MUFTI ABDUSSUBHAN MISBAHI
MUFTI ABDUSSUBHAN MISBAHI
February 24, 2025 at 03:15 PM
*برائی کے خلاف خاموشی – عذابِ الٰہی کا پیش خیمہ* عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْكَرِ، أَوْ لَيُوشِكَنَّ اللَّهُ أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عِقَابًا مِنْهُ، ثُمَّ تَدْعُونَهُ فَلَا يُسْتَجَابُ لَكُمْ“• (جامع الترمذي، أبواب الفتن عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، باب الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، حدیث نمبر:2169) ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: قسم ہے اُس ذات کی جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے! تم ضرور نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو! ورنہ قریب ہے کہ اللہ تم پر اپنا عذاب مسلط کر دے، پھر تم اس سے دعا کرو گے مگر وہ قبول نہیں کی جائے گی۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ *شرح و بیان:* رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں یہ پیغام دیا ہے کہ ایک صالح اور متوازن معاشرے کی بنیاد نیکی کے فروغ اور برائی کی روک تھام پر ہے۔ اگر لوگ برائی کو دیکھ کر خاموش ہو جائیں، اسے برداشت کرنے لگیں یا اسے معمول سمجھنے لگیں، تو وہ درحقیقت اپنے ہی خلاف سازش کر رہے ہوتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے ہمیں تنبیہ کی ہے کہ اگر تم نیکی کا حکم نہیں دو گے اور برائی سے نہیں روکو گے، تو اللہ تعالیٰ تم پر ایسے حالات مسلط کر دے گا جو تمہارے لیے آزمائش بن جائیں گے۔ پھر تم دعائیں کرو گے، لیکن وہ قبول نہیں کی جائیں گی، کیونکہ تم نے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی۔ آج کے دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ ظلم، بے حیائی، کرپشن، اور ناانصافی عام ہو چکی ہے، لیکن بیشتر لوگ یا تو خاموش ہیں یا خود ان برائیوں میں ملوث ہو چکے ہیں۔ نتیجتاً، ہمیں کئی طرح کی مشکلات اور آزمائشوں کا سامنا ہے، لیکن ہماری دعائیں بے اثر دکھائی دیتی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا یہ پیغام ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں خیر و برکت ہو، ہماری دعائیں قبول ہوں اور اللہ کی رحمت ہم پر نازل ہو، تو ہمیں خود کو بدلنا ہوگا۔ ہمیں نیکی کو فروغ دینے اور برائی کے خلاف کھڑے ہونے کی ہمت پیدا کرنی ہوگی۔ ورنہ، ہمارے حالات مزید بگڑ سکتے ہیں، اور پھر توبہ و دعا کے دروازے بھی بند ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا، ہمیں چاہیے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنی اصلاح کریں، سچائی اور عدل کے ساتھ کھڑے ہوں، اور برائی کے خلاف اپنی استطاعت کے مطابق کردار ادا کریں، تاکہ ہم اللہ کی رحمت کے مستحق بن سکیں۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ اس حدیث میں ہمیں ہماری اجتماعی ذمہ داری کا احساس دلایا گیاہے۔ اگر معاشرے میں برائی کو روکا نہ جائے اور نیکی کو فروغ نہ دیا جائے، تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مشکلات، آزمائشیں اور مصیبتیں آ سکتی ہیں۔ آج کے دور میں اس حدیث کی مطابقت پہلے سے کہیں زیادہ ہے، کیونکہ: 1. *سوشل میڈیا پر برائی کی ترویج* آج کل برائی کا پھیلاؤ محض گلیوں اور بازاروں تک محدود نہیں، بلکہ یہ موبائل اسکرینز اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہر گھر میں داخل ہو چکا ہے۔ فحاشی، گالم گلوچ، جھوٹ، الزام تراشی اور غلط نظریات بہت تیزی سے وائرل ہو رہے ہیں، اور زیادہ تر لوگ یا تو خاموش ہیں یا خود اس میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم ان برائیوں پر خاموش رہیں گے، تو اللہ کی ناراضی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ 2. *ظلم و ناانصافی پر خاموشی* آج ہم دنیا بھر میں دیکھ رہے ہیں کہ ظالم حکمران مسلط ہو چکے ہیں، بے گناہ لوگوں پر ظلم و ستم ہو رہا ہے، عدل و انصاف کمزور ہو چکا ہے، لیکن زیادہ تر لوگ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اگر ہم ظلم کو روکنے کے لیے آواز بلند نہیں کریں گے، تو ظالموں کا ہاتھ مزید مضبوط ہوگا اور پھر ہمارے حق میں بھی کوئی کھڑا نہیں ہوگا۔ 3. *بے حیائی اور اخلاقی زوال* ہمارے معاشرے میں بے حیائی، فحاشی، بددیانتی اور اخلاقی گراوٹ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ فلموں، ڈراموں اور سوشل میڈیا کے ذریعے غلط نظریات اور بے حیائی کو عام کیا جا رہا ہے، اور لوگ اسے "ترقی" اور "آزادی" کا نام دے کر قبول کر رہے ہیں۔ اگر ہم نے اپنی نسلوں کو صحیح راستہ نہ دکھایا، تو کل کے معاشرے میں نیکی اور اخلاقیات ناپید ہو جائیں گے۔ 4. *دعا کی قبولیت اور ہماری غفلت* ایک بڑا سبق ہے کہ جب برائی عام ہو جائے اور ہم اسے روکنے کی کوشش نہ کریں، تو ہماری دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں۔ آج ہم امتِ مسلمہ کے مسائل کے حل کے لیے دعائیں کرتے ہیں، مگر وہ پوری نہیں ہوتیں۔ کیا اس کی وجہ یہی تو نہیں کہ ہم نے نیکی کا حکم دینا چھوڑ دیا اور برائی کو روکنے کی ذمہ داری بھلا دی؟ *ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ (Modern Solutions)* 1. *اپنی استطاعت کے مطابق برائی کے خلاف آواز بلند کریں:* اگر کسی جگہ ناانصافی، کرپشن، ظلم یا بے حیائی ہو رہی ہو، تو کم از کم اپنی زبان سے اس کی مخالفت کریں۔ سوشل میڈیا پر مثبت اور اسلامی اقدار کی ترویج کریں، غلط معلومات یا فتنہ پھیلانے والے مواد کو شیئر نہ کریں۔ 2. *اپنے گھر اور خاندان میں اصلاح کریں:* بچوں کی دینی تربیت کریں، انہیں سچائی، ایمانداری، اور نیکی کی تلقین کریں۔ جدید میڈیا کے اثرات سے بچانے کے لیے گھر میں اسلامی ماحول پیدا کریں۔ 3. *معاشرتی برائیوں کے خلاف اجتماعی کوششیں کریں:* مقامی سطح پر اصلاحی تحریکوں، مساجد، مدارس اور فلاحی تنظیموں کے ساتھ تعاون کریں۔ معاشرتی مسائل پر شعور بیدار کریں اور اپنی کمیونٹی میں اصلاح کی کوشش کریں۔ 4. *اپنے اعمال اور دعاؤں کو درست کریں:* ہمیں پہلے خود نیکی پر عمل کرنا ہوگا، تبھی ہماری بات میں اثر ہوگا۔ اگر چاہتے ہیں کہ ہماری دعائیں قبول ہوں، تو ہمیں عملی طور پر بھی برائی کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔ 5. *چند تاریخی اور معاصر واقعات* اس حدیث کا مفہوم واضح کرنے کے لیے چند تاریخی اور معاصر واقعات درج ذیل ہیں، جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا معاشرے کے لیے کتنا ضروری ہے۔ 