:* قیامت کا دن ہے، اور ایک شخص سخت ضرورت میں ہے، اللہ کی رحمت کا دروازہ چاہتا ہے، مگر دروازہ بند کر دیا جاتا ہے—کیونکہ دنیا میں اس نے دوسروں کے لیے اپنے دروازے بند کیے تھے! یہی اس حدیث کا اصل پیغام ہے: اگر تم نے آج حاجت مندوں پر دروازے بند کیے، تو کل تم پر رحمت کے دروازے بند ہو جائیں گے! 2. قیامت کے دن کی سزا حدیث میں ہے کہ ایسا شخص قیامت کے دن سب سے زیادہ حاجت مند ہوگا، مگر اللہ کے دروازے بھی اُس پر بند ہوں گے۔ یعنی دنیا میں جو شخص رحم اور عدل سے منہ موڑ لے، قیامت کے دن اُس کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہوگا۔ 3. *قیادت کا اصل مقصد: عوام کی خدمت* یہ حدیث ان لوگوں کے لیے بھی لمحۂ فکریہ ہے جو اقتدار میں آ کر خود کو عوام سے دور کر لیتے ہیں۔ ✦ خلافتِ راشدہ میں حکمران عوام کے لیے ہر وقت دستیاب ہوتے تھے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ راتوں کو گشت کرکے حاجت مندوں کی خبر لیتے۔ ✦ امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: بادشاہ اور حکمران رعایا کے چرواہے کی مانند ہوتے ہیں، اگر چرواہا اپنی بھیڑوں کی حفاظت نہ کرے تو وہ درندوں کا شکار ہو جائیں گی! 4. *علما کے اقوال اور قرآن کی روشنی میں* ✅ قرآن کریم: "وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ ٱللَّهُ إِلَيْكَ" (القصص: 77) اور بھلائی کرو، جیسے اللہ نے تمہارے ساتھ بھلائی کی! ✅ امام نووی رحمہ اللہ: یہ حدیث حکمرانوں کے لیے سخت تنبیہ ہے کہ وہ عوام کی مشکلات سے بے خبر نہ رہیں۔ جو شخص اقتدار میں ہو، اسے لوگوں کی شکایات سننی چاہئیں، ورنہ قیامت میں جواب دینا ہوگا۔ (شرح مسلم) ✅ علامہ ابنِ حجر عسقلانی رحمہ اللہ: یہ حدیث بتاتی ہے کہ حکمران کے لیے لازم ہے کہ وہ عوام کے لیے ہمیشہ دروازے کھولے رکھے۔ جو حکمران اپنی طاقت کے نشے میں مست ہو کر عوام کو نظرانداز کرے، وہ اللہ کی رحمت سے محروم ہو سکتا ہے۔ (فتح الباری) ✅ ابنِ تیمیہ : عدل کے بغیر کوئی حکومت قائم نہیں رہ سکتی، چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم۔ عدل کی بنیاد عوام کے مسائل کو سننے اور حل کرنے میں ہے۔ (السياسة الشرعية) 🔹 کیا آج حکمران عوام کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھتے ہیں؟ 🔹 کیا کوئی عام شہری باآسانی کسی وزیر، افسر، یا حتیٰ کہ کسی بڑے ادارے کے سربراہ سے ملاقات کر سکتا ہے؟ 🔹 کیا آج غریب اور مظلوم کو انصاف ملنا آسان ہے؟ ✅ *جواب: افسوس، نہیں!* 🔹 آج حکمران قلعہ نما محلات میں رہتے ہیں، سیکڑوں سیکیورٹی گارڈز کے حصار میں۔ 🔹 عام آدمی وزیر سے ملنے کے بجائے اس کے سیکریٹری سے بھی ملاقات نہیں کر سکتا۔ 🔹 سرکاری دفاتر میں "کل آؤ، ابھی مصروف ہیں" جیسے الفاظ ایک عام بات بن چکے ہیں۔ 🔹 عدالتوں میں غریب انصاف کے لیے سالوں تک خوار ہوتا رہتا ہے۔ یہی وہ رویہ ہے جس کے بارے میں نبی اکرم ﷺ نے سخت وعید فرمائی کہ جو عوام کے لیے دروازے بند کرے، قیامت کے دن اس پر اللہ کی رحمت کے دروازے بند ہو جائیں گے! 📖 *اسلامی قیادت کا ماڈل اور جدید دنیا* اسلامی تاریخ میں حکمرانوں کی عوامی خدمت کی شاندار مثالیں موجود ہیں، جنہیں آج کے حکمرانوں کے لیے رول ماڈل ہونا چاہیے۔ ✅ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ایک رات دیر تک امورِ مملکت میں مصروف تھے، ایک شخص آیا اور چراغ بجھا دیا۔ پوچھا گیا: چراغ کیوں بجھایا؟" فرمایا: یہ سرکاری تیل تھا، میں اب اپنے ذاتی کام کے لیے بیٹھا ہوں!" آج کے حکمران قوم کے وسائل کو ذاتی جاگیر سمجھتے ہیں! ✅ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ: اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر گیا تو عمر سے اس کا حساب لیا جائے گا! حضرتِ عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ راتوں کو مدینے کی گلیوں میں چکر لگاتے تاکہ دیکھیں کوئی ضرورت مند تو نہیں۔ آج کے حکمران ایئرپورٹس، لگژری گاڑیوں، اور پروٹوکول میں مصروف رہتے ہیں! ✅ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمایا: سب سے برا حکمران وہ ہے جو عوام پر سخت ہو اور ان سے دور رہے!" آج کے حکمران عوام سے اتنے دور ہیں کہ پانچ سال بعد صرف ووٹ مانگنے کے وقت نظر آتے ہیں! 📌 *جدید دنیا میں عوامی خدمت: کہاں کھڑے ہیں ہم؟* ⚖ *سیاست اور اقتدار* 🔹 جدید جمہوریت میں "عوامی خدمت" کے نعرے تو بہت لگتے ہیں، لیکن حقیقی خدمت ناپید ہے۔ 🔹 آج کے حکمرانوں کو عوام کے مسائل حل کرنے سے زیادہ اپنی PR کی فکر ہوتی ہے۔ 🔹 قانون غریب کے لیے الگ، امیر کے لیے الگ ہے۔ 🔹 جو رشوت دے، اس کے کام ہو جاتے ہیں، جو غریب ہو، وہ دروازے پر دھکے کھاتا رہتا ہے! 🏢 *بیوروکریسی اور سرکاری نظام* 🔹 سرکاری دفاتر میں فائلیں دب جاتی ہیں، جب تک "چائے پانی" نہ دیا جائے۔ 🔹 چھوٹے ملازم سے لے کر بڑے افسر تک، سب عوام سے کٹ چکے ہیں۔ 🔹 اسپتالوں میں VIP مریضوں کو بہترین علاج، اور غریب ایک بستر کے لیے ترستا ہے۔ 👨‍⚖ *عدلیہ اور قانون* 🔹 غریب کو انصاف کے لیے سالوں لگ جاتے ہیں، جبکہ امیر ایک دن میں ضمانت پر باہر آ جاتا ہے۔ 🔹 عدالتوں کے دروازے امیروں کے لیے کھلے، جبکہ عام آدمی کے لیے بس تاریخ پر تاریخ! یہ سب وہ بیماریاں ہیں جن کے بارے میں نبی اکرم ﷺ نے چودہ سو سال پہلے خبردار کیا تھا! 🔥 *حل کیا ہے؟ ہم کیا کر سکتے ہیں؟* 📌 *حکمرانوں کے لیے سبق:* ✅ اگر اقتدار ملا ہے، تو عوام کی خدمت کرو! ✅ پروٹوکول ختم کر کے عوام کے دروازے پر جاؤ! ✅ امیر اور غریب کے لیے ایک جیسا قانون نافذ کرو! ✅ دفاتر، عدالتوں، اور اسپتالوں کے دروازے عوام کے لیے کھولو! 📌 *بیوروکریٹس اور افسران کے لیے سبق:* ✅ عہدے کو عوام کے استحصال کے لیے نہیں، بلکہ خدمت کے لیے استعمال کرو! ✅ رشوت، سفارش، اور دھوکہ دہی کو ختم کرو! ✅ "کل آؤ" کا کلچر ختم کر کے فوری انصاف مہیا کرو! 