ÄمـــــjäD Äــــنjüم
ÄمـــــjäD Äــــنjüم
February 27, 2025 at 01:22 AM
اہل بیت علیہم السلام کے مکتب فکر میں کتاب، قرآن، ذکر اور فرقان کے درمیان فرق بسمہ تعالیٰ قرآن کریم کے یہ چار نام (الکتاب، القرآن، الفرقان، الذکر) صرف مترادف الفاظ نہیں ہیں، بلکہ یہ مختلف معانی اور قرآن کے متنوع کرداروں اور وظائف کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ان کے درمیان فرق کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے: 1. الکتاب (کتاب) شیعہ مکتب فکر کے مطابق، قرآن کو "کتاب" اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ ایک محفوظ اور مکتوب کتاب ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {بَلۡ هُوَ قُرۡءَانࣱ مَّجِیدࣱ * فِی لَوۡحࣲ مَّحۡفُوظِۭ} (البروج: 21-22) بعض مقامات پر "الکتاب" کا مطلب الٰہی احکام اور شریعت ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا: {وَكَتَبۡنَا لَهُۥ فِی ٱلۡأَلۡوَاحِ مِن كُلِّ شَیۡءࣲ مَّوۡعِظَةࣰ وَتَفۡصِیلࣰا لِّكُلِّ شَیۡءࣲ} (الأعراف: 145) بعض علماء کا کہنا ہے کہ "الکتاب" مکمل قرآن کے لیے بولا جاتا ہے، جبکہ "القرآن" بعض اجزاء کے لیے مخصوص ہو سکتا ہے۔ 2. القرآن (قرآن) قرآن وہ وحی ہے جو اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ پر نازل فرمائی اور یہ وہ معجزہ ہے جس کے ذریعے عربوں کو چیلنج کیا گیا: {وَإِن كُنتُمۡ فِی رَیۡبࣲ مِّمَّا نَزَّلۡنَا عَلَىٰ عَبۡدِنَا فَأۡتُوا۟ بِسُورَةࣲ مِّن مِّثۡلِهِۦ} (البقرة: 23) "قرآن" کا لفظ "قراءة" (پڑھنے) سے نکلا ہے، جو اس کے تلاوت کیے جانے اور عبادت کے طور پر پڑھے جانے پر دلالت کرتا ہے۔ اہل بیت علیہم السلام کی روایات کے مطابق، قرآن کے کئی باطنی معانی اور تفسیر و تأویل ہیں۔ اگرچہ قرآن ہر قسم کی تحریف سے محفوظ ہے، تاہم اس کی بعض حقیقی تفاسیر اور تأویلات کو چھپایا گیا ہے۔ 3. الفرقان (فرقان) فرقان کا مطلب ہے حق اور باطل میں فرق کرنے والا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {تَبَارَكَ ٱلَّذِی نَزَّلَ ٱلۡفُرۡقَانَ عَلَىٰ عَبۡدِهِ لِیَكُونَ لِلۡعَٰلَمِینَ نَذِیرࣰا} (الفرقان: 1) یہ صرف قرآن کا ایک نام نہیں، بلکہ اس کی ایک صفت ہے۔ کیونکہ قرآن ہدایت اور گمراہی کے درمیان فرق واضح کرتا ہے۔ بعض روایات میں "فرقان" کو "امامت" سے بھی منسلک کیا گیا ہے، کیونکہ امام معصوم ہی قرآن کی حقیقی تفسیر کرنے والا اور حق و باطل میں فرق کرنے والا ہوتا ہے۔ اسی لیے امام علی علیہ السلام نے فرمایا: "أنا الفرقان الأكبر" (میں سب سے بڑا فرقان ہوں)۔ 4. الذکر (ذکر) "ذکر" کا مطلب نصیحت اور یاددہانی ہے، اور قرآن کو بھی "الذکر" کہا گیا ہے: {إِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا ٱلذِّكۡرَ وَإِنَّا لَهُۥ لَحَٰفِظُونَ} (الحجر: 9) بعض روایات میں "الذکر" کو اہل بیت علیہم السلام کے ساتھ بھی جوڑا گیا ہے، کیونکہ وہی قرآن کے حقیقی محافظ اور مفسر ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {فَسۡ‍َٔلُوا۟ أَهۡلَ ٱلذِّكۡرِ إِن كُنتُمۡ لَا تَعۡلَمُونَ} (النحل: 43) روایات میں آیا ہے کہ "اہل الذکر" سے مراد معصوم ائمہ ہیں، کیونکہ وہی قرآن کا حقیقی علم رکھتے ہیں۔ نتیجہ شیعہ امامیہ کی نظر میں یہ چار نام قرآن کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہیں، اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ قرآن کی درست تفہیم کے لیے اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات کو اپنانا ضروری ہے۔ تحریر: سید فاضل الموسوی الجابری 26 شعبان 1446 ہجری - نجف اشرف

Comments