
NNNEWS22
56 subscribers
About NNNEWS22
World News Local News Any News All News
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

ایمان کا ڈرامائی اندزا میں ریپ اور قتل (*پوری کہانی یہاں سے پڑیں*) 👇 https://whatsapp.com/channel/0029Va88KDtCcW4tBmZUrx2S/1652

*گوجرانوالہ: 5 سالہ ایمان کے ریپ اور قتل کے ملزم کی گرفتاری، پُراسرار ہلاکت اور تدفین کی کہانی* پاکستان میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں وسطی پنجاب کے شہر کامونکی کے قصبہ ’پرانی واہنڈو‘ میں واقع قبرستان کے ایک عقبی حصے کے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں۔ قبرستان میں پولیس کے چند اہلکار موجود ہیں جبکہ اُن کے قریب موجود ایک کرین کی مدد سے زمین میں گڑھا کھودا جا رہا ہے۔ قصبہ واہنڈو کے چند رہائشی ٹولیوں کی صورت میں اس مقام سے کافی دور کھڑے یہ سب ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ کرین گڑھا کھودتی ہے جس کے بعد قریب ہی کھڑی کالے رنگ کی ایک ہائی روف گاڑی سے سفید کپڑے میں لپٹی ایک میت کو نکالا جاتا ہے اور اس گڑھے میں رکھ دیا جاتا ہے۔ میت گڑھے میں رکھتے ہی قریب موجود دو افراد کدالوں کی مدد سے گڑھے پر مٹی ڈالنا شروع کرتے ہیں مگر اسی اثنا میں ساتھ کھڑا پولیس اہلکار کرین میں موجود ڈرائیور کو اشارہ کرتا ہے جو مشین کی مدد سے جلدی جلدی گڑھا بھرنا شروع کر دیتا ہے۔ اسی دوران اس مقام سے کچھ دور موجود قصبہ واہنڈو کا ایک نوجوان اپنے ساتھی کو سرگوشی کے انداز میں کہتا ہے کہ ’انھوں نے تو سلیبیں بھی نہیں رکھیں۔ اس کے بغیر ہی مٹی ڈالنی شروع کر دی ہے۔۔۔‘ یاد رہے کہ مردے کو قبر میں رکھ کر قبر کے اوپر پہلے سیمنٹ یا لکڑی سے بنے بلاکس رکھے جاتے ہیں اور اس کے اوپر مٹی ڈال دی جاتی ہے۔ 26 فروری کو پیش آئے تدفین کے یہ مناظر قصبہ واہنڈو کے ہی ایک نوجوان حسن عرف جھارا کے ہیں۔ قصبے کے رہائشیوں نے نہ صرف حسن کو مقامی قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہیں دی تھی بلکہ اہل علاقہ کو ان کا نماز جنازہ نہ پڑھنے کی ہدایت بھی کی تھی۔ تاہم مقامی پولیس کے مطابق رہائشیوں سے ہوئے مذاکرات کے بعد حسن کو مقامی قبرستان کے اُس عقبی حصے میں دفن کرنے کی اجازت مل گئی جو غیرآباد ہے یعنی وہاں پہلے سے کوئی قبر موجود نہیں ہے۔ پولیس نے حسن کو دو روز قبل ہی اُس کے پڑوس میں رہنے والی ایک پانچ سالہ بچی ایمان فاطمہ کے اغوا، ریپ اور قتل کے الزام میں تفتیش کی غرض سے حراست میں لیا تھا۔ بی بی سی اردو کے رابطہ کرنے پر تھانہ واہنڈو پولیس کے ایس ایچ او نے دعویٰ کیا کہ ملزم کو 25 فروری کو باقاعدہ طور پر گرفتار کیا گیا اور روزنامچے میں گرفتاری کا اندراج کیا گیا جبکہ گاؤں پرانی واہنڈو کے لوگوں نے بتایا کہ انھوں نے 22 فروری کی رات ساڑھے نو بجے ملزم کو اس کے گھر سے پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم کو پانچ سالہ لڑکی کے اغوا کے مقدمہ نمبر 209/25 میں ضمنی بیان میں نامزد کیا گیا اور اس کی بنیاد پر ملزم کی گرفتاری اس کے گھر سے عمل میں لائی گئی۔ پولیس ایس ایچ او کا کہنا ہے کہ ’ملزم کو جب حراست میں لے کر تھانے لایا گیا اور اس سے تفتیش کی گئی تو اس نے پولیس حراست میں کمسن بچی کے قتل کا اعتراف جرم کرلیا، اور پولیس کو تفصیلات بتائیں کہ کس طریقے سے مقتولہ بچی کے ساتھ درندگی کی گئی اور اسے قتل کرکے گھر کے صحن میں گڑھا کھود کر لاش دفنائی گئی۔‘ یاد رہے کہ ملزم کو پولیس نے اُس وقت گرفتار کیا تھا جب اُس کے گھر کے صحن سے پانچ سالہ بچی ایمان فاطمہ کی لاش برآمد ہوئی تھی۔ پولیس کے مطابق ملزم کے ریمانڈ کے لیے اسے 26 فروری کو علاقہ جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا جانا تھا لیکن اس سے پہلے ہی یہ پولیس حراست سے ’فرار ہوگیا‘ اور پھر ’پولیس مقابلے‘ کے دوران ’اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے‘ ہلاک ہو گیا۔ مقامی پولیس کا دعویٰ ہے کہ جب ’ملزم کو برآمدگی اور وقوعے کی نشاندہی کی غرض سے لے جایا جا رہا تھا تو تین موٹر سائیکلوں پر سوار نامعلوم افراد نے پولیس پارٹی پر فائرنگ کر دی اس دوران نامعلوم مسلح افراد ملزم کو اپنے ساتھ لے کر فرار ہو گئے۔‘ پولیس کا دعویٰ ہے کہ مشتبہ ملزم کے فرار کے کچھ ہی دیر بعد گشت پر موجود ایک پولیس پارٹی کا سامنا فرار ہونے والے افراد سے ہوا جس کے دوران دوبارہ فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور جب فائرنگ رُکی تو ایک شخص وہاں زخمی حالت میں پڑا تھا جس کی شناخت مفرور ملزم کے طور پر ہوئی جو بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گیا۔ تاہم اس نوعیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جس میں پولیس کی حراست سے ایک ایسا ملزم بظاہر فرار ہونے میں کامیاب ہوتا ہے اور بعدازاں مارا جاتا ہے جس کے بارے میں پولیس کو 'سائنسی بنیادوں پر کی گئی تفتیش کے بعد ناقابل تردید شواہد' مل چکے ہوتے ہیں۔ ایسے واقعات کے بعد پولیس کی جانب سے عموماً یہ روایتی بیان جاری کیا جاتا ہے جس میں دعویٰ ہوتا ہے کہ ملزم کو برآمدگی کے لیے لے جایا جا رہا تھا جب 'ملزمان کے مسلح ساتھیوں نے پولیس پارٹی پر حملہ کر دیا اور اس دوران ہونے والی فائرنگ سے ملزم ہلاک ہو گیا۔‘ عموماً اس طرح کے واقعات میں ایف آئی آر میں مقام، تاریخ اور ملزم کا نام بدلنے کا علاوہ باقی عبارت لگ بھگ ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم نے ابتدائی تفتیش کے دوران بتایا کہ اس کا سابقہ کردار بھی ٹھیک نہیں رہا اور وہ مبینہ طور پر غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے جس بارے پولیس نے چھان بین کرنی تھی لیکن اس سے پہلے ہی وہ موت کے منھ میں چلا گیا۔ مگر پانچ سالہ ایمان فاطمہ کی گمشدگی، اُس کی میت کی ملزم حسن کے گھر کے صحن سے برآمدگی، ملزم کی گرفتاری، فرار، ’اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاکت‘ اور تدفین پر تنازع کی کہانی ہے کیا؟ ایمان فاطمہ کی گمشدگی اس پوری کہانی کی ابتدا 22 فروری کی دوپہر اس وقت ہوئی جب گوجرانوالہ کی تحصیل کامونکی کے قبصہ واہنڈو میں سلائی کڑھائی کا کام کرنے والے عبدالشکور کی بیٹی پانچ سالہ بیٹی ایمان فاطمہ گھر میں کھیلتے ہوئے اچانک لاپتہ ہوگئی۔ عبدالشکور اڑھائی مرلے کے گھر میں رہتے ہیں اور اُسی گھر کے ایک کمرے میں وہ کڑھائی سلائی کا کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے گھر میں مرغیاں بھی پال رکھی ہیں جن کے انڈے فروخت کر کے یہ خاندان گزر بسر کرتا ہے۔ عبدالشکور کے چار بچے ہیں جن میں تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ ایمان فاطمہ بھائی بہنوں میں تیسرے نمبر پر تھیں۔ عبدالشکور نے بی بی سی کو بتایا کہ ایمان اپنی سہیلیوں کے ساتھ معمول کے مطابق کھیل کود رہی تھی مگر جب وہ کافی دیر تک گھر واپس نہ آئی تو اس کی والدہ کو تشویش ہوئی۔ والد کے مطابق والدہ نے اپنی گلی اور قریبی گلیوں میں جا کر ایمان کو تلاش کیا مگر وہ نہیں ملی۔ عبدالشکور بتاتے ہیں کہ ’میں اُس وقت سودا سلف لینے بازار گیا ہوا تھا۔ میری بیوی نے مجھے ساڑھے تین بجے کے قریب فون کیا کہ جلدی سے گھر واپس آؤ ایمان کا کچھ پتہ نہیں چل رہا۔‘ ’میں نے اپنی بیوی کو ڈانٹا کہ خوامخواہ پریشان ہو رہی ہو، اُس نے کہاں جانا ہے، اِدھر ہی کہیں ہو گی۔ بہرحال جب وہ مزید کچھ دیر نہ ملی تو میں بھی پریشان ہو گیا اور فورا گھر واپس آ گیا۔ ہم اپنی بیٹی کو ڈھونڈتے رہے اور اس دوران شام کے چھ بج گئے اور ہر طرف اندھیرا چھانے لگا۔ اب مجھے بُرے بُرے خیالات آنا شروع ہو گئے مگر ابتدا میں میں نے اسے اپنا وہم سمجھ کر جھٹک دیا۔‘ عبدالشکور نے بتایا کہ شام کو وہ تھانہ واہنڈو پہنچے اور اپنی بیٹی کے مبینہ اغوا کا مقدمہ درج کروایا۔ بی بی سی کو دستیاب ایمان کے اغوا کی ایف آئی آر میں بھی عبدالشکور نے یہی تفصیلات پولیس کو بتائی ہیں۔ عبدالشکور کے مطابق ’پھر گاؤں واپس آ کر ہم نے مساجد کے ذریعے اعلانات بھی کروائے۔ پورے گاؤں میں شور مچ چکا تھا کہ بچی اغوا ہو گئی ہے مگر اس کا کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔‘ ملزم پر شک اور اس کے گھر کے صحن سے بچی کی لاش کی برآمدگی عبدالشکور بتاتے ہیں کہ شام کے بعد جیسے جیسے رات ہوتی گئی گاؤں کے تمام لوگ بھی پتا کرنے کے لیے ان کے گھر آنے لگے اور ہر طرف سراسیمگی پھیل گئی تھی۔ 'ایک خوف کا عالم تھا جو پورے گاؤں پر طاری تھا۔ عبدالشکور بتاتے ہیں کہ ’اس دوران ہماری ساتھ والی گلی کا رہائشی حسن جھارا مجھ سے بار بار آ کر پوچھتا رہا کہ ’بیٹی کا کچھ پتہ چلا، بیٹی مل گئی ہے کیا؟ لگتا ہے کہ کوئی اسے اغوا کرکے لے گیا ہے۔‘ ’وہ مجھے بار بار کہتا کہ آپ نے دوسرے دیہات میں جا کر بھی اعلانات کروانے تھے۔‘ عبدالشکور بتاتے ہیں کہ رات کے ساڑھے نو بج گئے تھے اور اُن سمیت محلے داروں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ شکور کے مطابق اُن سمیت اہل محلہ کا شک حسن جھارا پر بھی تھا۔ شک کی وجہ سے متعلق بتاتے ہوئے عبدالشکور نے دعویٰ کیا کہ حسن کا کردار کچھ اچھا نہیں تھا اور ماضی قریب میں اس کی اپنی ایک کم عمر رشتہ دار نے اس پر ریپ کا الزام عائد کیا تھا مگر خاندان نے اندرونی طور پر اس تنازع کو دبا دیا تھا۔ اہل علاقہ نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ ملزم منشیات کی خرید و فروخت کے کام سے بھی منسلک تھا۔ تاہم بی بی سی اس الزامات کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا ہے۔ عبدالشکور کے مطابق اس دوران ’اہل علاقہ سے مشورے کے بعد گاؤں کے کچھ معزز افراد حسن جھارا کے گھر داخل ہوئے اور بچی سے متعلق دریافت کیا۔‘ عبدالشکور کا کہنا ہے کہ ’حسن اور اُن کی والدہ آخری وقت تک پراعتماد انداز میں بتاتے رہے کہ وہ اس متعلق کچھ نہیں جانتے۔ اس گفتگو کے دوران گاؤں کے ایک شخص نے صحن کی مٹی کا کچھ حصہ نرم دیکھ کر شک کا اظہار کیا اور دریافت کیا کہ یہاں مٹی نرم کیوں ہے۔‘ عبدالشکور کے مطابق ’ملزم نے کہا کہ وہ کدال لانے جا رہا ہے، آپ خود یہاں کھدائی کر کے دیکھ لیں۔ اُس کا ارادہ یہی تھا کہ چونکہ اب اس کی واردات پکڑی جانے کے قریب ہے اس لیے وہ یہاں سے فرار ہو جائے۔ مگر اس کے چہرے پر واضح پریشانی دیکھ کر محلے داروں نے اسے پکڑ لیا۔‘ عبدالشکور بتاتے ہیں کہ ’جب لوگوں نے نرم مٹی کی کھدائی کی، تو نیچے سے میری ننھی پری کی لاش برآمد ہو گئی۔ مجھے کچھ ہوش نہیں رہا کہ اس کے بعد کیا ہوا۔ لوگوں نے ہی پولیس کو اطلاع کی جو دونوں ماں، بیٹے کو پکڑ کر لے گئی۔‘ عبدالشکور کہتے ہیں کہ ’وہ قیامت کے لمحات تھے۔ جب کھدائی شروع ہوئی تو کچھ ہی دیر میں مٹی کے نیچے سے میری بیٹی کی لاش نظر آنا شروع ہو گئی تھی۔ ایمان نے کسی کا کیا بگاڑا تھا جو یوں اسے درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔ بیٹی کو اب دفنا دیا ہے لیکن ابھی تک دل و دماغ پر چھایا اس کا چہرہ سے نہیں ہٹ رہا۔‘ یاد رہے کہ پولیس نے اس قتل کیس میں ملزم کی والدہ کو بھی حراست میں لے رکھا ہے جن پر ایمان کی لاش کو دفن کرنے میں مدد دینے، قتل میں شواہد کو چھپانے اور ضائع کرنے کی کوشش کا الزام ہے۔ پولیس نے اس سارے معاملے میں تین ایف آئی آرز درج کی ہیں، پہلی ایف آئی آر پانچ سالہ ایمان فاطمہ کے اغوا کی ہے، دوسری ایف آئی آر زیر حراست ملزم حسن کے فرار کی ہے جبکہ تیسری ایف آئی آر مبینہ طور پر فرار ہونے والے ملزم کی ہلاکت سے متعلق ہے۔ ایمان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کیا بتایا گیا ہے؟ پانچ سالہ ایمان کی لاش کی ابتدائی رپورٹ جاری کی گئی ہے تاہم حتمی پوسٹ مارٹم رپورٹ کا انتظار ہے۔ اس ابتدائی رپورٹ میں بچی کے جسم کے نازک حصے (وجائنا) اور ٹانگوں کے اوپری حصوں پر خون کے نشانات پائے گئے ہیں جبکہ اُس کی گردن پر دبائے جانے کے نشانات ہیں۔ اس کے علاوہ ہونٹوں اور زبان پر بھی زخموں کے نشانات موجود تھے۔ سول ہسپتال کامونکی کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر سعد احمد نے اس سلسلے میں بتایا کہ بچی کے جسم اور ڈی این اے کے نمونے حتمی تجزیے اور رپورٹ کےلیے لاہور بھیجے گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ڈی این اے کی رپورٹ آنے کے بعد معلوم ہو گا کہ آیا بچی کو قتل کرنے سے قبل اس کا ریپ کیا گیا تھا یا نہیں۔ یاد رہے کہ پولیس نے ملزم حسن کے خلاف درج ایف آئی آر میں مبینہ اغوا، قتل اور کم عمر بچوں کے ریپ سے متعلق دفعات درج کر رکھی ہیں۔ ملزم کا ’رات کی تاریکی میں فرار‘ اور پُراسرار حالات میں ہلاکت ملزم کے فرار سے متعلق درج کی گئی ایف آئی آر میں کچھ واقعات درج ہیں۔ مقامی پولیس کے مطابق 25 فروری کی رات 12 بج کر 40 منٹ کر ملزم حسن عرف جھارا کو ’پولیس بسلسلہ تفتیش و نشاندہی پرانی آبادی واہنڈو لے جا رہی تھی کہ کلوں کلاں پُل سے پرانی واہنڈو کی جانب مڑنے پر تین موٹر سائیکلوں پر سوار پانچ نامعلوم ملزمان نے پولیس گاڑی پر سیدھی فائرنگ کر دی۔‘ ’پولیس اہکاروں نے ڈیک کی پٹری کی اوٹ لے کر اپنی جان بچائی تاہم ملزمان اپنے ساتھی ملزم حسن عرف جھارا کو ہتھکڑیوں سمیت چھڑوا کر فرار ہو گئے۔ فرار ملزمان کی اطلاع ملتے ہی علاقہ میں ناکہ بندی کروا دی گئی، فرار کے 15 منٹ بعد پولیس ناکہ کوڑی کوٹ چوک پر ملزمان کا دوبارہ پولیس سے آمنا سامنا ہو گیا۔‘ ایف آئی آر کے مطابق ’پولیس اہلکاروں کو کھڑا دیکھ کر ملزمان نے دوبارہ فائرنگ شروع کر دی تاہم پولیس ملازمان نے گاڑی کی اوٹ میں ہو کر اور زمین پر لیٹ کر اپنی جانیں بچائیں اور سیلف ڈیفنس میں اِکا دُکا فائر کیے۔‘ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ’فائرنگ رُکنے کے بعد علاقے کا جائزہ لیا گیا تو کچھ فاصلے پر سڑک کے کنارے پر ایک ملزم شدید زخمی حالت میں پڑا ملا جو اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ زخمی ہوا تھا۔ زخمی ملزم کو ہسپتال لے جایا گیا مگر وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گیا۔ ہلاک ہونے والے ملزم کی شناخت حسن عرف جھارا کے نام سے ہوئی جبکہ دیگر ملزمان اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہو گئے۔‘ یاد رہے کہ پنجاب میں ریپ اور اس نوعیت کے سنگین جرائم میں ملوث زیر حراست مجرموں کی اس طرح کے پراسرار حالات میں ہلاکت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ملزم کی تدفین پر تنازع پانچ سالہ بچی کو قتل کر کے اپنے گھر کے صحن میں دبانے والے مبینہ مشتبہ ملزم کی لاش کو گاؤں والوں نے نماز جنازہ وغیرہ کے ساتھ تدفین سے انکار کردیا جس پر پولیس کی موجودگی میں کرین کے ساتھ مقامی قبرستان کے ایک الگ حصے میں گڑھا کھود کر اس کو دفنایا گیا۔ بی بی سی کے رابطہ کرنے پر گاؤں پرانی واہنڈو کے رہائشیوں نے بتایا کہ علاقہ مکینوں نے مشترکہ طور پر یہ فیصلہ کیا تھا کہ ملزم کی نا تو قبر بنانے کی اجازت دی جائے گی اور نہ ہی کوئی اس کے نماز جنازہ میں شرکت کرے گا۔ اس گاؤں کے رہائشی چوہدری اسلم نے اس فیصلے سے متعلق بتایا کہ ’یہ کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ پورے گاؤں کا متفقہ فیصلہ تھا۔ چونکہ ملزم نے کمسن بچی کے ساتھ ظلم کیا اس لیے نہ تو کوئی اس کا نماز جنازہ پڑھے یا پڑھائے گا اور نہ ہی اس کی گاؤں کے قبرستان میں اس کی تدفین ہو گی۔‘ چوہدری اسلم کے مطابق ’پولیس کے اصرار پر ہم نے اسے قبرستان کے ایک الگ حصے میں دفن تو ہونے دیا ہے لیکن اس کی قبر نہیں بننے دیں گے۔‘ تاہم اس سوال کے جواب میں کہ ملزم کا جرم ثابت نہیں ہوا تھا؟ ان کا کہنا تھا کہ بچی کی میت اس کے گھر سے ملی تھی جبکہ پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ بھی بچی کے ریپ کو ظاہر کرتی ہے۔ انھوں نے کہا ’اہل علاقہ نے یہ سب اس لیے کیا تاکہ اس کو ایک مثال کے طور پر یاد رکھا جائے اور آئندہ کوئی بھی شخص کسی معصوم بچی یا بچے کے ساتھ ایسا کچھ کرنے کی جرات نہ کر سکے۔‘

سپونج کو صرف دو طریقوں سے صاف کیا جا سکتا ہے۔ آپ شام کے بعد ان کو ڈش واٹر میں رکھ سکتے ہیں یا پھر آپ ایک منٹ کے لیے انھیں مائیکروویو میں رکھ سکتے ہیں جب تک کہ اس میں سے آپ کو سٹیم نکلتی نظر نہ آئے۔ تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ سادہ طریقے سے بلیچ سے برتن دھونے کے بجائے اس طریقے سے ڈش واٹر اور مائیکرو ویو میں برتنوں کی صفائی سے بیکٹیریا کی بڑی حد دھلائی ہو جاتی ہے۔ مگر ایگرٹ کے مطالعے سے یہ پتا چلتا ہے کہ وقت کے ساتھ برتنوں کی دھلائی کم مؤثر رہ جاتی ہے کیونکہ اس سے ان پر زیادہ مزاحمت کرنے والے دھبے پڑ جاتے ہیں۔ سپونچ کو ابلتے ہوئے پانی میں ڈال کر اس سے صفائی کی جائے تو پھر اس سے زیادہ جراثیم مر جاتے ہیں۔ اگرچہ اس بات کے بھی امکانات ہیں کہ کچھ جراثیم بچ جائیں خاص طور پر وہ جو حفاظتی تہہ بنا لیتے ہیں۔ اس طریقے سے برتن دھونے سے سلمونیلا نامی جراثیم کی مؤثر صفائی ہو سکتی ہے۔ اور گُر یہ ہے کہ سپونچ کو ’سنک‘ میں نہ رکھا جائے تاکہ یہ استعمال کے لیے پھر سے خشک ہو سکے اور ٹھیک سے کھانوں کے بچے ہوئے ذرات کی صفائی کر سکے۔ کچھ لوگ صفائی کے لیے اس سے بھی بالکل مختلف طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ ایگرٹ کا کہنا کہ ’میں کچن والے سپونچ سے کبھی صفائی نہیں پسند کروں گا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’مجھے اس کی کوئی تُک سمجھ نہیں آتی کہ اس طرح کی کسی چیز کو کچن جیسی جگہ پر استعمال کیا جائے۔‘ اُن کی تجویز کے مطابق اس مقصد کے لیے ایک برش بہت کارآمد ہے کیونکہ اس پر کم بیکٹیریا ہوتے ہیں اور یہ آسانی سے خشک بھی ہو جاتا ہے اور اس سے برتنوں کی صفائی بھی آسان ہوتی ہے۔‘

ایگرٹ کے سنہ 2017 کے مطالعے میں، انھوں نے عام بیکٹریا یا جراثیم کی اقسام کا ڈی این اے تجزیہ کیا۔ اگرچہ ہر جرثومے کی صحیح انواع کی شناخت کرنا ممکن نہیں تھا لیکن دس میں سے پانچ بیکٹیریا کا تعلق اُن جراثیم سے تھا جو انسانی صحت یا ان کے مدافعتی نظام کو متاثر کر سکتے تھے۔ ایسے میں سپونج کی صفائی کے لیے اسے مائیکرو ویو میں گرم کرنا یا گرم پانی سے یا صابن سے دھونا فائدہ مند نہیں تھا۔ یہ طریقہ کار اپنانے سے اگرچہ سپونج میں کچھ بیکٹیریا تو ختم ہوئے لیکن اس سے زیادہ مزاحمت کرنے والے چند بیکٹریا کی نشو و نما کو مزید بڑھا دیا۔ ایگرٹ کا کہنا ہے کہ ’ہمارا مفروضہ یہ ہے کہ صفائی ستھرائی کے اقدامات ایک قسم کے انتخاب کے عمل کا باعث بن سکتے ہیں، جہاں بچ جانے والے چند جراثیم دوبارہ بڑی تعداد میں بڑھ سکتے ہیں۔‘ ایگرٹ کہتے ہیں کہ ’اگر آپ یہ عمل ایک، دو بار کرتے ہیں، تو اس سے ان بیکٹیریا کا انتخاب ہو سکتا ہے جو صفائی میں بہتر طریقے سے خود کو ڈھال لیتے ہیں۔‘ تاہم یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ ایگرٹ کے تجزیے یا تحقیق میں کوئی بھی ایسے بیکٹریا یا جراثیم نہیں ملے جو فوڈ پوائزنگ یا انسانی صحت خراب کرنے والے ہوں۔ درحقیقت فوڈ پوائزنگ کے سبب ہسپتال داخل ہونے والے مریضوں کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ ان میں سے 90 فیصد مریضوں میں صرف پانچ قسم کے جراثیم ہوتے ہیں۔ جن میں سے تین بیکٹیریا ایسچریچیا کولی، سالمونیلا اور کیمپائلوبیکٹر نامی ہیں۔ شکر ہے یہ سپونج میں بہت ہی کم ہوتے یا بالکل نہیں ہوتے ہیں۔ ایگرٹ کا کہنا ہے کہ ’ہمیں سپونج میں صرف ممکنہ طور پر ایسے بیکٹیریا ملے ہیں جو کمزور مدافعتی نظام والے لوگوں، یا بوڑھوں یا بچوں کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں۔‘ ایگرٹ کہتے ہیں کہ ’عام طور پر ایک صحت مند شخص کے لیے، باورچی خانے کے سپونج کے اندر موجود بیکٹیریا نقصان دہ نہیں ہوتے ہیں۔‘ سنہ 2017 میں امریکہ کی پریری ویو اے اینڈ ایم یونیورسٹی میں فوڈ سیفٹی کی پروفیسر جینیفر کوئنلان اور ان کے ساتھیوں نے فلاڈیلفیا کے 100 گھروں سے کچن کے سپونج اکٹھے کیے تھے۔ انھوں نے ان کے تجزیے میں پایا کہ ان سپنجوں میں سے صرف ایک یا دو فیصد میں انسانوں میں فوڈ پوائزننگ سے منسلک بیکٹیریا موجود ہیں۔ اس تحقیق کی حمایت 2022 کی ایک تحقیق میں بھی کی گئی جس میں ناروے کے فوڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ ’نوفیما‘ کے سائنسدان سولویگ لینگس رڈ نے برتن دھونے کے سپونج اور برش میں پائے جانے والے بیکٹیریا کا موازنہ کیا۔ انھیں دونوں میں بے ضرر بیکٹیریا کا ایک مشترکہ مجموعہ ملا۔ تاہم اُن کا کہنا تھا کہ سپونج کے مقابلے میں برش میں مجموعی طور پر بہت کم بیکٹیریا ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بیکٹریا آپ کے سپونج سے آپ کی پلیٹ، گلاس یا برتنوں پر بھی منتقل ہو سکتے ہیں۔ کوئنلان کا کہنا ہے کہ ’سپونج پر موجود بیکٹیریا کی اکثریت بیماری کا باعث نہیں بنتی، وہ صرف اس میں بدبو پیدا کرنے کا کام کرتے ہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ اس بات کا امکان ہے کہ اگر آپ کچے گوشت یا کچے چکن کے پانی یا خون کو صاف کرنے کے لیے سپونج کا استعمال کرتے ہیں تو اس میں کچھ مہلک بیکٹریا یا جراثیم موجود ہو سکتے ہیں، اور تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ پیتھوجینز یا مہلک جراثیم کچن کے سپونج سے الگ ہو کر کچن کی دیگر سطحوں پر لگ سکتے ہیں۔‘ لہذا آپ کے سپونج میں بڑھنے والے بیکٹیریا عام طور پر نقصان دہ نہیں ہوتے ہیں، اگر خطرناک بیکٹیریا جیسے سالمونیلا اس پر آ جاتے ہیں، تو سپونج کی ساخت اسے اس پیتھوجین کے بڑھنے کے لیے ایک بہترین جگہ بناتی ہے۔ اس بات کے ثبوت موجود ہیں۔ لینگس رڈ کی تحقیق میں جب محققین نے سلمونیلا کو کچن کے سپونج میں متعارف کرایا تو وہ پروان چڑھے، لیکن جب انھوں نے اس بیکٹیریا کو برش پر ڈالا تو وہ مر گئے۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ برش اکثر استعمال کے بعد زیادہ بہتر طریقے سے خشک ہو جاتے ہیں، جس سے سالمونیلا بیکٹیریا ہلاک ہو جاتے ہیں، جب کہ سپونج اندر سے گیلا رہ سکتا ہے۔ ممکنہ طور پر یہ بیکٹیریا آپ کے سپونج سے پلیٹوں اور برتنوں یا سطحوں پر بھی منتقل ہو سکتے ہیں۔ تو ہمیں اپنے باورچی خانے کے سپونج کو کتنی بار تبدیل کرنا چاہیے؟ کوئلان کا استدلال ہے کہ حفظان صحت کے نقطہ نظر سے، مثالی طور پر آپ کو اسے ہفتہ وار بنیاد پر تبدیل کرنا چاہیے، لیکن اس دورانیے کو بڑھانے کے لیے آپ اس کی صفائی کے کچھ طریقے بھی اپنا سکتے ہیں۔

*برتن دھونے والے سپونج پر ’انسانی فضلے کے برابر جراثیم‘: اسے صاف کیسے رکھا جائے اور کتنے عرصے بعد بدلا جائے* سپونج ہر گھر کے کچن میں استعمال ہونے والی ایک عام سی چیز ہے جس کا استعمال ہم گندے برتنوں کو دھونے کے لیے کرتے ہیں۔ لیکن آپ کے کچن کا گیلا سپونج ایک ایسا ماحول فراہم کرتا ہے جو بیکٹیریا کے پنپنے کے لیے بہترین ہے۔ مگر اس سپونج میں کتنے خطرناک جراثیم ہوتے ہیں اور آپ کو اس کے متبادل یعنی واشنگ برش کا استعمال کیوں کرنا چاہیے؟ بیکٹیریا یا جراثیم کی ہر قسم اپنے پنپنے کے ماحول سے بخوبی واقف ہوتی ہے۔ کچھ زمین کی تہہ کے اندر، کچھ اُبلتے ہوئے ہائیڈرو تھرمل وینٹس میں تو کچھ برف سے اٹے سرد ترین علاقوں میں بھی اپنا گھر بنانا بخوبی جانتے ہیں۔ اور اگر بیکٹیریا سے پوچھا جائے کہ وہ کہاں رہنا سب سے زیادہ پسند کریں گے؟ تو یقیناً اُن کا جواب ہو گا کہ آپ کے باورچی خانے میں موجود سپونج میں! یعنی اس چیز میں جس سے ہم اپنے پانی کے گلاس، چمچے، پلیٹیں اور دیگچیاں وغیرہ دھوتے ہیں۔ سپونج بیکٹریا یا جراثیم کے لیے ایک جنت کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ سپونج گرم مرطوب، گیلے اور خوراک کے ذرات سے بھرے ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے یہ جراثیم یا بیکٹریا کی نشوو نما کے لیے بہترین ماحول فراہم کرتے ہیں۔ سنہ 2017 میں جرمنی کی فرٹ وانگن یونیورسٹی کے ایک مائیکرو بائیولوجسٹ مارکس ایگرٹ نے کچن کے استعمال شدہ سپنجوں میں بیکٹریا یا جراثیم سے متعلق اعداد و شمار شائع کیے تھے۔ انھوں نے ان سپنجز میں جراثیم کی 362 مختلف اقسام دریافت کی تھیں۔ اور ایک سپونج کی کچھ جگہوں پر بیکٹیریا کی کثافت 54 ارب جرثومے فی مربع سینٹی میٹر تک پائی گئی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ بہت بڑی تعداد ہے۔ یہ اتنی ہی زیادہ ہے جتنی آپ کو انسانی فضلے یعنی پاخانے میں ملتی ہے۔‘ سپونج میں متعدد چھوٹے چھوٹے سوراخ اور گڑھے ہوتے ہیں جن میں ان جراثیم یا بیکٹریا کو پنپنے کو بہترین موقع ملتا ہے۔ ڈیوک یونیورسٹی کے مصنوعی حیاتیات کے ماہر لنگچونگ یو اور اُن کی ٹیم نے سنہ 2022 میں ایک تحقیقی مطالعے کے لیے سپونج کے پیچیدہ ماحول کو ماڈل بنانے کے لیے کمپیوٹر کا استعمال کیا۔ انھوں نے اس تحقیق میں پایا کہ مختلف سائز کے سوراخ والے سپونج سب سے زیادہ جراثیم کی نشو و نما کرتے ہیں۔ اس کے بعد ان کی ٹیم نے ان سپونج میں ای کولی کی نشو و نما کر کے ان نتائج کی جانچ کی۔ ایگرٹ کا کہنا ہے کہ ’انھیں پتہ چلا کہ باورچی خانے کے سپونج میں مختلف سائز کے سوراخ ہونا ایک ایسی چیز ہے جو واقعی بیکٹیریا کی افزائش کے لیے اہم ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ بات سمجھ میں آتی ہے کیونکہ آپ کے پاس ایسے بیکٹیریا ہوتے ہیں جو خود بڑھنا پسند کرتے ہیں، اور آپ کے پاس ایسے بیکٹیریا ہوتے ہیں جنھیں دوسروں کی صحبت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک سپونج کے اندر آپ کے پاس اتنے مختلف ڈھانچے یا سوراخ ہوتے ہیں کہ ہر طرح کے بیکٹریا کو نشو و نما کا موقع ملتا ہے۔‘ سپونج یقینی طور پر بیکٹیریا کے لیے اچھے گھر ثابت ہوتے ہیں۔ تاہم، یہ ضروری نہیں کہ یہ ہماری صحت کے لیے بھی خطرہ ہوں۔ بیکٹیریا ہر جگہ موجود ہیں۔ ہماری جلد پر، مٹی میں اور ہمارے ارد گرد ہوا میں، مگر یہ سبھی نقصان دہ نہیں ہیں۔ درحقیقت یہ بہت سے اہم کام بھی انجام دیتے ہیں۔ اس لیے اہم سوال یہ ہے کہ کیا سپونج میں پائے جانے والے بیکٹیریا کے بارے میں فکرمند ہونے کی ضرورت ہے؟

