
MUFTI ABDUSSUBHAN MISBAHI
February 27, 2025 at 05:49 PM
علم و ادب اور روحانیت کے مصطفیٰ آباد میں ایک دن
تحریر:- خالد ایوب مصباحی شیرانی
چیرمین: تحریک علمائے ہند
پرانا "مصطفیٰ آباد" جسے اب "رام پور" کہا جاتا ہے، نہ صرف نوابوں کی نگری اور نوابوں کے واسطے سے شعر و سخن اور علم و ادب کا گہوارہ رہی ہے بلکہ کبھی اسلامی علوم کا سرچشمہ اور عظیم روحانی شخصیات کا عظیم روحانی مرکز بھی رہی ہے۔
بے ہنگم شاخہائے شجر کی طرح دائیں بائیں پھلتے پھولتے اور دیکھتے ہی دیکھتے بڑھتے جاتے شہروں کے بیچ یہ چھوٹا سا شہر، آج بھی اپنی آبادی اور آباد کاری پر ایک حد تک کنٹرول کیے ہوئے ہے اور بے ہنگم بڑھنے کی بجائے کافی حد تک خوب صورت اور منظم ہے، جس کی دیدہ زیبی میں نوابی عہد کے بعد انھی کی طرح دور جمہوریت میں یہاں کے ارباب سیاست نے بھی اپنا رول ادا کیا۔
20/ فروری 2025 کو یہاں کے مدرسہ نور العلوم، اجیت پور کے سالانہ جلسہ دستار بندی کے موقع پر حاضری کی سعادت حاصل ہوئی اور اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے پری پلاننگ یہاں کے آثار اور بطور خاص عظیم علمی تراث "رام پور رضا لائبریری، رام پور" کا وزٹ طے پایا۔
میں شکر گزار ہوں حضرت مولانا چراغ احمد رام پوری، متعلم: جامعہ اسلامیہ، رام پور اور خطیب و امام: حسینی مسجد کا، جنھوں نے اولین ملاقات میں ہی ہمارے میزبان حضرت مولانا عارف برکاتی صاحب کی خواہش پر قدیم ترین تعلقات کی طرح رشتہ نبھاتے ہوئے پورا دن قربان کیا اور پوری اخلاص و محبت کے ساتھ بنا تکان بالترتیب درج ذیل اولیائے کرام اور علمائے حق کے مزارات مقدسہ کی زیارتیں کروائیں:
(الف) حضرت مولانا مفتی ارشاد احمد مجددی علیہ الرحمہ
(ب) رسول نما، حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ
() گنج سلاسل حضرت مولانا شاہ عبد الکریم المعروف ملا فقیر اخوند تابعی علیہ الرحمہ
(ج) تاج دار نقش بندیت، سیدنا حافظ شاہ جمال اللہ مجددی نقش بندی علیہ الرحمہ
(د) شبیہ غوث اعظم، فیض بخش عالمیاں، محبوب الہیٰ حضرت شاہ درگاہی علیہ الرحمہ
(ھ) خلیفہ اعلیٰ حضرت، حضرت مولانا سید ہدایت رسول قادری رام پوری علیہ الرحمہ
(و) صاحب ملا حسن، امام معقولات حضرت ملا محمد حسن فرنگی محلی علیہ الرحمہ۔
اول الذکر صاحب انتصار الحق حضرت مفتی ارشاد احمد مجددی علیہ الرحمہ، حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کی نسل سے پیدا شدہ عظیم ترین عالم ربانی اور روحانی شخصیت ہیں، جن کے تعارف کے لیے اتنا بس ہے کہ امام اہل سنت شاہ امام احمد رضا خان محدث بریلوی علیہ الرحمہ نے آپ کو ہندوستان کے کبار علما میں شامل کیا اور آپ کے خلیفہ حضرت سید شاہ نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ نے تو سنیت کی تعریف ہی یہ کی:
