🌹ــ اسلامی گلدستہ ــ🌹
February 19, 2025 at 01:45 AM
*🇵🇰 آج کی تاریخ 🌤*
20 شعبان 1446ھ
19 فروری 2025ء
بدھ Wednesday
*اِنَّ اللّٰہَ لَا یَسۡتَحۡیٖۤ اَنۡ یَّضۡرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوۡضَۃً فَمَا فَوۡقَہَا ؕ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فَیَعۡلَمُوۡنَ اَنَّہُ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ۚ وَ اَمَّا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فَیَقُوۡلُوۡنَ مَا ذَاۤ اَرَادَ اللّٰہُ بِہٰذَا مَثَلًا ۘ یُضِلُّ بِہٖ کَثِیۡرًا ۙ وَّ یَہۡدِیۡ بِہٖ کَثِیۡرًا ؕ وَ مَا یُضِلُّ بِہٖۤ اِلَّا الۡفٰسِقِیۡنَ*
سورۃ البقرہ آیت 26
بیشک اللہ اس بات سے نہیں شرماتا کہ وہ (کسی بات کو واضح کرنے کے لیے) کوئی بھی مثال دے ، چاہے وہ مچھر (جیسی معمولی چیز) کی ہو ، یا کسی ایسی چیز کی جو مچھر سے بھی زیادہ (معمولی) ہو (22)، اب جو لوگ مومن ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ مثال ایک حق بات ہے جو ان کے پروردگار کی طرف سے آئی ہے۔ البتہ جو لوگ کافر ہیں وہ یہی کہتے ہیں کہ بھلا اس (حقیر) مثال سے اللہ کا کیا مطلب ہے؟ (اس طرح) اللہ اس مثال سے بہت سے لوگوں کو گمراہی میں مبتلا کرتا ہے ، اور بہت سوں کو ہدایت دیتا ہے۔ (مگر) وہ گمراہ انہی کو کرتا ہے جو نافرمان ہیں(23).
(22) بعض کافروں نے قرآنِ کریم پر یہ اعتراض کیا تھا کہ اس میں کچھ مثالیں مکھی، مچھر، مکڑی وغیرہ کی دی گئی ہیں، اگر یہ واقعی خدا کا کلام ہوتا تو اس میں ایسی حقیر چیزوں کا ذکر نہ ہوتا۔ ظاہر ہے کہ یہ اعتراض بڑا بے تکا اعتراض تھا، کیونکہ مثال ہمیشہ مضمون کی مناسبت سے دی جاتی ہے، اگر کسی حقیر وذلیل کی مثال دینی ہو تو ایسی ہی کسی چیز سے دی جائے گی جو حقیر وذلیل ہو۔ یہ کسی کلام کا عیب تو کیا ہوتا؟ اس کی فصاحت وبلاغت کی دلیل ہے، مگر یہ بات انہی کی سمجھ میں آتی ہے جو طالبِ حق ہوں اور حق پر ایمان لاچکے ہوں، لیکن جنہوں نے کفر کی قسم کھا رکھی ہے، انہیں توہر بات پر ہر حالت میں اعتراض کرنا ہے، اس لئے وہ ایسی بے تکی باتیں کہتے ہیں۔
(23) قرآنِ کریم کی یہی آیتیں جو طالبِ حق کو ہدایت بخشتی ہیں، ایسے لوگوں کے لئے مزید گمراہی کاسبب بن جاتی ہیں جنہوں نے ضد اور ہٹ دھرمی پر کمر باندھ کر یہ طے کرلیا ہے کہ حق بات ماننی نہیں ہے، کیونکہ وہ ہر نئی آیت کا انکار کرتے ہیں، اور ہر آیت کا انکار ایک مستقل گمراہی ہے۔
❤️
3