*ایک لڑکے کی تلاش میں کراچی پہنچنے والی امریکی خاتون جنھیں تضحیک آمیز رویوں کا سامنا کرنا پڑا* *مکمل تبصرہ پڑیں* عشق نے پکڑا نہ تھا غالب ابھی وحشت کا رنگ، رہ گیا تھا دل میں جو کچھ ذوقِ خواری ہائے ہائے۔۔۔' راحت فتح علی خان کی آواز میں گائی گئی مرزا غالب کی یہ غزل کراچی میں موجود امریکی شہری اونیجا اینڈریو کے ٹِک ٹاک پیج پر لگائی گئی ہے۔ ٹک ٹاک پر پوسٹ کی گئی اس ویڈیو میں انھوں نے سر پر سفید رنگ کا سکارف پہنا ہوا ہے جبکہ اُن کے ہاتھوں پر مہندی لگی ہوئی ہے۔ پاکستان میں مقامی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر اونیجا کی یہ ویڈیو وائرل ہے جسے ہزاروں مرتبہ شیئر کیا گیا ہے۔ اونیجا اینڈریو رابنس نامی یہ امریکی خاتون گذشتہ کئی دنوں سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں موجود ہیں اور اُن کی موجودگی خبروں اور تبصروں کی زینت بن رہی ہے۔ ویزا کی معیاد پوری ہونے اور پاکستانی اور امریکی حکام کی متعدد کوششوں کے باوجود وہ واپس امریکہ جانے سے انکاری ہیں۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ وہ کراچی میں ایک پاکستانی نوجوان کی محبت میں مبتلا ہو کر اُس کی تلاش میں پہنچی تھیں۔ کراچی پولیس کے مطابق جس لڑکے کے حوالے سے یہ خاتون بات کر رہی ہیں وہ اپنے اہلخانہ سمیت کسی نامعلوم مقام پر منتقل ہو چکا ہے۔ *مگر اس کہانی کی ابتدا کیسے ہوئی؟* کراچی میں پولیس حکام کے مطابق نیویارک کی رہائشی اونیجا اینڈریو سیاحتی ویزا پر پاکستان آئی تھیں۔ ویزے کی معیاد ختم ہونے کے بعد وہ کراچی ایئرپورٹ میں مقیم تھیں اور چند روز قبل جب گورنر سندھ کامران ٹیسوری کا ایئرپورٹ پر جانا ہوا تو ایس ایچ او ایئرپورٹ کلیم خان نے انھیں بتایا کہ ایک امریکی خاتون یہاں مقیم ہیں اور اُن کے پاس واپسی کا ٹکٹ نہیں ہے پولیس حکام کے مطابق اس کے بعد اونیجا کی کہانی منظر عام پر آئی۔ ایس ایچ او ایئرپورٹ کلیم خان نے بی بی سی کو بتایا کہ امریکی خاتون کب سے یہاں مقیم تھیں وہ اس بات سے لاعلم ہیں تاہم جیسے ہی خاتون کی موجودگی ان کی علم میں لائی گئی تو انھوں نے اس بابت گورنر کو بتا دیا۔ گورنر کامران ٹیسوری کے پریس ترجمان فیصل فاروقی نے بی بی سی کو بتایا کہ گورنر نے متعلقہ حکام کو خاتون کے ویزا میں توسیع کے سفارش کی تھی اور اُن کے واپسی کے ٹکٹ کی یقین دہانی کروائی تھی۔ فلاحی تنظیم 'جے ڈی سی' کی جانب سے اونیجا کے واپسی کا ٹکٹ کا انتظام کیا گیا ہے۔ اس تنظیم کی جانب سے اس ضمن میں ایک ویڈیو پیغام بھی جاری کیا جس میں وہ ٹکٹ متعلقہ ایس ایچ او کے حوالے کر رہے ہیں۔ اس ویڈیو میں اونیجا بھی موجود ہیں جو ہاتھ میں انہیلیر اٹھائے ہوئے ہی ہیں۔ 'جے ڈی سی' سے تعلق رکھنے والے ظفر عباس اس ویڈیو میں کہتے ہیں کہ یہ خاتون آٹھ روز قبل آئی تھیں اور ایئرپورٹ کے ہوٹل میں مقیم تھیں۔ 'ان کا ویزا بھی ایکسپائر ہو گیا تھا۔ ایک 19 سالہ نوجوان نے انھیں امریکہ سے یہاں بلایا تھا اور کہا تھا کہ شادی کروں گا۔ مگر جب یہ خاتون کراچی آئیں تو لڑکے کی جانب سے انھیں قبول نہیں کیا گیا اور کہا کہ فیملی نے منع کر دیا ہے۔' *لڑکے کے گھر کے باہر دھرنا'* چند روز قبل اونیجا کو واپس بھیجنے کا انتظام مکمل کر لیا گیا تھا۔ پولیس حکام کے مطابق قطر ایئر ویز کی پرواز کا واپسی کا ٹکٹ بھی جاری کر دیا گیا تھا اور بورڈنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد انھوں نے دوبارہ واپس جانے سے انکار کر دیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ایئرپورٹ سے نکلنے کے بعد وہ ٹیکسی لے کر اس عمارت کے سامنے پہنچ گئیں جہاں مبینہ طور پر اس نوجوان کی رہائش گاہ ہے۔ اس مقام پر میڈیا بھی بڑی تعداد میں موجود رہا ہے۔ ابتدائی طور پر کراچی پولیس حکام نے ایس پی فائزہ سوڈھڑ کو خاتون سے ملاقات کے لیے بھیجا تھا لیکن ان سے مذاکرات میں کامیابی نہیں ہو سکی۔ ایس پی فائزہ نے بی بی سی کو بتایا کہ وہاں بڑا رش لگ چکا تھا اور خاتون بھی کافی ڈسٹرب تھیں۔ 'جو نوجوان تھا وہ وہاں موجود نہیں تھا، اُن کی پوری فیملی گھر خالی کرکے نامعلوم مقام پر منتقل ہو چکی ہے۔ اس لیے مکمل حقائق سامنے نہیں آ سکے۔' کراچی سے سیینئر صحافی ثمر عباس کہتے ہیں کہ پولیس کی تفتیش کے مطابق خاتون جس لڑکے کی بات کر رہی ہیں اس کی عمر 22 سال کے لگ بھگ ہے اور وہ مقامی کال سینٹر میں کام کرتا تھا۔ 