"سنی وہ ہے جو ما انا علیہ و اصحابی کا مصداق ہو۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو خلفائے راشدین، ائمہ دین، مسلم مشائخ طریقت اور متاخرین علمائے کرام میں سے حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی، ملک العلما، حضرت بحر العلوم فرنگی محلی، حضرت مولانا فضل حق خیر آبادی، حضرت مولانا شاہ فضل رسول بدایونی، حضرت مولانا مفتی ارشاد حسین رام پوری اور حضرت مولانا مفتی شاہ احمد رضا خاں بریلوی کے مسلک پر ہوں۔ رحمہم اللہ تعالیٰ۔" (الفقیہ، امر تسر 21/ اگست 1945، ص: 9)
حضرت ملا فقیر آخوند تابعی کے بارے میں مزید تفصیلات حضرت سید شاہد میاں علیہ الرحمہ کی لکھی ہوئی سوانح حیات پڑھ کر ہوگا البتہ یہ پتہ چلا کہ آپ چاروں سلاسل کے علاوہ بہت سے ذیلی سلسلوں کے مجمع اور تابعی ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو ان کا وجود واقعتاً اس زمین ہی نہیں بلکہ اس پورے خطے کے لیے شرف کی بات ہے۔
حضرت سید شاہ جمال اللہ رام پوری مجددی نقش بندی علیہ الرحمہ سلسلہ نقش بندیہ کے عظیم روحانی پیشوا بلکہ زمین ہند کے علاوہ حدود ہند سے باہر بھی سلسلہ نقش بندیہ مجددیہ کی ترویج و اشاعت میں غیر معمولی کردار ادا کرنے والی ایک عظیم ذات ہیں۔
حضرت مولانا سید ہدایت رسول رام پوری قادری علیہ الرحمہ اپنے وقت کے عظیم مجاہد اور بلا لومۃ لائم احقاق حق کرنے والے بے باک خطیب تھے۔ بارگاہ رضا میں آپ کو غیر معمولی مقبولیت اور آپ کی شان خطابت کو پذیرائی حاصل تھی۔ انگریزی قوانین کے خلاف اپنا احتجاج درج کرواتے ہوئے کئی مرتبہ پابند سلاسل کیے گئے لیکن کبھی بھی حق کے لیے سمجھوتہ نہ کیا۔ حضرت شاہ درگاہی علیہ الرحمہ کی پائنتی جانب ایک نہایت سادہ جگہ پر دفن ہیں۔ بتاتے ہیں کہ یہ جگہ آپ کے لیے حضرت امام اہل سنت علیہ الرحمہ نے منتخب فرمائی۔
*جامع معقولات اور درس نظامی کی تقریباً سب سے ادق سمجھی جانے والی کتاب "ملا حسن" کے مصنف علامہ ملا محمد حسن فرنگی محلی علیہ الرحمہ سابق صدر المدرسین: مدرسہ عالیہ، رام پور بھی یہاں کے ایک گم نام قبرستان میں مدفون ہیں۔ تلاش کے بعد یہاں کے "مدرسہ کوہنا" پولیس اسٹیشن کے بغل میں دو قبرستانوں کے بیچ سے گزرتے ایک راستے کے کنارے دائیں طرف کے قبرستان میں آپ علیہ الرحمہ آسودہ خاک ہیں۔*
جب ہم اپنے وقت کے اس عظیم معقولی کی قبر پر حاضر ہوئے تو کچھ دیر کے لیے سکتہ سا طاری ہو گیا۔قبر پر ایک چادر چڑھی ہوئی ہے، جو مسلسل دھول مٹی سے اٹ کر بوسیدہ ہو چکی ہے اور اس چادر سمیت پورے مزار کو ہوا کے جھونکوں کے ساتھ اڑتی ہوئی آوارہ پتیوں نے ڈھانپ رکھا ہے۔ اسی وقت خیال آیا کہ کیوں نہ فاتحہ کے ساتھ احاطہ مزار کی صفائی بھی کر دی جائے، سو یہ سعادت بھی حاصل ہوئی۔
دراصل رام پور کا مدرسہ عالیہ اپنی تاریخ کا وہ عظیم ادارہ رہا ہے جس نے نوابین رام پور کی علم دوستی اور مالی سرپرستی میں جانے کتنی ہی نابغہ روزگار ہستیوں کو اپنے دامن میں جمع کر رکھا تھا اور ماضی میں کتنے ہی سالوں اپنا علمی فیضان لٹاتا رہا۔
حضرت ملا حسن سے فارغ ہو کر ہم ایک ایسے قلعے میں داخل ہوئے جسے دنیا جہان کے دوسرے قلعوں سے اس کی عظیم علمی شناخت لائبریری نے نہ صرف یہ کہ ممتاز کر رکھا ہے بلکہ قلعوں کا استعمال کیسے ہوتا ہے، دنیا کو یہ ڈھنگ بھی سکھایا ہے۔
