The  Islamic Balochistan Post WhatsApp Channel

The Islamic Balochistan Post

200 subscribers

About The Islamic Balochistan Post

وطن عزیز بلوچستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے جدوجہد سے بروقت خبر رہنے کے لیےہمارے چینل کو فالو کریں ....

Similar Channels

Swipe to see more

Posts

The  Islamic Balochistan Post
The Islamic Balochistan Post
6/21/2025, 7:11:30 AM

[کفار کا قتل ان کے فتنے کو روکنے کے لیے ہے،بڑھانے کے لیے نہیں ] کفار کا زور توڑنے کے لیے خونریزی کے اہمیت کے پیشِ نظر قرآن کریم میں اللہ جل جلالہ فرماتے ہیں : فَاِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ (سورۃ محمد: ۴) ’’سو جب کفار سے تمہارا سامنا ہوتو ان کی گردنیں مارو۔‘‘ ارشادِباری ہے : فَاِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِمْ مَّنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُوْنَ؀ (سورۃ الانفال: ۵۷) ’’لہٰذا اگر کبھی جنگ میں یہ لوگ تمہارے ہاتھ لگ جائیں تو ان کو سامانِ عبرت بناکر ان لوگوں کو بھی تتربتر کرڈالو جو ان کے پیچھے ہیں، تاکہ وہ [یہ انجام ]یاد رکھیں۔‘‘ مرتدین کے خلاف جنگوں میں حضرت ابوبکر صدیق ﷜کی وصیت تھی کہ بغیر کسی نرمی اور کوتاہی کے مرتدین کی گردنیں ماری جائیں۔ سو اس مرحلے میں اس سیاست کا برمحل استعمال انتہائی ضروری ہے، قتل وغارت اور خونریزی کے مہیب مناظر دشمن کی نفسیات پر ایسا اثر ڈالتے ہیں کہ وہ مارے خوف کے خودکشیاں کرنے لگتے ہیں۔ افغانستان میں بگرام جیل کا ایک امریکی پہرے دار ہمارے قیدی مجــ.ـاہد بھائیوں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتا تھا، انسانیت کے ناطے نہیں، بلکہ اس کی وجہ اس نے خود بیان کی : ’’میں تم سے حسنِ سلوک اس لیے کرتا ہوں کہ اگر تم مجھے گرفتار کرو تو میرے ساتھ بھی حسنِ سلو ک کرو اور مجھے ذبح نہ کرو جیسے ابومصعب زرقاوی [شہید رحمہ اللہ]کرتا ہے ۔‘‘ [یہ خونریزی فی نفسہ مطلوب نہیں، بلکہ اس سے مقصود کفار کا زور توڑنا اور ان پر رعب قائم کرنا ہے، یہ کوئی تعبدی امر نہیں، بلکہ سیاستِ شرعیہ کے دائرے میں داخل ہے، ورنہ بنو نضیر وقینقاع کی جان بخشی کیوں کی گئی؟ خیبر والوں کو بھی بنو قریظہ کی طرح قتل کیوں نہیں کیا؟ جرم کی سطح، مجرم کی نوعیت، حالات کا تجزیہ کرکے مصلحت ومفسدہ کا تعین ہی طے کرتے ہیں کہ دشمن سے کیا سلوک کیا جائے، اس لیے محسنِ امت شیخ اســ.ـامہ رحمہ اللہ نے یومِ تفریق کے بعد امریکہ اور مغربی ممالک کے سامنے جنگ بندی کی پیشکش بھی رکھی۔ اگر یہ نزاکتیں پیشِ نظر نہ ہوں تو دشمن بڑھا کر جانبی معرکوں میں تو الجھا جا سکتا ہے، شاید شجاعت کی کچھ داستانیں بھی رقم ہوجائیں، لیکن سفر کی سمت بدل جائے گی اور قافلہ منزل تک نہ پہنچ پائے گا۔ مدبرِ جہاد شیخ عطیۃ اللہ شہید ﷫نے غزوہ خیبر میں حضرت علی ﷜کو جھنڈا دے کر رسول اللہ ﷺ نے جو وصیتیں فرمائیں ‘ان کی تشریح میں یہ سارے نکات خود احادیث سے استنباط کیے ہیں، شیخِ محترم کی تشریحات مجلہ طلائع خراسان (عربی) میں قسط وار چھپتی رہیں، آپ ان کی تکمیل سے قبل ہی شہید ہوگئے، یہ بعدازاں ’شرح حدیث:انفذ علیٰ رسلک‘ کے نام سے کتابی شکل میں بھی نشر ہوئیں اور شیخ کے ’مجموع الاعمال الکاملۃ‘ میں شامل ہیں ] اقتباس ؛ سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں معاصر جــ.ـہاد کے لیے سیرتِ رسول ﷺ سے مستفاد فوائد و حِکَم! از قلم : منصور شامی