1. *بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر عذاب – خاموشی کی سزا* قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ایک گروہ کا ذکر کیا ہے جو برائی کے خلاف خاموش رہا، اور اسی خاموشی کی وجہ سے اللہ کا عذاب ان پر نازل ہوا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جب انہوں نے ان باتوں کو بھلا دیا جن کی انہیں نصیحت کی گئی تھی تو ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جو برائی سے منع کرتے تھے اور ظالموں کو ان کی نافرمانی کے سبب سخت عذاب میں پکڑ لیا۔(سورۃ الأعراف: 165) ثابت ہوا کہ جو لوگ برائی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، وہ اللہ کی رحمت کے مستحق بنتے ہیں، اور جو خاموش رہتے ہیں، ان پر بھی عذاب نازل ہو سکتا ہے۔ 2. *حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تنبیہ* حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: لوگو! تم یہ آیت پڑھتے ہو کہ: اے ایمان والو! اپنی فکر کرو، اگر تم راہِ راست پر ہو تو جو گمراہ ہو وہ تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ (المائدہ: 105)، لیکن تم اس کا غلط مطلب لے رہے ہو۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ جب لوگ کسی برائی کو دیکھیں اور اسے روکنے کی کوشش نہ کریں، تو قریب ہے کہ اللہ سب پر عذاب نازل کر دے۔ (سنن ابی داؤد: 4338) معلوم ہوا کہ صرف خود کو نیک بنانا کافی نہیں، بلکہ معاشرے کی اصلاح کے لیے برائی کے خلاف آواز اٹھانا بھی ضروری ہے۔ 3. *ایک ظالم بادشاہ اور نیک شخص* ایک نیک عالم دین کے پاس ایک شخص آیا اور کہا: میں ایک ظالم بادشاہ کے دربار میں ملازم ہوں، لیکن میں خود کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ کیا میرا یہ کام جائز ہے؟ عالم دین نے پوچھا: اگر تم کسی کشتی میں سوار ہو، اور وہ کشتی لوگوں کو ڈبونے کے لیے جا رہی ہو، تو کیا تم بچ جاؤ گے؟ اس شخص نے کہا: نہیں، میں بھی ڈوب جاؤں گا۔ عالم دین نے فرمایا: تو پھر یاد رکھو کہ تم ظالم کے ساتھ ہو، چاہے براہِ راست ظلم نہ بھی کرتے ہو، تمہیں بھی اس کا انجام بھگتنا ہوگا! یہ واقعہ اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ اگر ہم ظلم اور برائی کے خلاف نہیں کھڑے ہوں گے، تو اس کے نتائج ہمیں بھی بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔ 4. *برائی کے خلاف کھڑا ہونے کی برکت* تاریخ اسلام میں سب سے عظیم مثال حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ہے، جنہوں نے یزید پلید کی ظالمانہ حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، کیونکہ وہ برائی کے خلاف خاموش رہنے کو گناہ سمجھتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ظالم کے سامنے کلمۂ حق کہنا سب سے بڑی عبادت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا نام عزت اور جرات کے ساتھ لیا جاتا ہے، جب کہ یزید کو ہمیشہ ظلم اور برائی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ 5. *جدید دور میں ایک سبق آموز مثال* 20ویں صدی میں ہٹلر کی فاشسٹ حکومت کے دوران، جرمنی میں لاکھوں بے گناہ لوگوں کو قتل کیا گیا، لیکن اس وقت بہت سے لوگ خاموش رہے، حالانکہ انہیں معلوم تھا کہ ظلم ہو رہا ہے۔ بعد میں جب حالات قابو سے باہر ہو گئے اور جرمنی پر تباہی آئی، تو لوگوں کو احساس ہوا کہ اگر وہ ابتدا میں ظلم کے خلاف کھڑے ہو جاتے، تو شاید اتنی تباہی نہ آتی۔ اس سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ جب تک برائی کو روکا نہ جائے، وہ مزید طاقتور ہو جاتی ہے، اور پھر سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ ان واقعات سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ ہمیں ہر حال میں سچ کا ساتھ دینا ہوگا، ظلم اور برائی کے خلاف آواز اٹھانی ہوگی، چاہے وہ ہمارے معاشرے میں ہو، حکومت میں ہو، یا میڈیا پر۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ *نتیجہ* یہ حدیث آج کے دور کے لیے ایک واضح انتباہ ہے کہ اگر ہم نے اپنی ذمہ داری نہ نبھائی، تو اللہ تعالیٰ ہمیں آزمائشوں میں مبتلا کر دے گا، اور پھر ہماری دعائیں بھی بے اثر ہو جائیں گی۔ ہمیں اپنے رویے پر غور کرنا ہوگا اور ایک زندہ، باشعور، اور دین دار قوم کے طور پر اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہوگی۔ اللہ ہمیں سمجھنے، عمل کرنے اور برائی کے خلاف کھڑے ہونے اور ڈٹ جانے اور حق کے لیے آواز بلند کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین! —————————————— *बुराई के ख़िलाफ ख़ामोशी – अल्लाह के अज़ाब का पेशख़ेमा* हज़रत हुज़ैफ़ा बिन यमान रज़ियल्लाहु अन्हु से रिवायत है कि नबी-ए-करीम सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ने फ़रमाया: क़सम है उस ज़ात की जिसके क़ब्ज़े-कु़दरत में मेरी जान है! तुम ज़रूर नेक़ी का हुक्म दो और बुराई से रोको! वरना क़रीब है कि अल्लाह तआला तुम पर अपना अज़ाब मुसल्लत कर दे, फिर तुम उससे दुआ करोगे मगर वह क़बूल नहीं की जाएगी। (तिरमिज़ी, हदीस नं: 2169) *शरह और बयान:* रसूलुल्लाह ने इस हदीस में यह पैग़ाम दिया है कि एक पाकीजा़ और संतुलित समाज की बुनियाद नेक़ी के प्रचार और बुराई को रोकने पर टिकी होती है। अगर लोग बुराई को देखकर चुप रहें, उसे सहने लगें या उसे सामान्य समझने लगें, तो वे असल में अपने ही ख़िलाफ़ साज़िश कर रहे होते हैं। नबी-ए-करीम सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ने हमें चेतावनी दी है कि अगर तुम नेक़ी का हुक्म नहीं दोगे और बुराई से नहीं रोकोगे, तो अल्लाह तुम पर ऐसे हालात ला देगा जो तुम्हारे लिए परीक्षा बन जाएंगे। फिर तुम दुआ करोगे, लेकिन वह क़बूल नहीं की जाएगी, क्योंकि तुमने अपनी ज़िम्मेदारी को पूरा नहीं किया। आज के दौर में हम देखते हैं कि ज़ुल्म, बेहयाई, करप्शन और नाइंसाफ़ी आम हो चुकी है, लेकिन ज़्यादातर लोग या तो ख़ामोश हैं या ख़ुद इन बुराइयों में शामिल हो चुके हैं। नतीजतन, हमें तरह-तरह की मुश्किलों और परेशानियों का सामना करना पड़ रहा है, लेकिन हमारी दुआएँ बेअसर दिखाई देती हैं। रसूलुल्लाह का यह पैग़ाम हमें झिंझोड़ने के लिए काफ़ी है कि अगर हम चाहते हैं कि हमारे समाज में भलाई और बरकत हो, हमारी दुआएँ क़बूल हों और अल्लाह की रहमत हम पर नाज़िल हो, तो हमें ख़ुद को बदलना होगा। हमें नेक़ी को बढ़ावा देने और बुराई के ख़िलाफ़ खड़े होने की हिम्मत पैदा करनी होगी। वरना, हमारे हालात और ख़राब हो सकते हैं, और फिर तौबा और दुआ के दरवाज़े भी बंद हो सकते हैं। हमारी ज़िम्मेदारी: इस हदीस में हमें हमारी सामूहिक ज़िम्मेदारी का अहसास कराया गया है। अगर समाज में बुराई को नहीं रोका जाता और नेक़ी को बढ़ावा नहीं दिया जाता, तो अल्लाह की तरफ़ से मुश्किलें, परीक्षाएँ और मुसीबतें आ सकती हैं। आज के दौर में यह हदीस पहले से कहीं ज़्यादा प्रासंगिक (रिलिवेंट) है, क्योंकि: 1. *सोशल मीडिया पर बुराई का प्रचार*: आजकल बुराई का फैलाव सिर्फ गलियों और बाजारों तक सीमित नहीं है, बल्कि यह मोबाइल स्क्रीन और सोशल मीडिया के ज़रिए हर घर में प्रवेश कर चुकी है। अश्लीलता, गाली-गलौच, झूठ, आरोप-प्रत्यारोप और गलत विचार बहुत तेज़ी से वायरल हो रहे हैं, और ज़्यादातर लोग या तो चुप रहते हैं या खुद इसमें शामिल हो जाते हैं। अगर हम इन बुराइयों पर चुप रहेंगे, तो अल्लाह की नाराज़गी का सामना करना पड़ सकता है। 