
The Islamic Balochistan Post
200 subscribers
About The Islamic Balochistan Post
وطن عزیز بلوچستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے جدوجہد سے بروقت خبر رہنے کے لیےہمارے چینل کو فالو کریں ....
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

عملیات استشہادی کی شرعی حیثیت: ایک تحقیقی جائزہ عصرِ حاضر میں ہونے والی شہادت طلب حملے ایک نیا اور منفرد مظہر ہیں، جو ایک جانب خودکشی سے مشابہت رکھتے ہیں جسے اسلام میں سختی سے حرام قرار دیا گیا ہے، اور دوسری طرف یہ ایک ایسی شکل میں جہاد اور شہادت بھی ہیں جس کی قرآن و حدیث میں بے شمار فضیلتیں بیان کی گئی ہیں۔ انہی دو پہلوؤں کی مشابہت کی وجہ سے یہ مسئلہ علماء کرام کے درمیان بحث و تحقیق کا مرکز بن چکا ہے۔ لیکن جب اس مسئلے کو گہرائی سے دیکھا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ شہادت طلب حملے (فدائی حملے) اور خودکشی میں بنیادی فرق ہے۔ خودکشی کرنے والا شخص دنیاوی پریشانیوں سے نجات حاصل کرنے یا دنیاوی مقصد حاصل نہ ہونے کی وجہ سے اپنی جان لیتا ہے۔ جب کہ ایک فدائی مجاہد اپنی جان اس نیت سے دیتا ہے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو، دین اسلام کی سربلندی ہو، مسلمانوں کی عزت و عفت کا دفاع ہو اور اسلام و مسلمین کو فائدہ پہنچے۔ اس بنا پر فدائی حملے نہ صرف جائز بلکہ ایک مبارک جہادی عمل ہیں، جن پر عظیم اجر و ثواب کی بشارت دی گئی ہے۔ یہ دشمنانِ اسلام کی ناپاک یلغار اور اسلامی ممالک پر قبضے کے خلاف ایک مؤثر اور مضبوط رکاوٹ ہیں۔ جدید دور میں، ان حملوں کا طریقہ بھی جدید ٹیکنالوجی کے مطابق بدل گیا ہے۔ آج کوئی مجاہد اپنے جسم پر دھماکہ خیز مواد باندھ کر یا بارود سے بھری گاڑی دشمن کے مجمع میں لے جا کر اسے دھماکے سے اڑاتا ہے۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں اس نوعیت کی جنگی ٹیکنالوجی موجود نہ تھی۔ اس وقت تلوار، تیر اور نیزے ہی جنگ کے بنیادی ہتھیار تھے۔ اس زمانے میں بھی ایسے واقعات ملتے ہیں کہ ایک صحابی دشمن کی صف میں ایسے حملہ آور ہوا کہ بچنے کی کوئی امید نہ تھی، تو یہ عمل بھی استشہادی حملہ ہی شمار ہوتا تھا۔ علمی حلقوں میں بعض اوقات یہ شبہ پیش کیا جاتا ہے کہ چونکہ فدائی حملے میں شخص اپنے عمل سے ہی مر جاتا ہے، اس لیے یہ خودکشی کے مشابہ ہے۔ مگر تحقیق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام میں کسی عمل کی شرعی حیثیت نیت پر موقوف ہوتی ہے، نہ کہ صرف ظاہری شکل پر۔ چنانچہ: > اگر کسی کا مقصد دین کی سربلندی، اسلام اور مسلمانوں کا دفاع، اور دشمن کو نقصان پہنچانا ہو، تو چاہے وہ اپنے عمل سے جان گنوا دے یا کسی اور کے عمل سے، یہ عمل جہاد فی سبیل اللہ کہلائے گا اور وہ شخص اللہ کے ہاں شہید شمار ہوگا۔ (جاری ہے...) کتاب کا ماخذ: "جهاد و جایگاه آن در اسلام" زبان فارسی مؤلف: مولانا محمد یوسف سربازی حفظہ اللہ

*مولوی محمود بلوچ — حکمت و شمشیر کا امین* قوموں کی تاریخ میں ایسے کردار ہمیشہ زندہ رہتے ہیں جو نہ صرف ماضی کے امین ہوتے ہیں بلکہ مستقبل کے رہنما بھی۔ مولوی محمود بلوچ انہی عظیم شخصیات میں سے ایک ہیں، جنہوں نے اپنی حکمت سے نسلوں کی رہنمائی کی اور اپنی دعا و تربیت سے نوجوانوں کے ہاتھ میں شمشیرِ حق تھمائی۔ وہ نہ صرف ایک باعمل عالم دین تھے بلکہ ایک جہادی سپہ سالار بھی، جن کے ارد گرد شجاعت اور دانائی کی فضا بکھری ہوئی تھی۔ کسی دور دراز وادی میں، جہاں آسمان زمین سے ہمکلام ہوتا ہے، ایک خیمہ نصب ہے۔ اس خیمے میں مولوی محمود بلوچ بیٹھے ہیں، ان کی بے داغ جوانی ان کے تجربات کا آئینہ ہے، اور آنکھوں میں وہ روشنی ہے جو ماضی کی بصیرت اور آئندہ کی حکمت کا سنگم بن چکی ہے۔ ان کے سامنے ایک نوجوان کھڑا ہے، کندھے پر کلاشنکوف ، سینے پر چھانٹا، اور چہرے پر عزم و اخلاص کا رنگ۔ یہ کوئی عام ملاقات نہیں، یہ نسلوں کے درمیان ایک روحانی بیعت ہے۔ مولوی محمود بلوچ نے اُسے اپنے اجداد کی قربانیوں کے قصے سنائے، اور جوان نے وعدہ کیا کہ ان قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دے گا۔ مولوی محمود بلوچ کا ایمان تھا کہ ملت صرف اس وقت بنتی ہے جب علم و حکمت، اور قوت و شجاعت ایک ہی صف میں کھڑے ہوں۔ ان کے نزدیک کتاب اور شمشیر دو الگ راہیں نہیں بلکہ ایک ہی کارواں کے دو مسافر ہیں۔ وہ نوجوانوں کو صرف درسِ قرآن کی طرف راغب نہیں کرتے، بلکہ انہیں میدانِ عمل کے لیے بھی تیار کرتے تھے۔ ان کا پیغام تھا: "حق کے لیے جینا، اور حق کے لیے لڑنا — یہی اہلِ ایمان کی میراث ہے۔" مولوی محمود بلوچ نے ہمیشہ یہ باور کرایا کہ کسی بھی قوم کی بقا نہ صرف شمشیر سے ہے، اور اس کے ساتھ علم وعمل کے میدان میں ہے ، بلکہ جب یہ دونوں قوتیں باہم ملتی ہیں تو انقلاب جنم لیتا ہے۔ حکمت و شمشیر — ایک مشترکہ امانت ان کے نزدیک "علم" بغیر طاقت کے بے اثر ہے، اور "طاقت" بغیر حکمت کے خطرناک۔ اسی لیے وہ جوانوں کو وصیت کرتے تھے: "تمہارے ہاتھ میں ہتھیار ہو، لیکن دل میں قرآن۔ تمہارے بازو طاقتور ہوں، لیکن دماغ روشن ہو۔ تمہارا ہر قدم عدل و وفا کی راہ پر ہو۔" مولوی محمود بلوچ کا میدان عمل میں خیمہ، صرف ایک قیام گاہ نہیں، ایک روحانی مدرسہ تھا۔ وہاں نسلیں پلتی تھیں، تربیت پاتی تھیں، اور میدانِ جہاد کے لیے تیار ہوتی تھیں۔ ان کی زندگی کا پیغام آج بھی زندہ ہے "قومیں وہی زندہ رہتی ہیں جو ماضی کی حکمت کو حال کی شمشیر سے جوڑ لیں۔" مولوی محمود بلوچ نہ صرف ایک فرد کا نام ہے، بلکہ ایک تحریک کا عنوان ہے — حکمت و شمشیر کی عظیم داستان۔ لال خان بلوچ *اسلامی بلوچستان* https://whatsapp.com/channel/0029VazdSigBlHpmdIU3Qr3h

جہاد مؤمن کی سب سے بڑی فکر اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو فردِ مؤمن کو زندگی کے ہر پہلو میں ایک واضح رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس نظام کا اعلیٰ ترین مقام جہاد فی سبیل اللہ ہے، جو دراصل ایمان کی سچائی، اخلاص اور قربانی کا سب سے بڑا معیار ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ جہاد ایک وقتی فریضہ نہیں بلکہ مؤمن کی دائمی فکر اور عملی میدان ہونا چاہیے۔ زندگی کا مرکز و محورجہاد مؤمن کی پوری زندگی جہاد کے گرد گھومنی چاہیے۔ اس کا عمل، نیت، ارادہ، آرام، خوراک، عبادات، تعلقات، حتیٰ کہ اس کی خاموشی بھی ایک جہادی فکر کو ظاہر کرے۔ اگر وہ عمل کر رہا ہے تو جہاد کے لیے، اگر وہ سستا رہا ہے تو اس لیے کہ اگلے معرکے کے لیے توانائی حاصل کرے۔ اگر وہ کھا رہا ہے تو اس نیت سے کہ بدن میں قوت پیدا ہو جو دشمنانِ دین کے خلاف خرچ کی جائے، اگر وہ نکاح کر رہا ہے تو اس نیت سے کہ ایسے صالح مجاہدین کی نسل پیدا ہو جو اسلام کا پرچم بلند کریں۔ ذکر و تسبیح کا مرکز دعوت الی الجہاد ذکر و اذکار اور تسبیح کا مقصد صرف انفرادی تزکیہ نہیں بلکہ دعوتِ جہاد کی روح کو بیدار کرنا بھی ہے۔ ایک مؤمن کی زبان اگر حرکت میں ہے تو یا وہ اللہ کی تسبیح بیان کر رہا ہے، یا لوگوں کو جہاد کی ترغیب دے رہا ہے، یا پھر ان لوگوں کا رد کر رہا ہے جو جہاد سے پیچھے ہٹنے والے، سستی اور بزدلی کی تبلیغ کرنے والے ہیں۔ ہر انسان کا محاسبہ اس کی نیت، اس کے قول اور اس کے فعل کے مطابق ہوگا۔ اگر کوئی شخص نہ تو جہاد کے لیے ہاتھ، زبان یا قلم سے کچھ کر رہا ہے، اور نہ ہی اس کے دل میں جہاد کی مدد اور نصرت کا کوئی ارادہ یا فکر ہے، تو جہاد اسے اپنا ماننے سے انکار کر دیتا ہے۔ جہاد اس شخص کو پہچانتا ہی نہیں، کیونکہ وہ جہاد کی فکر سے خالی ہے۔ آج کے دورِ فتن میں جبکہ کفری قوتیں اسلام اور اہلِ ایمان کے خلاف متحد ہو چکی ہیں، ایک سچے مؤمن کے لیے اس سے بڑی کوئی فکر نہیں ہو سکتی کہ وہ اپنی زندگی کو جہاد کے لیے وقف کر دے۔ وہ اپنی نیت، ارادے، خواب، نیند، کھانے، رشتوں، عبادات، علم، تربیت، اور حتیٰ کہ خاموشی تک کو جہاد کے تابع کر دے۔ کیونکہ یہی وہ راہ ہے جو انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کا راستہ ہے، اور یہی وہ راستہ ہے جو جنت کی ضمانت بن سکتا ہے۔ https://whatsapp.com/channel/0029VazdSigBlHpmdIU3Qr3h اسلامی بلوچستان

✅ شرعی نقطہ نظر سے استشہادی عملیات: نقشے کے نمبر ایک اور دو میں دشمن کا قتل واقع ہوتا ہے، لیکن چونکہ ان دونوں میں نیت کا فرق پایا جاتا ہے، اس لیے شریعت میں ان دونوں کا حکم ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ نمبر ایک میں، نیت خالصتاً اللہ کے لیے ہوتی ہے، اس لیے وہ عمل "شہادت" کے حکم میں آتا ہے۔ جبکہ نمبر دو میں نیت دنیاوی ہوتی ہے، اس لیے وہ "خودکشی" کے حکم میں شمار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح، نمبر دو اور تین میں مقصد ایک ہی ہوتا ہے یعنی دنیا حاصل کرنا، نہ کہ آخرت۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک میں قاتل دشمن ہے اور دوسرے میں خود وہ شخص، لیکن چونکہ نیت اور مقصد دونوں میں دنیا ہے، اس لیے شریعت نے دونوں کو ایک ہی حکم دیا ہے یعنی "خودکشی" — جو حرام اور ناجائز ہے۔ (جاری ہے...) منبع: جہاد اور اسلام میں اس کا مقام مؤلف: مولانا محمد یوسف سربازی حفظہ اللہ

*بلوچ قوم — ایک اسلامی، باوقار اور مجاہد امت کا حصہ* بلوچ قوم ایک تاریخی، غیرت مند، اور اسلامی اقدار سے سرشار قوم ہے۔ اس قوم کی جڑیں نہ صرف بہادری اور وفاداری میں پیوست ہیں، بلکہ دینِ اسلام کے ساتھ ان کا تعلق بھی بہت قدیم اور گہرا ہے۔ آج اگر کوئی اس قوم پر "سیکولر" یا "بے دین" ہونے کا الزام لگاتا ہے تو یہ یا تو لاعلمی ہے یا جان بوجھ کر مسلم اقوام کو تقسیم کرنے کی سازش۔ قبولِ اسلام اور ابتدائی وابستگی: بلوچوں نے خلافتِ راشدہ کے دور میں اسلام قبول کیا۔ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے زمانے میں اسلام بلوچستان کے پہاڑوں، وادیوں، اور ریگزاروں تک پہنچا۔ بلوچوں نے نہ صرف اسلام کو قبول کیا، بلکہ اس کے دفاع اور پھیلاؤ میں بھی کردار ادا کیا۔ صوفیائے کرام اور علماء کا کردار: بلوچ سرزمین پر ایسے علماء اور صوفیاء نے جنم لیا جنہوں نے دین کی تعلیمات کو عام کیا۔ جیسے: مولانا قاضی عبدالصمد سربازی — جنہوں نے بلوچوں کو اسلام کے احکامات اور شریعت کی طرف بلایا۔ اور جنہوں نے قلات میں اسلامی عدالتی نظام قائم کیا۔ علماء نے قرآن و سنت کی تعلیم عام کی۔ اسلامی مزاحمت اور جہاد: بلوچ قوم نے ہمیشہ استعمار، کفر، اور ظلم کے خلاف مزاحمت کی۔ ان میں چند بڑے نام: بابو نوروز خان زہری — جنہوں نے 1950 کی دہائی میں پاکستان کے سیکولر جبر کے خلاف علمِ جہاد بلند کیا اور قرآن ہاتھ میں لے کر میدان میں نکلے۔ خان احمد یار خان حاکم ریاست اسلامی قلات ایک رہبر و رہنما جنہوں نے اسلامی خودمختاری کی بات کی۔ سردار زبردست خان بلوچ ونوری نصیر خان جنہوں مرہٹوں کے خلاف میدان عمل میں داد شجاعت دیکر اسلامی امت کا دفاع کیا مولوی محمود بلوچ (افغان جہاد) — جنہوں نے روسی سامراج اور امریکی ونیٹو قبضے کے خلاف جہاد کو منظم کیا۔ یہ تمام شخصیات سیکولر ازم یا لادینیت کے نہیں بلکہ اسلامی نظریات اور شریعت کے پرچارکرنے والے تھے۔ قبائلی نظام اور اسلامی اقدار: بلوچ قوم کا قبائلی نظام شریعت کے بہت قریب ہے۔ ان کے رسم و رواج میں: حرام و حلال کا فرق تمام قبائلی اور قومی تنازعات کا فیصلہ سردار اور معتبرین کی سربراہی میں غیر جانب دارانہ اور امن کے تحت کرنا۔ سیاہ کار اور سیاہ کارا (مرد و عورت) کو پناہ نہ دینا۔ باہوٹ کی حفاظت اور حتی الوسع فریقین کے درمیان فیصلہ کرنا . مجلس وکچہری میں ننگے سر نہ بیٹھنا گھر میں داخل ہوتے وقت جوتے باہر نکالنا سادات کا احترام کرنا مجلس میں پاؤں نہ پھیلانا قول و زبان (وعدہ و اقرار) کی پابندی کرنا۔ مجلس میں کسی کے سامنے ناشائستہ کلام اور ناز یبا حرکت نہ کرنا۔ جھوٹ نہ بولنا اور جھوٹی گواہی نہ دینا۔ کسی کو لالچ نہ دینا اور رشوت نہ دینا، وجہ قتال (قتل کی وجہ) کا ظاہر کرکے جھنگ کرنا۔ پیٹھ پیچھے بات نہ کرنا۔ عورتوں اور بچوں پر ہاتھ نہ اٹھانا۔ لڑائی کے دوران جب کوئی عورت درمیان آ جائے تو جنگ سے ہاتھ روک دینا. جھوٹی الزامات نہ لگانا۔ سید زاداوں کا احترام اور ان سے حقیقی محبت عورت کی عزت مہمان نوازی شجاعت و وفاداری ظالم کے خلاف کھڑے ہونے کا جذبہ یہ تمام صفات اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ ہیں۔ سیکولر پروپیگنڈہ کیوں؟ سیکولر قوتیں، چاہے وہ مغرب کی ہوں یا مقامی، ان قوموں کو بدنام کرنے کی کوشش کرتی ہیں جو اسلام، غیرت، اور آزادی کا نعرہ بلند کرتی ہیں۔ بلوچ قوم چونکہ: اپنی آزادی پسند فطرت کی وجہ سے غیرت مند مزاج کی وجہ سے اسلام پر قربانی دینے کی تاریخ کی وجہ سے ہر اس قوت کے لیے خطرہ ہے جو امت مسلمہ کو کمزور کرنا چاہتی ہے۔ اس لیے بعض میڈیا، تجزیہ کار، یا حکومتی حلقے انہیں "سیکولر" یا "باغی" کہہ کر بدنام کرتے ہیں، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بلوچ قوم، امت مسلمہ کا باوقار حصہ ہے۔ ان کی تاریخ، کردار، قربانیاں اور روایات سب اسلام سے جڑی ہوئی ہیں۔ انہیں "سیکولر" کہنا نہ صرف تاریخی حقیقت سے انکار ہے، بلکہ ایک مجاہد، مؤمن اور غیرت مند قوم کی توہین ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم امت کے ہر حصے کو جوڑیں، سمجھیں اور ان کے کردار کا اعتراف کریں، نہ کہ انہیں تقسیم کرنے والے جھوٹے بیانیے کا حصہ بنیں. *لال خان بلوچ* https://whatsapp.com/channel/0029VazdSigBlHpmdIU3Qr3h

✅ شرعی نقطۂ نظر سے "عملیاتِ استشہادی" (شہادت طلبانہ کارروائیاں): ذیل میں چند دلائل اور واقعات ذکر کیے جاتے ہیں جو اس نوعیت کی کارروائیوں کے جواز کو مکمل طور پر ثابت کرتے ہیں: 1۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البروج میں "اصحاب الاُخدود" یعنی خندق والوں کا ذکر فرمایا ہے۔ مفسرین نے ان واقعات کے بارے میں مختلف روایات نقل کی ہیں، لیکن جو روایت صحیح مسلم اور جامع ترمذی میں آئی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے: قدیم زمانے میں ایک نہایت ماہر جادوگر ایک بادشاہ کے دربار میں موجود تھا۔ جب وہ بوڑھا ہوگیا تو بادشاہ سے کہا کہ کوئی ہوشیار اور ذہین لڑکا میرے حوالے کیا جائے تاکہ میں اُسے جادو کا علم سکھاؤں۔ بادشاہ کے حکم سے ایک ذہین لڑکا چنا گیا جو جادو سیکھنے لگا۔ راستے میں ایک راہب رہتا تھا، لڑکا اُس سے واقف ہوگیا اور پھر اس زمانے کے برحق دین یعنی دینِ عیسیٰ پر ایمان لے آیا۔ اللہ تعالیٰ نے اُس کے ہاتھ پر کئی کرامات ظاہر فرمائیں۔ ایک دن ایک اندھے شخص نے اُس سے کہا کہ دعا کرو اللہ مجھے بینائی عطا فرمائے۔ لڑکے نے کہا کہ "اللہ وحدہٗ لا شریک پر ایمان لاؤ، میں دعا کروں گا، اُمید ہے کہ قبول ہوگی۔" اور واقعی ایسا ہی ہوا۔ جب بادشاہ کو اس بات کا علم ہوا تو اُس نے راہب اور اندھے کو قتل کروادیا اور لڑکے کو پہاڑ سے گرانے کا حکم دیا۔ راہب اور اندھا قتل کر دیے گئے لیکن لڑکا صحیح سلامت واپس آیا جبکہ مامورین پہاڑ سے گر کر ہلاک ہوگئے۔ پھر بادشاہ نے اُسے دریا میں غرق کرنے کا حکم دیا، لیکن اس بار بھی لڑکا صحیح سلامت بچ گیا اور مامورین ڈوب گئے۔ بالآخر لڑکے نے بادشاہ سے کہا: "اے بادشاہ! تو مجھے کبھی قتل نہیں کرسکے گا جب تک کہ وہی نہ کرے جو میں کہوں۔" بادشاہ نے پوچھا: "کیا کرنا ہوگا؟" لڑکے نے کہا: "لوگوں کو جمع کرو، مجھے سولی پر لٹکاؤ، پھر یہ کہو بسم اللہ ربّ ہٰذا الغلام (اس لڑکے کے ربّ کے نام سے) اور تیر مار کر مجھے قتل کرو۔" بادشاہ نے ایسا ہی کیا اور لڑکا قتل ہوگیا۔ لیکن اس واقعے کو دیکھ کر وہاں موجود تمام لوگ دینِ عیسیٰ پر ایمان لے آئے اور یقین کر لیا کہ یہی دین برحق ہے۔ یہاں لڑکے نے دینِ حق کے اظہار اور لوگوں کی ہدایت کے لیے ایسی تدبیر اختیار کروائی جو اُس کی اپنی موت کا سبب بنی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اگر دینِ حق کی سربلندی اور اشاعت کے لیے اپنی جان دینا پڑے—even اگر اپنے آپ کو کسی کی تلوار یا تیر کا نشانہ بنوانا پڑے—تو یہ جائز ہے۔ اسی طرح اصحاب الاُخدود نے بھی اپنی مرضی سے خود کو آگ میں ڈال دیا تاکہ دینِ حق کا بول بالا ہو۔ امام قرطبی رحمہ اللہ نے بھی اصحاب الاُخدود کے واقعے کے بعد ایک عورت کا ذکر کیا ہے، جو اپنے شیر خوار بچے کے ساتھ تھی۔ وہ آگ میں جانے سے ہچکچائی، تو اُس کے بچے نے—جو ابھی بولنے کے قابل بھی نہ تھا—کہا: "اے ماں! میں دیکھ رہا ہوں کہ تیرے آگے وہ آگ ہے جو کبھی بجھنے والی نہیں۔" پس ماں اور بیٹا دونوں نے خود کو آگ میں ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کو جنت میں جگہ عطا فرمائی۔ (جاری ہے...) کتاب کا ماخذ: جہاد اور اسلام میں اس کا مقام مصنف: مولانا محمد یوسف سربازی حفظہ اللہ https://whatsapp.com/channel/0029VazdSigBlHpmdIU3Qr3h -

پشتو سے اردو ترجمہ بہادر رہنما اور بے نظیر سپہ سالار کا ایک واقعہ لیکن امیر المؤمنین ملا اختر محمد منصور کو کس نے اور کہاں دفن کیا؟ یہ سوال ہمیشہ موجود رہا ہے کہ شہید امیر کو کس نے غسل و کفن دیا، دفن کیا، اور ان کی قبر طویل عرصے تک پوشیدہ کیوں رہی؟ یہ واقعہ اُس وقت شروع ہوا جب ملا آدم، جو کہ شہید امیر کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے، نے حاجی ضرار سے رابطہ کیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ شہید امیر کے جسدِ مبارک کو خفیہ طور پر، قابضین کی نظروں سے دور دفن کرنے میں مدد کریں۔ حاجی ضرار، جو اُس وقت نیمروز صوبے کے موجودہ سیکیورٹی انچارج تھے اور اس سے قبل امارتِ اسلامی کی جانب سے بہرامچہ میں مختلف ذمے داریاں ادا کر چکے تھے، مجاہدین میں ایک معروف شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ اس وقت بہرامچہ، جو پاکستان کی سرحد سے متصل ایک ضلع تھا، امارتِ اسلامی کے مجاہدین کے لیے ایک اہم مرکز بن چکا تھا، جہاں افغانستان بھر سے مجاہدین عسکری تربیت اور امارت کے بزرگوں سے ملاقات کے لیے آتے تھے۔ اسی اہمیت کی وجہ سے امریکہ نے کئی بار اسے مجاہدین سے چھیننے کی کوشش کی، مگر ہمیشہ مجاہدین کے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ حاجی ضرار نے فوراً اس درخواست کو قبول کیا اور شہید کا جسدِ مبارک براپچہ منتقل کرنے کے لیے اپنے قابل اعتماد ساتھیوں سے رابطہ کیا۔ ساتھ ہی مولوی عبدالعزیز انصاری، جو اُس وقت محاذِ شہید حاجی سیف اللہ کے نگران تھے، سے بات کی اور انہیں مکمل تفصیلات سے آگاہ کیا۔ بالآخر مولوی عبدالعزیز انصاری، حاجی ضرار، اور مولوی محمد اکبر (محاذِ شہید حاجی سیف اللہ کے بزرگ رہنما) کی کوششوں سے، رات کے وقت براپچہ کے قبرستان شہداء میں دو قبروں کے درمیان ایک نئی قبر تیار کی گئی۔ شہید کا جسد مکمل رازداری کے ساتھ چند افراد کی موجودگی میں دفن کیا گیا جن میں مولوی عبدالعزیز انصاری، حاجی ضرار بلوچ، مولوی اکبر، ملا آدم (جو اب قندھار کے ایک ضلع کے موجودہ ولسوال ہیں)، اور ایک دو دیگر افراد شامل تھے۔ جنازے کی نماز مولوی انصاری نے خود پڑھائی۔ لیکن اصل سوال یہ ہے: شہید کا جسد خفیہ طور پر کیوں دفن کیا گیا؟ کیونکہ تقریباً اُسی وقت، شہید ملا داداللہ رحمہ اللہ کا جسد امریکی درندوں نے قبر سے نکال کر کابل منتقل کر دیا تھا۔ اسی لیے مجاہدین نے احتیاط سے کام لیا تاکہ شہید امیر کی قبر کسی کو معلوم نہ ہو اور خدانخواستہ ان کے جسد کے ساتھ بھی وہی سلوک نہ کیا جائے۔ چنانچہ انہیں رات کے وقت دو قبروں کے درمیان دفن کیا گیا اور ان کی قبر پر دوسرے قبروں کے پتھر رکھ دیے گئے تاکہ نئی قبر کا نشان نہ رہے۔ حتیٰ کہ اپنے قدموں کے نشانات تک مٹا دیے گئے۔ مولوی عبدالعزیز انصاری کے مطابق، دشمن اُس وقت اپنے جاسوسوں کے ذریعے بھرپور کوشش کر رہا تھا کہ امیر المؤمنین شہید کی قبر کا پتہ چلایا جا سکے، لیکن مولوی انصاری کی حکمت و فراست سے دشمن کی یہ سازش ناکام ہو گئی۔ الحمدللہ۔ https://whatsapp.com/channel/0029VazdSigBlHpmdIU3Qr3h

☑️ اسلامی حکومت کے قیام سے خوف اور دہشت کیوں؟! • کیونکہ اسلامی حکومت مسلمانوں کے وسائل، سرزمین، عزت و حرمت کی حفاظت کرتی ہے، اور کسی بھی قسم کے ظلم و تجاوز کو برداشت نہیں کرتی... • انہیں اس بات سے خوف ہے کہ مسلمان پھر عمرؓ کے عدل، ابو جعفر منصور کی زیرکی، معتصم کی غیرت و شجاعت، خالد بن ولید کی قوت، فارابی، ابن الہیثم، ابن سینا، جابر بن حیان کے علم، اور خلافتِ عثمانیہ کے محمد فاتح کے عزم و ارادے کی طرف پلٹ آئیں گے!!! • وہ ڈرتے ہیں کہ مسلمان پھر ابن خلدون کی منطق، جو کہ علمِ عمرانیات کا بانی تھا، خوارزمی کی ریاضی میں ذہانت، الجزری کی ایجادات، اور اندلس کے سنان جیسے نوابغ کی طرف رجوع کریں گے — جہاں آٹھ صدیوں تک اسلامی حکومت قائم رہی۔ • وہ نئی فتوحات کے دور سے، موہاچ، ملازگرد اور تولوز جیسے معرکوں کے دوبارہ لوٹ آنے سے خائف ہیں۔ • وہ اس دور سے کانپتے ہیں جب ماسکو، واشنگٹن، ویانا، روم، پیرس اور بیجنگ جیسے شہر خلافتِ عثمانیہ کو چھ صدیوں تک جزیہ ادا کرتے تھے۔ • وہ اس حقیقت سے ڈرتے ہیں کہ جب ہندوستان کا مسلمان سلطان انگلستان کے بادشاہ سے بات کرنے سے انکار کر دیتا تھا، کیونکہ یہ اس کی شان کے خلاف تھا کہ ایک چھوٹے سے جزیرے کے حکمران سے بات کرے! • وہ اس دور سے ہراساں ہیں جب یورپ اور امریکہ کے جنگی جہاز اور بیڑے بحیرۂ روم سے اجازت کے بغیر نہیں گزر سکتے تھے، جب تک کہ الجزائر کے دو بھائیوں — بربروس اور ریئس حمیدو — سے اجازت نہ لیتے۔ • کیونکہ اس وقت مسلمان ایک خلیفہ، ایک جھنڈے، ایک سرزمین اور ایک عقیدے کے تابع تھے۔ 👈 پھر سائیکس پیکو کی سازش آئی، اور امتِ مسلمہ کو قوم پرستی، وطن پرستی اور جھوٹے نعروں کے ذریعے تقسیم کر دیا گیا۔ • مسلمان چونکہ ایک وسیع و عریض ریاست اور بے شمار وسائل کے حامل تھے، اس لیے وہ مکمل خود کفیل تھے۔ اور مسلمان — چاہے وہ فارس سے ہوں، تاتار، عرب، ترک یا کسی بھی نسل سے — سب ایک امت تھے، جو ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے۔ • اسلامی ریاست میں فحاشی، شہوت پرستی، تجمل پسندی، اخلاقی انحطاط اور گمراہی کے لیے کوئی جگہ نہ تھی، اسی لیے ان کا معاشرہ عظمت و سعادت کی طرف بڑھتا، اور دشمنوں کے معاشرے تباہی و پستی کی طرف گامزن ہوتے۔ • امریکی مستشرق تھامس پین کہتا ہے: "آج حالات بدل چکے ہیں، مسلمان ہمارے زیرِ تسلط ہیں، لیکن جو واقعہ ایک بار ہو چکا ہو، وہ دوبارہ بھی ہو سکتا ہے...!" ✍ مأخوذ از کتاب "عصر العقل" – تھامس پین 📝 ماموستا عبدالواحد امامی https://whatsapp.com/channel/0029VazdSigBlHpmdIU3Qr3h

میں جانتا ہوں کہ اگر میں کسی عورت کے عشق میں اپنی ساری زندگی گزار دوں تو سوائے ذلت اور پچھتاوے کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ چاہے وہ عورت حاصل ہو بھی جائے، لیکن حسن، وہ جو ایک عارضی اور فانی چیز ہے، ایک دن ماند پڑ جائے گا۔ کل وہ ابھری ہوئی گالیں، وہ نرم رخسار، ہڈیوں کے ساتھ چپک کر بیزاری کا تاثر چھوڑ جائیں گے۔ وہ سرمئی آنکھیں، جو کبھی ماضی میں کشش کا محور تھیں، آج نہیں رہیں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ بھی دنیا میں حسین ہے، وہ عارضی ہے اور اس کا ایک دن ختم ہونا مقدر ہے۔ مجھے بخوبی علم ہے کہ اگر میں وطن کے پرستش میں غرق ہو جاؤں، اگر میں اس مٹی کی محبت میں ڈوب کر اپنی تمام تر زندگی اس کی نذر کردوں، تو نہ جانے یہ وطن مجھے دو گز زمین قبر کے لئے دے بھی پائے گا یا نہیں۔ جب انسان اپنا مقصدِ حیات اور اصل جذبہ کھو دیتا ہے، تو وہ نہ کسی کے لئے رہتا ہے، نہ کسی مقصد کے لئے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میری زندگی کا مقصد صرف اور صرف اللہ کی رضا اور اس کی دین کی سربلندی ہے۔ میں اپنا رخ اعلائے کلمۃ اللہ کی طرف موڑ رہا ہوں، کیونکہ صرف یہی جنگ ہے جو انسان کو دنیا میں شہادت اور آخرت میں سرخروئی عطا کرتی ہے۔ یہ وہ جنگ ہے جس میں انسان کا ہر قدم، ہر تڑپ، ہر قربانی صرف ایک مقصد کی تکمیل کے لیے ہے — اللہ کے دین کی جیت۔ اگر تمہیں یقین نہیں آتا تو تم وہ واقعات پڑھو، جو گذشتہ صدیوں میں ہوئے ہیں۔ وہ مجاہدین جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، جنہوں نے دنیا کے عیش و آرام کو ٹھکرا دیا، صرف اس لیے کہ وہ دینِ اسلام کو روئے زمین پر غالب کرنا چاہتے تھے۔ ان کے اجسام ٹکڑے ٹکڑے ہوئے، لیکن ان کی قربانیوں کا اثر آج بھی زندہ ہے۔ وہ اپنی مٹی یا کسی انسان کی محبت میں نہیں بلکہ اللہ کے راستے میں شہید ہوئے، اور یہی اصل مقصد تھا جس کے لیے انہوں نے اپنی جان دی۔ اگر تم ان کے قبروں کے قریب جاؤ، تو تمہیں وہ قبریں تازہ اور تر دکھائی دیں گی، جیسے ان کی روحیں ابھی تک اس دھرتی پر موجود ہوں۔ ان کی قربانیوں کا ذکر آج تک زندہ ہے، اور ان کے اجسام اب بھی اس دنیا میں اور آخرت میں اللہ کے نزدیک معزز ہیں۔ ان کی شہادتوں سے نہ صرف تاریخ کا دھارا بدلا، بلکہ ان کی جدوجہد نے آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دیا کہ حقیقت میں زندگی کا مقصد صرف اللہ کی رضا میں ہے، نہ کہ کسی عارضی محبت یا فانی وطن کی پرستش میں۔ اس لیے میں اپنی زندگی کا رخ اپنی روح کی تسکین اور اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے بدلنے جا رہا ہوں۔ میں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ میں ان فانی چیزوں کے پیچھے نہیں بھاگوں گا، بلکہ اس حقیقت کو اپناؤں گا جو ہمیشہ قائم و دائم ہے: اللہ کا راستہ اقرب بلوچ____ اسلامی بلوچستان https://whatsapp.com/channel/0029VazdSigBlHpmdIU3Qr3h