The  Islamic Balochistan Post
The Islamic Balochistan Post
6/17/2025, 6:26:42 PM

قیامت تلک یہ سفر نہ رکے گا! تحریر: — سعد البلوشی دنیا کا منظرنامہ تیزی سے بدل رہا ہے۔ لمحے لمحے کی گردش ہمیں ایک بڑے، فیصلہ کن انجام کی طرف دھکیل رہی ہے۔ ہر نئے دن کی روشنی، ہر شب کی تاریکی، ہر طلوع اور ہر غروب یہ گواہی دے رہا ہے کہ ایک عہد اپنے آخری موڑ پر ہے، اور ایک نیا عہد، تقدیر کی روشنی میں ابھرنے کو ہے۔ قربِ قیامت کی جو نشانیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال قبل بیان فرمائی تھیں، وہ آج ہماری آنکھوں کے سامنے حقیقت کا جامہ پہنے کھڑی ہیں۔ وقت کی رفتار بے رحم ہے، لیکن نشانیاں اپنی جگہ پر بہت واضح۔ زلزلے، فساد، فتنہ، جھوٹ کی کثرت، امانتوں کی خیانت، ننگی سچائیوں کی پردہ دری، اور دین کے نام پر دین کا مذاق—سب کچھ ہو رہا ہے، اور حیرت انگیز تیزی کے ساتھ۔ لیکن ان سب کے بیچ، ایک اور منظر ہے جسے اکثر نگاہیں دیکھنے سے قاصر ہیں—وہ منظر جو جہاد کے پرچم تلے وفا کی قسم کھائے، مٹی سے اٹھے، آسمان کی طرف دیکھتے سرفروشوں کا ہے۔ یہ وہ قافلہ ہے جو تاریخ کے ہر دور میں، ہر آزمائش میں، اور ہر فتنہ کے مقابل سینہ تان کر کھڑا رہا۔ وہ قافلہ جسے نبی اکرم ﷺ نے بشارت دی: "لا تزال طائفة من أمتي يقاتلون على الحق، ظاہرين على من ناوأهم حتى يقاتل آخرهم المسيح الدجال." "میری امت کا ایک گروہ مسلسل حق پر قتال کرتا رہے گا، اپنے دشمنوں پر غالب رہے گا، یہاں تک کہ ان میں سے آخری شخص دجال سے لڑے گا۔" یہ قافلہ، تاریخ کے دشت میں صدیوں سے سفر کر رہا ہے۔ خندق سے شروع ہو کر قسطنطنیہ، بیت المقدس، اندلس، برصغیر، بخارا، کابل، بغداد، دمشق، فلسطین، چیچنیا، کشمیر اور غزہ تک؛ ہر جگہ ان کی قربانیوں کی مہک ہے، ہر مٹی ان کے خون سے سیراب ہے۔ آج، جب کافر اقوام پوری منظم قوت کے ساتھ مسلم دنیا پر جھپٹ رہی ہیں، اور امت مسلمہ بکھری ہوئی، لاچار، خوابیدہ سی نظر آتی ہے، وہی قافلہ پھر سے بیدار ہے۔ افغانستان کے پہاڑوں سے لے کر غزہ کی گلیوں تک، وہی اذان ہے، وہی نعرہ، وہی جذبہ، اور وہی دعا ہے: "اَللّٰہُمَّ اجْعَلْنِي مِنْهُمْ!" احسن عزیز شہیدؒ نے سچ کہا تھا: "یہ سلسلہ اب رکنے والا نہیں!"۔ یہ ملاحم کا ابتدائی باب ہے۔ ہو سکتا ہے ہم اس صدی کے ان خوش نصیبوں میں ہوں جو ان کڑیوں کو جوڑتے دیکھیں—جہاد سے مہدی تک، مہدی سے عیسیٰ علیہ السلام کے نزول تک۔ مگر یہ صرف پیشین گوئی نہیں، یہ ایک ذمہ داری ہے۔ یہ تاریخ کا وہ موڑ ہے جہاں خواب، خون سے تعبیر پاتے ہیں۔ جہاں تلواریں صرف دھات نہیں، نظریہ ہوتی ہیں۔ اور جہاں وقت کا ہر لمحہ ہمیں جھنجھوڑ کر کہتا ہے: "اٹھو! قافلہ رواں ہے۔ حق کی صدا تمہیں بلا رہی ہے۔" یہ قافلہ، قیامت تک رکے گا نہیں۔ نہ وہ تھکے گا، نہ جھکے گا۔ اس کے قدموں میں وقت کی زنجیریں ٹوٹتی ہیں، اور اس کے دل میں صرف ایک تمنا رہتی ہے: "اللّٰہ راضی ہو، چاہے دنیا ناراض ہو!" یہی وہ سفر ہے جسے کوئی طاقت، کوئی فریب، کوئی دجال روک نہیں سکتا۔ اور وہ لمحہ دور نہیں، جب آسمان کی نیلی چادر کو چاک کرتے ہوئے عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہو گا، اور باطل کی آخری سانسیں ہونٹوں پر جما دی جائیں گی۔ تب تک، جب تک وہ لمحہ نہیں آتا، قیامت تلک یہ سفر نہ رکے گا! اسلامی بلوچستان