77 *اونیجا کے مطالبات کیا ہیں؟* اونیجا نے پولیس اور حکام سے ملاقات میں واضح کیا تھا کہ وہ اپنے مبینہ 'شوہر' کے بغیر واپس امریکہ نہیں جائیں گی تاہم بعدازاں مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے انھوں نے مالی نوعیت کے چند مطالبات بھی کیے ہیں۔ لڑکے کے گھر کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان انھیں ہر ہفتے پانچ ہزار ڈالر ادا کرے، اس کے علاوہ اُن کو زمین اور مقامی شہریت بھی دی جائے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ نیویارک میں اپنی ملازمت اور کپڑوں کا کاروبار چھوڑ کر آئی ہیں، اب وہ پاکستانی ہیں۔ وہ اس ملک کی تعمیر نو کرانا چاہتی ہیں۔ ’حکومت یہاں سڑکیں بنائے اور بجلی کی فراہمی یقینی بنائے۔‘ پولیس حکام کی جانب سے گذشتہ دنوں اونیجا کو فلاحی ادارے چھیپا کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ دوسری جانب امریکی خاتون نے فی الحال پولیس کو لڑکے کے خلاف کوئی تحریری شکایت نہیں دی ہے جبکہ کراچی میں امریکی قونصل خانے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مشن اس تمام تر صورتحال سے آگاہ ہے لیکن رازداری کے قوانین کی وجہ سے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا۔ *’خاتون کو تضحیک کا نشانہ بنانا ایک شرمناک رویہ ہے‘* اونیجا کی کہانی سے متعلق ناصرف پاکستان کے سوشل میڈیا پر بحث مباحثہ جاری ہے بلکہ سیاست دان بھی اس سے متعلق کچھ 'غیرحساس' گفتگو کرتے پائے گئے ہیں۔ گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے گذشتہ دنوں ایک تقریب میں مزاحیہ انداز میں اس معاملے پر بات کی۔ انھوں نے کراچی کے لڑکے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 'یہ ٹیلنٹ ہے۔ پورے شہر کی ڈیمانڈ ہے کہ وہ لڑکا تو دکھاؤ جس نے امریکی خاتون کو بلایا۔ دیکھیں یہ ٹیلنٹ کی بات۔ لوگ امریکی پاسپورٹ لینے کے لیے وہاں جاتے ہیں اور ہمارے اس ٹیلنٹ کو دیکھیں اس نے امریکی پاسپورٹ سمیت فٹ پاتھ پر لاکر بٹھادیا اس کو۔' اسی طرح ایک اور تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کراچی کے میئر مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ 'کراچی والے دل والے ہیں ماشااللہ، یہاں سے ہمارے لوگ امریکہ جاتے ہیں اور وہ امریکہ سے خاتون کو یہاں لے کر آ گئے۔۔۔' تاہم اس نوعیت کے تبصروں پر بہت سے صارفین اپنے غصے کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ بہت سے سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ ایک خاتون جو پردیس میں ہیں اور پریشان ہیں، ان کی پریشانی کا ازالہ کرنے کے بجائے ان کی صورتحال کا مذاق بنایا جا رہا ہے۔ صحافی عالیہ چغتائی نے اس معاملے پر اپنے رائے دیتے ہوئے لکھا کہ 'مقامی یوٹیوبرز اور مقامی میڈیا اداروں کو ایسا تماشہ بناتے ہوئے واقعی شرم آنی چاہیے۔ اس عورت کی حالتِ زار کو کلک بیٹ ویڈیوز میں تبدیل کر دیا گیا ہے جو کہ انتہائی افسوسناک ہے۔ کوئی کھوج کیوں نہیں لگاتا کہ اس کا ذمہ دار 19 سالہ نوجوان کون ہے؟ اس خاتون کے چہرے کو ہر جگہ کیوں دکھایا جا رہا ہے۔ شرم آنی چاہیے۔' ایک اور صارف نے اس معاملے پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا کہ 'مجھے سمجھ نہیں آتی کہ سب اس امریکی خاتون کا مذاق کیوں اڑا رہے ہیں۔ کیا تم لوگ پاگل ہو؟ ہوسکتا ہے کہ وہ خوبصورتی کے بارے میں آپ کے خیال سے مطابقت نہ رکھتی ہو لیکن اس نے رنگت سے آگے جانے کی کوشش کی ہے؟ ’میں اس کے لیے اداس اور افسوس محسوس کرتا ہوں لیکن اس کے عزم سے حیران بھی ہوں۔ وہ کہتی ہے کہ اس نے لڑکے سے شادی کی اور یہاں آئی!' تاہم اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ 'اس تقریب میں اس معاملے پر بات کرتے ہوئے میں نے یہ بھی کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ خاتون کی مشکلات آسان کرے۔۔۔ میڈیا کو کراچی اور ملک میں دیگر ایشوز بھی ہیں اس پر بھی بات کرنی چاہیے۔' دوسری جانب گورنر کامران ٹیسوری کے خاتون سے متعلق تبصرے پر اُن کے ترجمان سے رابطہ کیا گیا تاہم ان کا کوئی بھی ردعمل سامنے نہیں آ سکا۔ عکس ریسرچ کی بانی اور ڈائریکٹر تسنیم احمد کہتی ہیں کہ میڈیا اور سیاستدانوں کی جانب سے خاتون کے معاملے سے متعلق اپنایا گیا رویہ انتہائی غیرحساس ہے۔ 'یہ رویہ بہت ہی زیادہ غیر حساس ہے اور متاثرہ خاتون کی تضحیک کے مترادف ہے۔ اور جب اس نوعیت کے تبصرے ذمہ دار حکام کی طرف سے آتے ہیں، جو اعلی عہدوں پر فائز ہیں، تو اس سے عام لوگوں کے پاس تو یہ ہی پیغام جاتا ہے کہ خواتین چاہے وہ کسی بھی ملک کی ہوں، بہت آسان ٹارگٹ ہوتی ہیں۔' انھوں نے کہا کہ یہ قابل مذمت رویہ ہے جس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ *اچھا لگے تو چینل کو فولو کریں👇 https://whatsapp.com/channel/0029Va88KDtCcW4tBmZUrx2S/1567 *@NNNEWS22*