📌 *ہمارے لیے سبق (عام افراد کے لیے):* ✅ جہاں اختیار ملے، وہاں انصاف کے ساتھ کام کرو! ✅ اگر کسی کا حق دبا رہے ہو، تو فوراً لوٹا دو، ورنہ قیامت کے دن تمہارے لیے رحمت کا دروازہ بند ہو سکتا ہے! ✅ اگر کوئی مدد مانگنے آئے، تو اس کے ساتھ وہی سلوک کرو جو تم اللہ سے امید رکھتے ہو! 🔹 *دفاتر، ادارے، اور عدالتی نظام:* یہ حکم صرف حکمرانوں تک محدود نہیں، بلکہ ہر وہ شخص جو کسی اہم عہدے پر فائز ہو، جیسے: ✦ سرکاری افسران، ✦ جج، ✦ اداروں کے سربراہ، ✦ یہاں تک کہ مسجد کے امام اور کمیٹی کے نگران بھی، ان سب پر لازم ہے کہ وہ عوام کی فریاد سنیں اور ان کی مدد کریں۔ 📌 خلاصہ اور عمل کی ترغیب ✅ حکمران اور عہدیداران کے لیے عوام کی خدمت فرض ہے۔ ✅ مسکین، مظلوم اور حاجت مند کو نظرانداز کرنا اللہ کی رحمت سے محرومی کا سبب ہے۔ ✅ قیامت کے دن ایسا شخص سب سے زیادہ ضرورت مند ہوگا، لیکن اللہ کے دروازے اُس پر بند ہوں گے۔ ✅ ہمیں بھی اپنے دائرہ اختیار میں دوسروں کی مدد کرنی چاہیے اور ضرورت مندوں کو رد نہیں کرنا چاہیے۔ 📢 عملی پیغام: "اگر ہم چاہتے ہیں کہ اللہ کے دروازے ہم پر ہر حال میں کھلے رہیں، تو ہمیں بھی اپنے دروازے دوسروں کے لیے کھولنے ہوں گے!" 📢 *آخری پیغام: "رحمت کے دروازے کیسے کھولیں؟"* ✅ عوامی خدمت کرو، چاہے چھوٹے پیمانے پر! ✅ لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرو، نہ کہ مشکلات! ✅ اگر اللہ کے ہاں رحمت چاہتے ہو، تو دنیا میں خود رحمت کا ذریعہ بنو! ✅ دوسروں کے لیے دروازے کھولو، تاکہ قیامت کے دن اللہ تمہارے لیے اپنے دروازے کھول دے! 🌟 اگر چاہتے ہو کہ اللہ تم پر رحم کرے، تو پہلے تم اللہ کی مخلوق پر رحم کرو! کرو مہربانی تم اہل زمیں پر خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر ————————————— *आम जनता से कटे हुए हुक्मरान* अबू अल-शम्माख अल-अज़दी अपने चचेरे भाई से रिवायत करते हैं, जो नबी-ए-करीम के सहाबा-ए-किराम में से थे। वो हज़रत मुआविया रज़ियल्लाहु अन्हु के पास आए और उनसे मुलाकात की। उन्होंने कहा: मैंने हुज़ूर नबी-ए-करीम सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम को यह फ़रमाते हुए सुना: जो शख़्स लोगों के किसी मामले का ज़िम्मेदार बनाया जाए, फिर वह मिस्कीन, मज़लूम या ज़रूरतमंद के लिए अपना दरवाज़ा बंद कर ले, तो अल्लाह तबारक व तआला उसकी सख़्त तरीन ज़रूरत और तंगदस्ती के वक़्त अपनी रहमत के दरवाज़े बंद कर देगा। (मुस्नद अहमद, हदीस: 15651) ______________ *शरह व बयान:* *हदीस-ए-नबवी: जदीद दौर में कि़यादत और अवामी खि़दमत का सुनहरा उसूल* यह हदीस केवल सातवीं सदी के अरब हुक्मरानों (शासकों) के लिए नहीं, बल्कि आज के दौर के शासकों, राजनेताओं, नौकरशाहों और सभी शक्तीशाली लोगों के लिए भी एक