چراغ راہ ✨ Light of Path 📝
February 1, 2025 at 10:19 AM
*إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَابْتَائِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ*
بے شک اللہ عدل کا، احسان کا اور قرابت داروں کے ساتھ مالی اعانت کا حکم دیتے ہیں، بے حیائی، بری بات اور ظلم کرنے سے منع فرماتے ہیں، تم کو نصیحت فرماتے ہیں؛ تا کہ تم نصیحت حاصل کرو۔
حضرت عبد اللہ ابن مسعود ﷺ سے روایت ہے کہ *رشد و ہدایت اور خیر و بھلائی* کے پانے کے لئے یہ سب سے جامع ترین آیت ہے ( مفاتیح الغیب : ۹/ ۶۱۵) اس میں **اللہ تعالی نے تین باتوں کا حکم دیا ہے : عدل ، احسان اور قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک،*
عربی زبان میں عدل کے معنی ہر چیز کو اپنی جگہ پر رکھنے کے ہیں ، گویا عدل یہ ہے کہ جس کا جو حق ہے، وہ اس کو ادا کر دیا جائے، اس میں کمی نہ کی جائے ، اس کے مقابلہ میں عربی زبان میں ظلم کا لفظ آتا ہے، جس کا معنی کسی چیز کو اپنے صحیح موقع و محل پر نہ رکھنے کے ہیں؛ لہذا صرف اللہ کے سامنے سر جھکانا عدل ہے ؛ کیوں کہ *عبادت کا صحیح محل اللہ تعالی* کی ذات ہے ، اللّٰہ کے سوا کسی اور کو معبود ماننا ظلم ہے، خدا کے سوا کوئی اس بات کا محل(اہل) نہیں کہ اس کی عبادت کی جائے ، اسی طرح شوہر و بیوی ، والدین و اولاد، قرابت دار اور پڑوسی ، سماج کے ضرورت مند لوگ ، اگر ان کو ان کا حق دے دیا جائے تو یہ عدل ہوگا ، اگر انسان دوسرے کا حق لے لے یا اس کو اس کے حق سے کم دینا چاہے تو یہ ظلم ہے، *اس طرح غور کریں تو انسان کی پوری زندگی عدل اور ظلم کے درمیان ہے،* اگر وہ قرآن وحدیث کی ہدایت کے مطابق اللہ تعالیٰ کے اور اللہ کے دوسرے بندوں کے حقوق ادا کر رہا ہے تو وہ عدل پر قائم ہے اور اگر حق تلفی کا مرتکب ہورہا ہے تو وہ ظلم کے راستے پر ہے،
تیسرا طریقہ وہ ہے جسے اس آیت میں " *احسان* " کہا گیا ہے، عدل ان چیزوں پر عمل کرتا ہے جو انسان پر واجب ہے اور احسان اس سے آگے بڑھ کر مستحب اور مستحسن طریقہ کو اختیار کرتا ہے ، جیسا کہ حضرت علی اے نے فرمایا : " العدل الانصاف والاحسان التفضل" ( تغير قرطبی : ۱۰ / ۱۶۱) ؛ لہذا اپنا حصہ حق سے کم لینا اور دوسرے کو اس کے حصہ سے بڑھ کر دینا احسان ہے، کسی عبادت کو اس کی ظاہری کیفیت کے ساتھ ادا کر دینا ، جیسے نماز میں قیام، رکوع سجدہ وغیرہ عدل ہے کہ اس سے نماز درست ہو جاتی ہے اور نماز میں خشوع و خضوع کو قائم رکھنا ، اس بات کے استحضار کو برقرار رکھنا کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے یا کم سےکم اللہ تعالی اسے دیکھ رہے ہیں احسان ہے، پس احسان کا تعلق بھی زندگی کے تمام مسائل سے ہے؛ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ نے ہر چیز میں احسان کا حکم دیا ہے ؛ لہٰذا اگر کوئی قتل کا مستحق ہو اور اسے قتل کرو تو وہ بھی احسان" کے ساتھ یعنی بہتر طریقہ پر کہ اسے تکلیف پہنچا پہنچا کر قتل نہ کیا جائے ، اور اگر کسی جانور کو ذبح کرتا ہو تو وہ بھی و احسان کے ساتھ یعنی اس طور پر کہ کم سے کم تکلیف پہنچے،
"ان الله كتب الاحسان على كل شئي الخ " (مسلم، کتاب الصيد والد بائ . ہے ساتھ ہی۔ وہ باب الامر باحسان الذبح والقتل ۵۱۶۷)
انسان کو اختلاف کی نوبت زیادہ تر قرابت داروں کے ساتھ آتی ہے اور اکثر ان ہی کے ساتھ مفادات کا ٹکراؤ ہوتا ہے ؛ اس لئے خاص طور پر قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا۔ اس آیت میں تین باتوں سے منع فرمایا گیا ہے ، ان تینوں کا ما حصل اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے، لیکن نوعیت کا تھوڑا سا فرق ملحوظ ہے،
فحشاء کے معنی ایسے گناہوں کے ہیں ، جن میں بے حیائی کا پہلو بھی ہو ، جیسے : زنا ، خواہ آپسی رضامندی سے ہو یا جبر و اکراہ کے ساتھ ، ہم جنسی ، عریانیت فحش لٹریچر، بے حیائی پر مبنی فلمیں اور اشتہار، ڈرامے اور غزلیں ، مخرب اخلاق گانے وغیرہ ، سب اس میں شامل ہیں ۔ *بَغْىِ* سے مراد ظلم، دوسرے کے ساتھ زیادتی اور تکبر وغیرہ ہے، یعنی وہ گناہ جن کا تعلق دوسرے انسانوں کے حقوق سے ہے ۔ اور *مُنْکَر* میں وہ تمام باتیں شامل ہیں ، جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے ، ( تفسیر قرطبی: ۱۰ / ۱۶۷) *_یہ آیت گویا ایک مسلمان کی زندگی کے لئے بنیادی ہدایت نامہ ہے، جس میں تمام نیکیوں اور گناہوں کی طرف اشارہ فرمادیا گیا ہے_* ۔
آسان تفسیر قرآن
مولانا خالد سیف اللّٰہ رحمانی حفظہ اللّٰہ
┄┅════❁❀❁════┅┄
♥️ ⭕ㅤ 📂ㅤ 🔄
ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ ˢᵃᵛᵉ ˢʰᵃʳᵉ
┄┅════❁❀❁════┅┄