2. *ज़ुल्म और अन्याय पर खामोशी* आज हम देख रहे हैं कि दुनिया भर में ज़ालिम हुक्मरान हावी हो चुके हैं, बेगुनाहों पर ज़ुल्म हो रहा है, न्याय कमज़ोर हो चुका है, लेकिन अधिकतर लोग सिर्फ तमाशाई बने हुए हैं। अगर हम ज़ुल्म को रोकने के लिए आवाज़ नहीं उठाएंगे, तो ज़ालिम और अधिक ताक़तवर हो जाएगा और फिर हमारे हक़ में भी कोई खड़ा नहीं होगा। 3. *बे-हयाई और अख़लाक़ी ज़वाल* हमारे समाज में बेशर्मी, अश्लीलता, बेईमानी और अख़लाक़ी ज़वाल (नैतिक पतन) तेज़ी से बढ़ रहा है। फ़िल्मों, ड्रामों और सोशल मीडिया के माध्यम से गलत विचारधारा और अनैतिकता को बढ़ावा दिया जा रहा है, और लोग इसे "विकास" और "आज़ादी" का नाम देकर स्वीकार कर रहे हैं। अगर हमने अपनी आने वाली पीढ़ियों को सही मार्ग नहीं दिखाया, तो भविष्य के समाज में अच्छाई और नैतिकता का नामोनिशान नहीं रहेगा। 4. *दुआ की कुबूलियत और हमारी लापरवाही* हमारे लिए एक बहुत बड़ा सबक़ है कि जब बुराई आम हो जाए और हम उसे रोकने की कोशिश न करें, तो हमारी दुआएं भी कुबूल नहीं होतीं। आज हम उम्मत-ए-मुस्लिमा के मसलों के हल के लिए दुआ करते हैं, लेकिन वे पूरी नहीं होतीं। क्या इसकी वजह यही तो नहीं कि हमने नेकी का हुक्म देना छोड़ दिया और बुराई को रोकने की ज़िम्मेदारी भुला दी? 5. *हमें क्या करना चाहिए? (Modern Solutions)* 1. *अपनी हैसियत के मुताबिक़ बुराई के खिलाफ़ आवाज़ उठाएँ:* अगर कहीं अन्याय, भ्रष्टाचार, ज़ुल्म या अनैतिकता (बै-हयाई) हो रही हो, तो कम से कम अपनी ज़ुबान से इसका विरोध करें। सोशल मीडिया पर सकारात्मक और इस्लामी मूल्यों को फैलाएँ, गलत जानकारी या फितना फैलाने वाली सामग्री को हरगिज़ शेयर न करें। 2. *अपने घर और परिवार में इस्लाह करें:* बच्चों की धार्मिक शिक्षा और नैतिकता पर ध्यान दें, उन्हें सच्चाई, ईमानदारी और नेकी की तालीम दें। जदीद मीडिया के असरात से बचाने के लिए घर में इस्लामी माहौल बनाएं। 3. *सामाजिक बुराइयों के खिलाफ़ सामूहिक प्रयास करें:* स्थानीय स्तर पर सुधार अभियान, मस्जिदों, मदरसों और सामाजिक संगठनों के साथ सहयोग करें। सामाजिक समस्याओं को समझें और अपनी कम्युनिटी में सुधार के लिए काम करें। 4. *अपने आमाल और दुआओं को सही करें:* पहले खुद नेकी पर अमल करें, तभी हमारी बातों में असर होगा। अगर चाहते हैं कि हमारी दुआएँ क़ुबूल हों, तो हमें व्यावहारिक रूप से भी बुराई के खिलाफ़ खड़ा होना होगा। 6. *चंद ऐतिहासिक और समकालीन वाकि़आत* इस हदीस का मतलब समझाने के लिए कुछ ऐतिहासिक और आधुनिक वाकि़आत नीचे दी जा रही हैं, जो यह साबित करती हैं कि नेक़ी का हुक्म देना और बुराई से रोकना समाज के लिए कितना ज़रूरी है। 