The  Islamic Balochistan Post
The Islamic Balochistan Post
6/17/2025, 5:28:37 PM

تقریبا یہ تصویر دوسال پہلے کی ہے بلوچ قوم کے مجاہدین اور قومی قیادت کا اجتماع بلوچ قوم کی تاریخ قربانیوں، بہادری اور اپنے حقوق کے لیے جدوجہد سے بھری ہوئی ہے۔ بلوچ مجاہدین اور قوم کے سرکردہ بزرگ ہمیشہ سے اپنے لوگوں کی رہنمائی، تحفظ اور آزادی کے علمبردار رہے ہیں۔ حال ہی میں منعقد ہونے والا یہ اہم اجتماع، جس میں مختلف قبائلی عمائدین، مذہبی رہنما، اور بلوچ قوم کے مجاہدین شریک ہوئے، اس تسلسل کا ایک اہم باب ہے۔ تصویر میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح مختلف قبائل اور طبقات سے تعلق رکھنے والے بلوچ رہنما ایک جگہ جمع ہیں۔ ان کے لباس، نشست و برخاست اور باہمی مشاورت کا انداز اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ بلوچ قوم میں آج بھی اجتماعی قیادت کا تصور زندہ ہے۔ یہ اجتماع نہ صرف قوم کی وحدت کا مظہر ہے بلکہ ایک سنجیدہ کوشش ہے کہ بلوچ عوام کو درپیش مسائل، خواہ وہ سیاسی ہوں یا سماجی، کا حل مل جل کر نکالا جائے۔ اس موقع پر جن موضوعات پر گفتگو متوقع ہے، ان میں بلوچوں کے حقوق، تعلیم کی ترقی، قومی شناخت کا تحفظ، اور نوجوان نسل کی رہنمائی شامل ہو سکتی ہے۔ بزرگانِ قوم کی موجودگی نوجوانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے، جبکہ مجاہدین کی شرکت اس امر کی علامت ہے کہ قوم آج بھی اپنی روایتی غیرت اور آزادی کی امنگ کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ یہ اجتماع اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچ قوم کسی بیرونی دباؤ یا داخلی اختلاف کے باوجود اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھ سکتی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ایسے اجتماعات نہ صرف قومی شعور کو بیدار کریں گے بلکہ مستقبل کے لیے ایک پائیدار لائحہ عمل بھی فراہم کریں گے۔

