
موجِ خیال
February 11, 2025 at 02:05 PM
#کچھ_بتائیں_جو_پڑھا_جائے
✍️ پٹیل عبد الرحمٰن مصباحی، گجرات (انڈیا)
مطالعۂ کتب سے دوری ایک لحاظ سے جدید سرمایہ دارانہ معاشرت کے لازمی نتائج میں سے ہے، یہی وجہ ہے کہ آج کل مطالعاتی فقدان؛ بڑھ کر؛ ایک علمی بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے. مزید یہ کہ جدید اداروں سے تعلیم یافتہ یا ان میں زیر تعلیم افراد تو کتب بینی اور وسعت مطالعہ کے ذوق سے بہت کم تعداد میں آشنا ہو پاتے ہیں مگر تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ اب مدارس کے فارغین اور زیر تعلیم حضرات نے بھی بہت حد تک علمی دیوانگی کی یہ الٹی چال سیکھ لی ہے. یہ دونوں چیزیں بذات خود تفصیلی تجزیہ کا تقاضا کرتی ہیں مگر ہم یہاں ان دونوں حقیقتوں سے آگے ایک اور تلخ حقیقت پر کلام کرنا چاہتے ہیں. وہ یہ کہ لطف اندوزی کے نام پر ہر قسم کے ڈیجٹل مواد سے گھرے ہوئے ماحول میں بڑھتے ہوئے اسکرین ٹائم اور گھٹتے ہوئے شعور کے درمیان مطالعہ کا ذوق رکھنے والے اور کتب بینی کے عادی ہمارے احبابِ مدارس کا جو قلیل گروہ ابھی بھی مطالعہ کے میدان میں ثابت قدم ہے ان میں ایک الگ قسم کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے. ذیل میں ہم اُس خاص پرابلم کو سمجھنے اور اس کی گہرائی کا ادارک کرنے کی کوشش کریں گے، باقی رہا حل تو امید ہے کہ کچھ ہمارا اور کچھ خود ان ماہرینِ مطالعہ کا اپنا، یوں جوڑ توڑ کر ایک کفایتی حل نکل ہی آئے گا.
مسئلہ یہ ہے کہ مطالعہ کی دنیا سے اب تک مضبوطی سے جڑا ہوا یہ طبقہ اپنے ذوق مطالعہ کی تسکین نہ ہو پانے کا شاکی ہے. ہر چند روز بعد ایک ایسے کتب بینی کے شائق سے سابقہ پڑتا ہے جسے یہ شکوہ زبان زد ہوتا ہے کہ پڑھنے کا من تو بہت کرتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا پڑھا جائے؟ کوئی ایسی فکری اور شاندار کتاب یا کوئی ایسا مقالہ جو ہمارے اعلیٰ فکری معیار کو تسکین دے سکے اور جسے پڑھ کر فکری تازگی محسوس ہو، ایسا کچھ ہاتھ لگے تو پڑھنے میں دل بھی لگتا ہے اور مزہ بھی آتا ہے. یہاں ایک باریک بات ہے جسے مطالعہ میں ڈوبے رہنے والے اگر غور کریں تو سمجھ سکتے ہیں بلکہ محسوس کر سکتے ہیں کہ ایک سطح ہوتی ہے جہاں تک پہنچنے کے بعد مطالعہ اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض بھرے ہوئے مٹکے میں پانی ڈالنے کے مترادف ہوتا ہے، پھر ایسے میں جب کوئی اعلیٰ تحقیقات پر مشتمل کتاب یا تحریر نظر سے گزرتی ہے تو باقاعدہ اُس سطح سے اوپر اٹھنے اور کئی دن بعد اضافہ علم کی چاشنی دوبارہ میسر آنے کی لذت ملتی ہے. یہ لیول اور اُس سے آگے لے جانے والی تحقیقات کا اپنا مقام ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا.
مگر اب بھی وہ مسئلہ باقی ہے جس کی طرف ہم اشارہ کر رہے ہیں. اِن شائقین کا دبے لفظوں یا کھلے بندوں مطالبہ ہے کہ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق سائنس، سیاست اور مذہب تینوں کو محیط کوئی کتاب، کوئی تحریر جو عالمی سیاست اور اس کی اتھل پتھل پر بات کر رہی ہو، کوئی آرٹیکل جو یوکرین سے لے کر فلسطین تک دنیا بھر میں جاری جنگوں کی صحیح اور معنیٰ خیز سمت دکھاتا ہو، کوئی مفکر جو مسلمانوں کی تہذیب و معیشت کی بہتری کے بے تحاشا طریقے سطر در سطر بیان کرتا چلا جائے، کوئی ایسا جو لکھے کہ الحاد کیوں کیسے اور کہاں کہاں پروان چڑھ رہا ہے اور سد باب کے ذرائع کیا ہیں، امت مسلمہ کے عروج و زوال کے گراف کو اپنے الفاظ میں رقم کر سکے ایسا کوئی قلم بردار. اگر ایسا کچھ معیاری؛ اور عوامی زبان میں کہیں تو؛ ایسا کچھ دھماکے دار پڑھنے کو ملے تو فکر معاش، عشق بتاں اور یاد رفتگاں سب کچھ بھلا کر مطالعہ کرتے اور لطف اندوز ہوتے چلے جائیں. اب واضح ہوا شائقینِ مطالعہ کا سوال! کہ کچھ بتائیں جو پڑھا جائے.!!!
یہ سوال جگہ جگہ اور بار بار دہرایا جاتا ہے بلکہ جن سے پوچھا جاتا ہے وہ بھی کسی حد تک مرعوبیت کے سبب یہ کہہ کر جان چھڑاتے ہیں کہ بات تو ویسے آپ کی ٹھیک ہے کہ ایسا کچھ تحریری مواد آج کل آسانی سے میسر نہیں آتا یا بالفاظ دیگر ایسا لکھنے والے کم ہیں وغیرہ وغیرہ. مگر اس سوال کا جواب جواب نہیں بلکہ سوال ہے. اس سوال کے جواب میں ہم سوال کرتے ہیں کہ آپ کی اپنے اسلامی علوم کی کم از کم چار پانچ فیلڈز ہیں جن میں بہت کچھ ہے جو آپ نے نہیں پڑھا بلکہ بہت کچھ وہ بھی ہے کہ آپ نے اس بارے میں سنا تک نہیں ہے. بات تفسیر اور کلام سے شروع کریں اور سیرت تک لے آئیں تو سوال یہ ہے کہ کیا آپ نے بطور عالم دین تفسیر، حدیث، فقہ، کلام، لغت اور سیرت جیسے علوم کو معتد بہ مقدار میں پڑھ رکھا ہے؟
آیات قرآنی کے وہ تمام مشکل مقامات آپ کی نظر میں ہیں جو غریب الفاظ یا ترکیب یا نزول کے اعتبار سے سہل نہیں مانے جاتے؟ کیا وہ تمام آیات آپ کے سامنے ہیں جن کے ظاہری مفہوم کا سہارا لے کر ملحدین یا مشرکین یا قادیانیت ٹائپ کفار یا بدعتی گروہ بارہا اپنا مدعا ثابت یا مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ کیا فن تفسیر کی تاریخ، مفسرین کے اسالیب اور تفسیر کے اصولوں کے بارے میں آپ کے زیر مطالعہ اتنی مقدار میں معلومات ہیں کہ کسی بھی جدید تفسیری بے راہ روی کا اندازہ لگا کر اس پر نقد کر سکیں اور لوگوں کو اس سے آگاہ کر سکیں؟ کیا نئی تفسیر کے نام پر معنوی تحریفات سے لبریز کتابوں کا کوئی گوشوارہ ہے آپ کی نظر میں جس سے کسی مبتدی کی تشکیک کو زائل کیا جا سکے؟ اگر ہاں تو سبحان اللہ، مبارکاں، اور اگر نہیں تو یہ سب کچھ ہے جو پڑھا جائے.
احادیث کی حجیت کا مسئلہ، مستشرقین کا انکار حدیث اور ان کی اتباع میں مسلمانوں کے درمیان بہت سے گروہوں کا جزوی یا خاص قسم کا انکار حدیث. احادیث کی بظاہر متضاد روایات میں تطبیق کا ملکہ اور اس کے اصول پر گہری معلومات، کتب حدیث کی تاریخ، قدیم رافضی اور جدید تفضیلی فکر کے محدثین کو متہم کرنے والے دعووں کا تجزیہ اور ان کا جواب، امہات کتب کی مفصل شروحات پر طائرانہ نظر، متعلقہ فقہ کی بنیاد بننے والی روایات کا معتد بہ مقدار میں علم، اشراط الساعۃ کی احادیث کی فنی شرح کا طریقہ، جدید معاشرتی یا معاشی مسائل کا حدیث سے حل، احادیث کی جدید تشریحات کا تنقیدی جائزہ، یوں ہی بد عقیدگی کی معاون تشریحات کا فنی و تنقیدی جائزہ. یہ اور ایسا بہت سارا مواد ہے جو حدیث، روایت حدیث، درایت حدیث اور شرح حديث سے متعلق پڑھا جا سکتا ہے، کچھ نہیں بلکہ بہت کچھ.
علم کلام کے بارہ سو سالہ ورثے کو پڑھنے والے کہاں ہیں.؟ الرازی اور الغزالی کو ہم شبلی جیسے واسطوں ہی سے پڑھتے رہیں گے یا براہ راست غزالی و رازی کے پیچ و تاب سے بھی آشنا ہوں گے. پھر تصوف کو جو در حقیقت کلام کی اعلیٰ و انتہائی ابحاث کا ذخیرہ ہے؛ اس میں شعرانی سے لے کر ہجویری تک اگر ہم نے ایک نظر دیکھ رکھا ہے تو فبھا ورنہ لازم ہے کہ اسے دیکھا جائے اور تصوف کو شرک آلود بتانے والوں کو صوفیانہ توحید سے آشنا کرایا جائے. کیا ہم گذشتہ دو سو سال میں؛ زیر تحقیق آنے والے؛ کلامی مسائل کو بطور علم کلام پڑھتے ہیں یا پھر محض مناظراتی کشمکش سمجھ کر پس پشت ڈال دیتے ہیں.؟ امکانِ نظیر سے امکانِ کذب تک اور مختلف پیرایوں میں انکارِ معجزہ سے انکارِ ختم نبوت تک جو بھی شورش اٹھی اس کے رد میں علمائے اہل سنت کا دو سو سالہ کام علم کلام کی عظیم، دقیق اور کارآمد ابحاث پر مشتمل ہے. اس کے علاوہ ماتریدیہ و اشاعرہ و حنابلہ کی فکری تاریخ کا سرسری مطالعہ اور کلامِ قدیم و کلامُ المتاخرین کے فکری سرمایہ کا ایسا مطالعہ کہ دونوں اسالیب کے واضح بیان پر قدرت دے. یہ اور اس کئی گنا زائد کلامی قلم آرائی موجود ہے جسے پڑھا جائے اور بطور متکلم پڑھنے کی ایک نئی جہت تلاش کی جائے.
فقہ اور فقہاء تو فی زمانہ ناقدین دین کا من پسند ٹارگٹ ہیں. فقہ کو ابو حنیفہ و شافعی کا فہم بتانا، نہ کہ قرآن و سنت سے ماخوذ. اس سے کم درجے میں فقہ کو ہر زمانے کی غالب فکر اور رائج تہذیب کے تابع کرتے ہوئے یوں کہنا کہ وہ ان کی فقہ تھی اب ہمیں جدید فقہ کی حاجت ہے. ایسے ہی یہ نظریہ کا ملکوں میں تقسیم دنیا میں فقہ بھی ملکی سطح کی ہونی چاہیے عالمی سطح کی نہیں. اجماع و قیاس کی حجیت کی بحث. تلفیق بین المذاہب کا سنگین مسئلہ، فقہی اصولوں کی جامعیت اور کتاب و سنت کی وہ نصوص جو ان کی بنیاد ہیں ان کا بیان، عملی طور پر؛ اعتقاد صحیح کے بعد؛ فقہ ہی تمام احکام اسلامی کی ضامن ہے؛ اِس نقطہ نظر کا علمی اثبات اور اس کے تحت فقہی مسائل کا وسیع مطالعہ و استحضار. فقہ سے متعلق یہ ایک جھلک ہے، ورنہ اس سے دس گنا چیزیں اسی سے متعلق اور ہیں جن کو پڑھا جائے بلکہ مسلسل پڑھا جائے اور کئی زندگیاں اپنے ذوقِ مطالعہ سمیت اس میدان کی نذر کی جائیں.
یہ جو کچھ آپ نے سرسری طور پر پڑھا یہ اُس کا عشر عشیر ہے جو اس سوال کے جواب میں بتایا جا سکتا ہے کہ کیا پڑھا جائے، لغت اور سیرت کی ذیلی فہرست کو ہم طوالت کے خوف سے شامل نہیں کر رہے ہیں، اس کے علاوہ اسلامی تاریخ و شخصيات کا شعبہ شامل کریں تو بے شمار نئے خاکے برآمد ہوں گے، مگر پڑھنے کا شوق رکھنے والے درج بالا گوشوں سے مزید درجنوں راہیں نکال سکتے ہیں. روایتی علوم کی ان راہوں پر کثرت سے آمد و رفت کے بعد اُن ادب پاروں اور جدید چیزوں کی باری آتی ہے جن کو حاصل شدہ شعور کو مزید دھار دار بنانے کے لیے بطور نفل پڑھا جاتا ہے. ایسا بہت کچھ پڑھنے کے بعد علم سے کچھ آشنائی ہوتی ہے اور اسلاف کی علمی بلندی کا اندازہ لگانے کی تھوڑی سی بصیرت پیدا ہوتی ہے.
خلاصہ کلام یہ کہ ہر زمانے میں فتنوں کا مقابلہ لازم ہے مگر فتنوں کے سد باب کے لیے صرف یہ جذبہ کافی نہیں کہ ہم فتنے مٹا دیں گے بلکہ اس کے لیے رسوخ فی العلم درکار ہے، اور فی العلم سے مراد بھی دینی علوم کا رسوخ، تب جا کر ایک عمدہ ذہن فتنوں کے مقابلے، تدارک اور سد باب کے لیے تیار ہوتا ہے. ہمارا ایک طبقہ پڑھنے سے دور ہے، اور دوسرا طبقہ پڑھ رہا ہے مگر علم دین میں رسوخ کے مقصد سے نہیں، ایسے میں فتنوں کا سر اٹھانا اور دن بدن زور پکڑتے جانا کوئی غیر معمولی بات نہیں. پہلے مطالعہ کے میدان کو ہر چہار جانب سے ٹٹولیے، ہر طرف کچھ کچھ پڑھ کر تیار رہیے، پھر ایک سمت کا تعین کر کے بھرپور پڑھیے اور آخری مرحلے میں جو کچھ سالہا سال کی محنت سے حاصل ہوا ہے اسے نصرت دین اور فتنوں کے تعاقب میں لگا دیجیے، مختصر سی زندگی کا قصہ تمام ہو جائے گا اور پڑھنے، پڑھنے والے اور پڑھے ہوئے پر قبولیت کی مہر لگ جائے گی. یاد رکھیں! علمی پختگی کے بعد کا ایک صفحہ یا ایک گھنٹے کی وڈیو؛ آدھے ادھورے شعور کے ساتھ لکھے گئے ہزاروں کالمز اور بے یقینی کے ساتھ بنائے گئے سینکڑوں وڈیوز سے بہر حال بہتر ہے.
27.07.1446
28.01.2025
👍
1