ज़बरदस्त चेतावनी है। इस्लामी हुक्मरानी का बुनियादी उसूल यह है कि अवामी खि़दमत एक अमानत है, न कि ज़ाती लाभ का ज़रिया! रसूलुल्लाह ने शासकों को जनता के साथ खुला, हमदर्दी भरा और इंसाफ़ पर मब्नी रवैय्या अपनाने की हिदायत दी। अगर कोई शासक या अधिकारी गरीबों, ज़रूरतमंदों और पीड़ितों के लिए अपने दरवाज़े बंद कर ले, तो वह खुद को अल्लाह की रहमत से महरूम कर रहा है। *ज़रा तसव्वुर करें:* आप किसी दफ्तर में अपनी समस्या के समाधान के लिए गए। दरवाज़े पर गार्ड खड़ा है, अंदर से जवाब आता है: "साहब अभी व्यस्त हैं, कल आइए!" आप निराश होकर लौट आते हैं! *अब एक और मंज़र देखें:* क़ियामत का दिन है, और एक शख़्स अल्लाह की रहमत का दरवाज़ा चाहता है, लेकिन दरवाज़ा बंद कर दिया जाता है—क्योंकि दुनिया में उसने ज़रूरतमंदों के लिए अपने दरवाज़े बंद कर रखे थे! यही इस हदीस का असल संदेश: अगर तुमने आज ज़रूरतमंदों पर दरवाज़े बंद किए, तो कल तुम पर भी रहमत के दरवाज़े बंद कर दिए जाएंगे! 2. *क़ियामत के दिन की सज़ा* हदीस में आता है कि ऐसा शख़्स क़ियामत के दिन सबसे अधिक ज़रूरतमंद होगा, लेकिन अल्लाह के दरवाज़े भी उस पर बंद होंगे। यानी, जो शख़्स दुनिया में दया और न्याय से मुँह मोड़ लेगा, क़ियामत के दिन उसके साथ भी ऐसा ही मुआमला होगा। 3. *कि़यादत का असली मक़सद: जनसेवा* यह हदीस उन लोगों के लिए भी एक चेतावनी है जो सत्ता में आकर खुद को जनता से दूर कर लेते हैं। ✦ खिलाफत-ए-राशिदा में हुक्मरान जनता के लिए हर समय उपलब्ध रहते थे। हज़रत उमर फ़ारूक़ रज़ियल्लाहु अन्हु रातों में पहरा देकर ज़रूरतमंदों की खबर लेते थे। ✦ इमाम ग़ज़ाली फ़रमाते हैं: बादशाह और शासक अपनी प्रजा के चरवाहे के समान होते हैं। यदि चरवाहा अपनी भेड़ों की हिफ़ाज़त न करे, तो वे दरिंदों का शिकार हो जाएँगी! ➡ याद रखें, सत्ता और ताकत एक जिम्मेदारी है, न कि ऐशो-आराम का साधन! *उलमा के अक़वाल और क़ुरआन की रोशनी में* ✅ क़ुरआन करीम: "और भलाई करो, जैसे अल्लाह ने तुम्हारे साथ भलाई की। (अल-क़सस: 77) ✅ इमाम नववी रहमतुल्लाह अलैह: "यह हदीस हुक्मरानों के लिए सख़्त तंबीह (चेतावनी) है कि वे अवाम की मुश्किलों से बेख़बर न रहें। जो शख़्स इक़्तिदार (सत्ता) में हो, उसे लोगों की शिकायतें सुननी चाहिए, वरना क़ियामत में जवाब देना होगा।(शरह मुस्लिम) ✅ अल्लामा इब्न हजर अस्कलानी रहमतुल्लाह अलैह: "यह हदीस बताती है कि हुक्मरान के लिए लाज़िमी है कि वह अवाम के लिए हमेशा अपने दरवाज़े खुले रखे। जो हुक्मरान अपनी ताक़त के नशे में मस्त होकर अवाम को नज़रअंदाज़ करे, वह अल्लाह की रहमत से महरूम हो सकता है।