Post image
❤️ 1
Image
The  Islamic Balochistan Post
The Islamic Balochistan Post
6/19/2025, 6:08:25 PM

‏⇚حسان بن عطیہ تابعی رحمہ اللہ (١٣٠هـ) سے مروی ہے : "يعَذِّبُ اللهُ الظَّالِمَ بِالظَّالِمِ، ثُمَّ يُدْخِلُهُمَا النَّارَ جَمِيعًا." ’’اللہ تعالی ظالم کو ظالم کے ذریعے عذاب دیتے ہیں پھر ان دونوں کو جہنم میں داخل کر دیتے ہیں۔‘‘ (حلية الأولياء لأبي نعيم : ٦/٧٤)

❤️ 4
The  Islamic Balochistan Post
The Islamic Balochistan Post
6/16/2025, 4:48:27 PM

زندان میں قید بلوچ “ننگ و ناموس” – عرفان دی بلوچستان پوسٹ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ سلسلہ گزشتہ کئی سالوں سے جاری ہے۔ بلوچ حقوق کے لیے متحرک بلوچ ایکٹیوسٹوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کا پہلا جبری طور پر لاپتہ شخص اسد اللہ مینگل تھا جو سردار عطاء اللہ مینگل کے صاحبزادے اور اختر مینگل کے بھائی تھے جن کا آج تک کوئی سراغ نہ مل سکا۔ بلوچستان میں جیسے ہی دو ہزار کی دہائی میں بلوچ قومی تحریک نے زور پکڑنا شروع کیا تو بلوچ سیاسی کارکنوں کو خاموش کرانے کے لیے جبری گمشدگیوں کا غیر قانونی اور غیر انسانی سلسلہ شروع کیا گیا جس کی زد سے ایک بلوچ گھرانہ بھی نہ بچ سکا۔ دو ہزار نو کو بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی چیئرمین واجہ غلام محمد بلوچ سمیت لالہ منیر بلوچ اور شیر محمد بلوچ کی مسخ شدہ لاشیں ضلع کیچ کے پہاڑی سلسلے مُرگاپ سے برآمد ہوئی تھیں جن کو شدید تشدد کے بعد شہید کر کے پھینک دیا گیا تھا۔ غلام محمد اور ان کے دوستوں کی شہادت کے بعد مسخ شدہ لاش پھینکنے کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا۔ ہر ایک یا دو دن کے بعد بلوچستان کے مختلف علاقوں سے بلوچ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں ملتی رہیں، اس ریاستی جبر سے کسی بھی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والا بلوچ محفوظ نہ رہ سکا، ڈاکٹر، استاد، وکیل، اسٹوڈنٹ، سیاستدان سب کو چن چن کر جبری طور پر اغواء کیا گیا اور بعد میں ان کی مسخ شدہ لاشیں بلوچوں کو موصول ہوئی۔ اس ریاستی پالیسی کا سیدھا سادہ مقصد یہ تھا کہ بلوچ کو قومی تحریک سے دور رکھا جا سکے، جو ریاستی لوٹ کھسوٹ گزشتہ سات دہائیوں سے جاری ہیں ان کو بغیر مزاحمت کے جاری رکھا جا سکے۔ بلوچستان کی دولت سے پنجاب کے صنعتوں کو ایندھن فراہم کیا جا سکے۔ اور یہ سلسلہ آج تک ہنوز جاری ہے بلوچستان کے کونے کونے میں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کیا گیا ہے، بلوچستان کا قدرتی گیس پنجاب کے فیکٹریوں کے لیے ایندھن کا کام دے رہی ہے، کوئلہ بلوچستان سے لوٹا جا رہا ہے، سیندک اور ریکوڈک بلوچستان سے لوٹے جا رہے ہیں مگر بلوچستان کو جواب میں خونی آپریشنز اور اپنے پیاروں کی مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں۔ - مکمل تحریر پڑھنے کیلئے ہماری ویب سائٹ کو ملاحظہ کریں: https://thebalochistanpost.com/2025/06/%d8%b2%d9%86%d8%af%d8%a7%d9%86-%d9%85%db%8c%da%ba-%d9%82%db%8c%d8%af-%d8%a8%d9%84%d9%88%da%86-%d9%86%d9%86%da%af-%d9%88-%d9%86%d8%a7%d9%85%d9%88%d8%b3-%d8%b9%d8%b1%d9%81%d8%a7%d9%86/

