HR Media House
HR Media House
February 22, 2025 at 08:05 PM
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹 *اَلسَّــــلَامُ عَلَيْــــكُمْ وَرَحْــــمَـةُ اللــّٰــهِ وَبَرَكَــــاتُـهُ* *💠🗒تـقــویـــــــــمُ الیـــــــــوم🗒💠* ~🕌_____________________________🕌~ *🌷24)💠 شعبان المعظم 🌏 1446🌷* ~🕌_____________________________🕌~ *🇮🇳 February ☜2025 >🇮🇳 23 فروری* ~🕌_____________________________ 🇮🇳 *12*🌹 *پھاگن*🌹 *2081*🌹 *بکرمی*🇮🇳 🗒 *بــروز* *اتوار* 💠 *Sunday*🌴🪷🇮🇳 🕌_____________________________🕌 🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹 🌹🌹🌹♥️(علمی تحقیقات)♥️🌹🌹 *فتنۂ دَجّال اور اس سے حفاظت كی تدابیر* *حضرت اقدس ، بحر العلوم ، نعمت اللہ اعظمی دامت برکاتھم العالیہ* الحمد لله ربّ العالمين ، والعاقبة للمتقين ، والصّلاة والسّلام علیٰ سيّد الأنبياء والمرسلين ، وعلىٰ آله وصحبه ، أجمعين. أمابعد : قیامت کے وقوع کا علم خدا کے سوا کسی کو نہیں ہے ، قیامت کا معاملہ بڑا سنگین اور ہولناک ہوگا ، خدائے ذوالجلال نے اپنے فضل و کرم سے قیامت کی کچھ علامات اور نشانیاں مقرر کی ہیں ؛ تاکہ لوگ اللہ کی طرف رجوع کریں اور حساب و کتاب کی تیاری کرلیں ۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قیامت اُس وقت تک قائم نہ ہوگی ، جب تک کہ تیس کے قریب جھوٹ بولنے والے دَجّال پیدا نہ ہوجائیں ۔ اُن میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے۔‘۔ یہ مضمون حضرت ثوبان ، حضرت علی ، حضرت ابن عمر اور حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہم کی احادیث میں بھی مذکور ہے ۔ *دَجّال کے معنیٰ و مطلب* دَجّال کا لفظ عربی زبان میں جعل ساز ، ملمّع ساز ، فریبی ، جھوٹے اور گم راہ کُن شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے ، جب کہ دجل کے معنیٰ کسی نقلی چیز پر سونے کا پانی چڑھانے کے ہیں ۔ دَجّال کا نام دَجّال اسی لیے رکھا گیا ہے کہ جھوٹ ، فریب ، دھوکا دہی ، غلط بیانی اور دُنیا کی تمام تر خباثتیں اس کی مکروہ شخصیت کے نمایاں ترین وصف ہیں ۔ اس کا ہر فعل ، ہر عمل ، ہر قول فتنہ وفساد کا سبب ہوگا ۔ حضرت ابوقتادہؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے حضرت ہشام بن عامرؓ سے سُنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’حضرت آدمؑ سے لے کر قیامت تک کوئی مخلوق (فتنہ فساد میں) دَجّال سے بُری نہ ہوگی ۔‘‘ (صحیح مسلم ، 7395، 7396)۔ *دَجّال کا حُلیہ* مختلف احادیثِ مبارکہؐ میں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے دَجّال کا جو حُلیہ بیان فرمایا ، وہ اس طرح سے ہے ۔ ’’پستہ قد ، بھاری بھرکم جسم اور مکروہ چہرے پر اُلجھے ہوئے بے ترتیب گھنگھریالے بالوں والا ایک شخص ، جس کی دائیں آنکھ کانی اور بے نور ہوگی ، اور بائیں آنکھ کی پتلی ابھری ہوئی باہر کو نکلی ہوئی ہوگی ، جیسے انگور کا اُبھرا ہوا دانہ ، دونوں آنکھیں ہی عیب دار ہونگی ، اسی لئے احادیث میں 'اعور الیمنی' اور 'اعور الیسری 'دونوں طرح کے الفاظ ہیں ، دجال كا رنگ سُرخ اور دونوں آنکھوں کے درمیان یعنی پيشاني پر *ک ف ر (کافر)* لکھا ہوگا ، جس كو ہر مومن پڑھ لے گا ، خواہ وہ لکھنا پڑھنا جانتا ہو یا نہ جانتا ہو‘‘ ۔ *دجّال کا ظہور* متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک شام میں لڑائی ہوگی پھر صلح ہوجائے گی مگر یہ صلح زیادہ دن تک باقی نہ رہے گی ، اس کے بعد یورپ سے نو لاکھ ساٹھ ہزار فوجی لڑنے کے لئے آئیں گے اور مقام غوطہ میں مسلم فوجوں کے ساتھ لڑائیاں ہوں گی اسی دوران دجال کا خروج اصفہان سے ہوگا ۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’دَجّال اصفہان کی یہودی بستی سے ظاہر ہوگا ، اس کے ساتھ ستّر ہزار یہودی ہوں گے ۔ انھوں نے سبز رنگ کی شالیں کندھوں پر ڈال رکھی ہوں گی ۔‘‘ دجال مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ بھی جانے کی کوشش کرے گا لیکن اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعہ اس کو ان دونوں مقدس شہروں میں جانے سے روک دے گا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو دجال کی خبر سن لے وہ اس سے دور رہے ۔ اللہ کی قسم! آدمی اپنے آپ کو مومن سمجھ کر اس کے پاس آئے گا اور پھر اس کے پیدا کردہ شبہات میں اس کی پیروی کرنے لگے گا ۔ (سنن ابی داؤد : 4319) *دجّال کے قیام کی مدّت* صحيح مسلم میں حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : زمین میں اُس کے رہنے کی مدّت چالیس دن ہوگی ، ان میں سے ایک دن ایک سال کی طرح ہوگا ، ایک دن ایک مہینے کی طرح ہوگا اور ایک دن ایک ہفتے کی طرح ۔ اس کے علاوہ باقی سارے دن تمہارے دنوں کی طرح ہوں گے ۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا ’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ دن جو ایک سال کی طرح ہوگا ، کیا اس میں ہمارے لیے ایک دن کی نماز کافی ہوگی؟‘‘ فرمایا ’’نہیں ، بلکہ وقت کا اندازہ کرکے پورے سال کی نمازیں ادا کرنا ہوں گی ۔‘‘ اس کی تفصیل مستقل الگ سے لکھی جائے گی ۔ پھر صحابہ کرام نے عرض کیا :’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ زمین میں کس قدر سرعت کے ساتھ سفر کرے گا ؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا ۔ ’’اُس بادل کی طرح ، جس کے پیچھے ہوا لگی ہو ۔ وہ ایک قوم کے پاس جائے گا ۔ انھیں دعوت دے گا ۔ وہ اس پر ایمان لائیں گے اور اس کی باتیں مانیں گے ، تو وہ آسمان (کے بادل) کو حکم دے گا ، تو وہ پانی برسانے لگے گا ۔ پھر وہ زمین کو حکم دے گا ، تو وہ فصلیں اُگائے گی ۔ شام کے اوقات میں اُن کے جانور (چراگاہوں سے) واپس آئیں گے ، تو ان کے کوہان سب سے زیادہ اُونچے اور تھن دُودھ سے بہت بھرے ہوئے ہوں گے ۔ پھر دَجّال ایک اور قوم کے پاس جائے گا اور انھیں بھی دعوت دے گا ، لیکن وہ اس کی بات کو ٹھکرادیں گے تو وہ قحط کا شکار ہوجائیں گے ۔ اُن کے مال مویشی میں سے کوئی چیز ان کے ہاتھ میں نہیں ہوگی ۔ وہ ویران زمین کے پاس سے گزرے گا ، تو اس سے کہے گا کہ اپنے خزانے باہر نکال دے ۔ چناں چہ زمین سے وہ خزانے نکل کر اس کے پیچھے اس طرح لگ جائیں گے ، جس طرح شہد کی مکّھیاں اپنی سردار کے پیچھے ہولیتی ہیں ۔ دجال زمین میں ہر ایک شہر اور بستی میں جاۓ گا لیکن وہ مکہ اور مدینہ میں داخل نہیں ہوسكےگا ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مکہ مكرمه اور مدینہ طيبه کے علاوہ کوئی ایسا علاقہ نہیں ہوگا جسے دجال نہ روند سکے ، مکہ اور مدینہ کے ہر راستے پر فرشتے ننگی تلواریں سونتے ہوئے پہرا دیں گے ، پھر مدینہ اپنے مکینوں کے ساتھ تین مرتبہ ہلے گا تو اللہ تعالی ہر کافر اور منافق کو مدینہ سے نکال دے گا ) (صحیح بخاری/ 1881 ) مدینہ منورہ کی طرف جانے سے پہلے یہ واقعہ بھی پیش آئے گا کہ دجّال ایک جوان کو بُلائے گا اور تلوار سے اس کے دو ٹکڑے کردے گا اور دونوں ٹکڑے اس قدر فاصلے پر کردیئے جائیں گے ، جس قدر تیر مارنے والے اور نشانے کے درمیان فاصلہ ہوتا ہےط۔ پھر وہ اسے بُلائے گا ، تو وہ (زندہ ہوکر) دمکتے ہوئے چہرے کے ساتھ ہنستا ہوا آئے گا ۔ اور کہے گا کہ اب تو مجھے اور پختہ یقین ہوگیا کہ تو ہی دجّال ہے دجّال پھر اس کو دوبارہ قتل کرنا چاہے گا مگر اب اسے اس پر قدرت نہ ہوگی ۔ *مصنوعی جنّت اور دوزخ* شیطان کی طرح اللہ تعالیٰ نے دَجّال کو بھی قوانینِ قدرت میں سے چند چیزوں سے نوازا ۔ وہ جب نمودار ہوگا ، تو اس کے ساتھ مصنوعی جنّت و دوزخ ہوگی ۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’ دَجّال اپنے ساتھ جنّت اور دوزخ کی شبیہ بھی لائے گا ۔ درحقیقت جسے وہ جنّت کہے گا ، وہ آگ ہوگی اور جسے وہ جہنّم کہے گا ، وہ دراصل جنّت ہوگی۔ ‘‘ (صحیح بخاری ، 3338) ۔ حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سُنا کہ ’’جب دَجّال نکلے گا ، تو اُس کے ساتھ آگ اور پانی دونوں ہوں گے ، لیکن لوگوں کو جو آگ دکھائی دے گی ، وہ ٹھنڈا پانی ہوگا اور جو ٹھنڈا پانی دکھائی دے گا ، وہ جلانے والی آگ ہوگی ، تو تم میں سے جو کوئی اُس کے زمانے میں ہو ، تو اُسے اُس میں گرنا چاہیے ، جہاں آگ ہو ، کیوں کہ وہ انتہائی شیریں اور ٹھنڈا پانی ہوگا ۔‘‘ (صحیح بخاری ، 3450)۔ *دجّال کے جھوٹے ہونے کی علامات* (1) وہ لوگوں کی آنکھوں سے نظر آ رہا ہوگا(حالاں کہ تم اپنے رب کو مرنے سے پہلے نہیں دیکھ سکتے) ۔ (2) وہ کانا ہوگا حالانکہ تمھارا رب کانا نہیں ہو سکتا ہے ۔ (3) اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان "کافر" لکھا ہوگا جس کو ہر مومن پڑھ لے گا ، خواہ وہ لکھنا پڑھنا جانتا ہو یا نہ جانتا ہو ۔ *دَجّال کا سحر* حضرت اسماءؓ بنتِ یزید سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ ﷺ کے گھر میں موجود تھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ، ’’ظہورِ دَجّال سے تین سال قبل آسمان ایک تہائی پانی اور زمین ایک تہائی فصل روک لیگی ۔ جب دُوسرا سال آئے گا ، تو آسمان دو تہائی پانی اور زمین دو تہائی فصلیں روک لے گی ۔ پھر جب تیسرا سال شروع ہوگا ، تو آسمان مکمل طور پر اپنا پانی اور زمین مکمل طور پر اپنی فصلیں روک لے گی ۔ ٹاپوں والے اونٹ اور کُھروں والی گائیں ، بیل ، بھیڑیں ، بکریاں ، گھوڑے اور گدھے سب ہلاک ہوجائیں گے ۔ اتنے میں ادھر دَجّال پہنچ کر ایک دیہاتی شخص سے کہے گا ، ’’اگر مَیں تمہاری اونٹنیوں کو فربہ اور دُودھ سے بھرے تھنوں کی صُورت پیدا کرکے دکھائوں ، تو کیا تم مان لو گے کہ میں تمہارا رَبّ ہوں؟‘‘ وہ کہے گا ، ’’ہاں بالکل ۔‘‘ اس کے بعد شیطان اُس شخص کے اونٹوں کی شکل اختیار کرے گا ، تو وہ شخص اس کے پیچھے لگ جائے گا ۔ اسی طرح وہ دَجّال ایک اور شخص سے کہے گا کہ ’’اگر میں تمہارے باپ ، بیٹے اور تم اپنے خاندان کے جن لوگوں کو پہچانتے ہو ، سب کو زندہ کردوں ، تو کیا تم یقین کرلو گے کہ میں تمہارا رَبّ ہوں؟‘‘ وہ کہے گا ، ’’ہاں بالکل ۔‘‘ پھر دَجّال شیطانوں کو ان لوگوں کی شکل میں پیش کردے گا ۔ اس طرح وہ بھی اس کے پیچھے چلا جائے گا ۔‘‘ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے گئے اور گھر میں موجود سب لوگ رونے لگے ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے ، تو ہم سب رو رہے تھے ۔ آپ ﷺ نے پوچھا ، ’’تم لوگ کیوں رو رہے ہو؟‘‘ مَیں (اسماء) نے کہا ۔ ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ ﷺ نے دَجّال کے متعلق جو کچھ بیان فرمایا ، اسے سُن کر رونا آگیا ۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ، ’’اس وقت اہلِ ایمان کو کھانے پینے كي جگه تکبیر ، تسبیح اور تحمید كرنا كافي ہوگا ۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے فرمایا، ’’تم لوگ مت روئو، کیوں کہ اگر میری موجودگی میں دَجّال کا ظہور ہوگیا ، تو مَیں اس کا مقابلہ کرلوں گا اور اگر میرے بعد ہوا ، تو ہر مسلمان کا خلیفہ اللہ تعالیٰ خود ہوگا ۔