
The Islamic Balochistan Post
February 18, 2025 at 03:24 AM
عہدِ نبُوَّت کی برگزیدہ خواتین، قسط: 03
حضرت ام حرام بنتِ ملحان رضی اللہ تعالیٰ عنہا:
"قال رسول صلى اللہ عليه وسلم: انت من الأولين۔"
"آپ اولین میں سے ہیں۔"
¤ آلِ ملحان:
آل ملحان ان بہترین صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین میں سے ہیں جنہوں نے ایمان کی حلاوت و مٹھاس چکھ لی تھی، پس ان کے دلوں میں اللہ و رسول کی محبت گھر کرگئی تھی، وہ اپنی زندگی بڑی سادگی سے گزار گئے اور عنقریب اللہ کے حکم سے آخرت کے گھر میں بھی بہترین بدلہ و ثواب پائیں گے۔
یہ حضرات جو ایمان کے ساتھ فوز وفلاح کو پہنچے ان مردوں عورتوں نے خیر کے تمام میدانوں جہاد، علم، جانثاری، ایثار، قربانی، سخاوت، وغیرہ میں خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنے نصب العین اللہ و رسول کی مرضی کو ٹھہرا لیا۔
انہی لوگوں میں سے حرام اور سلیم ملحان کے دونوں بیٹے بھی ہیں جو دونوں غزوۂ بدر، احد، بئر معونہ میں جانثاری کے ساتھ شریک ہوئے اور معرکہ بئرمعونہ میں جانثاری کا ثبوت دیتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرما گئے۔
واقعہ یوں ہوا کہ اس سریہ (جہادی دستہ) میں بڑے بڑے ستر صحابہ کرام شریک تھے، ملحان کے دونوں بیٹے بھی انہی ستر میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مالک بن عامر کو بلانے بھیجا تھا، اس نے ان کو دعوت و تبلیغ اسلام کیلئے بلوایا تھا۔
پھر جب یہ بئر معونہ پر اترے تو ان کے ساتھ بنو سُلیم کے قبائل عصیہ، رعل، ذکوان نے دھوکہ دہی کے ساتھ ان سب کو شہید کردیا۔ صرف حضرت کعب بن زید رضي الله عنه بچ گئے اور حضرت حرام کے قاتل مسلمان ہوگئے۔ وہ جبار بن سُلیم ہیں جب انہوں نے حضرت حرام کو نیزہ مارا جو ان کے سینہ سے پار ہوگیا تو حضرت حرام نے جام شہادت نوش کرتے ہوئےفرمایا: "فزت برب الکعبہ" رب کی قسم! میں کامیاب ہوگیا۔
جب جبار نے ان کی اس گفتگو کا مطلب جانا کہ وہ شہادت ہے تو اسلام لے آئے، اس طرح حضرت حرام کا ایک کلمہ ہی ان کے اسلام لانے کا سبب بن گیا اور یوں ان کا اجر اللہ رب العزت کے ذمہ ہوگیا۔
ان دونوں بھائیوں کی دو بہنیں ام سلیم اور ام حرام ملحان کی بیٹیاں ان جلیل القدر صحابیات
میں سے ہیں جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خزینہ صحبت سے اپنے آپ کا تزکیہ کیا، اس طرح یہ مسلمان عورتوں کے لئے بہترین عمدہ پیشوا نمونہ بن گئیں۔
اب ہماری گفتگو حضرت ام حرام بنت ملحان بن خالد انصاریہ کے متعلق ہے، جنہوں نے بڑے اچھے آثار زمانۂ نبوت میں چھوڑے جن کا اثر اب تک باقی ہے۔ (تاریخ دمشق، تراجم النساء، ص: 486، سِیَر اعلام النبلاء، ج: 2، ص: 316، تہذیب التھذیب، ج: 12، ص: 462)
ام حرام رضی اللہ عنہا مشہور صحابی حضرت انس بن مالک رضي الله عنه کی خالہ محترمہ ہیں اور جلیل القدر صحابی حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ ہیں۔
(حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بن قیس ابو ولید انصاری خزرجی جلیل القدر صحابی بڑے تقویٰ و پرہیز گاری میں مشہور ہیں۔ عقبہ میں بھی حاضر ہوئے اور بدر، احد، خندق، بیعت رضوان و دیگر جنگی معرکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ایک سو اکیاسی احادیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہیں۔ زمانہ نبوت میں قرآن مقدس جمع کرنے والے حضرات میں یہ بھی شریک ہیں۔ اس کے علاوہ فتح مصر میں موجود تھے اور حمص میں مقیم ہوئے۔ پہلے شخص ہیں جو فلسطین میں والی بنے۔ سن 34 ہجری مقام رملہ میں دار فانی سے کوچ فرما لیا رضی اللہ عنہ۔
تہذیب الاسماء واللغات، ج:1، ص: 206)
حضرت ام حرام کے جرنیل حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ رفیق حیات تھے۔ اس طرح حضرت ام حرام آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی خالہ بھی ہیں۔ آپ علیہ السلام کی گیارہ خالاؤں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔(سیرت حلبیہ، ج: 3 ص: 73)
¤ زیارت، دعا، بشارت:
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسجد قباء میں آتے سوار یا پیدل، پھر وہاں دو رکعت نماز ادا فرماتے۔ (صحیح مسلم، ج: 4، ص: 127)
قباء بستی جو مدینہ منورہ سے دو میل کی مسافت پر ہے، اس بستی میں مسجد کی بنیاد رکھی گئی، تقویٰ پر جس پر قرآن مجید کی آیت مبارکہ نازل ہوئی:
"لمسجد أسس على التقوى من اول يوم احق ان تقوم فيه۔"
"البتہ مسجد کی بنیاد تقوی پر رکھی گئی شروع دن سے، زیادہ حق ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں۔" (تفسیر ابن کثیر، آیت: 108، سورہ توبہ، تفسیر الخازن، ج: 3، ص: 149)
اسی مبارک بستی میں ایک قبہ تھا جس میں ام حرام رضی اللہ عنہا سکونت پزیر تھیں۔ اس کے باشندوں میں شمار ہوتی، آپ علیہ السلام کے نزدیک ان کا بڑا رتبہ تھا، وارد ہے آپ علیہ السلام ان کا بڑا اکرام فرماتے اور ان کے گھر زیارت کو جاتے اور دوپہر کو بسا اوقات آرام بھی فرماتے۔ (استیعاب، ج: 4، ص: 424، اسدالغابہ، ج: 5، ص: 574)
حضرت امام مسلم اپنی سند کے ساتھ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ فرمایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے اس حال میں کہ میری والدہ (ام سلیم) اور میری خالہ (ام حرام) موجود تھیں تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: کھڑے ہوجاؤ میں تمہیں نماز پڑھاؤں، جبکہ فرض نمازوں کا وقت نہ تھا، پھر آپ علیہ السلام نے ہمیں نماز پڑھائی۔ پھر ہم سب گھر والوں کے لئے دین و دنیا کی ہر خیر و بھلائی کے لئے دعا فرمائی۔
ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم عادت شریفہ کے مطابق ام حرام رضی اللہ عنہا کی زیارت کے لئے گئے تو ام حرام رضی اللہ عنہا نے آپ علیہ السلام کے لئے کھانا تیار کیا، پھر آپ علیہ السلام کو کھلایا، پھر بیٹھ کر آپ علیہ السلام کے سر مبارک سے جوئیں تلاش کرنے لگیں (یہ آپ علیہ السلام کی محرمات سے تھیں، خالہ لگتی تھیں) پھر آپ علیہ السلام سوگئے، بیدار اس طرح ہوئے کہ بہت خوش تھے، ہنس رہے تھے، حضرت ام حرام رضی اللہ عنہا کو شہادت کی خوشخبری سنائی، یہاں تک کہ وہ شہیدہ کے لقب سے پکارے جانے لگیں۔ (یہی رتبہ دوسری صحابیہ ام ورقہ رضی اللہ عنہا کو بھی حاصل ہوا، ان کو بھی شہیدہ پکارا جاتا تھا۔)
جہادی شجاعت و دلیری:
¤ ام حرام رضی اللہ عنہا اور ھدیہ نبوی:
یہ صحابیہ ان جلیل القدر صحابیات میں سے ہیں جن کے لئے اچھی صفات کے محل میں یدِ طولٰی تھا، اسی طرح نیک اعمال کی ایجاد میں بھی اور فضائل کے میدانوں میں بھی بہترین مثال تھیں، فضیلت کے میدانوں میں اتنی ایجادات کیں جو بے حساب ہیں۔
شہادت فی سبیل اللہ بہت محبوب تھی اور سخاوت و قربانی وغیرہ بھی، نیز یہ کہ احادیث کی راویہ بھی ہیں۔ نبی علیہ السلام سے پانچ احادیث روایت کی ہیں اور ان سے بڑے جلیل القدر صحابہ نے روایتیں کی ہیں۔
ان کی مرویات میں سے وہ بھی ہے جو ابن عساکر نے وارد کیا ہے کہ حضرت ام حرام نے آپ علیہ السلام سے سنا: فرماتے تھے، پہلا لشکر میری امت کا سمنری معرکہ کرے گا، بے شک وہ لشکر اپنے لئے (جنت) واجب کرے گا۔
حضرت ام حرام رضی اللہ عنہا نے دریافت کیا: اے رسول خدا کیا میں بھی انہیں میں سے ہوں؟ فرمایا ہاں تو ان میں سے ہے۔ (امام بخاری نے اس کو کتاب الجہاد میں ذکر کیا۔ کتاب حلبیہ، ج: 2، ص: 61، تاریخ دمشق، ص: 486)
حضرت ام حرام راتیں اس طرح گزارتیں کہ جنگی قافلہ کا انتظار رہتا، تاکہ ان کے ساتھ سفر کریں، آپ علیہ السلام وفات پاگئے، اس حال میں کہ آپ ام حرام سے راضی تھے۔
اور یہ برابر بشارت نبوی کا انتظار کرتی رہیں، یہاں تک کہ قریب ہی میں وہ متحقق اور وجود پذیر ہوگئ۔
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں فتوحات اسلامیہ خشکی میں بہت وسیع ہوگئیں، مگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دیکھا رومی لشکر جزیرہ قبرص سے بحری بیڑوں پر روانہ ہورہے ہیں تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے سمندری غزوے کو بھی مقرر فرما لیا۔
یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ مسلمان اہل روم سے بحری جنگ کیسے کریں گے، جبکہ اس سے پہلے انہوں نے سمندری سواری (جنگ) کا تجربہ نہیں کیا۔
اس معاملہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک مجلس بٹھائی (یہ مسلہ کس طرح حل کیا جائے) اور جنگ قبرص کے لئے جدوجہد شروع کردی، اس مجلس کے بعد جب بحری بیڑہ تیار ہوا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت امیر معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو اجازت مرحمت فرمائی کہ وہ سمندری سفر کریں اور اہل جزیرہ سے جنگ کریں تو امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ ملک شام سے اس کی طرف نکلے اور اللہ پاک نصرت و فتح مسلمانوں کے لئے لکھ چکے تھے۔
