
Khalid Saifullah Rahmani
2.8K subscribers
About Khalid Saifullah Rahmani
*President @All India Muslim Personal Law Board | General Secretary: Islamic Fiqh Academy India | Director: Al Mahad Ul Aali Al Islami Hyd* *♦Stay connected for all his writings, latest books, academic articles, Fatawas, Speeches, Lectures and Press Releases.* *🔰Follow Maulana Rahmani on Social Media:* *🔹Youtube* https://youtube.com/khalidsaifullahrahmani *🔹Facebook:* https://www.facebook.com/hmksrahmani *🔹Twitter:* https://twitter.com/hmksrahmani *🔹WhatsApp channel:* https://whatsapp.com/channel/0029Va9wjem47Xe94AA3CF37 *🔹Telegram:* https://t.me/hmksrahmani *🔹Instagram:* https://www.instagram.com/hmksrahmani/ *🔹Website:* http://khalidrahmani.in/ *🔹Android App:* https://play.google.com/store/apps/details?id=com.bizmobia.khalidrahmani
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

🔰اردو ذریعۂ تعلیم 🖋مولانا خالد سیف اللہ رحمانی #شمع_فروزاں🕯 https://whatsapp.com/channel/0029Va9wjem47Xe94AA3CF37 ملک کو آزاد ہوئے ۷۰؍ سال کا عرصہ گذر چکا ہے ، قوموں کی زندگی میں ستر سال کی مدت کچھ کم مدت نہیں ہوتی ، اس عرصه نے جہاں ہمیں محرومی کی داستانیں دی ہیں ، وہیں ہم نے بہت کچھ پایا بھی ہے ، ہم نے جو کچھ پایا ہے ان میں سب سے اہم چیز تعلیم کی ضرورت اور اس کی اہمیت کا احساس ہے ، کسی صالح انقلاب کے لئے سب سے پہلی ضرورت یہی ہوتی ہے کہ انسان اپنی کوتاہی کا احساس کرے اور اس کے اندر اس خیر کی طلب ؛ بلکہ تڑپ پیدا ہو جائے جو زندگی کو سنوارنے اور اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے کا ذریعہ ہو ، اس لئے بچوں کو تعلیم دلانے کا یہ عمومی رجحان بھی ایک بہت بڑی کامیابی ہے ! ایک زمانہ تھا کہ علم کو مخصوص خاندان کی جاگیر سمجھا جاتا تھا، کچھ زمیندار اور وڈیرے اپنے بچوں کو تعلیم دلاتے تھے ، لوگوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھا دی گئی تھی کہ صرف یہی لوگ پڑھنے پڑھانے کے لئے پیدا ہوئے ہیں ، عام لوگ اپنے بچوں کے بارے میں تعلیم دلانے کا تصور بھی نہیں کرتے تھے اور نچلے درجے کے کاموں پر قانع تھے ، متوسط درجہ کے لوگ اگر اپنے بچوں کو پڑھاتے بھی تو چھوٹے اور معمولی اسکولوں میں ہی پڑھا سکتے تھے ، معیاری درس گاہیں نوابان ، رؤساء اور جاگیر داروں کے لئے مخصوص تھیں ، عام لوگوں کے بچے ان درس گاہوں میں تعلیم نہیں پا سکتے تھے اور ظاہر ہے کہ یہ اس ہندوانہ فکر و تہذیب کا اثر تھا ، ذات پات کی تفریق جن کے عقیدہ کا جزو ہے اور جن کے لئے اس فکر سے آزاد ہو کر سوچنا ممکن نہیں ہے ۔ یہ اللہ کا شکر ہے کہ جمہوری نظام نے ان بند دروازوں کو کھولا ، تعلیم کے مواقع سے فائدہ اُٹھانے کا سبھوں کو موقع میسر آیا اور یہ سوچ عام ہوئی کہ تکلیف اُٹھاکر اور پیٹ کاٹ کر بچوں کو تعلیم دلانی چاہئے ؛ لیکن ملک کے موجودہ نظام تعلیم کے تانے بانے ان بدیشی آقاؤں کے بنے ہوئے ہیں ، جن کا اصل مقصد تعلیم کو وسیلہ بنا کر رعایا کو اپنی فکر اور اپنی تہذیب و ثقافت کا اسیر بنانا تھا ، وہ چاہتے تھے کہ ہندوستان اپنے تمدن میں مغرب کا عکس ہو جائے ، ان کا منصوبہ تھا کہ ان کے دماغ مغربی فکر کے سانچے میں ڈھل جائیں ، ان کی کوشش تھی کہ وہ اپنی زبان بھول جائیں اور ان کا اصل ہدف یہ تھا کہ رعایا اپنے مذہب و عقیدہ کے بارے میں بھی حکمراں کی متبع ہو جائے اور اگر اتنا نہ ہو تو کم سے کم ان کے دلوں میں اپنے مذہب کی بابت شکوک و شبہات کے کانٹے چبھ جائیں ۔ انگریز رہنما اس پالیسی پر کتنی منصوبہ بندی کے ساتھ عمل پیرا تھے ؟ اس کا اندازہ اس خط کے اقتباس سے کیا جاسکتا ہے جو میکاؤلے نے ۱۸۳۶ء میں اپنے والد کو لکھا تھا کہ : ہمارے انگریز اسکول دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں اور اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ طلبہ کے لئے گنجائش نکلنی مشکل ہے … اس تعلیم کا بہت زیادہ اثر ہندوؤں پر ہورہا ہے ، کوئی ہندو انگریزی پڑھنے کے بعد اپنے مذہب پر فی الواقع ایمان نہیں رکھ سکتا ، مجھے پورا اعتماد ہے کہ اگر ہماری تعلیمی پالیسی کامیاب ہوئی تو بنگال میں کوئی بت پرست باقی نہ رہے گا ، یہ سب فطری طور پر ہوگا ، بغیر کسی مذہبی وعظ اور مداخلت کے ۔(B.C.Rai History of Indian Education p:135 ، بحوالہ : طرز تعلیم : ۷) اسی لئے اُردو زبان کے دو مشہور شعراء --- جو مشرق اور مغرب دونوں کے بادہ خواروں میں تھے اور انگریزی زبان اور مغربی علوم پر ماہرانہ نظر رکھتے تھے ، نے --- مسلمانوں کو للکارا اور اس جدید نظام تعلیم کے فتنہ سے ان کو باخبر کرنے کی کوشش کی ، میری مراد اکبر اِلٰہ آبادی اورڈاکٹر اقبالؒ سے ہے ، یہ کوئی مولوی اور دینی مدارس کے فیض یافتگان میں نہ تھے ؛ بلکہ ان کی پوری تعلیم اسی درس گاہ میں ہوئی جو اس زمانہ میں مغرب کی نمائندہ تھی؛ بلکہ اقبالؔ نے تو یورپ کے قلب میں پہنچ کر علم حاصل کیا اور اس نظام تعلیم کو سر کی آنکھوں سے دیکھا اور کہہ اُٹھے : اور یہ اہل کلیسا کا نظام تعلیم ایک سازش ہے فقط دین ومروت کے خلاف ایک موقعہ پر اقبال نے کیا تیکھی تنقید کی ہے : لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ روشِ مغربی ہے مدِ نظر وضعِ مشرق کو جانتے ہیں گناہ یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین ؟ پردہ اُٹھنے کی منتظر ہے نگاہ غالباًاقبالؔ زندہ ہوتے تو وہ اعتراف کرتے کہ پردہ اُٹھ چکا ہے اور جس الحاد کا انتظار تھا وہ اب نگاہوں کے سامنے پوری طرح بے لباس ہے ۔ جن لوگوں نے اس نظام تعلیم پر تنقید کی ہے ، ایسا نہیں ہے کہ وہ تحقیق و سائنس کے خلاف ہوں ، سائنس تو کائنات میں چھپی ہوئی حقیقتوں سے پردہ اُٹھا تی ہے ، اگر اس سے لوگوں کو نفع پہنچے تو کوئی سمجھدار شخص کیسے اس کی مخالفت کر سکتا ہے ؟ اصل یہ ہے کہ ہر قوم کا نظام تعلیم اس کے افکار اور سماجی ماحول سے ہم آہنگ ہونا چاہئے ، وہ علم کے ساتھ ساتھ اسے اپنے عقیدہ پر پختگی دے ، اپنی تہذیب و ثقافت سے اس کی وابستگی کو بر قرار رکھے ، وہ اپنے بارے میں احساس کمتری کا شکار نہ ہو ، ہندوستان کو جو نظام تعلیم اپنے مغربی آقاؤں سے ملا ، وہ اس خصوصیت سے محروم ہے ، وہ ہندوستانیوں کو اپنی زبان ، اپنی تہذیب ، اپنے ادب اور اپنی سماجی قدروں کے بارے میں احساس کمتری میں مبتلا کرتا ہے ، اور اس کی اہم وجوہ میں ایک یہ ہے کہ ہم نے انگریزی زبان کو ایک زبان کی حیثیت سے پڑھنے کے بجائے اسی کو ’’ ذریعہ تعلیم ‘‘ بنالیا ، کہ ہمارے بچے اپنی الف ، ب سے ہی انگریزی میں بولنا ، انگریزی میں لکھنا اور انگریزی میں سوچنا شروع کردیں ۔ انگریزی کی عظمت کچھ اس طرح ہمارے دل و دماغ پر مسلط ہوئی کہ ہم نے اس کو علم کی معراج سمجھ لیا ، اور اس چیز نے ہمارے بچوں کو ذہنی اعتبار سے بھی اور صحت جسمانی کے اعتبار سے بہت نقصان پہنچا یا ہے ، غور کیجئے کہ ابتداء ہی سے انگریزی ذریعہ تعلیم قرار پائی، ہندوستان میں قومی زبان کی حیثیت سے اسے ہندی بھی پڑھنی ہے ، اور چوںکہ یہ ایک ’’مختلف لسانی ‘‘ خطہ ہے اس لئے ہر علاقہ کی اپنی اپنی زبانیں اس کے سواء ہیں ، طالب علم اسے بھی پڑھے گا ، اگر ہندی ریاستوں میں کوئی اور مقامی زبان نہیں تو اب قوم پر سنسکرت مسلط کی جارہی ہے ، ان کے علاوہ مسلمانوں کو اپنے سماجی رابطہ اور مذہبی ورثہ سے وابستگی کے لئے اُردو بھی پڑھنی ہے ، اس طرح ہمارے مسلمان بچوں کو ابتدائی عمر سے ہی چار چار زبانوں کا بوجھ اُٹھانا پڑتا ہے ۔ طبّی اعتبار سے نو عمر بچوں کے لئے یہ ایک بار گراں ہے، بالخصوص ان حالات میں کہ فی زمانہ چار سال کی عمر سے ہی بچوں کی تعلیم شروع کرادی جاتی ہے اور ابھی زبان کا تلفظ بھی درست نہیں ہوتا کہ کتابوں کا ضخیم بستہ پشت پر رکھ دیا جاتا ہے ، دوسرے کسی بھی انسان کے اندر اپنی زبان کو بے تکلف سمجھنے اور ادا کرنے کی جو صلاحیت ہوتی ہے ، اجنبی زبان کو اس طریقہ پر پڑھنا پڑھانا دشوار ہوتا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ اصل مضمون کو سمجھنے اور اس میں فکری ترقی حاصل کرنے کے بجائے اس کا ذہن چند انگریزی فقروں کے گرد گھومتا رہتا ہے، اصل فن پر اس کی توجہ کم ہوتی ہے، اسی لئے دنیا کی جتنی ترقی یافتہ قومیں ہیں، انھوں نے علوم و فنون کو اپنی مادری زبان کا جامہ پہنایا ہے ، اور وہ اپنے بچوں کو اسی زبان میں تعلیم دیتے ہیں ، فرانسیسی اور جرمن جغرافیائی اعتبار سے برطانیہ سے کتنے قریب ہیں ؟ لیکن ان کے یہاںذریعہ تعلیم فرانسیسی اورجرمنی ہے ، چین اور جاپان دنیا کے ترقی یافتہ اور معاشی اور صنعتی اعتبار سے طاقتور ترین ممالک میں ہیں ؛ لیکن ان کے یہاں ذریعہ تعلیم چینی اور جاپانی ہے ، روس میں جب کمیونسٹ انقلاب آیا اور اس نے ترقی کی نئی کروٹ لی ، تو سب سے پہلے مغربی علوم کو روسی زبان میں منتقل کیا ؛ لیکن ہمارے ذہنوں پر انگریزی کا ایسا سحر چھایا ہوا ہے کہ ہم اپنی قومی زبانوں میں عصری تحقیقات کو منتقل کرنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے اوربجائے اس کے کہ ہم دوسرے علوم کو اپنی زبان کا جامہ پہناتے ہم نے خود اپنی زبان سے منھ پھیر لیا ۔ مسلمان جب فاتحانہ یورپ تک پہنچے اور یورپ میں ان کو حکمت و دانش کا ورثہ ملا تو نہایت بے تعصبی کے ساتھ اسے گلے لگایا اور سر آنکھوں پر رکھا ؛ لیکن جلد سے جلد اس علمی سرمایہ کو عربی زبان میں منتقل کر لیا ، عباسی دور میں اس سلسلہ میں جو کارہائے نمایاں انجام دئے گئے وہ کسی صاحب ِعلم کے لئے محتاج اظہار نہیں ، ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے مادری زبان سے محرومی کا ایک اور بڑا نقصان یہ ہے کہ ہمارے دینی علوم و معارف کا بہت