مظلوم کی بے بسی پر اہلِ علم کی خاموشی تحریر: مولانا عباد الرحمٰن بلوچ یہ وطن عجیب سانحات کا دیس بن چکا ہے۔ یہاں لاشوں کی گنتی روز کا معمول ہے اور مظلوم کی فریاد ہواؤں میں تحلیل ہو چکی ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر اذیت ناک پہلو یہ ہے کہ جب ماؤں کی چادریں چھینی جائیں، بہنوں کے کمروں میں کیمرے نصب کیے جائیں، معصوم بچیوں کو اغوا کر کے عقوبت خانوں میں ڈال دیا جائے—تب منبر خاموش ہو جاتا ہے، اور محراب کی زبان پر مہرِ سکوت لگ جاتی ہے۔ وہ علما، جو ہمیں باطل کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کا درس دیا کرتے تھے، آج ظالم کے سائے میں پلتے، پنپتے ہیں اور چپ رہنے کو حکمت کا نام دیتے ہیں۔ جو زبانیں کبھی غزوہ ہند کے نعرے بلند کرتی تھیں، آج مظلوم بلوچ، پشتون اور سندھی ماں کی سسکیوں پر بھی بند ہو چکی ہیں۔ یہ خاموشی محض چپ نہیں، یہ ایمان کا زوال ہے۔ گزشتہ دنوں جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا راشد سومرو نے چٹکلہ کسا: "اگر جنگ ہوئی تو بھارت میں گھس کر دارالعلوم دیوبند میں ناشتہ کریں گے"۔ اسی پرح حافظ حمداللہ نے مذہبی رنگ چڑھاتے ہوئے فرمایا: "اگر مودی نے جنگ مسلط کی تو اگلی صبح کی نماز مولانا فضل الرحمان کی امامت میں جامع مسجد دہلی میں ادا کریں گے۔" ان بیانات نے عوام کو فخر نہیں، بلکہ دکھ اور حیرت میں مبتلا کر دیا۔ کیونکہ اسی پاکستان میں، انہی دنوں، بلوچ خواتین کی چادریں کھینچی جا رہی تھیں، پشتون عورتیں لاپتہ پیاروں کی تصویریں لیے در بدر بھٹک رہی تھیں، مظلوم مائیں اپنے جوانوں کی گمشدگی کے نوحے پڑھ رہی تھیں—اور ان "علماء کرام" کے منہ سے ایک حرفِ احتجاج بھی نہ نکلا۔ اسی پس منظر میں نوجوان اسکالر مولانا اسماعیل حسنی کا وہ جملہ ایک کڑوا مگر سچّا آئینہ بن کر سامنے آتا ہے: "جو اپنی ماؤں بہنوں کی عزت پر آنچ آنے پر احتجاج نہ کر سکے، وہ دیوبند کی نماز یا ناشتہ کو صرف اپنی بزدلی چھپانے کا بہانہ بناتا ہے۔" کیا ہی کربناک سچ ہے۔ دین کی اصل روح تو ظالم کے سامنے کلمۂ حق کہنا ہے، مگر یہاں دین کو طاقتور کے در پر جھکنے کی چادر میں لپیٹ دیا گیا ہے۔ منبر، سجدہ گاہ، خطبہ—سب طاقتور کی سانسوں کے تابع ہو چکے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان، جہاں دین کی سربلندی کے دعوے ہوتے ہیں، وہاں خواتین کے واش رومز میں کیمرے نصب کیے جاتے ہیں۔ جہاں حیا کے خطبے دیے جاتے ہیں، وہیں نوجوانوں کو اغوا کر کے ان کی آنکھوں میں تیزاب ڈالا جاتا ہے۔ پھر جعلی مقابلوں میں مار کر فخریہ کہا جاتا ہے کہ "ہم نے دہشتگرد مار دیے"۔ اور اس سب پر ہمارا دینی طبقہ مصلحت کی چادر اوڑھ کر خاموشی اختیار کرتا ہے۔ اب سوال یہ نہیں کہ مولوی کب بولے گا، سوال یہ ہے کہ کیا اُس کا ضمیر کبھی جاگے گا؟ کیا وہ اذیت میں سسکتی بلوچ ماں کی آہ کو بھی اذان سمجھ کر سن پائے گا؟ کیا وہ زندانوں میں قید بیٹیوں کی چیخ پر بھی تڑپے گا؟ یا اس کا اسلام بھی صرف دہلی کی جامع مسجد تک محدود رہے گا اور راولپنڈی کے ایوانوں میں سجدہ ریز ہو کر ختم ہو جائے گا؟ عوام اب تھک چکے ہیں، جاگ چکے ہیں۔ وہ جان چکے ہیں کہ منبر پر بیٹھا ہر شخص ولی نہیں ہوتا، اور ہر خاموشی تقویٰ نہیں کہلاتی۔ اب وہ دیوبند میں ناشتہ کرنے والوں کو نہیں، اسلام آباد کے ایوانوں میں سچ بولنے والے علما کو تلاش کر رہے ہیں۔ ان کے زخم اب فتوے نہیں، انصاف مانگتے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں آنسو نہیں، سوال ہیں— اور ان سوالوں کا جواب دیوبند میں نہیں، مظلوم کے قدموں میں لکھا جائے گا۔