Iftikhar Ahmad
Iftikhar Ahmad
February 6, 2025 at 11:10 AM
میں نے ایک بار ایک پرانی کتاب میں ایک جملہ پڑھا تھا: “دنیا کے مسائل وہی لوگ حل کرتے ہیں، جو یہ ماننے سے انکار کر دیتے ہیں کہ انہیں حل نہیں کیا جا سکتا۔” اس وقت یہ الفاظ میرے لیے صرف ایک عام سا قول تھے، لیکن آج میں جتنا دنیا کو دیکھتا ہوں، اتنا ہی اس حقیقت پر یقین پختہ ہوتا جاتا ہے۔ آپ نے غور کیا ہوگا کہ دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو ہر مشکل کے سامنے ہاتھ کھڑے کر دیتے ہیں، اور دوسرے وہ جو ہر رکاوٹ کو ایک موقع میں بدلنے کا فن جانتے ہیں۔ یہ فرق اتنا معمولی نہیں جتنا بظاہر لگتا ہے، بلکہ یہ کامیاب اور ناکام انسان کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچ دیتا ہے۔ اگر ہم غور کریں تو تاریخ میں جتنے بھی عظیم لوگ گزرے ہیں، وہ سب کے سب صرف مسئلہ حل کرنے کے ماہر تھے۔ نیوٹن نے سیب کو زمین پر گرتے دیکھا، تو یہ نہیں کہا کہ “اچھا، یہ تو عام بات ہے”، بلکہ سوال کیا، “یہ اوپر کیوں نہیں جا رہا؟” اور یوں گریویٹی دریافت ہوئی۔ تھامس ایڈیسن نے جب روشنی کا بلب بنانے کی کوشش کی، تو ہزاروں بار ناکام ہوا، مگر ہر ناکامی کو ایک قدم سمجھ کر آگے بڑھتا گیا۔ وہ عام انسان کی طرح یہ نہیں بولا کہ “یہ ممکن نہیں”، بلکہ اس نے ہر ناکامی کے بعد خود سے سوال کیا، “اب کیا بدلا جا سکتا ہے؟” یہی وہ سوال ہے جو عام اور غیر معمولی لوگوں کے درمیان فرق پیدا کرتا ہے۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ جب کوئی شخص کسی مسئلے میں پھنس جاتا ہے، تو وہ زیادہ تر کیا کہتا ہے؟ “یہ میرے بس کی بات نہیں”, “یہ مسئلہ بہت بڑا ہے”, “میرے پاس اس کا حل نہیں”۔ لیکن ایک کامیاب شخص کا طرزِ فکر مختلف ہوتا ہے۔ وہ خود سے یہ سوال کرتا ہے، “یہ ممکن کیسے بنایا جا سکتا ہے؟” یہی وہ ذہنیت ہے جو بڑے سے بڑا مسئلہ حل کر سکتی ہے۔ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آئیے ایک سچی کہانی سنتے ہیں۔ یہ 1955 کی بات ہے، جب امریکہ میں سیاہ فام افراد کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا تھا۔ ایک عام سوچ کا انسان ان قوانین کو قبول کر لیتا، مگر روزا پارکس نے ایک سوال اٹھایا—“یہ قانون کیوں ہے؟” جب اس سے کہا گیا کہ وہ اپنی سیٹ ایک سفید فام مسافر کے لیے خالی کرے، تو اس نے انکار کر دیا۔ وہ جانتی تھی کہ اس ایک فیصلے کا نتیجہ بہت خطرناک ہو سکتا ہے، مگر وہ یہ بھی جانتی تھی کہ کسی کو تو یہ قدم اٹھانا ہی تھا۔ اس انکار کے نتیجے میں مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے ایک تحریک شروع کی، اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے امریکہ میں نسلی امتیاز کے خلاف ایک بیداری پیدا ہو گئی۔ اس ایک فیصلے نے پوری تاریخ بدل دی۔ یہی وہ ذہنیت ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے۔ زیادہ تر لوگ مسائل کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں، جبکہ اصل کامیابی انہی کے حصے میں آتی ہے جو مسائل کو چیلنج کرتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی مسئلہ حقیقت میں حل نہ ہو سکتا، تو کیا دنیا میں کبھی ترقی ممکن ہوتی؟ کیا انسان زمین کی قید سے آزاد ہو کر چاند تک پہنچ سکتا؟ کیا ہم آج موبائل فون کے ذریعے پوری دنیا سے رابطے میں ہوتے؟ نہیں! ہر ایجاد، ہر ترقی، اور ہر بڑی کامیابی کے پیچھے ایک ہی چیز ہے—ایک ایسا شخص جو سوال کرنا جانتا تھا، اور مسئلے کا حل تلاش کرنے کا حوصلہ رکھتا تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ مہارت پیدا کیسے کی جائے؟ اس کا آسان جواب ہے—سوچنے کا انداز بدلیں۔ جب بھی آپ کسی مشکل کا سامنا کریں، تو فوراً کہانی ختم نہ کریں، بلکہ سوال کریں: • “یہ مسئلہ اصل میں کیا ہے؟” • “اس کا کوئی دوسرا حل کیا ہو سکتا ہے؟” • “اگر میں ہر ممکن طریقے سے ناکام ہو جاؤں، تو بھی اس کا ایک نیا راستہ کیا ہو سکتا ہے؟” دنیا میں سب سے زیادہ قابلِ رشک شخص وہ ہوتا ہے، جس کے پاس سوال کرنے کی ہمت ہوتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق، دنیا کے 90 فیصد لوگ سوچنے سے زیادہ ردِ عمل دینے میں مہارت رکھتے ہیں—یعنی وہ کسی بھی صورتحال میں فوراً جذباتی ردِ عمل دیتے ہیں، بغیر یہ سمجھے کہ اس کا حل کیا ہو سکتا ہے۔ جبکہ وہ 10 فیصد لوگ جو دنیا کو چلاتے ہیں، وہ ہر چیز کو غور سے دیکھتے ہیں، اس کا تجزیہ کرتے ہیں، اور پھر صحیح قدم اٹھاتے ہیں۔ اگر آپ بھی ان 10 فیصد لوگوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں، تو آج سے ہی اپنی سوچ کا انداز بدلیں۔ کسی بھی مسئلے کے سامنے ہار ماننے کے بجائے خود سے پوچھیں، “یہ ممکن کیسے بنایا جا سکتا ہے؟” یاد رکھیں، دنیا کے تمام بڑے فیصلے انہی لوگوں نے کیے ہیں جو خود سے بہتر سوالات کرتے ہیں۔ آپ کا مستقبل بھی اسی ایک چیز پر منحصر ہے—آپ ہر مسئلے کو کیسے دیکھتے ہیں؟ کیونکہ جو لوگ صرف مشکل دیکھتے ہیں، وہ ہمیشہ پیچھے رہ جاتے ہیں، اور جو حل تلاش کرتے ہیں، وہ تاریخ بناتے ہیں۔ اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے—آپ صرف دیکھنے والوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں، یا تاریخ لکھنے والوں میں؟
❤️ 2

Comments