
🍃🌹مسلم امہ کی پکار🌹🍃
February 2, 2025 at 04:34 PM
*تلخ حقیقت*
جب خاندان میں کسی کی شادی ہوتی ہے..تو آج کل معمولی بات ہے 400 سے 500 لوگوں کی لسٹ بن جاتی ہے...!!!
. اور شادی کے بعد پتا لگتا ہے کہ فلاں بن فلان تو رہ گیا اور کچھ لوگ شکوہ کرتے ہیں ہمیں نہیں بلایا...!!!
اور جب خاندان میں کسی کو بلڈ کی ضرورت پڑتی ہے...!!!
تو کوئی ایک بندہ نہیں ملتا جو خون عطیہ کرے...!!!اور پھر مجبوراً لوگوں کو خون کا انتظام قیمتاً کرنا پڑتا ہے۔
جب پریشانی ہوتی ہے...!!!
تو فیملی کے 500 لوگ کہاں ہوتے ہیں؟؟؟جو شادیوں پہ تو اکھٹے ہو جاتے ہیں مگر مجبوری اور پریشانی میں لاپتا ہوجاتے ہیں...!!!تلخ حقیقت: ہمارے سماج کی بے حسی
ہمارے معاشرے میں خوشی اور غمی کے رویے حیران کن تضاد کا شکار ہیں۔ جب خاندان میں شادی ہوتی ہے تو 400 سے 500 مہمانوں کی فہرست تیار کی جاتی ہے۔ دوست، رشتہ دار، محلے دار، حتیٰ کہ دور دراز کے جاننے والے بھی دعوت نامے کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ شادی کے دن ہر کوئی شریک ہوتا ہے، قیمتی لباس زیب تن کیے، مہنگے تحائف ہاتھ میں لیے، ہنسی مذاق، خوش گپیوں اور سیلفیوں میں مصروف نظر آتا ہے۔ اگر کسی کو دعوت نہ دی جائے تو ناراضگی، شکوے اور گلے سننے کو ملتے ہیں۔
لیکن جب یہی خاندان کسی آزمائش سے گزرتا ہے، جب کسی بیمار کو خون کی ضرورت پڑتی ہے، جب ہسپتال کے بستر پر کوئی اپنی زندگی کی سانسیں گن رہا ہوتا ہے، جب کسی معصوم کو ایمرجنسی میں خون کی اشد ضرورت ہوتی ہے تو وہی خاندان، وہی دوست، وہی 500 مہمان کہیں نظر نہیں آتے۔
کہاں گئے وہ تمام لوگ؟
جو شادی کے دن تو شریک تھے، مگر مشکل وقت میں ان کا نام و نشان تک نہیں۔
ہمارے معاشرتی رویوں کی بے حسی
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم رواجوں اور دکھاوے کے غلام بن چکے ہیں۔ شادی بیاہ اور تقریبات میں ہزاروں روپے خرچ کرنا ہمارے لیے فخر کی بات ہے، مگر کسی مجبور کی مدد کرنے میں ہمارا دل تنگ ہو جاتا ہے۔ ہمیں یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ حقیقی رشتہ داری اور دوستی وہ نہیں جو صرف خوشیوں میں ساتھ دے، بلکہ اصل رشتہ وہ ہوتا ہے جو آزمائش اور ضرورت کے وقت کام آئے۔
ہمیں خود کو بدلنا ہوگا
اگر ہم شادیوں میں شرکت کے لیے وقت نکال سکتے ہیں، تو خون عطیہ کرنے کے لیے کیوں نہیں؟
اگر ہم لاکھوں روپے شادیوں پر خرچ کر سکتے ہیں، تو کسی بیمار کے علاج کے لیے کیوں نہیں؟
اگر ہم خوشی کے موقع پر اکٹھے ہو سکتے ہیں، تو کسی کی پریشانی میں ساتھ کیوں نہیں کھڑے ہو سکتے؟
اصلاح کی ضرورت
ہمیں اپنی سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں سیکھنا ہوگا کہ حقیقی خوشی اور برکت اسی میں ہے کہ ہم دوسروں کے کام آئیں۔ خوشیوں میں شریک ہونے کے ساتھ ساتھ ہمیں آزمائش کے وقت بھی ایک دوسرے کا سہارا بننا ہوگا۔
خون دینا زندگی دینے کے مترادف ہے۔ اگر ہم ایک قطرہ خون دے کر کسی کی زندگی بچا سکتے ہیں تو اس سے بڑی کوئی نیکی نہیں ہو سکتی۔ آئیں! اپنی سوچ اور طرزِ زندگی کو بدلیں۔ دکھاوے کے بجائے حقیقی ہمدردی اور محبت کو اپنائیں۔ تاکہ جب ہمیں ضرورت ہو، تو ہمارے اپنے ہی ہمیں تنہا نہ چھوڑیں۔
یاد رکھیں!