The  Islamic Balochistan Post
The Islamic Balochistan Post
6/16/2025, 4:49:05 PM

دنیا بھر میں جہاں بھی ظلم و ستم، قتل و غارت، لوٹ مار اور جبری تسلط قائم ہے اس کے پیچھے ایک ہی خبیث ہاتھ کار فرما ہے، جس کا نام ’’امریکہ‘‘ہے۔ پوری تاریخِ انسانی میں اہلِ ایمان کے لیے امریکہ سے بڑھ کر کوئی ایسا دشمن نہیں آیا، جو فریب دینے میں اس قدر ماہر، ظلم کرنے میں اتنا سنگدل اور عداوت میں سب سے بڑھ کر ہو!

Post image
Image
The  Islamic Balochistan Post
The Islamic Balochistan Post
6/16/2025, 4:47:56 PM

*اصلاح بدون کسی کو بڑا بنائے ہوئے نہیں ہوسکتی* ارشاد فرمایا کہ یہ بالکل سچی اور واقعی بات ہے کہ اصلاح بدون کسی کو بڑا بنائے ہوئے نہیں ہوسکتی۔ بہت سے پڑھے لکھے اور دیندار لوگ بھی اس بات میں غلطی پر ہیں، یوں سمجھتے ہیں کہ بس کتابوں کا پڑھ لینا اور مطالعہ میں رکھنا اصلاح کے لیے کافی ہے۔ یاد رکھو کہ اور کتابیں تو کیا وہ کتابیں بھی جو اسی فن اصلاحِ اخلاق کی ہیں جیسے احیاء العلوم وغیرہ ان سے بھی اصلاح نہیں ہوگی جب تک کسی کے ماتحت نہیں بنوگے اور جب تک کوئی روک ٹوک کرنے والا نہ ہوگا اور جب تک کوئی یہ کہنے والا نہ ہوگا کہ تم بڑے نالائق ہو، یہ حرکت کیوں کی؟ (السوق لاهل الشوق، مواعظِ اشرفیہ، جلد ۳، صفحہ ۹۸) ملفوظات حکیم الامت کاپی

The  Islamic Balochistan Post
The Islamic Balochistan Post
5/20/2025, 5:03:12 AM

✅ شرعی نقطہ نظر سے استشہادی عملیات: نقشے کے نمبر ایک اور دو میں دشمن کا قتل واقع ہوتا ہے، لیکن چونکہ ان دونوں میں نیت کا فرق پایا جاتا ہے، اس لیے شریعت میں ان دونوں کا حکم ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ نمبر ایک میں، نیت خالصتاً اللہ کے لیے ہوتی ہے، اس لیے وہ عمل "شہادت" کے حکم میں آتا ہے۔ جبکہ نمبر دو میں نیت دنیاوی ہوتی ہے، اس لیے وہ "خودکشی" کے حکم میں شمار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح، نمبر دو اور تین میں مقصد ایک ہی ہوتا ہے یعنی دنیا حاصل کرنا، نہ کہ آخرت۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک میں قاتل دشمن ہے اور دوسرے میں خود وہ شخص، لیکن چونکہ نیت اور مقصد دونوں میں دنیا ہے، اس لیے شریعت نے دونوں کو ایک ہی حکم دیا ہے یعنی "خودکشی" — جو حرام اور ناجائز ہے۔ (جاری ہے...) منبع: جہاد اور اسلام میں اس کا مقام مؤلف: مولانا محمد یوسف سربازی حفظہ اللہ

Image
The  Islamic Balochistan Post
The Islamic Balochistan Post
5/21/2025, 9:46:49 AM

