MUFTI ABDUSSUBHAN MISBAHI
MUFTI ABDUSSUBHAN MISBAHI
February 27, 2025 at 02:42 PM
*نادانوں کے رویے پر صبر – اہلِ علم کے شایانِ شان رویہ* ـــــــــــــــــــــــــــــــ آج کے دور میں کئی کہنہ مشق ائمہ مساجد اور باصلاحیت مدرسین، اپنی کمیٹیوں اور انتظامیہ کے ناسمجھ رویے سے نالاں نظر آتے ہیں۔ علم و حکمت سے آراستہ ہونے کے باوجود وہ ایسے لوگوں کی بے جا مداخلت، روک ٹوک اور ناپسندیدہ طرزِ عمل کا شکار رہتے ہیں، جو نہ ان کے علم وفن کی وسعت سے واقف ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کے مقام و مرتبے کو پہچانتے ہیں۔ یہ ایک تلخ مگر ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ علم و حکمت کی قدردانی ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔ آج کے دور میں کتنے ہی جید علما و ائمہ اپنی مساجد کی کمیٹیوں کے غیر معقول رویوں سے دلبرداشتہ ہیں، اور کتنے ہی اساتذہ اپنے ہی اداروں کی انتظامیہ کی بے جا مداخلت اور ناسمجھی سے پریشان۔ علم والے اپنی بصیرت اور قابلیت سے روشنی پھیلانا چاہتے ہیں، جبکہ اکثر جاہل ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ مسئلہ نیا نہیں، بلکہ ازل سے چلا آ رہا ہے۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ اگر دنیا پرست افراد، خادمانِ دین کی عزت و قدر کو سمجھ سکتے تو صورتحال یقیناً مختلف ہوتی، اور شاید یہ معاملات کبھی پیدا ہی نہ ہوتے۔ مگر حقیقت وہی ہے جسے امام ذہبی نے نہایت جامع انداز میں بیان کیا: *"وَلٰکِنَّ الجَاهِلَ ‌لَا ‌يَعلَمُ رُتْبَةَ نَفْسِه فَكَيْفَ يَعْرِفُ رُتْبَةَ غَيْرِهِ؟!!"* (سیر اعلام النبلاء: 11/321) (جاہل کو تو خود اپنا مقام و مرتبہ معلوم نہیں ہوتا، وہ کسی اور کے مقام و مرتبہ کو کیا پہچانے گا؟!) یہی وہ جہالت ہے جو نادان و جاہل کو حقیقت دیکھنے نہیں دیتی، جو کم فہم کو بڑوں کی عزت کرنے سے روکتی ہے، اور جو محدود سوچ والے کو علم و بصیرت کی قدر کرنے کے قابل نہیں بناتی۔ یہی حقیقت زندگی کے ہر میدان میں نظر آتی ہے۔ عربی کا ایک معروف مقولہ ہے: *"الناس أعداء لما جھلوا"* (لوگ اس چیز کے دشمن ہوتے ہیں، جسے وہ جانتے نہیں!) یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جو ہمیں اس رویے کی جڑ تک لے جاتا ہے۔ ایک جاہل اپنی حقیقت سے بے خبر ہوتا ہے، وہ اپنی کم علمی کو علم سمجھتا ہے، وہ اپنی نادانی کو عقل کامل خیال کرتا ہے، اور سب سے بڑھ کر، وہ یہ گمان کرتا ہے کہ وہی سب سے زیادہ فہیم اور صائبِ رائے ہے۔ اسی طرح فارسی کا مقولہ بھی ہے: *"قدر زر زرگر بداند، یا بداند جوہری"* (سونے کی قدر وقیمت یا تو سُنار جانتا ہے یا جوہری!) گویا یہ طے ہے کہ ہر دور میں جاہل، اہلِ علم کی راہ میں رکاوٹ بنے گا، ان کی صلاحیتوں کو شک کی نظر سے دیکھے گا، اور ان کی عزت کرنے کے بجائے ان پر حکم چلانے کی کوشش کرے گا۔ مگر اہلِ علم کا شایانِ شان طریقہ یہی ہے کہ وہ صبر اور حکمت سے اپنی راہ پر چلتے رہیں۔ اس سے واضح ہوا کہ ناسمجھی اور جہالت وہ گھٹا ٹوپ اندھیریں ہیں جو روشنی کی قدر نہیں جانتے۔ جو خود اپنی حیثیت سے بے خبر ہو، وہ بھلا کسی اور کی عزت و عظمت کو کیسے پہچانے گا؟ *قرآن و حدیث سے استدلال* یہی حقیقت ہمیں قرآن و حديث میں بھی نظر آتی ہے: 1️⃣ *مخالفتِ حق – تاریخ کی حقیقت* اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "بَلْ جَاءَهُمْ بِالْحَقِّ وَأَكْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ كَارِهُونَ" ( المؤمنون: 70) (بلکہ وہ (نبی) ان کے پاس حق لے کر آئے، مگر ان میں سے اکثر کو حق پسند نہیں!) یہی فطرت آج بھی قائم ہے۔ جو حق کی روشنی لے کر آتا ہے، وہ ہمیشہ تاریکی والوں کے نشانے پر ہوتا ہے۔ 2️⃣ *نادانوں کے رویے پر صبر کا حکم* اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "وَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيلًا"( المزمل: 10) (اور جو کچھ وہ کہتے ہیں، اس پر صبر کرو، اور انہیں خوبصورتی کے ساتھ چھوڑ دو!) یہی صبر کی وہ روش ہے جو انبیائے کرام علیہم السلام، اولیا کرام اور تمام اہلِ علم نے اپنائی ہے۔ 3️⃣ *تاریخی دلائل – اہلِ علم کا سامنا* علم ہمیشہ آزمائشوں کے دشت سے گزرتا آیا ہے۔ جو روشنی پھیلانے والا ہوتا ہے، وہی اندھیروں کے نشانے پر رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جید علما، کہنہ مشق ائمہ، اور صاحبِ بصیرت اساتذہ ہمیشہ ناسمجھوں کی مخالفت اور نادانوں کی بے جا مداخلت کا سامنا کرتے ہیں۔ یہ شکایت آج کی نہیں، بلکہ تاریخ کے ہر دور میں اہلِ علم کو نادانوں کی مخالفت جھیلنی پڑی ہے۔ 1️⃣ امام *ابو حنیفہ – فہمِ دین اور جاہلوں کی مخالفت* امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا علم و استنباط ایسا تھا کہ دنیا آج بھی اس سے روشنی لے رہی ہے، مگر آپ کے دور میں بعض کم فہم لوگ آپ پر اعتراض کرتے تھے۔ حتیٰ کہ حکومت وقت نے بھی آپ کی حق گوئی برداشت نہ کی، اور آپ رحمہ اللہ کو قید و بند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ آپ جاہلوں کی مخالفت سے ٹس سے مس نہ ہوئے اور حق پر ڈٹے رہے۔ 2️⃣ *امام احمد بن حنبل – صبر و استقامت کی معراج* مامون الرشید کے دور میں "خلقِ قرآن" کا فتنہ کھڑا کیا گیا، اور تمام علما پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ اس نظریے کو قبول کریں۔ جو نہ مانتا، اسے قید و بند میں ڈالا جاتا۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ پر کوڑے برسائے گئے، مگر آپ ثابت قدم رہے۔ آپ ناسمجھوں اور جاہل حکمرانوں کی مخالفت کے آگے جھکے نہیں، بلکہ صبر کے پہاڑ بن کر کھڑے رہے۔ 