1. *बनी इसराईल के एक गिरोह पर अज़ाब – ख़ामोशी की सज़ा* क़ुरआन में अल्लाह तआला ने बनी इसराईल के एक गिरोह का ज़िक्र किया है जो बुराई के ख़िलाफ़ चुप रहा, और इसी चुप्पी की वजह से अल्लाह का अज़ाब उन पर नाज़िल हुआ। अल्लाह तआला फ़रमाता है: "जब उन्होंने उन बातों को भुला दिया जिनकी उन्हें नसीहत की गई थी, तो हमने उन लोगों को बचा लिया जो बुराई से मना करते थे और ज़ालिमों को उनकी नाफ़रमानी के कारण सख़्त अज़ाब में पकड़ लिया। (सूरह अल-आराफ़: 165) *सबक़:* जो लोग बुराई के ख़िलाफ़ आवाज़ उठाते हैं, वे अल्लाह की रहमत के हक़दार बनते हैं, और जो चुप रहते हैं, उन पर भी अज़ाब आ सकता है। 2. *हज़रत अबू बक्र सिद्दीक़ रज़ियल्लाहु अन्हु की तंबीह* हज़रत अबू बक्र सिद्दीक़ रज़ियल्लाहु अन्हु ने एक बार ख़ुत्बा देते हुए फ़रमाया: लोगो! तुम यह आयत पढ़ते हो कि: 'ऐ ईमान वालो! अपनी फ़िक्र करो, अगर तुम राहे-रास्त पर हो तो जो गुमराह हो वह तुम्हें नुक़सान नहीं पहुँचा सकता। (सूरह अल-माइदा: 105) लेकिन तुम इसका ग़लत मतलब ले रहे हो। मैंने रसूलुल्लाह को फ़रमाते सुना है कि जब लोग किसी बुराई को देखें और उसे रोकने की कोशिश न करें, तो क़रीब है कि अल्लाह सब पर अज़ाब नाज़िल कर दे।(अबु-दाऊद: 4338) *सबक़*: सिर्फ़ ख़ुद को नेक बनाना काफ़ी नहीं है, बल्कि समाज की इस्लाह के लिए बुराई के ख़िलाफ़ आवाज़ उठाना भी ज़रूरी है। 3. *एक ज़ालिम बादशाह और नेक इंसान* एक नेक आलिम के पास एक शख़्स आया और कहा: मैं एक ज़ालिम बादशाह के दरबार में मुलाज़िम हूँ, लेकिन मैं ख़ुद किसी पर ज़ुल्म नहीं करता। क्या मेरा यह काम जाइज़ है? आलिम साहिब ने पूछा: अगर तुम किसी जहाज़ में सवार हो, और वह जहाज़ लोगों को डुबाने के लिए जा रहा हो, तो क्या तुम बच जाओगे? उसने कहा: नहीं, मैं भी डूब जाऊँगा। आलिम साहिब ने फ़रमाया: "तो फिर याद रखो कि तुम ज़ालिम के साथ हो, चाहे तुम ख़ुद ज़ुल्म न करो, लेकिन उसका हिस्सा बने रहोगे, और तुम्हें भी इसका अंजाम भुगतना होगा!" *सबक़*: अगर हम ज़ुल्म और बुराई के ख़िलाफ़ नहीं खड़े होंगे, तो इसका अंजाम हमें भी भुगतना पड़ेगा। 4. *बुराई के ख़िलाफ़ डटे रहने की बरकत* इस्लामी इतिहास की सबसे बेहतरीन मिसाल हज़रत इमाम हुसैन रज़ियल्लाहु अन्हु की है, जिन्होंने यज़ीद की ज़ालिम हुकूमत को क़ुबूल करने से इनकार कर दिया, क्योंकि वे बुराई के ख़िलाफ़ चुप रहने को गुनाह समझते थे। उन्होंने फ़रमाया: "ज़ालिम के सामने कलिमा-ए-हक़ कहना सबसे बड़ी इबादत है।" यही वजह है कि आज भी हज़रत इमाम हुसैन रज़ियल्लाहु अन्हु का नाम इज़्ज़त और हिम्मत के साथ लिया जाता है, जबकि यज़ीद हमेशा ज़ुल्म और बुराई की निशानी समझा जाता है। 5. *आधुनिक दौर में एक सबक़ आमोज़ मिसाल* 20वीं सदी में हिटलर की फ़ासिस्ट हुकूमत के दौरान, जर्मनी में लाखों बेगुनाहों का क़त्ल किया गया, लेकिन उस वक़्त बहुत से लोग चुप रहे, हालाँकि उन्हें मालूम था कि ज़ुल्म हो रहा है। बाद में जब हालात बेक़ाबू हो गए और जर्मनी पर तबाही आई, तो लोगों को अहसास हुआ कि अगर वे शुरू में ज़ुल्म के ख़िलाफ़ खड़े हो जाते, तो शायद इतनी बर्बादी न होती। *सबक़*: जब तक बुराई को रोका न जाए, वह और ताक़तवर होती जाती है और फिर सभी को अपनी लपेट में ले लेती है। *❖ नतीजा*❖ यह हदीस आज के दौर के लिए एक साफ़ चेतावनी है कि अगर हमने अपनी ज़िम्मेदारी अदा न की, तो अल्लाह हमें आज़माइशों में मुब्तला कर देगा और फिर हमारी दुआएँ भी बेअसर हो जाएँगी। हमें अपने रवैये पर ग़ौर करना होगा और एक ज़िंदा, होशमंद और दीनी क़ौम की तरह अपनी ज़िम्मेदारी अदा करनी होगी। अल्लाह हमें समझने, अमल करने और बुराई के ख़िलाफ़ खड़े होने की तौफ़ीक़ अता करे। आमीन!
🇵🇸 1

Comments