سچی رشتہ داری اور دوستی وہی ہے جو خوشی اور غمی دونوں میں ساتھ نبھائے۔سماجی بے حسی – ایک تلخ مگر حقیقی المیہ
یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ جب کسی کے ہاں شادی ہوتی ہے تو پورا خاندان متحرک ہو جاتا ہے۔ مہینوں پہلے تیاری شروع ہو جاتی ہے، مہمانوں کی فہرست تیار کی جاتی ہے، قیمتی لباس خریدے جاتے ہیں، کھانے کے شاندار انتظامات کیے جاتے ہیں، اور سینکڑوں لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ لوگ خوشی خوشی شریک ہوتے ہیں، ہنستے ہیں، قہقہے لگاتے ہیں، تصاویر بناتے ہیں، اور زندگی کے حسین لمحات کو یادگار بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ اگر کسی کو مدعو نہ کیا جائے تو وہ ناراض ہو جاتا ہے، شکوے اور شکایتیں کرتا ہے، اور رشتہ داریوں میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔
مگر جب یہی خاندان کسی آزمائش سے گزرتا ہے، جب کسی کو ہسپتال میں خون کی اشد ضرورت ہوتی ہے، جب کسی کو مدد کی طلب ہوتی ہے، جب کوئی کسی مشکل گھڑی میں کسی کے دروازے پر دستک دیتا ہے تو وہی لوگ جو شادی کے موقع پر سب سے پہلے پہنچے تھے، کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ جو خاندان خوشی میں اکٹھا ہوتا ہے، وہی غم اور مجبوری میں بکھر جاتا ہے۔
یہ ہمارا المیہ نہیں تو اور کیا ہے؟
یہ معاشرتی رویے ہمیں کیا سکھاتے ہیں؟
ہم نے زندگی کو صرف ظاہری چمک دمک اور دکھاوے تک محدود کر دیا ہے۔ ہم شادیوں میں شرکت کو اپنا فرض سمجھتے ہیں لیکن کسی کی مدد کرنا، کسی ضرورت مند کا ساتھ دینا، کسی بیمار کے لیے خون کا عطیہ دینا، کسی کی مالی مدد کرنا ہمیں بوجھ لگتا ہے۔
کیا یہ وہی سماج ہے جو ایک دوسرے کا سہارا بنتا تھا؟
کیا یہ وہی معاشرہ ہے جہاں مشکل وقت میں سب ایک ساتھ کھڑے ہوتے تھے؟
آج ہم نے خوشیوں کو ہی سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ دکھ اور مجبوری میں کسی کا ساتھ دینا ہمیں غیر ضروری محسوس ہوتا ہے۔ ہم نے اپنے خاندانی اور سماجی رشتوں کو محض تقریبات تک محدود کر دیا ہے۔
کیا ہم نے کبھی سوچا؟
جب کسی بیمار کو خون کی ضرورت ہوتی ہے تو خاندان کے 500 لوگوں میں سے ایک بھی خون دینے کے لیے آگے نہیں بڑھتا۔ کیوں؟
جب کسی یتیم بچی کی شادی کے لیے مدد کی اپیل کی جاتی ہے تو لوگ خاموش ہو جاتے ہیں، نظر چُرا لیتے ہیں۔ کیوں؟
جب کسی بے روزگار کو روزگار دلانے کی باری آتی ہے تو رشتہ دار صرف مشورے دیتے ہیں، عملی مدد نہیں کرتے۔ کیوں؟
یہ وہ سوالات ہیں جو ہمیں خود سے کرنے چاہئیں۔ اگر ہمیں ان سوالات کا جواب دینے میں شرمندگی محسوس ہو رہی ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ ہمارا سماج بے حسی کا شکار ہو چکا ہے۔
ہماری بے حسی کی قیمت کون چکاتا ہے؟
جب ہم کسی بیمار کو خون دینے سے انکار کرتے ہیں تو شاید وہ ہماری ایک بوتل خون کی کمی کے باعث اپنی زندگی کی جنگ ہار جائے۔
جب ہم کسی مجبور کی مدد کرنے سے گریز کرتے ہیں تو شاید وہ غربت اور بے بسی میں اپنے خواب دفن کر دے۔