*گاجر جوس کے فوائد* گاجر کے جوس میں بہت زیادہ مقدار میں وٹامن اے پایا جاتا ہے، جو کہ آنکھوں، جگر ، جلد ، ہڈیوں اور دانتوں کے لیے بہت ہی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ اس میں وٹامن سی، بی ، ای ،ڈی ، پروٹینز، پوٹاشیم، کیلشیم ، آئرن، کاپر اور بہت سے دوسرے ضروری اجزاء پائے جاتے ہیں جن میں ہر ایک کے اپنے اپنے فوائد ہیں۔ گاجر کا جوس بناتے وقت اگر اس میں تھوڑا سا چقندر اور سیب شامل کر لیا جائے تو اسکے فوائد مزید بڑھ جاتے ہیں۔ جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:- 1۔ جسم میں اگر کینسر ہو جائے تو اس جوس کا استعمال کینسر سے متاثرہ خلیوں کی پرورش کو روکتا ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کینسر کے مریض اگر اس جوس کو مسلسل استعمال کریں تو یہ بیماری مکمل طور پر ختم بھی ہو سکتی ہے۔ 2۔ جگر ، گردوں اور لبلبہ کی حفاظت کرتا ہے اور السر کی بیماری میں بھی بہت مفید ہے۔۔ 3۔ پھیپھڑوں کو قوت بخشتا ہے اور بلڈ پریشر کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔ 4۔ قوت مدافعت میں اضافہ کرتا ہے۔ 5۔ آنکھوں اور بینائی کے لیے تو بہت ہی مفید ہے۔ یہ آنکھوں کو روشنی اور قوت بخشتا ہے اور بینائی تیز کرتا ہے۔۔ 6۔ پٹھوں کے کھچاؤ کو دور کرتا ہے۔ 7۔ قبض نہیں ہونے دیتا۔ 8۔ بدہضمی کی وجہ سے سینے میں پیدا ہونے والی جلن کو دور کرتا ہے۔۔ 9۔ جلد کے لیے بہت مفید ہے۔ جلد کی رنگت کو نکھارتا ہے۔ 10۔ جگر کی صفائی میں بہت ہی اہم کردار ادا کرتا ہے اور جسم سے فضول Fats کو نکلنے میں مدد دیتا ہے۔۔ 11۔ گاجر کے جوس کو " کرشماتی مشروب " کہا جاتا ہے جو بچوں اور بڑوں کے لیئے یکساں مفید ہے ۔ 12۔ دوران اسہال گاجر کا جوس پانی اور نمکیات کی کمی کو پورا کرتا ہے ۔۔ 13۔ پیٹ کے کیڑوں کے لیئے بھی گاجر کا جوس بےحد مفید ہے ۔۔ *@NNNEWS22*

پاکستان میں کاجو کی کاشت کاجو (Cashew) ایک اہم خشک میوہ ہے جو گرم مرطوب علاقوں میں پیدا ہوتا ہے۔ اس کی اصل پیدائش برازیل میں ہوئی، لیکن آج بھارت، ویتنام، نائجیریا اور دیگر ممالک میں بڑے پیمانے پر کاشت کی جاتی ہے۔ پاکستان میں اس کی کاشت محدود ہے، لیکن موزوں علاقوں میں اس کے امکانات موجود ہے۔ کاجو کی کاشت کے لیے موزوں علاقے اور موسم کاجو کے پودے کو گرم آب و ہوا درکار ہوتی ہے، جہاں درجہ حرارت 20°C سے 35°C کے درمیان رہے۔ پاکستان میں اس کی کاشت کے لیے بہترین وقت فروری-مارچ یا جولائی-اگست ہے۔ کاشت کے ممکنہ علاقے 1. بلوچستان گوادر، پسنی، اورماڑہ 2. سندھ کراچی، ٹھٹھہ، بدین 3. جنوبی پنجاب رحیم یار خان، بہاولپور 4. خیبرپختونخوا ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں (تجرباتی بنیادوں پر) ماحولیاتی ضروریات بارش 1000-2000 ملی میٹر سالانہ زمین ہلکی ریتیلی، اچھی نکاسی والی (pH 5.0-6.5) دھوپ روزانہ کم از کم 6-8 گھنٹے کاجو کی کاشت کا طریقہ 1. بیج سے اگانا بیج کو پانی میں بھگو کر نرسری میں اگایا جاتا ہے۔ 2. قلمکاری اچھی اقسام کی قلمیں روٹ اسٹاک پر لگائی جاتی ہے۔ 3. دیکھ بھال ابتدائی 2-3 سال مناسب پانی، کھاد اور کیڑوں سے تحفظ ضروری ہے۔ پیداوار اور تجارتی امکانات کاجو کا درخت 3-5 سال میں پھل دینا شروع کرتا ہے اور مکمل پیداوار 7-10 سال میں حاصل ہوتی ہے۔ ایک درخت سے 10-20 کلوگرام خشک کاجو حاصل ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں کاجو زیادہ تر درآمد کیا جاتا ہے، اگر جدید طریقوں سے اس کی تجارتی کاشت کی جائے تو یہ ملکی معیشت اور برآمدات کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں کاجو کی کاشت کے اچھے امکانات موجود ہیں، خاص طور پر جنوبی اور ساحلی علاقوں میں۔ اگر اس کی جدید طریقوں سے پیداوار بڑھائی جائے تو یہ ایک منافع بخش فصل ثابت ہو سکتی ہے۔ *@NNNEWS22*

*نوجوان کی محبت میں کراچی آئی امریکی خاتون کو ہیموگلوبن کی کمی کا سامنا، جناح اسپتال میں زیر علاج* پاکستانی نوجوان کی محبت میں کراچی آئی امریکی خاتون اونیجا جناح اسپتال میں زیر علاج ہیں اور ان کی رپورٹ میں ہیموگلوبن کی سطح کم آئی ہے۔ اسپتال ذ رائع کے مطابق امریکی خاتون اونیجا جناح اسپتال کے شعبہ نفسیات کے اسپیشل وارڈ میں زیرِ علاج ہیں،خاتون کی رپورٹ میں ہیموگلوبن کی سطح کم آئی ہے ۔ اسپتال ذ رائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹرز نے خاتون کا بلڈ ٹرانسفیوژن تجویز کر دیا ہے، خاتون کچھ معاملات میں تعاون کرتی ہیں اور کچھ میں نہیں۔ اسپتال ذ رائع کے مطابق میڈیکل ہسٹری دستیاب نہ ہونے کے باعث فوری تشخیص ممکن نہیں ہے، خاتون میں ممکنہ نفسیاتی مسائل بھی لگ رہے ہیں۔ خاتون کے مزید ٹیسٹ کیے جائیں گے۔ خاتون کے لیپیڈ پروفائل، ایچ آئی وی پروفائل، اور ہیپاٹائٹس پروفائل کے ٹیسٹ بھی کیے جائیں گے، تمام ٹیسٹوں کی بنیاد پر حتمی رپورٹ تیار کی جائے گی۔ واضح رہے کہ مذکورہ خاتون 19 سالہ نوجوان سے شادی کی خواہش لیے گزشتہ برس 11 اکتوبر سے کراچی میں موجود ہیں اور امریکا واپس جانے سے انکار کر رہی ہیں۔ *تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا واٹس ایپ چینل فالو کیجئے* https://whatsapp.com/channel/0029Va88KDtCcW4tBmZUrx2S *@NNNEWS22*