✅ شرعی نقطۂ نظر سے "عملیاتِ استشہادی" (شہادت طلبانہ کارروائیاں): ذیل میں چند دلائل اور واقعات ذکر کیے جاتے ہیں جو اس نوعیت کی کارروائیوں کے جواز کو مکمل طور پر ثابت کرتے ہیں: 1۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البروج میں "اصحاب الاُخدود" یعنی خندق والوں کا ذکر فرمایا ہے۔ مفسرین نے ان واقعات کے بارے میں مختلف روایات نقل کی ہیں، لیکن جو روایت صحیح مسلم اور جامع ترمذی میں آئی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے: قدیم زمانے میں ایک نہایت ماہر جادوگر ایک بادشاہ کے دربار میں موجود تھا۔ جب وہ بوڑھا ہوگیا تو بادشاہ سے کہا کہ کوئی ہوشیار اور ذہین لڑکا میرے حوالے کیا جائے تاکہ میں اُسے جادو کا علم سکھاؤں۔ بادشاہ کے حکم سے ایک ذہین لڑکا چنا گیا جو جادو سیکھنے لگا۔ راستے میں ایک راہب رہتا تھا، لڑکا اُس سے واقف ہوگیا اور پھر اس زمانے کے برحق دین یعنی دینِ عیسیٰ پر ایمان لے آیا۔ اللہ تعالیٰ نے اُس کے ہاتھ پر کئی کرامات ظاہر فرمائیں۔ ایک دن ایک اندھے شخص نے اُس سے کہا کہ دعا کرو اللہ مجھے بینائی عطا فرمائے۔ لڑکے نے کہا کہ "اللہ وحدہٗ لا شریک پر ایمان لاؤ، میں دعا کروں گا، اُمید ہے کہ قبول ہوگی۔" اور واقعی ایسا ہی ہوا۔ جب بادشاہ کو اس بات کا علم ہوا تو اُس نے راہب اور اندھے کو قتل کروادیا اور لڑکے کو پہاڑ سے گرانے کا حکم دیا۔ راہب اور اندھا قتل کر دیے گئے لیکن لڑکا صحیح سلامت واپس آیا جبکہ مامورین پہاڑ سے گر کر ہلاک ہوگئے۔ پھر بادشاہ نے اُسے دریا میں غرق کرنے کا حکم دیا، لیکن اس بار بھی لڑکا صحیح سلامت بچ گیا اور مامورین ڈوب گئے۔ بالآخر لڑکے نے بادشاہ سے کہا: "اے بادشاہ! تو مجھے کبھی قتل نہیں کرسکے گا جب تک کہ وہی نہ کرے جو میں کہوں۔" بادشاہ نے پوچھا: "کیا کرنا ہوگا؟" لڑکے نے کہا: "لوگوں کو جمع کرو، مجھے سولی پر لٹکاؤ، پھر یہ کہو بسم اللہ ربّ ہٰذا الغلام (اس لڑکے کے ربّ کے نام سے) اور تیر مار کر مجھے قتل کرو۔" بادشاہ نے ایسا ہی کیا اور لڑکا قتل ہوگیا۔ لیکن اس واقعے کو دیکھ کر وہاں موجود تمام لوگ دینِ عیسیٰ پر ایمان لے آئے اور یقین کر لیا کہ یہی دین برحق ہے۔ یہاں لڑکے نے دینِ حق کے اظہار اور لوگوں کی ہدایت کے لیے ایسی تدبیر اختیار کروائی جو اُس کی اپنی موت کا سبب بنی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اگر دینِ حق کی سربلندی اور اشاعت کے لیے اپنی جان دینا پڑے—even اگر اپنے آپ کو کسی کی تلوار یا تیر کا نشانہ بنوانا پڑے—تو یہ جائز ہے۔ اسی طرح اصحاب الاُخدود نے بھی اپنی مرضی سے خود کو آگ میں ڈال دیا تاکہ دینِ حق کا بول بالا ہو۔ امام قرطبی رحمہ اللہ نے بھی اصحاب الاُخدود کے واقعے کے بعد ایک عورت کا ذکر کیا ہے، جو اپنے شیر خوار بچے کے ساتھ تھی۔ وہ آگ میں جانے سے ہچکچائی، تو اُس کے بچے نے—جو ابھی بولنے کے قابل بھی نہ تھا—کہا: "اے ماں! میں دیکھ رہا ہوں کہ تیرے آگے وہ آگ ہے جو کبھی بجھنے والی نہیں۔" پس ماں اور بیٹا دونوں نے خود کو آگ میں ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کو جنت میں جگہ عطا فرمائی۔ (جاری ہے...) کتاب کا ماخذ: جہاد اور اسلام میں اس کا مقام مصنف: مولانا محمد یوسف سربازی حفظہ اللہ https://whatsapp.com/channel/0029VazdSigBlHpmdIU3Qr3h -