رام پور کے سابق نواب رضا علی خان سے منسوب "رام پور رضا لائبریری" ملک کی ممتاز ترین اور قدیم لائبریریوں میں سے ایک ہے، جو اسلامی ثقافت سے متعلق نوادار، مخطوطات اور قلمی نسخوں کا بڑا ذخیرہ رکھتی ہے۔ اس کی بنیاد ریاست کے بانی نواب فیض اللہ خان نے رکھی لیکن اس کتب خانے کی اصل ترقی کا دور نواب محمد سعید خان کی مسند نشینی سے شروع ہوا، جنھوں نے اس کی ترقی کی طرف خاص طور سے توجہ فرمائی اور قلمی کتابوں کی فراہمی کے ساتھ نادر و نایاب کتابوں کی نقلیں بھی کرائیں جبکہ نواب رضا علی خان کی قربانی یہ رہی کہ انھوں نے اس لائبریری کو قوم کے لیے وقف کر دیا۔ اس لائبریری کی تاریخ بجائے خود نہایت سنہری تاریخ رہی ہے، جس کے جھروکوں سے حکیم اجمل خان بھی اس کے ناظم اعلیٰ نظر آتے ہیں۔ ویسے تو اس کی واقعی عظمت جاننے کے لیے اس کی مکمل تاریخ پڑھنا اور اس کا وزٹ کرنا چاہیے، لیکن دور سے جاننے کے لیے مولانا شبلی نعمانی کا یہ تاثر بھی کم معنیٰ خیز نہیں:
"اس کتب خانہ سے بارہا متمتع ہوا ہوں۔ ہندوستان کے کتب خانوں میں اس سے بہتر کیا، اس کے برابر بھی کوئی کتب خانہ نہیں۔ میں نے روم و مصر کے کتب خانے بھی دیکھے ہیں لیکن کسی کتب خانے کو مجموعی حیثیت سے اس سے افضل نہیں دیکھا"۔
نواب صاحب کے قلعے کے اندر واقع اس لائیبریری کی عمارت بھی کسی عالی شان محل سے کسی صورت کم نہیں، اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ لائیبریری کے کچھ حصوں پر سونے کی ملمع سازی کی گئی ہے۔
لائبریری کا اپنا مستقل پروٹوکول ہے جیسے ہی ہم لوگ انٹری کروا کے اندر داخل ہوئے، اتفاق سے لائبریری کے ڈائریکٹر پشکر مشرا جی سے ملاقات ہوئی، جنھوں نے وزٹ پر خوشی کا اظہار کیا۔
فی الوقت لائبریری کا جو حصہ زائرین کے لیے کھلا ہوا ہے، وہاں کتابوں کی بجائے نوابوں کے تیر و تفنگ اور شمشیر بھالے سجے ہوئے ہیں، جن میں اہل علم کو تو شاید زیادہ دل چسپی نہ ہو، البتہ الگ الگ گروپوں کی شکل میں آنے والے زائرین کا رنگ و آہنگ اور لونڈے بازیوں کے جتھے بتا رہے تھے کہ کپل کو اس نمائشی حصے میں خوب انٹرسٹ ہے اور یوں ایک علمی آماج گاہ، عام زیارت گاہ سی بنتی جا رہی ہے۔
لائبریری نے کچھ وقت پہلے ہی اپنی ابتدا کے ڈھائی سو سال مکمل ہونے کا جشن منایا ہے، جس کے جا بجا ہورڈنگس آویزاں ہیں۔
ہم کوئی تین گھنٹے الگ الگ رجسٹر ٹٹولتے رہے جن میں فنون کی ترتیب کے مطابق کتابوں کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں لیکن پریشانی یہ ہے کہ جو کتاب بھی درکار ہوتی ہے، وہ وہاں موجود کارندوں کی مدد سے منگوانی پڑتی ہے، زائرین راست کتابوں والے احاطے میں نہیں جا سکتے اور ظاہر ہے یہ لحاظ و مروت والا کام ایک حد تک ہی کیا جا سکتا ہے۔ ہم نے تاریخ اور تاریخ میں بھی راجپوتانہ کی تاریخ کے زمرے سے ڈاکٹر عبد اللہ چغتائی کی "کھٹو" کتاب منگوائی جو اگرچہ ہمارے پاس پی ڈی ایف فارمیٹ میں موجود ہے لیکن یہاں لائبریری موجود نسخے کی زیارت کا غیر ضروری کام بھی، ضروری تھا۔