‘‘ (مسندِ احمد ، 27568)۔ *دجّال کا خاتمہ* موجودہ زمانہ کا استنبول (قسطنطنیہ) مسلمانوں کے ہاتھ سے چلاجائے گا اور پھرغوطہ کی لڑائی سے فارغ هونے كے بعد اہل مدینہ اور دیگر مسلمانوں کے ہاتھوں وه (قسطنطنیہ) فتح ہوگا ، اورجس وقت مسلمان مال غنیمت کو تقسیم کررہے ہوں گے تو اچانک شیطان چیخ مار کر کہے گا : تمہارے بعد تمہارے گھروں میں مسیح دجّال پہنچ گیا ہے ، مسلمان وہاں سے نکل پڑیں گے ، حالانکہ یہ خبر غلط ہوگی ، جب یہ ملک شام پہنچیں گے تو پھر مسلمانوں اور دجالی لشکروں کے درمیان جنگ ہوگی جس میں وہ ایک تہائی مسلمانوں کو شہید کردے گا ۔ ایک تہائی کو شکست دے کر بھگا دے گا اور ایک تہائی کو باقی چھوڑے گا ۔ رات ہوجائے گی تو بعض مومنین بعض سے کہیں گے کہ تمھیں اپنے رب کی خوشنودی کے لیے اپنے (شہید) بھائیوں سے جا ملنے (شہید ہوجانے) میں اب کس چیز کا انتظار ہے ؟ جس کے پاس کھانے کی کوئی چیز زائد ہووہ اپنے (مسلمان) بھائی کو دے دے ۔ تم فجر ہوتے ہی (عام معمول کی بہ نسبت) جلدی نماز پڑھ لینا ، پھر دشمن سے جنگ پر روانہ ہوجانا ۔ پس جب یہ لوگ نماز کے لیے اٹھیں گے تو عیسیٰ علیہ السلام ان کے سامنے نازل ہوں گے اور نماز ان کے ساتھ پڑھیں گے ۔ نماز سے فارغ ہوکر وہ (ہاتھ سے) اشارہ کرتے ہوئے فرمائیں گے : میرے اور دشمنِ خدا (دجّال) کے درمیان سے ہٹ جاؤ (تاکہ مجھے دیکھ لے) ، حضرت عبد اللہ بن عمروؓ نے یہ فرمایا کہ :(ایسا گھل جائے گا) جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دجّال کے خاتمے کو واضح طور پر بیان کیا کہ : عیسیٰ ابن مریم نازل ہوں گے ۔ اور فرمائیں گے : میں عیسیٰ ابن مریم اللہ کا بندہ اور رسول ہوں ، تم لوگ تین صورتوں میں سے ایک کو اختیار کرلو : (1) اللہ دجّال اور اس کی فوجوں پر بڑا عذاب آسمان سے نازل کردے ۔ (2) ان کو زمین میں دھنسا دے ۔ (3) ان کے اوپر تمھارے اسلحہ کو مسلط کردے اور ان کے ہتھیاروں کو تم سے روک دے ۔ مسلمان کہیں گے : ائے اللہ کے رسول! یہ (آخری) صورت ہمارے لیے اور ہمارے قلوب کے لیے زیادہ طمانینیت کا باعث ہے ۔ چنانچہ اس روز تم بہت کھانے پینے والے (اور) ڈیل ڈول والے یہودی کو (بھی) دیکھو گے کہ ہیبت کی وجہ سے اس کا ہاتھ تلوار نہ اٹھا سکے گا ۔ پس مسلمان ان کے اوپر مسلّط ہوجائیں گے اور دجّال جب حضرت عیسیٰ عليه السلام کو دیکھے گا تو سیسہ کی طرح پگھلنے لگے گا حتیٰ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اسے باب لُد پر قتل کردیں گے ۔(مصنف عبد الرزاق/ 20834) اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے دجّال اور اس کے لشکر پر مسلمانوں کو مسلط کردے گا ۔ چنانچہ وہ ان سب کو قتل کردیں گے ۔ حتیٰ کہ شجرو حجر بھی پکاریں گے کہ اے اللہ کے بندے! اے رحمٰن کے بندے! اے مسلمان! یہ یہودی ہے ۔ اسے قتل کردے ۔ غرض اللہ تعالیٰ ان سب کو فنا کردے گا اور مسلمان فتح یاب ہوں گے ۔ *فتنۂ دَجّال سے بچنے كي احتیاطی تدابیر* فتنہ مسیح الدَجّال سے حفاظت کے سلسلے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو چند چیزیں ایسی بتائی ہیں جن کے اختیار کرنے سے دجال کے فتنے سے بچا جاسکتا ہے : 1 ۔ دجّال کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنا : دجّال کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے ان دعاؤں کے پڑھنے کا اہتمام کرنا جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے ؛ اور اپنی اُمّت کو ان دعاؤں کے پڑھنے کا حکم فرمایا کرتے تھے ؛ حضرت ابوهريرهؓ اور کئی ایک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے روایت ہے یہ دعا مانگا کرتے تھے :« اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ المَسِيحِ الدَّجَّالِ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ المَحْيَا ، وَفِتْنَةِ المَمَاتِ». صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ’’جب تم تشہد سے فارغ ہو جائو ، تو چار چیزوں سے پناہ مانگو ، جہنّم کے عذاب سے ، قبر کے عذاب سے ، زندگی اور موت کی آزمائش سے اور مسیح دَجّال کے شر سے ۔‘‘ (صحیح مسلم ، 1326)۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دُعا فرمایا کرتے تھے : ’’اے اللہ ! میں قبر کے عذاب سے ، دوزخ کے عذاب سے ، زندگی اور موت کے عذاب سے اور کانے دَجّال کے فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔‘‘ (صحیح بخاری ، 832، 833، 1377)۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی نمازوں میں دَجّال کے فتنے سے پناہ مانگتے ہوئے سُنا ۔‘‘ (صحیح مسلم ، 1323، صحیح بخاری ، 833، 7129)۔ 2 ۔ سورہ کہف کی ابتدائی دس آیتوں کو یاد کرنا اور پڑھنے کا معمول بنا لینا : دجّال کے فتنوں سے جو محفوظ رہنا چاہتا ہو اس کو چاہیے کہ سورۃ الکہف کی ابتدائی یا آخری دس آیات کی تلاوت کرے ۔ اس کی تلاوت دجّال کے فتنے میں مبتلا ہونے سے بچالیتی ہے ۔ حضرت ابودرداءؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جس مسلمان نے سورۂ کہف کی پہلی دس آیات حفظ کرلیں ۔ وہ دَجّال کے فتنے سے محفوظ کرلیا گیا ۔‘‘ (صحیح مسلم،1883)۔ 3 ۔ دجّال سے دور رهنا : دجّال سے جتنا دور رہنا ممکن ہو دور رہا جائے ۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص دجّال کے بارے میں سنے اس کو اس سے دور رہنا چاہئے ، اللہ کی قسم مؤمن یہ خیال کرکے اس کے پاس آئے گا کہ وہ تو مؤمن ہے (دجّال کے فتنہ سے بچ جائے گا) لیکن دجّال کے ساتھ کی چیزوں کو دیکھ کر اسی کی اتباع کر بیٹھے گا (سنن ابوداؤد/4319) 4 - دجّال كي جنت سے بچنا : دجّال کے ساتھ جو جنت کی شکل ہوگی اس سے بچے اور جو آگ کی شکل ہوگی اسی میں جانے کو اختیار کرے ۔ کیونکہ جو آگ ہے وہی درحقیقت جنت ہے ۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دجّال کے ساتھ دو چلتے ہوئے دریا ہوں گے ۔ دونوں میں سے ایک بظاہر سفید رنگ کا پانی ہوگا اور دوسرا بظاہر بھڑکتی ہوئی آگ ہوگی ۔اگر کوئی شخص اس کو پالے تو اس دریا کی طرف آئے جسے وہ آگ (کی طرح) دیکھ رہا ہے اور اپنی آنکھ بند کرے ۔ پھر اپنا سر جھکائے اور اس میں سے پیے تو وہ ٹھنڈا پانی ہوگا ۔ اللہ تعالٰی تمام ایمان والوں کی فتنہ دجّال سے حفاظت فرمائے آمین يا رب العالمين ۔ (حضرت مولانا) نعمت الله اعظمي دارالعلوم ديوبند 13جمادى الاول 1446🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴 [17/02, 7:43 am] MUFTI AASIF QASMI: اسلام کے دوبارہ عروج کا آغاز غزوہ ہند سے شروع ہو گا۔۔۔ احادیث میں غزوہ ہند اور بیت المقدس کی آزادی کیلئے خراسان سے امام مہدی کی قیادت میں اسلامی لشکر روانہ ہونے کے بارے میں کئی احادیث موجود ہیں۔۔۔۔ ان سب احادیث سے ثابت ہوتا ہے امام مہدی سے قبل ایک مضبوط اسلامی حکومت خراسان و پاکستان کے علاقے میں قائم ہو چکی ہو گی اور امام مہدی کے ظہور کے بعد ہندوستان کو فتح کیا جائے گا اور پھر بیت المقدس کی آزادی کیلئے یورپ کی مشترکہ فوج سے عظیم جنگ ہو گی اور فتح مسلمانوں کو ہوگی۔۔۔۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن ہند کا ذکر کیا تو فرمایا : ”تمہارا ایک لشکر ہند پر حملہ کرے گا تو اللہ ان پر فتح عطا فرمائے گا حتیٰ کہ سندھ کے بادشاہوں کو زنجیروں میں جکڑ کر لائیں گے ، اللہ ان کے گناہ بخش دے گا ، جس وقت وہ واپس جائیں گے تو وہ مسیح ابن مریم کو شام میں پائیں گے ۔ (مسند اسحاق بن راہویہ867) حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ سے مروی ہے کہ مجھ سے میرے خلیل و صادق پیغمبر اللہ ﷺ نے بیان فرمایا کہ اس امت میں ایک لشکر سندھ اور ہند کی طرف بھی جائے گا اگر میں نے وہ زمانہ پایا اور شہید ہوگیا تو بہت اچھا اور اگر میں زندہ واپس آگیا تو میں ابوہریرۃ المحرر ہوں گا جو جہنم کی آگ سے آزاد ہوچکا ہوگا (مسند احمد 8823) (مسند احمد، 369/2، مسند ابوہریرہ، 8467) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” میری امت میں دو گروہ ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے جہنم سے محفوظ کر دیا ہے ۔ ایک گروہ وہ ہو گا جو ہند پر لشکر کشی کرے گا اور ایک گروہ وہ ہو گا جو عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے ساتھ ہو گا “ ۔ (سنن نسائی 3177) حضرت کعب رضی اللّٰہ تعالٰی کی حدیث ہے، وہ فرماتے ہیں کہ بیت المقدس کا ایک بادشاہ ہندوستان کی جانب ایک لشکر روانہ کرے گا۔ مجاہدین سر زمینِ ہند کو پامال کر ڈالیں گے، اس کے خزانوں پر قبضہ کر لیں گے، پھر بادشاہ ان خزانوں کو بیت المقدس کی تزئین و آرائش کے لئے استعمال کرے گا۔ وہ لشکر ہندوستان کے بادشاہوں (حاکموں) کو بیڑیوں میں جکڑ کر اس بادشاہ کے روبرو پیش کریگا۔ اس کے مجاہدین بادشاہ کے حکم سے مشرق و مغرب کے درمیان کا سارا علاقہ فتح کر لیں گے اور دجال کے خروج تک ہندوستان میں قیام کریں گے۔ (الفتن، غزوة الہند، 409/1، حدیث 1235) حضرت محمد ﷺ نے فرمایا جب تم خراسان کی طرف سے سیاہ پرچموں (کا قافلہ) آتے ہوئے دیکھو تو اس میں ضرور شامل ہو جانا اگرچہ برف پرگھسٹ کر آنا پڑے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کے خلیفہ مہدی ہوں گے (ابن ماجة: 4084، وأحمد بن حنبل : 22441 والحاکم في المستدرک : 8432). رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” کچھ لوگ مشرق کی جانب سے نکلیں گے جو مہدی کی حکومت کے لیے راستہ ہموار کریں گے (سنن ابن ماجہ 4088) حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا خراسان سے سیاہ جھنڈے نکلیں گے انہیں کوئی چیز لوٹا نہ سکے گی یہاں تک کہ وہ بیت المقدس پر جا کر نصب ہوجائیں گے ۔ مسند احمد 8775 حضرت ثوبان ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم خراسان کی جانب سے سیاہ جھنڈے آتے ہوئے دیکھو تو ان میں شامل ہوجاؤ کیونکہ اس میں خلیفۃ اللہ امام مہدی ؓ ہوں گے ۔ مسند احمد 22387 ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”مہدی میری نسل سے فاطمہ کی اولاد میں سے ہوں گے“۔ (سنن ابوداؤد 4284)، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر دنیا کا ایک دن بھی رہ جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس دن کو لمبا کر دے گا، یہاں تک کہ اس میں ایک شخص کو مجھ سے یا میرے اہل بیت میں سے اس طرح کا برپا کرے گا کہ اس کا نام میرے نام پر، اور اس کے والد کا نام میرے والد کے نام پر ہو گا، وہ عدل و انصاف سے زمین کو بھر دے گا، (سنن ابو داؤد 4282) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔۔۔۔۔۔ پھر فتنہ اتنا تباہ کن عام ہو گا کہ عرب کا کوئی گھر باقی نہ رہے گا جو اس کی لپیٹ میں نہ آ گیا ہو گا ۔ پھر صلح جو تمہارے اور بنی الاصفر (نصارائے روم عیسائیوں) کے درمیان ہو گی ، لیکن وہ دغا کریں گے اور ایک عظیم لشکر کے ساتھ تم پر چڑھائی کریں گے ۔ اس میں 80 جھنڈے ہوں گے اور ہر جھنڈے کے ماتحت بارہ ہزار فوج ہو گی (یعنی نو لاکھ ساٹھ ہزار فوج سے وہ تم پر حملہ آور ہوں گے) ۔ ... حدیث متعلقہ ابواب: نو لاکھ عیسائی فوجی مسلمانوں سے لڑیں گے ۔ (صیح بخاری 3176) [17/02, 3:19 pm] MUFTI AASIF QASMI: معارف الحدیث کتاب: دعوت الی الخیر امربالمعروف نہی عن المنکر باب: کن حالات میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ذمہ داری ثابت ہوجاتی ہے حدیث نمبر: 1914 عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيَّ فِي قوله تعالى {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لاَ يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ} قَالَ أَمَا وَاللَّهِ سَأَلْتَ عَنْهَا خَبِيرًا سَأَلْتُ عَنْهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: بَلِ ائْتَمِرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَتَنَاهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ حَتَّى إِذَا رَأَيْتَ شُحًّا مُطَاعًا وَهَوًى مُتَّبَعًا وَدُنْيَا مُؤْثَرَةً وَإِعْجَابَ كُلِّ ذِي رَأْيٍ بِرَأْيِهِ فَعَلَيْكَ بِخَاصَّةِ نَفْسِكَ وَدَعِ الْعَوَامَّ فَإِنَّ مِنْ وَرَائِكُمْ أَيَّامًا الصَّبْرُ فِيهِنَّ مِثْلُ الْقَبْضِ عَلَى الْجَمْرِ لِلْعَامِلِ فِيهِنَّ مِثْلُ أَجْرِ خَمْسِينَ رَجُلاً يَعْمَلُونَ مِثْلَ عَمَلِكُمْ. (رواه الترمذى) ترجمہ: حضرت ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے اللہ تعالی کے ارشاد “يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لاَ يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ” کے بارے میں (ایک صاحب کے سوال کے جواب میں) فرمایا کہ میں نے اس آیت کے بارے میں اس ہستی سے پوچھا تھا جو (اس کے مطلب اور مدعی سے اور اللہ کے حکم سے) سب سے زیادہ باخبر تھی (یعنی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا تو آپ نے ارشاد فرمایا (اس آیت سے غلط فہمی میں نہ پڑو) بلکہ تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر برابر کرتے رہو یہاں تک کہ جب (وہ وقت آ جائے کہ) تم دیکھو کہ بخل اور دولت اندوزی کے جذبہ کی اطاعت کی جاتی ہے اور (اللہ اور رسول کے احکام کے مقابلہ میں) اپنی نفسانی خواہشات کا اتباع کیا جاتا ہے اور (آخرت کو فراموش کرکے) بس دنیا ہی کو مقصود بنا لیا گیا ہے اور ہر شخص خود رائی اور خود بینی کا مریض ہے (تو جب عام لوگوں کی حالت یہ ہو جائے) تو اس وقت بس اپنی ذات ہی کی فکر کرو اور عوام کو چھوڑو (ان کا معاملہ خداکے حوالہ کردو) کیونکہ تمہارے بعد میں ایسا دور بھی آئے گا کہ صبر اور ثابت قدمی (کے ساتھ دین پر قائم رہنا اور شریعت پر چلنا) ایسا (مشکل اور صبر آزما) ہوگاجیسا ہاتھ میں انگارہ لے لینا ان دنوں میں شریعت پر عمل کرنے والے پچاس آدمیوں کے برابر اجر و ثواب ملے گا (جامع ترمذی) تشریح: حضرت ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے ایک تابعی ابو امیہ شعبانی نے سورہ مائدہ کی اس آیت نمبر 125 کے متعلق جس کے بارے میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا ارشاد اوپر گزر چکا ہے سوال کیا تھا تو انھوں نے یہ جواب دیا