Khalid Saifullah Rahmani
Khalid Saifullah Rahmani
February 7, 2025 at 03:59 AM
🔰ہمارے جلسے قرآن وحدیث کی روشنی میں! (قسط-2) 🖋مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ‏‎#شمع_فروزاں🕯 https://t.me/hmksrahmani 4۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعلیٰ درجہ کے خطیب تھے، آپ کے خطابات مختصر اور جامع ہوتے تھے، حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لمبا خطبہ نہیں دیتے تھے: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لا یطیل الموعظۃ یوم الجمعۃ (سنن ابی داود، عن جابر بن سمرہؓ، حدیث نمبر: 1107 ) اور آپ کا بیان بھی زیادہ تر قرآنی آیات اور نصیحتوں پر مشتمل ہوتا تھا: کان یقرا فی خطبتہ آیات من القرآن ویذکر الناس (مسند احمد ، عن جابر بن سمرہؓ، حدیث نمبر: 20949 ) حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خطاب مختصر ہوتا تھا اور اسی میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ’’ تشدق اور تفہق‘‘ کو پسند نہیں فرماتے تھے (الاستذکار لابن عبدالبر المالکی:364/2 ) تشدق سے مراد ہے: عمدہ گفتگو کرنے کے لئے جبڑے ہلا کر بات کرنا اور بلند آواز میں تقریر کرنا، اور ’’ تفہق‘‘ سے مراد ہے: تکلف کے ساتھ بات کرنا اور بڑھا چڑھا کر باتیں پیش کرنا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے لوگوں کو مبغوض ترین شخص قرار دیا ہے: ان ابغضکم الی الثرثارون المتفیھقون (سنن ترمذی، عن جابرؓ، حدیث نمبر: 2018 ) اس لئے بہت لمبا خطاب اور کرخت آواز میں اپنی باتیں پیش کرنا، گلا پھاڑ پھاڑ کر بولنا حدیث کی رو سے ایک ناپسندیدہ طریقہ ہے۔ 5 ۔ کچھ مقررین اتنا لمبا بیان کرتے ہیں، جو تھکا دینے والا ہوتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو صحابہ کی خواہش کے باوجود روز روز بیان کرنے سے بھی گریز فرماتے تھے؛ تاکہ لوگوں میں اکتاہٹ نہ پیدا ہو جائے: کان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یتخولنا بالموعظۃ فی الایام کراھۃ الساٰمۃ علینا (صحیح بخاری، عن عبداللہ بن مسعودؓ، حدیث نمبر: 68 ) چنانچہ ایک بڑے محدث وفقیہ علامہ ابن عبدالبر مالکیؒ نے لکھا ہے کہ اتنا لمبا وعظ کہنا مکروہ ہے کہ ایک بات کہتے یا سنتے ہوئے آدمی دوسری بات کو بھول جائے: اھل العلم یکرھون من المواعظ ما ینسی بعضہ بعضاََ لطوالہ (الاستذکار: 346/2 ) یہ بات بے حد قابل افسوس ہے کہ بعض علاقوں میں رات بھر کا جلسہ رکھنے کے لئے بعض مقررین معروف ہیں، جلسہ کی ضروری کارروائی کے بعد مائک ان کے حوالہ کر دیا جاتا ہے، عام طور پر وہ ’’ رات جگے مقرر‘‘ کے طور پر جانے جاتے ہیں، نصف شب سے فجر کے قریب قریب تک وہ اپنا خطاب جاری رکھتے ہیں، اگر سامعین درمیان میں سو جائیں تو اس سے بھی بے نیاز رہتے ہیں، اور اس کا کوئی اثر نہیں لیتے، یہ بالکل بے فائدہ ؛ بلکہ نقصان دہ عمل ہے، علماء