
MUFTI ABDUSSUBHAN MISBAHI
February 28, 2025 at 08:59 AM
سوال:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ بیس سال قبل ہمارے والد صاحب کا انتقال ہوگیا تھا۔ ان کے کچھ روزے زندگی میں قضا رہ گئے تھے، جن کا فدیہ ہم اب دینا چاہتے ہیں۔ ہم کسی قسم کا حیلہ نہیں کرنا چاہتے، بلکہ پوری رقم ادا کرنا چاہتے ہیں۔ براہ کرم شرعی رہنمائی فرمائیں کہ فدیہ ادا کرنے میں کس سال کے صدقۂ فطر کی قیمت کا اعتبار ہوگا؟ جس سال والد صاحب کے روزے قضا ہوئے تھے، اس سال کے صدقۂ فطر کی قیمت معتبر ہوگی یا جب ہم فدیہ ادا کریں گے، اس وقت کے صدقۂ فطر کی قیمت کا اعتبار ہوگا؟
الجواب بعون الملک الوہاب
پوچھی گئی صورت میں آپ کے والد صاحب کے جس سال کے روزے قضا ہوئے تھے، فدیہ کی ادائیگی میں اسی سال کے صدقۂ فطر کی قیمت کا اعتبار ہوگا۔ موجودہ سال کے صدقۂ فطر کی قیمت معتبر نہیں ہوگی، کیونکہ زکوٰۃ، صدقۂ فطر اور کفارات میں ان کے واجب ہونے کے وقت کی قیمت معتبر ہوتی ہے، نہ کہ ادائیگی کے وقت کی قیمت۔
زکوٰۃ کی ادائیگی میں لازم ہونے والے دن کی قیمت کے اعتبار سے فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"تعتبر القيمة عند حولان الحول... وتعتبر قيمتها يوم الوجوب" (الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الزکوٰۃ، الفصل فی العروض، ج 1، ص 198، مطبوعہ کراچی)
ترجمہ: زکوٰۃ کی ادائیگی میں قمری سال مکمل ہونے کے وقت کی قیمت کا اعتبار کیا جائے گا۔ (مثلاً) کسی شخص کے پاس دو سو قفیز گندم تجارت کے لیے تھی، جو دو سو درہم کے برابر تھی۔ جب اس پر سال مکمل ہوگیا، تو اگر وہ گندم کے ذریعے زکوٰۃ ادا کرے گا، تو پانچ قفیز دے گا، اور اگر قیمت کے ذریعے ادا کرے گا، تو جس دن زکوٰۃ واجب ہوئی تھی، اس دن کی قیمت کا اعتبار ہوگا۔
اسی طرح کفارہ وغیرہ سے متعلق در مختار میں ہے:
"وجاز دفع القيمة في زكاة... وتعتبر القيمة يوم الوجوب" (در مختار مع رد المحتار، کتاب الزکوٰۃ، باب زکوٰۃ الغنم، ج 3، ص 250، مطبوعہ کوئٹہ)
ترجمہ: زکوٰۃ، عشر، صدقۂ فطر، نذر اور غلام آزاد کرنے کے علاوہ دیگر تمام کفارات میں قیمت دینا جائز ہے اور اس قیمت کا تعین واجب ہونے کے دن کے اعتبار سے کیا جائے گا۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن روزے کے فدیہ سے متعلق فرماتے ہیں:
"قیمت میں نرخ بازار آج کا معتبر نہ ہوگا جس دن ادا کر رہے ہیں، بلکہ روزِ وجوب کا۔ مثلاً اُس دن نیم صاع گندم کی قیمت دو آنے تھی، آج ایک آنہ ہے تو ایک آنہ کافی نہ ہوگا، دو آنے دینا لازم ہوگا، اور (اگر اُس وقت) ایک آنہ تھی، اب دو آنے ہوگئی، تو دو آنے ضروری نہیں، ایک آنہ کافی ہوگا۔" (فتاویٰ رضویہ، ج 10، ص 531، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
واللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم