اقرأ بیت المال فاؤنڈیشن انڈیا 🇮🇳✅
اقرأ بیت المال فاؤنڈیشن انڈیا 🇮🇳✅
February 15, 2025 at 05:03 AM
ماہنامہ تریاق کے اگست شمارے میں مضمون "مدیحہ کے ابّا لڑکا ڈھونڈ رہے ہیں " (طنز و مزاح) مدیحہ کے ابا لڑکا ڈھونڈھ رہے ہیں تحریر:صدف جمال، محمودآباد( بارہ بنکی) انہوں نے اپنی بیٹی کو بڑے نازوں سے پالا ہے، نازک سی بچی ہے، گھر کے کاموں سے تو اس کا دور دور تک کوئی رشتہ ناطہ نہیں ہے، گھر میں بنا کیا ہے اسے تو یہ بھی کھانے کی میز پر آکر پتہ چلتا ہے، ارہر کی دال کو پیلی دال اور تہری کو پیلے چاول کہتی ہے، آلو کس درخت پر اگتے ہیں یہ بھی نہیں جانتی پر بچی ہے بہت پیاری ،بس جب بولتی ہے تو پتہ نہیں کیوں سامنے والے کی بولتی ہی بند ہو جاتی ہے،تھوڑی تیز ہے جدھر سے گزر جائے ادھر چھوٹا موٹا زلزلہ آ جاتا ہے۔ معصوم سی ہے رسوئی کے نام پر پوچھتی ہے" یہ کیا ہوتا ہے اماں "۔ لڑکی تو اللہ میاں کی گائے ہے، فرمانبرداری کی مثال ہے مثال، آم کے پیڑ سے امرود توڑ کر لانا تو معمولی بات ہے، وہ تو دن میں تارے بھی دکھانے کا ہنر رکھتی ہے، ابا اپنی اس نیک اور شریف بیٹی کے لئے کوئی اچھا سا لڑکا ڈھونڈ رہے ہیں اور بہت دنوں سے ڈھونڈ رہے ہیں، پر انہیں کوئی لڑکا پسند ہی نہیں آرہا، اگر انہیں پسند بھی آجائے تو مدیحہ کی اماں کو پسند نہیں آتا اور اگر ان دونوں کو پسند آجائے تو انکی بیٹی کے من نہیں بھاتا۔ وہ بات یہ ہے کہ لڑکے اور لڑکے والوں میں تینوں الگ الگ خصوصیات چاہتے ہیں سب کی اپنی اپنی پسند، فرمائشیں اور خواہشات ہیں اور اگر غلطی سے بھی کہیں مدیحہ، مدیحہ کے ابا اور اماں کو پسند بھی آجائے تو خالہ، ماموں، چاچا تایا کو کوئی نا کوئی نقص نظر آ ہی جاتا ہے۔ ابا تو بہت پریشان ہیں کبھی کبھی سوچتے ہیں کہ دنیا کے سارے اچھے خاندان کے نیک لڑکے مریخ پر تو نہیں چلے گئے جو انہیں مل نہیں رہے، بیچارے ابا اور انکی بیچاری معصوم بیٹی۔ ویسے ابا اپنی بیٹی کو لیکر بہت حساس ہیں جب انکے گھر کوئی رشتہ آتا ہے تو پہلے اپنے جاننے والوں سے جانچ پڑتال کرواتے ہیں۔ ارے بھئی! اب جانچ پڑتال تو ضروری ہی ہے، شادی کا معاملہ ہے کوئی کھیل تو نہیں۔ اسی لئے ابا لڑکے کے پرکھوں سے لگا کر آنے والی نسلوں تک کی جانکاری اکٹھا کرتے ہیں ویسے ابا کچھ زیادہ بھی نہیں ڈھونڈ رہے بس شریف، پرہیزگار، دیندار، نیک، خوش مزاج، رحم دل، بہادر، دراز قد، سیرت بے مثال، صورت لاجواب، باہر سے آفتاب، اندر سے ماہتاب، اس طرح کے کسی شہزادے یا نواب زادے کی تلاش میں ہیں اور جس دن ان کے من مطابق رشتہ آگیا وہ بیٹی کو فوراً رخصت کر دینگے۔ وہ بیچارے توکچھ خاص پتہ بھی نہیں لگواتے بس اتنا معلوم کرتے ہیں کہ لڑکے کا حسب نسب کیسا ہے، لوگ خاندانی ہیں کہ نہیں، لڑکا اپنے دادا کی پرانی حویلی میں رہتا ہے کہ اپنے والد کے بنوائے گئے تین ایکڑ میں پھیلے ہوئے چار منزلہ مکان میں، ان کے گھر میں کتنے ملازمین ہیں، کتنی خادمائیں ہیں، باورچی کھانے کتنے ہیں، ان میں کتنے باورچی موجود ہیں، گھر میں گاڑیاں کتنی ہیں کتنی دو پہیہ ہیں، کتنی چار پہیہ ہیں، گاو ¿ں میں سو دو سو ایکڑ زمین ہے کہ نہیں ،شہر میں کاروبار کہاں کہاں پھیلا ہے ،ایک دن کی لاکھ دو لاکھ آمدنی ہے یا اس سے زیادہ ہے ، لڑکے کے ابا نے آج تک کتنے محل تعمیر کروائے ہیں، کتنے شاہی باغات ہیں، تالاب کتنے ہیں ،خاندانی شجرہ کیسا ہے پر دادا کس ریاست کے مالک تھے، باقی خاندان والے کیسے ہیں ،رشتہ داریاں کہاں کہاں اور کیسے کیسے خاندانوں میں ہیں، لڑکے کا اٹھنا بیٹھنا کس طرح کے لوگوں میں ہے اس کے دوست کیسے ہیں دوستوں کے دوست کیسے ہیں اور انکے دوست کیسے ہیں، لڑکے کے نانا کہاں کے نواب تھے، نہیں نواب تو جاگیردار تو رہے ہی ہونگے تو انکی جاگیریں کہاں کہاں پھیلی ہیں، یہ تو ہو گئیں وہ تھوڑی سی معلومات جو ابا اکٹھا کرتے ہیں۔ باقی مدیحہ کی اماں کی بھی کچھ فرمائشیں ہیں وہ یہ کہ لڑکے کی اماں کے پاس سونے کی جوتیاں تو ہونگی ہی جو انکے ابا نے انکو انکی شادی پر دی ہونگی بس انہیں جوتیوں کو پہن کر انکی بیٹی رخصت ہوگی، زیورات کی بارہ صندوقچیاں تو انہیں منگنی پر لانی ہی ہوں گی اور باقی جو شادی والے دن لیکر آئیں وہ انکی مرضی، دوسری بات یہ کہ انکی بیٹی کے سرخ جوڑے پر سونے کا کام ہونا چاہیے، باقی جوڑوں پر چاندی کا کام ہو اور ان جوڑوں کی تعداد اکیاوَن سے کم نا ہو، ساتھ ہی مہر لڑکی کے ماموں طے کریں گے مہرکی جو رقم ان کے منہ سے نکل جائے وہ دینی ہی ہوگی ۔بس اماں اپنی فرمائشیں پیش کرکے اور ابا کل کنبے کے بارے میں پتہ کر کے ہی بات آگے بڑھاتے زیادہ تر تو پہلے ہی رشتہ سو ٹکا کھرا نہیں نکلتا اور اگر تھوڑا بہت سمجھ بھی آجائے تو تصویر دیکھتے ہی ابا کی بیٹی کی تو دور، خود ابا کی ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ اب بھلا بتاو ¿ اپنی چاند سی بیٹی کی شادی کسی گول مول ڈھول جیسے دکھنے والے لڑکے سے تھوڑی کر دینگے، مدھوبالا جیسی بیٹی کے لئے دلیپ کمار ہی پسند کریں گے نا، ابا کے مطابق پتہ نہیں آج کل کے لڑکوں کو کیا ہوا ہے پانچ فٹ سے زیادہ بڑھتے ہی نہیں، ہاے اللہ !کیا ہوگا انکی بیٹی کا کہاں سے لائیں گے وہ پرستان کا شہزادہ۔؟ دیکھو بھئی !ان میں اور انکے خاندان میں تو وہ ساری خوبیاں موجود ہیں جو لڑکے والے چاہتے ہیں ،انکی بیٹی بھی لمبی سی گوری رنگت کی پتلی دبلی نازک سی ہے بالکل اپنی اماں پر گئی ہے پورے خاندان میں کوئی دوسری لڑکی اس کے مقابل نہیں، ماشاءاللہ بہت خوبصورت ہے، بیٹی کو پڑھایا بھی بہت ہے ،پچھلے ہی سال ایم اے کیا ہے، باقی انکے خاندان سے تو بچہ بچہ واقف ہے۔ اور بات رہی جہیز کی تو جہیز سے تو وہ لڑکے والوں کا منہ، پیٹ اور گھر سب بھر دیں گے۔ویسے بھی لڑکے والوں کو خوبصورت پڑھی لکھی لڑکی اور جہیز کو سوا چاہیے بھی کیا ہوتا ہے۔ بدلے میں بھلے انہیں صبح کا ناشتہ بہو کے بستر پر لگانا پڑے یا ابا کے داماد کو کپڑے دھونے پڑ جائیں۔اسی لئے تو ابا نوکر چاکر والا گھر ڈھونڈ رہے ہیں، چلو ،گھر میں زیادہ ملازمین نا ہوئے تو کوئی بات نہیں ،شوہر نامدار خود ہی گھر کے کام کر لیا کریں، اب انکی بیٹی رسوئی گھر میں کھڑی ہوکر چائے تو بنانے سے رہی، ویسے بھی جیسے کو تیسا ہی ملتا ہے۔ جیسی ذیشان کی اماں کی سوچ، ویسے ہی مدیحہ کے ابا کے خیالات، خیر آپ تو سمجھ ہی گئے ہونگے کہ دنیا گول کیوں ہے۔

Comments