کہ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں دریافت کیا تھا (کیونکہ اس کے ظاہری الفاظ سے یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ اگر ہم خود اللہ و رسول کی ہدایت کے مطابق چل رہے ہیں تو دوسرے لوگوں کے دین کی فکر اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہماری ذمہ داری نہیں ہے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ جواب ارشاد فرمایا جو حدیث میں مذکور ہوا جس کا حاصل یہ ہے کہ اپنے دین کی فکر کے ساتھ دوسرے بندگان خدا کے دین کی فکر اور اس سلسلہ میں امربالمعروف ونہی عن المنکر بھی دینی فریضہ اور خداوندی مطالبہ ہے اس لیے اس کے کو برابر کرتے رہو۔ ہاں جب امت کا حال یہ ہو جائے کہ بخل و کنجوسی اس کا مزاج بن جائے اور دولت کی پوجا ہونے لگے اور اللہ و رسول کے احکام کے بجائے بس خواہشات نفس کا اتباع کیا جانے لگے اور آخرت کو بھلا کر دنیا ہی کو مقصود بنا لیا جائے اور خود بینی اور خود رائی کی وبا عام ہوجائے تو اس بگڑی ہوئی فضا میں چونکہ امر بالمعروف نہی عن المنکر کی تاثیر و افادیت اور عوام کی اصلاح پذیری کی امید نہیں ہوتی اس لئے چاہیے کہ بندہ عوام کی فکر چھوڑ کے بس اپنی ہی اصلاح اور معصیت سے حفاظت کی فکر کرے۔ آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بعد میں ایسے دور بھی آئیں گے جب دین پر قائم رہنا اور اللہ و رسول کے احکام پر چلنا ہاتھ میں آگ لینے کی طرح تکلیف دہ اور صبر آزما ہو گا۔ ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں خود دین پر قائم رہنا ہی بہت بڑا جہاد ہوگا اور دوسروں کی اصلاح کی فکر اور اس سلسلہ میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ذمہ داری باقی نہیں رہے گی۔ اور ایسی ناموافق فضا اور سخت حالات میں اللہ و رسول کے احکام پر صبروثابت قدمی کے ساتھ عمل کرنے والوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو پچاس پچاس تمہارے جیسے عمل کرنے والوں کی برابر اجر و ثواب ملے گا۔ [17/02, 6:54 pm] MUFTI AASIF QASMI: Aaj ka sahi jawab A ✅ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دعا فرمائی ۔ " اے اللہ مجھ کو مسکین بنا کر زندہ رکھ، مسکینی ہی کی حالت میں مجھے موت دے اور مسکینوں ہی کے زمرہ میں میرا حشر فرما " ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ دعا فرماتے ہوئے سنا تو کہنے لگیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسی دعا کیوں کرتے ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اس لئے کہ مساکین اپنے دوسرے فضائل و خوصوصیات اور حسن اخلاق و کردار کی وجہ سے آخرت کی سعادتوں اور نعمتوں سے تو بہرہ ور ہوں ہی گے لیکن اس سے قطع نظر ان کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ وہ دولتمندوں سے چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے! دیکھو عائشہ! کسی مسکین کو اپنے دروازہ سے نا امید نہ جانے دینا بلکہ ہر حالت میں اس کے ساتھ احسان اور حسن سلوک کرنا اگرچہ اس کو دینے کے لئے تمہارے پاس کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے دل میں مسکینوں کی محبت رکھ اور ان کو اپنی مجلسوں اور محفلوں کی قربت سے نواز یعنی ان کو حقیر کمتر جان کر اپنے یہاں [21/02, 8:51 pm] MUFTI AASIF QASMI: ============== _*📘 اسکو پڑھئے*_ ==== _*📗 سمجھئے*_ ===== _*📕 عمل کیجئے*_ == _*📓 اور آگے بھیجنے*_ == ------------------------------ مفتی محمد آصف قاسمی میواتی 🌹🇮🇳♥️ ۷۰۱۵۱۱۲۲۱۹ فون نمبر 7015112219

Comments