The  Islamic Balochistan Post
The Islamic Balochistan Post
5/20/2025, 4:40:24 AM

عملیات استشہادی کی شرعی حیثیت: ایک تحقیقی جائزہ عصرِ حاضر میں ہونے والی شہادت طلب حملے ایک نیا اور منفرد مظہر ہیں، جو ایک جانب خودکشی سے مشابہت رکھتے ہیں جسے اسلام میں سختی سے حرام قرار دیا گیا ہے، اور دوسری طرف یہ ایک ایسی شکل میں جہاد اور شہادت بھی ہیں جس کی قرآن و حدیث میں بے شمار فضیلتیں بیان کی گئی ہیں۔ انہی دو پہلوؤں کی مشابہت کی وجہ سے یہ مسئلہ علماء کرام کے درمیان بحث و تحقیق کا مرکز بن چکا ہے۔ لیکن جب اس مسئلے کو گہرائی سے دیکھا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ شہادت طلب حملے (فدائی حملے) اور خودکشی میں بنیادی فرق ہے۔ خودکشی کرنے والا شخص دنیاوی پریشانیوں سے نجات حاصل کرنے یا دنیاوی مقصد حاصل نہ ہونے کی وجہ سے اپنی جان لیتا ہے۔ جب کہ ایک فدائی مجاہد اپنی جان اس نیت سے دیتا ہے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو، دین اسلام کی سربلندی ہو، مسلمانوں کی عزت و عفت کا دفاع ہو اور اسلام و مسلمین کو فائدہ پہنچے۔ اس بنا پر فدائی حملے نہ صرف جائز بلکہ ایک مبارک جہادی عمل ہیں، جن پر عظیم اجر و ثواب کی بشارت دی گئی ہے۔ یہ دشمنانِ اسلام کی ناپاک یلغار اور اسلامی ممالک پر قبضے کے خلاف ایک مؤثر اور مضبوط رکاوٹ ہیں۔ جدید دور میں، ان حملوں کا طریقہ بھی جدید ٹیکنالوجی کے مطابق بدل گیا ہے۔ آج کوئی مجاہد اپنے جسم پر دھماکہ خیز مواد باندھ کر یا بارود سے بھری گاڑی دشمن کے مجمع میں لے جا کر اسے دھماکے سے اڑاتا ہے۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں اس نوعیت کی جنگی ٹیکنالوجی موجود نہ تھی۔ اس وقت تلوار، تیر اور نیزے ہی جنگ کے بنیادی ہتھیار تھے۔ اس زمانے میں بھی ایسے واقعات ملتے ہیں کہ ایک صحابی دشمن کی صف میں ایسے حملہ آور ہوا کہ بچنے کی کوئی امید نہ تھی، تو یہ عمل بھی استشہادی حملہ ہی شمار ہوتا تھا۔ علمی حلقوں میں بعض اوقات یہ شبہ پیش کیا جاتا ہے کہ چونکہ فدائی حملے میں شخص اپنے عمل سے ہی مر جاتا ہے، اس لیے یہ خودکشی کے مشابہ ہے۔ مگر تحقیق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام میں کسی عمل کی شرعی حیثیت نیت پر موقوف ہوتی ہے، نہ کہ صرف ظاہری شکل پر۔ چنانچہ: > اگر کسی کا مقصد دین کی سربلندی، اسلام اور مسلمانوں کا دفاع، اور دشمن کو نقصان پہنچانا ہو، تو چاہے وہ اپنے عمل سے جان گنوا دے یا کسی اور کے عمل سے، یہ عمل جہاد فی سبیل اللہ کہلائے گا اور وہ شخص اللہ کے ہاں شہید شمار ہوگا۔ (جاری ہے...) کتاب کا ماخذ: "جهاد و جایگاه آن در اسلام" زبان فارسی مؤلف: مولانا محمد یوسف سربازی حفظہ اللہ

👍 1
Link copied to clipboard!