ہم نے جاتے ہی پہلا اچھا کام یہ کیا کہ پبلشنگ سیکشن میں جا کر درج ذیل کتابوں کی خرید مکمل کر لی تاکہ بعد میں بھی لائبریری سے استفادے کی راہیں ہموار رہیں:
(1-2) فہرست کتب عربیہ جلد اول و دوم
(3) فہرست کتب اردو
(4) تاریخ رام پور رضا لائیبریری
(5) تاریخ روہیلہ
(6) نعت محمدی
(7) تاریخ مدرسہ عالیہ
(8) دستور الفصاحت
لائبریری سے فراغت کے بعد مولانا چراغ احمد صاحب کی مسجد میں ظہرانہ اور قدرے آرام ہوا اور بعد عصر پھر یہاں کی جامع مسجد جانا ہوا، جو بجائے خود ایک مقدس زیارت گاہ ہے۔ عالی شان مسجد نوابی مزاج اور شاہی طرز دونوں کا حسین امتزاج رکھتی ہے۔ اونچائی پر واقع مسجد اپنے نچلے حصے اور دیگر جہتوں سے بھیڑ بھڑکے والی دوکانوں سے گھری ہوئی ہے۔ مسجد کی بائیں جانب صولت پبلک لائیبریری ہے۔ اس لائبریری کو بھی 90 سال کا عرصہ مکمل ہو گیا ہے لیکن اندر بیٹھے ایک نہایت شریف النفس بزرگ اور ذمہ دار نے بتایا کہ بوجوہ یہ علمی دفتر ایک مدت تک دھول چاٹنے کے لیے مقفل تھا اور اسی وجہ سے اس کی کتابوں کا بڑا حصہ محض ایک بار ٹچ کرنے جیسا رہ گیا ہے اور فی الوقت ذمہ داروں کا زیادہ فوکس اس بات پر ہے کہ اپنے ہاں موجود ہزاروں قسم کے نایاب مخطوطات کو جتنا زیادہ ریختہ ویب سائٹ پر اپلوڈ کروا سکیں، کر دیں تاکہ یہ علمی ذخیرہ ضائع ہونے سے بچ جائے اور یہ سلسلہ بڑی تیزی کے ساتھ پورے اخلاص کے ساتھ جاری ہے۔ ہاں! اس خزینے میں کیا کچھ موجود ہے؟ اس کی کوئی مرتب فہرست دست یاب نہیں اور اسی وجہ سے اس سے استفادہ آسان نہیں۔
چوں کہ جامع مسجد اور صولت پبلک لائبریری کا وزٹ کرتے کرتے مغرب کا دھندلکا چھا چکا تھا، اس لیے خواہش کے باوجود مولانا چراغ احمد صاحب کے مخلصانہ اصرار پر ایک عدد رام پوری کیپ خریدنے کے علاوہ مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی کی آباد کاری اور مدرسہ عالیہ کی خانہ بربادی کا اپنی آنکھوں کو گواہ نہ بنا سکے، خیر مولانا چراغ احمد سا چراغ سلامت تو یہ خواہش بھی ان شاء اللہ تعالیٰ دیر سویر پوری ہو ہی جائے گی۔ فی الوقت مولانا صاحب رام پور کی عظیم علمی اور انقلاب آفریں شخصیت حضرت سید شاہد علی میاں علیہ الرحمہ اور ان کے خلف رشید حضرت سید فیضان میاں صاحب ازہری کی کتابیں جٹانے اور درج بالا کتابوں سمیت پورا بنڈل میرے ایڈریس پر روانہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ رب العزت ان کے اخلاص و محبت کو سلامت با کرامت رکھے۔ سید فیضان میاں صاحب کی شہر میں غیر موجودگی کی وجہ سے فون پر علیک سلیک کے علاوہ ان سے راست شرف لقا تو نہ حاصل ہو سکا لیکن مولانا چراغ صاحب اور دیگر احباب کی زبانی ان کی غیر معمولی علمی لیاقت اور حضرت سید شاہد میاں علیہ الرحمہ کی بے پناہ دینی خدمات کے تذکروں نے بہت متاثر کیا اور ان حضرات کی تربیت و درد مندی کے اثرات بھی صاف طور پر محسوس کیے۔
🤲
1