
NNNEWS22
February 27, 2025 at 10:21 PM
ایگرٹ کے سنہ 2017 کے مطالعے میں، انھوں نے عام بیکٹریا یا جراثیم کی اقسام کا ڈی این اے تجزیہ کیا۔ اگرچہ ہر جرثومے کی صحیح انواع کی شناخت کرنا ممکن نہیں تھا لیکن دس میں سے پانچ بیکٹیریا کا تعلق اُن جراثیم سے تھا جو انسانی صحت یا ان کے مدافعتی نظام کو متاثر کر سکتے تھے۔
ایسے میں سپونج کی صفائی کے لیے اسے مائیکرو ویو میں گرم کرنا یا گرم پانی سے یا صابن سے دھونا فائدہ مند نہیں تھا۔ یہ طریقہ کار اپنانے سے اگرچہ سپونج میں کچھ بیکٹیریا تو ختم ہوئے لیکن اس سے زیادہ مزاحمت کرنے والے چند بیکٹریا کی نشو و نما کو مزید بڑھا دیا۔
ایگرٹ کا کہنا ہے کہ ’ہمارا مفروضہ یہ ہے کہ صفائی ستھرائی کے اقدامات ایک قسم کے انتخاب کے عمل کا باعث بن سکتے ہیں، جہاں بچ جانے والے چند جراثیم دوبارہ بڑی تعداد میں بڑھ سکتے ہیں۔‘
ایگرٹ کہتے ہیں کہ ’اگر آپ یہ عمل ایک، دو بار کرتے ہیں، تو اس سے ان بیکٹیریا کا انتخاب ہو سکتا ہے جو صفائی میں بہتر طریقے سے خود کو ڈھال لیتے ہیں۔‘
تاہم یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ ایگرٹ کے تجزیے یا تحقیق میں کوئی بھی ایسے بیکٹریا یا جراثیم نہیں ملے جو فوڈ پوائزنگ یا انسانی صحت خراب کرنے والے ہوں۔
درحقیقت فوڈ پوائزنگ کے سبب ہسپتال داخل ہونے والے مریضوں کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ ان میں سے 90 فیصد مریضوں میں صرف پانچ قسم کے جراثیم ہوتے ہیں۔ جن میں سے تین بیکٹیریا ایسچریچیا کولی، سالمونیلا اور کیمپائلوبیکٹر نامی ہیں۔
شکر ہے یہ سپونج میں بہت ہی کم ہوتے یا بالکل نہیں ہوتے ہیں۔
ایگرٹ کا کہنا ہے کہ ’ہمیں سپونج میں صرف ممکنہ طور پر ایسے بیکٹیریا ملے ہیں جو کمزور مدافعتی نظام والے لوگوں، یا بوڑھوں یا بچوں کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں۔‘ ایگرٹ کہتے ہیں کہ ’عام طور پر ایک صحت مند شخص کے لیے، باورچی خانے کے سپونج کے اندر موجود بیکٹیریا نقصان دہ نہیں ہوتے ہیں۔‘
سنہ 2017 میں امریکہ کی پریری ویو اے اینڈ ایم یونیورسٹی میں فوڈ سیفٹی کی پروفیسر جینیفر کوئنلان اور ان کے ساتھیوں نے فلاڈیلفیا کے 100 گھروں سے کچن کے سپونج اکٹھے کیے تھے۔
انھوں نے ان کے تجزیے میں پایا کہ ان سپنجوں میں سے صرف ایک یا دو فیصد میں انسانوں میں فوڈ پوائزننگ سے منسلک بیکٹیریا موجود ہیں۔
اس تحقیق کی حمایت 2022 کی ایک تحقیق میں بھی کی گئی جس میں ناروے کے فوڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ ’نوفیما‘ کے سائنسدان سولویگ لینگس رڈ نے برتن دھونے کے سپونج اور برش میں پائے جانے والے بیکٹیریا کا موازنہ کیا۔
انھیں دونوں میں بے ضرر بیکٹیریا کا ایک مشترکہ مجموعہ ملا۔ تاہم اُن کا کہنا تھا کہ سپونج کے مقابلے میں برش میں مجموعی طور پر بہت کم بیکٹیریا ہوتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ بیکٹریا آپ کے سپونج سے آپ کی پلیٹ، گلاس یا برتنوں پر بھی منتقل ہو سکتے ہیں۔
کوئنلان کا کہنا ہے کہ ’سپونج پر موجود بیکٹیریا کی اکثریت بیماری کا باعث نہیں بنتی، وہ صرف اس میں بدبو پیدا کرنے کا کام کرتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اس بات کا امکان ہے کہ اگر آپ کچے گوشت یا کچے چکن کے پانی یا خون کو صاف کرنے کے لیے سپونج کا استعمال کرتے ہیں تو اس میں کچھ مہلک بیکٹریا یا جراثیم موجود ہو سکتے ہیں، اور تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ پیتھوجینز یا مہلک جراثیم کچن کے سپونج سے الگ ہو کر کچن کی دیگر سطحوں پر لگ سکتے ہیں۔‘
لہذا آپ کے سپونج میں بڑھنے والے بیکٹیریا عام طور پر نقصان دہ نہیں ہوتے ہیں، اگر خطرناک بیکٹیریا جیسے سالمونیلا اس پر آ جاتے ہیں، تو سپونج کی ساخت اسے اس پیتھوجین کے بڑھنے کے لیے ایک بہترین جگہ بناتی ہے۔
اس بات کے ثبوت موجود ہیں۔ لینگس رڈ کی تحقیق میں جب محققین نے سلمونیلا کو کچن کے سپونج میں متعارف کرایا تو وہ پروان چڑھے، لیکن جب انھوں نے اس بیکٹیریا کو برش پر ڈالا تو وہ مر گئے۔
اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ برش اکثر استعمال کے بعد زیادہ بہتر طریقے سے خشک ہو جاتے ہیں، جس سے سالمونیلا بیکٹیریا ہلاک ہو جاتے ہیں، جب کہ سپونج اندر سے گیلا رہ سکتا ہے۔
ممکنہ طور پر یہ بیکٹیریا آپ کے سپونج سے پلیٹوں اور برتنوں یا سطحوں پر بھی منتقل ہو سکتے ہیں۔
تو ہمیں اپنے باورچی خانے کے سپونج کو کتنی بار تبدیل کرنا چاہیے؟
کوئلان کا استدلال ہے کہ حفظان صحت کے نقطہ نظر سے، مثالی طور پر آپ کو اسے ہفتہ وار بنیاد پر تبدیل کرنا چاہیے، لیکن اس دورانیے کو بڑھانے کے لیے آپ اس کی صفائی کے کچھ طریقے بھی اپنا سکتے ہیں۔