اس طرح اہل جزیرہ کو فتح کیا اور وہ تابع و تسلیم ہوگئے اور ہتھیار ڈال دئیے اور صلح ان شرائط کے مطابق ہوئی جن کو مسلمانوں نے مقرر کیا۔ اس غزوہ میں ام حرام بھی شریک رہیں، یہاں تک کہ اس میں شہادت کے عظیم رتبہ پر فائز ہوئیں اور اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی ثابت ہوگئی۔
ان کی شہادت کی روایتیں صحاح ستہ میں موجود ہیں، اسی طرح سیرت تراجم طبقات کی کتابوں نے بھی ذکر کیا ہے۔
¤ شہادت کا عظیم مرتبہ:
امام ترمذی اپنی سند کے ساتھ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا کے پاس آئے، جیسے وہ آپ کو کھلاتی تھیں اسی طرح آپ کو کھانا کھلایا اور پھر سر سے جوئیں نکالنے بیٹھ گئیں۔ پھر آپ علیہ السلام سوگئے اور ہنستے ہوئے بیدار ہوئے تو ام حرام رضی اللہ عنہا نے پوچھا کیا چیز آپ علیہ السلام کو ہنسا رہی ہے۔ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: میری امت میں سے ایک گروہ مجھ پر پیش کیا گیا، اس حال میں کہ وہ راہ خدا میں جہاد کررہے ہیں اور اس سمندر کے بڑے حصے پر سوار ہیں۔ اس خاندان پر بادشاہوں کی طرح ہیں یا بادشاہ ہیں۔
تو میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا کہ اللہ سے دعا کیجئے اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان میں سے بنادے۔ فرمایا "تو اولین میں سے ہے" (شروع شروع میں تو ہی ہے)
لہذا ام حرام رضی اللہ عنہا نے واقعی معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانہ میں سمندری سفر کیا۔ جب سمندر سے نکلے تو اپنے جانور سے پھسلیں اور شہید ہوگئیں۔ (سنن الترمذی، ص: 1645، نسب قریش، ص: 124، دلائل نبوی (علامہ بیہقی) ج: 2، ص: 712)
خدا کےلئے ابو نعیم کا بھلا ہو۔ جب وہ اپنے کلمات کو حضرت ام حرام رضی اللہ تعالی عنہا کی خدمت میں پیش کرتے ہیں کہ "مخلوق میں محمودہ (تعریف کے لائق) سمندر کی شہیدہ، دل کی آرزو کی طرف مشتاق (اور کامیاب) ہونے والی ام حرام بنت ملحان رضی اللہ تعالی عنہا ہیں۔
¤ صالحہ خاتون:
شاعر نے فرمایا:
ولا شي يدوم فكن حديثا
جميل الذكر فالدنيا حديث
کوئی چیز ہمیشہ نہیں رہتی پس ایسی گفتگو ہو
جو بہترین تذکرہ (کیونکہ) دنیا ایک گفتگو ہی ہے۔
ام حرام رضی اللہ تعالی عنہا ان عظیم خواتین میں سے ہیں جن کی زندگی اور موت دونوں میں تذکرہ کرنا اچھا لگتا ہے، جیسا کہ اللہ نے ان کو بہترین مکارم عطا فرمائے، خصوصا عظیم شہادت۔ اور ہشام بن غاز فرماتے ہیں کہ ام حرام رضی اللہ عنہا کی قبر اطہر قبرص میں ہے اور لوگ کہتے ہیں، یہ صالحہ خاتون کی قبر ہے۔ (تاریخ دمشق، ص: 496، تراجم السناء)
نیز فرمایا: میں نے ان کی قبر کی زیارت کی اور وہاں تاقیس کے ساحل پر کھڑا تھا۔91 ھ کو نیز انگریزوں نے آپ کی قبر کی زیارت کی تو خود ہی کہنے لگے: کسی نیک عورت کی قبر ہے۔
وہاں لوگ ان کے وسیلہ سے بارش طلب کرتے ہیں (تو ہوجاتی) ہے، ام حرام رضی اللہ تعالی 27 ہجری میں شہید ہوئیں۔ اللہ ام حرام رضی اللہ تعالی عنہا سے راضی ہو۔
============> جاری ہے ۔۔۔