(फत्हुल बारी) ✅ इब्ने तैमिय्या: "अदल (न्याय) के बिना कोई हुकूमत क़ायम नहीं रह सकती, चाहे वह मुस्लिम हो या ग़ैर-मुस्लिम। अदल की बुनियाद अवाम के मसाइल को सुनने और हल करने में है।" (अस-स्यासह अश-शरईय्या) ❓ क्या आज हुक्मरान अवाम के लिए अपने दरवाज़े खुले रखते हैं? ❓ क्या कोई आम नागरिक आसानी से किसी वज़ीर, अफसर, या किसी बड़े इदारे के सरबराह से मुलाक़ात कर सकता है? ❓ क्या आज ग़रीब और मज़लूम को इंसाफ़ मिलना आसान है? ✅ जवाब: अफ़सोस, नहीं! 🔹 आज हुक्मरान क़िला-नुमा महलों में रहते हैं, सैकड़ों सिक्योरिटी गार्ड्स के घेरे में। 🔹 आम आदमी वज़ीर से मिलने के बजाय उसके सेक्रेटरी से भी मुलाक़ात नहीं कर सकता। 🔹 सरकारी दफ़्तरों में "कल आओ, अभी मसरूफ़ हैं" जैसे अल्फ़ाज़ आम हो चुके हैं। 🔹 अदालतों में ग़रीब इंसाफ़ के लिए सालों तक ख़्वार होता रहता है। ✒ इसी रवैये के बारे में नबी अकरम ने सख़्त वईद (चेतावनी) फ़रमाई कि जो अवाम के लिए दरवाज़े बंद करे, क़ियामत के दिन अल्लाह उसकी रहमत के दरवाज़े बंद कर देगा! 📖 *इस्लामी क़ियादत (नेतृत्व) का मॉडल और जदीद दुनिया* इस्लामी तारीख़ में हुक्मरानों की अवामी ख़िदमत की शानदार मिसालें मौजूद हैं, जिन्हें आज के हुक्मरानों के लिए रोल मॉडल होना चाहिए। ✅ हज़रत उमर बिन अब्दुल अज़ीज़ रहमतुल्लाह अलैह "एक रात देर तक उमूर-ए-ममलिकत (राज्य के कार्यों) में मसरूफ़ थे, एक शख़्स आया और चिराग़ बुझा दिया। पूछा गया: "चिराग़ क्यों बुझाया?" फ़रमाया: "यह सरकारी तेल था, मैं अब अपने ज़ाती (निजी) काम के लिए बैठा हूँ!" आज के हुक्मरान क़ौम के वसाइल (संसाधनों) को अपनी जागीर समझते हैं! ✅ हज़रत उमर फ़ारूक़ रज़ियल्लाहु अन्हु "अगर दरियाए फ़ुरात के किनारे एक कुत्ता भी भूखा मर गया तो उमर से उसका हिसाब लिया जाएगा!" हज़रत उमर रज़ियल्लाहु अन्हु रातों को मदीने की गलियों में चक्कर लगाते ताकि देखें कोई ज़रूरतमंद तो नहीं। आज के हुक्मरान एयरपोर्ट्स, लग्ज़री गाड़ियों और प्रोटोकॉल में मसरूफ़ रहते हैं! ✅ हज़रत अली रज़ियल्लाहु अन्हु "सबसे बुरा हुक्मरान वह है जो अवाम पर सख़्त हो और उनसे दूर रहे!" आज के हुक्मरान अवाम से इतने दूर हैं कि पाँच साल बाद सिर्फ़ वोट माँगने के लिए नज़र आते हैं! 📌 क्या अब भी वक़्त नहीं आया कि हम इस्लामी उसूलों को अपनाएँ और हुक्मरानों से जवाब तलब करें? *📌 जदीद दुनिया में जनसेवा: हम कहाँ खड़े हैं?* ⚖ *राजनीति और सत्ता* 🔹 आधुनिक लोकतंत्र में "जनसेवा" के नारे तो बहुत लगाए जाते हैं, लेकिन असली सेवा नदारद है। 🔹 आज के हुक्मरानों (शासकों) को अवाम की मुश्किल हल करने से ज़्यादा अपनी PR की चिंता होती है। 🔹 क़ानून ग़रीब के लिए अलग और अमीर के लिए अलग है। 🔹 जो रिश्वत दे, उसके काम हो जाते हैं, जो ग़रीब हो, वह दफ़्तरों के दरवाज़ों पर ठोकरें खाता रहता है! 🏢 *ब्यूरोक्रेसी और सरकारी सिस्टम* 🔹 सरकारी दफ़्तरों में फ़ाइलें दब जाती हैं, जब तक "चाय-पानी" न दिया जाए। 🔹 छोटे कर्मचारी से लेकर बड़े अफ़सर तक, सब अवाम से कट चुके हैं। 