نے لکھا ہے کہ وعظ ایسا مختصر ہونا چاہئے کہ سامعین رُک کر اسے اپنے ذہن میں محفوظ کر لیں اور اس سے تاثر لیں، اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب تقریر مختصر ہو:......... ویستحبون من ذالک ما وقف علیہ السامع الموعوظ فاعتبرہ بعد حفظہ لہ وذالک لا یکون الا مع القلۃ (حوالۂ سابق) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو سب سے طویل خطبہ ارشاد فرمایا، وہ حجۃ الوداع کا خطبہ ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کے ساتھ مسلمانوں کی جان ومال کی حرمت، قرآن وحدیث کو تھامے رکھنے کی دعوت، رنگ ونسل کی تفریق سے اوپر اٹھ کر لوگوں کے درمیان مساوات وبرابری کی تعلیم، زمانۂ جاہلیت میں جو سود اور انتقام لینے کا رواج تھا، اس کا رَد، خواتین کے ساتھ بہتر سلوک کی نصیحت اور امانتوں کو ادا کرنے کی تاکید کے مضامین تھے، یہ خطبہ اپنی جامعیت کے باوجود نہایت مختصر ہے۔ طویل بیانات کا نتیجہ یہ ہے کہ سامعین کی فجر کی نماز بھی قضاء ہو جاتی ہے، بعض مقررین بھی نماز ادا نہیں کر پاتے ہیں، یہ صورت حال بعض جلسوں میں میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے، شب بیداری تو اصل میںعبادت ، تلاوت اور ذکر کے لئے تھی، اب اس کو لوگوں نے تقریر کرنے اور سننے کے لئے کر دی ہے؛ حالاں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عشاء کے بعد گفتگو کرنے سے منع فرمایا ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عشاء سے پہلے سونے کو اور عشاء کے بعد بات کرنے کو منع فرمایا ہے: کان یکرہ النوم قبل العشاء والحدیث بعدھا (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 568 ) البتہ کوئی ضروری گفتگو ااور مشورہ ہو تو وہ اس سے مستثنیٰ ہے؛ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعض اوقات حضرت ابو بکر وعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے عشاء کے بعد مشورہ فرمایا کرتے تھے، بعض جگہ لوگ کہتے ہیں کہ فجر تک جلسہ کو اس لئے طول دیتے ہیں کہ بعض سامعین دور سے آتے ہیں، اگر جلسہ پہلے ختم ہو جائے تو وہ کہاں جائیں گے؟ یہ بات ’’ عذرِ گناہ بدتر از گناہ‘‘ کا مصداق ہے، ایسا ہو سکتا ہے کہ جس آبادی میں جلسہ ہو، وہاں کے مدرسے اور مسجدوں کو رات کے قیام کے لئے کھول دیا جائے، لوگ کچھ دیر آرام کر کے پھر اپنی منزل کو چلے جائیں، یہ کافی ہے، اور اُن کو سمجھایا جائے کہ مسجد میں قیام کرتے ہوئے نفل اعتکاف کی نیت کر لیں تو ان کا قیام بھی عبادت بن جائے، نہ یہ کہ رات بھر اونگھ اونگھ کر جلسہ سنیں اور فجر کی نماز چھوڑ دیں۔ 6۔ بعض مقررین کا نمایاں وصف یہ ہے کہ وہ مدرسوں کے لئے چندہ کرتے ہیں، ان کی پوری تقریر چندہ کی ترغیب پر ہوتی ہے اور وہ لوگوں کو پیسوں کے خرچ کرنے پر آمادہ کرتے ہیں، جنت کی قیمت لاکھ دو لاکھ سے شروع ہوتی ہے اور پانچ ہزار بلکہ بعض دفعہ اس سے بھی کم پر ختم ہوتی ہے، انفاق کی فضیلت بیان کرتے ہوئے اس طرح چندہ کی فضیلت بیان کرتے ہیں کہ گویا پانچ سو روپیہ دیں اور جنت خرید لیں، یہ بہتر طریقہ نہیں ہے، اس میں حد سے گزرا ہوا الحاح اور مبالغہ آمیز خوشامد ہے، اولاََ تو ہونا یہ چاہئے کہ نصیحت ووعظ کی مجلس کو چندہ سے الگ رکھا جائے، اور چندہ کے لئے الگ اصحاب ثروت کی نشست بلائی جائے، بہت سے ادارے ایسا کرتے ہیں، اور اس کا فائدہ بھی ہوتا ہے، وعظ ونصیحت کے بعد چندہ کی اپیل کرنے کی وجہ سے لوگوں میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ دین کی بات مقصود نہیں تھی، مقصد صرف چندہ کرنا تھا، اگر اصلاحی جلسہ کے ساتھ چندہ کی اپیل کرنی ہو تو مناسب موقع پر مدرسہ کی رپورٹ پیش کی جائے، مدرسہ کی ضرورت موثر طور پر لوگوں کے سامنے رکھی جائے اور اس ضرورت کے مہیا نہ ہونے کی وجہ سے جو دشواریاں پیش آتی ہیں، ان کو بیان کیا جائے ، پھر انفاق کی فضیلت پر کوئی آیت یا حدیث بیان کر کے اپیل کی جائے؛ مگر ایسی التجاء نہ ہو جو خوشامد کی حد کو پہنچ جائے اور اجروثواب کا ایسا خود ساختہ حساب نہیں کیا جائے، جس کا حدیث میں ذکر نہیں۔ 7۔ جلسہ کے اندر آنے والے حضرات کے اندر بھی دینی باتوں کے سننے کا جذبہ ہونا چاہئے، اور ان کے طرز عمل سے ظاہر ہونا چاہئے جیسا کہ تبلیغی جماعتوں وغیرہ کے اجتماعات میں بڑی حد تک یہ بات نظر آتی ہے؛ لیکن رواجی جلسوں میں میلے ٹھیلے کی کیفیت ہو جاتی ہے، مٹھائی کی، چائے کی، کھانے پینے کی اشیاء کی، یہاں تک کہ کپڑوں کی اور خواتین کے لئے زینت وسنگار کی چیزوں کی دوکانیں لگ جاتی ہیں، بعض اوقات مردوں کے ساتھ عورتوں کی بھیڑ بھی ہو جاتی ہے، دین حاصل کرنے کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے اور اس کی جگہ دنیا کو خریدنے کا جذبہ ہر چہار جانب نظر آتا ہے، یہ وہ طریقہ ہے، جو غیر مسلم بھائیوں کے مذہبی تہواروں میں ہوتا ہے، مسلمانوں کو ہر گز ہرگز یہ بات زیب نہیں دیتی۔ 8۔ دین کی دعوت اور وعظ ونصیحت پیشہ نہیں ہے، عبادت ہے؛ مگر آج کل پیشہ ور واعظین نے اس کو پیشہ بنا لیا ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کو بولنے کی صلاحیت دی ہے تو وہ اس صلاحیت کا استعمال وعظ ونصیحت کے پردہ میں کسب زر کے لئے کرتے ہیں، بعض حضرات نے اپنی تقریر کی قیمت مقرر کر رکھی ہے، مثلاََ: پچیس ہزار، پچاس ہزار، حد تو یہ ہے کہ اگر ایک سفر میں کسی اور جگہ خطاب کرنے کے لئے عرض کیا جائے تو اس کی بھی پوری قیمت وصول کرتے ہیں، بعض حضرات کے بارے میں سنا گیا ہے کہ وہ دعوت دینے والوں سے کہتے ہیں کہ پہلے میرے اکاونٹ میں اتنے پیسے بھیج دیں، اس کے بعد ہی میں سفر کروں گا، یہ بہت ہی ہلکی بات ہے۔ حضرت تھانویؒ نے لکھا ہے: اگر وعظ کی نوکری کر لی مثل امامت کے، تو اُجرت لینا جائز ہے اور اگر نوکری نہیں ہے، عین وقت پر وعظ پر اجرت کی شرط کر لے تو جائز نہیں ہے، جیسے عین وقت پر امامت پر اُجرت مانگنے لگے (امدادالفتاویٰ، کتاب الاجارہ: 289/2 ) حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحبؒ اسی سلسلہ میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: وعظ کی اجرت پہلے سے مقرر نہ کی جائے اور واعظ کی نیت میں بھی یہ بات نہ ہو کہ مجھے ضرور کچھ رقم ملے گی، یا ملنی چاہئے، وہ محض حسبۃ للہ وعظ کہہ دے اور کوئی شخص اس کو تبرعاََ کوئی رقم دے دے تو یہ رقم دینا بھی جائز ہے ،اور واعظ کو لے لینا بھی جائز ہے؛ لیکن اگر اُجرت پہلے سے مقرر کر دی جائے یا واعظ اس کو ایک طریقہ بنا لے کہ وہ وعظ پر اُجرت لیا کرتا ہے تو اس کی دو صورتیں ہیں، اول یہ کہ کوئی قومی ادارہ مثلاََ انجمن یا دینی مدرسہ یا تبلیغی جماعت، کسی عالم کو تبلیغ دین کی غرض سے وعظ کہنے کے لئے ملازم رکھے اور اس کی اُجرت ماہانہ تنخواہ کی صورت میں مقرر کر دے تو یہ بھی جائز ہے اور متاخرین فقہاء حنفیہ نے اس کی اجازت دی ہے: وزاد فی مختصر الوقایۃ ومتن الاصلاح تعلیم الفقہ وزاد فی متن المجتمع الامامۃ ومثلہ فی متن الملتقی ودرر البحار، وزاد بعضھم الاذان والاقامۃ والوعظ (رد المحتار: 55/6 ) دوم : یہ کہ ہر وعظ پر اُجرت ٹھہرا کر وعظ کرے، زید کے مکان پر وعظ کرنے کے لئے پانچ روپئے مانگے، عمرو سے پانچ یا کم وبیش رقم طلب کرے تو یہ صورت اگرچہ لفظ ’’ الوعظ‘‘ کے عموم میں داخل ہے؛ مگر اس سے واعظ اور وعظ کی بے توقیری ہوتی ہے؛ اس لئے یہ صورت مکروہ ہے‘‘ (کفایت المفتی، کتاب الاجارہ: 320-319/7 ) مقرر حضرات کے لئے درست طریقہ وہی ہے جو ماضی قریب کے علماء کا رہا ہے کہ انھوں نے ضرورت اور صلاحیت کے لحاظ سے تدریس، امامت، تصنیف وتالیف کو اپنا مستقل مشغلہ رکھا اور اس کام میں ملنے والے وظیفہ خدمت کو اپنی ضروریات کو پورا کرنے کا ذریعہ بنایا، وہ وعظ و تقریر کا کام پیشہ کے طورپر نہیں کرتے تھے؛ البتہ آمدورفت کا کرایہ دینا تو چوں کہ میزبان کی ذمہ داری ہے اور اگر کوئی میزبان کسی مطالبہ کے بغیر بطور ہدیہ کے کچھ رقم دے دے جیسا کہ علماء کے فتاویٰ میں مذکور ہے، تو اس کی گنجائش ہے؛ لیکن ہدیہ کوئی ایسی چیز نہیں کہ جس کا مطالبہ کیا جائے، جس کی مقدار متعین کی جاے،جس کو لازم کیا جائے اور جس کے لین دین کا معاہدہ ہو، خاص کر اہل مدارس کو نعت خوانوں کو پیسہ دے کر بلانا بالکل درست نہیں؛ کیوں کہ وعظ ونصیحت کی مجلس کے لئے وعظ وتقریر تو ضروری ہے؛ مگر نعتیں پڑھوانا نہ واجب ہے اور نہ مستحب، تبرکاََ مدرسہ کے ہی کسی طالب علم سے نعت پڑھوالی جائے یہ بالکل کافی ہے، اس میں پیسے خرچ کرنے میں اندیشہ ہے کہ اس کو عند اللہ مدرسہ کی املاک میں خیانت شمار کیا جائے؛ کیوں کہ مدارس میں جو تعاون کیا جاتا ہے، وہ اساتذہ اور طلبہ کی ضروریات کے لئے ہے اور زیادہ تر یہ تعاون زکوٰۃ کی مد سے ہوتا ہے، جس کے خرچ کا دائرہ محدود ہے۔ (جاری)
❤️ 👍 🇵🇰 11

Comments