3️⃣ *امام بخاری – حق پرستی اور آزمائشیں* امام بخاری رحمہ اللہ جیسے جلیل القدر محدث، علم حدیث کے مسلم الثبوت بے تاج بادشاہ، امیر المومنین فی الحدیث، آپ کی کتاب صحیح بخاری آج بھی سند سمجھی جاتی ہے، آپ کو بھی اپنے وقت میں حسد، بغض، اور ناسمجھوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ آپ کو اپنے ہی شہر سے نکال دیا گیا، اور آپ پردیس میں وفات پا گئے۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ *سبق – نادانوں کے رویے پر صبر اور استقامت* ان تمام دلائل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ناسمجھوں اور جاہلوں کی مخالفت کوئی نئی بات نہیں، بلکہ یہ ہر دور میں اہلِ علم کی آزمائش رہی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ: 1️⃣ نادانوں کی باتوں پر دھیان نہ دیں – کیونکہ وہ آپ کی قدر نہیں جان سکتے۔ 2️⃣ اپنے مقصد پر ثابت قدم رہیں – کیونکہ حق کی راہ میں آزمائشیں آتی ہی ہیں۔ 3️⃣ محبت کرنے والوں کی محبت پر نظر رکھیں – کیونکہ جو علم کی روشنی کو پہچانتا ہے، وہی اس سے سیراب ہوتا ہے۔ 4️⃣ جاہلوں کے ترش و تلخ رویے کو نظر انداز کریں – کیونکہ ان کی مخالفت حقیقت میں ان کی کم علمی کا ثبوت ہے۔ *صبر ہی کامیابی کی کنجی ہے* دنیا میں کوئی بھی قیمتی چیز ہر شخص کی سمجھ میں نہیں آتی۔ علم بھی ایک قیمتی جوہر ہے، جس کی پہچان ہر کسی کو نہیں ہوتی۔ اگر لوگ آپ کی قدر نہیں کرتے، تو پریشان نہ ہوں، کیونکہ: "ہر جوہری، ہیرے کی پہچان نہیں رکھتا!" لہٰذا، نادانوں کی نادانی پر صبر کریں، اپنی روشنی کو مدھم نہ ہونے دیں، اور یاد رکھیں کہ: *"حق کی پہچان کرنے والے کم ہوتے ہیں، مگر تاریخ انہی کو یاد رکھتی ہے!"* *صبر اور استقامت – کامیابی کی کنجی* اے علما کرام! اے ائمہ مساجد و اساتذہ عظام! یہ دنیا دار لوگ تمہیں تمہاری اصل قدر نہیں دے سکتے، کیونکہ یہ خود اپنی قیمت سے بے خبر ہیں۔ تمہارا مقام نہ کسی کمیٹی کے چند افراد کے ہاتھ میں ہے، نہ کسی محدود سوچ رکھنے والی انتظامیہ کے رحم و کرم پر۔ تمہاری حیثیت وہی پہچانے گا جو "جوہری" ہوگا، جو دل کی بینائی رکھتا ہوگا۔ یہ دنیا آزمائش کی جگہ ہے، یہاں نادانوں کی تلخ رویوں، ناسمجھوں کی بے جا مداخلت اور کم ظرفوں کے طعنوں کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔ مگر یہی وہ لمحات ہیں جب صبر، حکمت اور استقامت کی ضرورت ہوتی ہے۔ *یاد رکھیں!* آپ کے علم، اخلاص اور خدمات کی حقیقت وہی پہچانے گا جو "جوہری" ہوگا، جو دل کی آنکھوں سے دیکھنے والا ہوگا۔ لہٰذا نادانوں کے طرزِ عمل پر پریشان نہ ہوں، بلکہ اپنے مقصد پر ثابت قدم رہیں۔ محبت کرنے والوں کی قدر کریں اور جاہلوں کی تلخیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے مشن کو جاری رکھیں، کیونکہ آپ کا حقیقی مقام عنداللہ ہے، اور وہی سب سے بہترین جزا دینے والا ہے! دنیا ہمیشہ اہلِ علم کو آزماتی آئی ہے، اور اہلِ علم نے ہمیشہ صبر، استقامت اور بے قدروں سے بے نیازی کا راستہ اختیار کیا ہے۔ *بس اپنا چراغ جلائے رکھو، کیونکہ اندھیرے والے روشنی کی قیمت نہیں سمجھتے!* ــــــــــــــــــ *ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں* *میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے*
🤲 1

Comments