
The Islamic Balochistan Post
February 21, 2025 at 03:59 AM
*`سرتور فقیر: ایک انقلابی مجاہد اور روحانی پیشوا`*
*1897ء میں جب ملاکنڈ کے معرکے کا آغاز ہوا، تو بونیر سے کئی لوگ اس جہاد کے ہیرو، سر تور فقیر کو دیکھنے کے لیے آئے۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے حیرت سے کہا، ’’یہ تو سعد اللہ خان بھائی ہیں!‘‘ جی ہاں، سعد اللہ خان، جو تاریخ میں سرتور فقیر کے نام سے جانے جاتے ہیں، ریگا، ضلع بونیر کے رہنے والے تھے۔*
*عوامی یادداشتوں میں سرتور فقیر*
*میرے والد بزرگوار بتایا کرتے تھے کہ اُس زمانے میں، جب وہ بچے تھے، تو مینگورہ شہر میں خوف و ہراس کا عالم تھا۔ ان کے بڑے بھائی نے انہیں گود میں اٹھایا تھا، اور شہر کی عورتیں، بچے اور معمر افراد گھروں کو تالے لگا کر زمرد کان (لیونے تنگے) کی جانب ہجرت کر رہے تھے۔ اس وقت وہاں گھنا جنگل تھا، جہاں عورتوں اور بچوں نے پناہ لی تھی، جبکہ جوان طبقہ میدانِ جہاد میں برسرِ پیکار تھا۔*
*ایک بزرگ سے جب سرتور فقیر کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے کہا:*
*"یہ کل کی ہی بات لگتی ہے، وہ دراز قد، لمبا تڑنگا، ننگے سر، ننگے پاؤں، ایک پائنچہ اوپر اور ایک نیچے، ہاتھ میں جہاد کا جھنڈا بلند کیے لوگوں کو پکار رہا تھا۔ نوجوان اور بچے جوش و خروش سے اس کے پیچھے جلوس کی صورت میں چل رہے تھے۔"*
*ملاکنڈ کی تاریخی لڑائی اور سرتور فقیر کی قیادت*
*تاریخ گواہ ہے کہ سرتور فقیر نے ملاکنڈ کے میدان میں انگریزوں کو بھاری نقصان پہنچایا۔ اس جہاد میں عبدالغنی نامی ایک مجاہد بھی شریک تھا، جو حصار طوطہ کان کے محاذ پر لڑ رہا تھا۔ جب اسے معلوم ہوا کہ اس کا پھوپھی زاد بھائی عبدالحمید پیرانو کے محاذ پر زخمی ہوگیا ہے، تو وہ فوراً گھوڑا دوڑا کر اسے واپس لے آیا۔*
*اس معرکے میں میاں دم خان (اصل نام: حبیب خان) اور ان کے والد خان بابا بھی سرتور فقیر کے لشکر میں شامل تھے۔ جنگ کے دوران خان بابا شہید ہوگئے۔ آج ان تینوں، یعنی سرتور فقیر، خان بابا اور میاں دم خان کی قبریں فتح پور کے جنوبی قبرستان میں ایک ساتھ موجود ہیں۔*
*میدانِ جنگ میں سرتور فقیر کا عزم*
*18 جولائی 1897ء کو سرتور فقیر نے جہاد کا اعلان کیا اور 26 جولائی کو لنڈاکے سے تھانہ کی طرف روانہ ہوا۔ اُس وقت اس کے ساتھ صرف چند کم عمر لڑکے تھے، مگر راستے میں تین سے چار سو یوسف زئی نوجوان بھی شامل ہوگئے۔ مجاہدین نے الہ ڈھنڈا، بٹ خیلہ اور پیر کورونہ سے ہوتے ہوئے قلعہ ملاکنڈ پر رات 9 بجے حملہ کیا۔ انگریز فوج بوکھلا گئی، اور بڑی تعداد میں سکھ سپاہی مارے گئے۔*
*یہ لڑائی صبح تک جاری رہی، اور اس میں 19 مجاہدین شہید ہوئے، جبکہ انگریز فوج کے:*
*1 کرنل، 1 میجر، 1 لیفٹیننٹ سمیت*
*521 سپاہی ہلاک اور*
*1030 زخمی ہوئے۔*
*اسی رات سرتور فقیر نے قلعہ چکدرہ پر بھی حملہ کیا، اور وہاں بھی زبردست مقابلہ ہوا۔ انگریز فوج نے 18 اگست 1897ء کو ایک بار پھر حملہ کیا، لیکن مجاہدین نے بھرپور مزاحمت کی۔ بالآخر 19 اگست کو انگریزوں کا لشکر مینگورہ پہنچ گیا۔ وہ مزید پیش قدمی نہ کر سکے، اور 24 اگست کو بریکوٹ میں قیام کے بعد واپس چلے گئے۔*
*ایک انگریز آفیسر نے لکھا:*
*"اگر ایک مسلمان صوبیدار ہمیں بروقت اطلاع نہ دیتا، تو سرتور فقیر ہمیں ہمارے بستروں میں ہی ذبح کر دیتا۔"*
*سرتور فقیر: ایک تاریخی شخصیت*
*یہی وہ سرتور فقیر تھے، جنہوں نے سوات، دیر، باجوڑ، بونیر، شانگلہ اور کوہستان میں آزادی کی روح پھونکی اور لوگوں کو جہاد کے لیے تیار کیا۔ انگریزوں کے خلاف جدوجہد میں ان کا کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔*
*سرتور فقیر 1336 ہجری میں وفات پا گئے، لیکن ان کی اولاد آج بھی ریگا (بونیر) اور فتح پور (سوات) میں رہائش پذیر ہے۔*
*نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی شاندار تاریخ سے آگاہ رہیں اور ان عظیم مجاہدین کی قربانیوں کو یاد رکھیں۔*