جب ہم کسی یتیم یا بیوہ کی مدد نہیں کرتے تو شاید ان کی زندگی مزید مشکلات میں گھِر جائے۔
ہماری بے حسی کی قیمت وہ چکاتے ہیں جو کمزور اور لاچار ہوتے ہیں۔ مگر یاد رکھیں! یہ زندگی مکافاتِ عمل ہے۔ آج ہم کسی کی مدد نہیں کر رہے تو کل کو ہمیں بھی کسی کی مدد کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اگر ہم نے دوسروں کے لیے اپنے دروازے بند رکھے، تو وقت آنے پر ہمارے دروازے بھی بند ہو سکتے ہیں۔
ہمیں خود کو بدلنا ہوگا
ہمیں اپنے رویے بدلنے ہوں گے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ شادیوں اور تقریبات میں شرکت ہی کافی نہیں، بلکہ ہمیں ایک دوسرے کی مشکل وقت میں بھی مدد کرنی ہوگی۔
اگر ہم شادیاں کرنے کے لیے لاکھوں روپے خرچ کر سکتے ہیں تو کسی غریب کی مدد کے لیے چند ہزار کیوں نہیں نکال سکتے؟
اگر ہم وقت نکال کر خوشی میں شریک ہو سکتے ہیں تو کسی بیمار کے لیے خون دینے کے لیے وقت کیوں نہیں نکال سکتے؟
اگر ہم رشتہ داروں کے گلے شکوے دور کرنے کے لیے تیار ہیں تو ان کی مدد کے لیے بھی تیار کیوں نہیں ہو سکتے؟
کچھ عملی اقدامات جو ہمیں اپنانے چاہئیں
خون عطیہ کرنے کی عادت ڈالیں: اگر ہم صحتمند ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم باقاعدگی سے خون عطیہ کریں۔ یہ صدقہ جاریہ بھی ہے اور کسی کی زندگی بچانے کا سبب بھی۔
ضرورت مندوں کا خیال رکھیں: شادی بیاہ اور تقریبات پر لاکھوں خرچ کرنے کے بجائے، ہمیں اپنے خاندان میں موجود یتیموں، بیواؤں، اور ضرورت مندوں کا خیال رکھنا چاہیے۔
حقیقی رشتے نبھائیں: رشتہ داری اور دوستی کا حق صرف خوشیوں میں شریک ہونے سے ادا نہیں ہوتا، بلکہ مشکل وقت میں ساتھ دینے سے ہوتا ہے۔
دکھاوے سے بچیں: ہم اکثر دوسروں کو متاثر کرنے کے لیے فضول خرچیاں کرتے ہیں، لیکن اصل خوشی کسی کی مدد کر کے ملتی ہے۔ ہمیں اپنے رویے بدلنے ہوں گے۔
دوسروں کو بھی ترغیب دیں: اگر ہم اچھے کام کریں گے تو دوسرے بھی ہم سے سیکھیں گے۔ ہمیں اپنی اولاد، دوستوں، اور خاندان کے افراد کو بھی انسانیت کا درس دینا ہوگا۔
اختتامیہ: ایک سوچ جو ہمیں بدل سکتی ہے
زندگی کا حسن صرف خوشیوں میں نہیں بلکہ دوسروں کی مدد میں ہے۔
اصل کامیابی مہنگی شادیوں میں نہیں بلکہ کسی مجبور کا سہارا بننے میں ہے۔
اصل عزت لاکھوں کے کھانے کھلانے میں نہیں بلکہ کسی یتیم کے آنسو پونچھنے میں ہے۔
اصل رشتہ داری بڑے بڑے اجتماعات میں نہیں بلکہ مشکل وقت میں کسی کا ہاتھ تھامنے میں ہے۔
ہمیں اپنی سوچ اور رویے بدلنے ہوں گے۔ ہمیں اپنی زندگی کو صرف خوشیوں اور تقریبات تک محدود کرنے کے بجائے، دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے والا بننا ہوگا۔ کیونکہ زندگی صرف لینے کا نام نہیں، بلکہ دینے کا بھی نام ہے۔ اگر آج ہم کسی کے لیے آسانی پیدا کریں گے، تو کل کو اللہ ہمارے لیے آسانیاں پیدا کرے گا۔
سوچیے! آپ کی زندگی کا مقصد صرف خوشیوں میں شریک ہونا ہے یا دوسروں کے کام آنا بھی؟
👍
1