🔹 अस्पतालों में VIP मरीज़ों को बेहतरीन इलाज, और ग़रीब एक बिस्तर के लिए तरसता है। 👨‍⚖ *न्यायपालिका और क़ानून* 🔹 ग़रीब को इंसाफ़ के लिए सालों लग जाते हैं, जबकि अमीर एक दिन में ज़मानत पर बाहर आ जाता है। 🔹 अदालतों के दरवाज़े अमीरों के लिए खुले, जबकि आम आदमी के लिए बस "तारीख़ पे तारीख़!" ✒ यही वो बीमारियाँ हैं, जिनके बारे में नबी अकरम ने 1400 साल पहले आगाह किया था! 🔥 *हल क्या है? हम क्या कर सकते हैं?* 📌 *हुक्मरानों (शासकों) के लिए सबक़:* ✅ अगर सत्ता मिली है, तो अवाम की सेवा करो! ✅ प्रोटोकॉल ख़त्म कर के अवाम के दरवाज़े पर जाओ! ✅ अमीर और ग़रीब के लिए एक जैसा क़ानून लागू करो! ✅ दफ़्तरों, अदालतों, और अस्पतालों के दरवाज़े अवाम के लिए खोलो! 📌 *ब्यूरोक्रेट्स और अफ़सरों के लिए सबक़*: ✅ ओहदे (पद) को अवाम के शोषण के लिए नहीं, बल्कि सेवा के लिए इस्तेमाल करो! ✅ रिश्वत, सिफ़ारिश और धोखाधड़ी को ख़त्म करो! ✅ "कल आओ" का कल्चर ख़त्म करके फ़ौरन इंसाफ़ दो! 📌 *हमारे लिए सबक़ (आम नागरिकों के लिए):* ✅ जहाँ भी इख़्तियार (अधिकार) मिले, वहां न्याय करो! ✅ अगर किसी का हक़ दबा रखा है, तो उसे फ़ौरन लौटा दो, वरना क़ियामत के दिन अल्लाह की रहमत से महरूम हो सकते हो! ✅ अगर कोई मदद माँगने आए, तो उसके साथ वैसा ही सुलूक करो, जैसा तुम अल्लाह से उम्मीद रखते हो! 🔹 *दफ़्तर, संस्थान और न्यायिक व्यवस्था:* ✦ यह हुक्म सिर्फ़ हुक्मरानों तक सीमित नहीं, बल्कि हर वो शख्स जो किसी अहम ओहदे (महत्वपूर्ण पद) पर हो, जैसे: ✔ सरकारी अफ़सर ✔ जज ✔ संस्थानों के प्रमुख ✔ यहाँ तक कि मस्जिद के इमाम और कमेटी के ज़िम्मेदार भी इन सब पर लाज़िम है कि वे अवाम की फ़रियाद सुनें और उनकी मदद करें। 📌 *निष्कर्ष और अमल की प्रेरणा* ✅ हुक्मरान और ओहदेदारों के लिए अवाम की सेवा फ़र्ज़ है। ✅ ग़रीब, मज़लूम और ज़रूरतमंद को नज़रअंदाज़ करना अल्लाह की रहमत से महरूम होने का सबब बन सकता है। ✅ क़ियामत के दिन ऐसा शख़्स सबसे ज़्यादा ज़रूरतमंद होगा, लेकिन अल्लाह के दरवाज़े उस पर बंद होंगे! ✅ हमें भी अपने दायरे में दूसरों की मदद करनी चाहिए और ज़रूरतमंदों को रद्द नहीं करना चाहिए। 📢 *अमली पैग़ाम:* अगर हम चाहते हैं कि अल्लाह के दरवाज़े हम पर हर हाल में खुले रहें, तो हमें भी अपने दरवाज़े दूसरों के लिए खोलने होंगे! 📢 *आख़िरी पैग़ाम: "रहमत के दरवाज़े कैसे खोलें?"* ✅ जनसेवा करो, चाहे छोटे स्तर पर ही क्यों न हो! ✅ लोगों के लिए आसानी पैदा करो, न कि मुश्किलें! ✅ अगर अल्लाह की रहमत चाहते हो, तो दुनिया में खुद रहमत का ज़रिया बनो! ✅ दूसरों के लिए दरवाज़े खोलो, ताकि क़ियामत के दिन अल्लाह तुम्हारे लिए अपने दरवाज़े खोल दे! 🌟 अगर चाहते हो कि अल्लाह तुम पर रहम करे, तो पहले तुम अल्लाह की मख़लूक़ पर रहम करो! करो मेहरबानी तुम अहल-ए-ज़मीं पर, ख़ुदा मेहरबां होगा अर्श-ए-बरीं पर।

Comments