بڑا حصہ اُردو زبان میں ہے ، انگریزی یا دوسری مقامی زبانوں میں اسلام پر جو کچھ کام ہوا ہے ، وہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں ، ان حالات میں اگر ہماری نسلیں اردو زبان سے ناواقف رہیں تو یہ براہِ راست دین وایمان سے ان کا رشتہ کاٹ دینے کے مترادف ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اُردو ذریعہ تعلیم کے معیاری مدارس قائم کریں ، بچوں کو مادری زبان میں کم سے کم میٹرک تک تعلیم دیں اور انگریزی کو بھی ایک زبان کی حیثیت سے پڑھائیں ؛ تاکہ وہ اصل فن میں آگے بڑھ سکیں اور جو صلاحیت محض سمجھنے اور سمجھانے میں صرف ہوتی ہے ، وہی صلاحیت اصل مضمون میں استعمال ہو ، یہ انشاء اللہ ان کی تعلیمی ترقی کا ضامن ہوگا ، ہر سال اگر رینک لانے والے طلبہ و طالبات کا جائزہ لیا جائے تو یہ وہ ہیں ، جنھوں نے مادری زبان میں تعلیم حاصل کی ہے ، پڑوسی ریاست مہاراشٹر میں بحمد اللہ کئی سال سے مسلم طلبہ اور طالبات اُردو سے تعلیم پا کر امتیازی رینک لاتے ہیں ۔ انگلش میڈیم کا جو طوفان اس وقت آیا ہوا ہے اور غالباً مسلمان اس کے زیادہ شکار ہیں ، وہ جہاں معاشی اعتبار سے متوسط خاندان کے لوگوں کی کمر توڑ رہا ہے ، وہیں یہ بات بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ بہت سے بچوں کے لئے یہ تعلیم ایسا بوجھ ثابت ہوتی ہے کہ وہ چند قدم چل کر تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں اور اپنا تعلیمی سفر مکمل نہیں کرپاتے ، اس کے علاوہ اُردو زبان سے ناواقفیت انھیں سماج سے بھی کاٹ دیتی ہے ، وہ اپنے خاندان کے بزرگوں سے کسی اہم موضوع پر مؤثر گفتگو نہیں کر سکتے ، اگر وہ باہر سے خط لکھیں تو ان کا خط پڑھا نہیں جاتا اور دین و مذہب سے جو ان کا رشتہ کمزور ہوتا ہے وہ نقصان تو سب سے سوا ہے ، اس لئے اُردو ذریعۂ تعلیم کی درس گاہیں قائم کرنا ، اپنے تعاونِ عمل سے انھیں مستحکم کرنا اور ان کو تقویت پہنچانا وقت کی نہایت اہم ضرورت ہے اور اسی میں ہمارے مذہب اور تہذیب و ثقافت کی حفاظت ہے ۔ . . .

https://www.instagram.com/reel/DKY_RaTvB6v/?igsh=Y2NqdzQ0amo0ODVr Addressing the Protest against #waqfamendmentact At: #DharnaChowk – Hyderabad. Maulana Khalid Saifullah Rahmani #WaqfAmendmentAct ke khilaaf All India Muslim Personal Law Board (AIMPLB) ka Dharna Chowk par protest. All India Muslim Personal Law Board

🔰قبولیت کے چند دن! 🖋مولانا خالد سیف اللہ رحمانی #شمع_فروزاں🕯 https://whatsapp.com/channel/0029Va9wjem47Xe94AA3CF37 یہ دور تجارتی اور صنعتی ترقی کا ہے، بڑی بڑی کمپنیاں مارکیٹ میں اپنا مال پیش کرتی ہیں، لوگ اس کی خصوصیات کو دیکھ کر خریداری کا فیصلہ کرتے ہیں، سامان کی قیمت متعین ہوتی ہے اور آج کل تو ہر سامان پر اس کی قیمت بھی طبع کر دی جاتی ہے؛ لیکن اس مطبوعہ قیمت میں بھی ڈسکاؤنٹ کی سہولت رکھی جاتی ہے، جو تاجرین اپنے گاہکوں کو دیتے ہیں، کبھی کبھی کم وقت میں زیادہ مال کی فروختگی پر اور ایک بڑی تعداد استفادہ کرے، اس کے لئے آفر رکھے جاتے ہیں، جیسے ہمارے ملک میں قومی دنوں۱۵؍ اگست، ۲۶؍ جنوری اور ملک میں بسنے والی مختلف قوموں کے تہواروں کی مناسبت سے آفر رکھے جاتے ہیں، رمضان المبارک اور عید الفطر کے موقع سے بھی ایسی رعایت کا رواج چلا آرہا ہے، اس کامقصد لوگوں کو ترغیب دینااور ضرورت مندوں کو فائدہ پہنچانا ہے۔ یہ تو مادی تجارت ہے؛ لیکن دین اور شریعت جو روحانی تجارت کی رہنمائی کرتا ہے، اس میں بھی آفر کا ایک نظام ہے، اس آفر کا حاصل یہ ہے کہ کم سے کم وقت میں اہل ایمان زیادہ سے زیادہ اجروثواب حاصل کریں، اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے بعض مہینوں ، بعض دنوں اور بعض راتوں کو خصوصی فضیلت عطا فرمائی ہے، اس میں کی جانے والی عبادتیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہوتی ہیں، اور یہ نسبت دوسرے اوقات کی نیکیوں سے کئی گنا بڑھ جاتا ہے، ایسی ہی قبولیت کے شب وروز میں ایک رمضان المبارک ہے، جس کا بحمد اللہ مسلم معاشرہ میں بڑے پیمانے پر استقبال ہوتا ہے، مسجد تنگ پڑ جاتی ہے، جگہ جگہ تلاوت قرآن کی گونج سنی جاتی ہے،غریبوں اور ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک کا اہتمام کیا جاتا ہے، اور مسلمان آبادیوں میں ایک خاص کیفیت محسوس کی جاتی ہے، اسی طرح بعض اور ایام ہیں، جن کی خصوصی فضیلت کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات میں آیا ہے، ایسے ہی مبارک ایام واوقات میں ایک ذوالحجہ کا پہلا عشرہ ہے، جس کا ذکر خود قرآن مجید میں آیا ہے، اللہ تعالیٰ نے ذی الحجہ کی پہلی دس راتوں کی قسم کھائی ہے (اعراف:۱۴۲) حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے کہ ان دس راتوں سے ذی الحجہ کا عشرہ اول مراد ہے۔(الجامع الاحکام تفسیر قرطبی: ۲۰؍۳۹)، ذی الحجہ کا مہینہ اُن حرام مہینوں میں شامل ہے، جو بہت حرمت والے ہیں، خود قرآن مجید میں اس کا ذکر آیا ہے، (توبہ:۳۶)، حدیث میں بھی اس کا ذکر ہے (بخاری، عن ابی بکرہؓ، حدیث نمبر: ۴۶۶۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ان ایام سے بڑھ کر عمل کے اعتبار سے کوئی افضل دن نہیں ہے، صحابہؓ نے عرض کیا: جہاد بھی نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہاں، یہ جہاد سے بھی بڑھ کر ہے، سوائے اس شخص کے جو اپنی جان ومال کے ساتھ جہاد کے لئے نکلا اور کوئی چیز ساتھ لے کر واپس نہ آسکا (بخاری، عن ابن عباسؓ، حدیث نمبر: ۹۶۹)؛ اس لئے اہل علم کے درمیان اختلاف ہے کہ عشرہ ذی الحجہ افضل ہے یا عشرہ رمضان المبارک ؟ علامہ ابن تیمییہؒ اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن رمضان المبارک کے آخری دس دنوں سے افضل ہے، اور رمضان المبارک کی آخری دس راتیں ذو الحجہ کی دس راتوں سے افضل ہیں (مجموعۃ الفتاویٰ: ۲۵؍۲۸۷) ان ہی دس دنوں میں یوم عرفہ یعنی ۹؍ ذی الحجہ ہے ، جو حج کا اصل دن ہے اور دس ذی الحجہ یعنی عید قرباں کا دن بھی شامل ہے، جس کی خصوصی فضیلت ظاہر ہے، عشرہ ذی الحجہ کے اعمال میں ایک روزہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعض ازواج مطہرات سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذو الحجہ کے نو دنوں کے روزے رکھا کرتے تھے، یعنی پہلی ذی الحجہ سے نویں ذی الحجہ تک : کان یصوم تسع ذی الحجہ الخ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: ۲۴۳۷)، اسی عشرہ میں ۹؍ ذی الحجہ کی تاریخ یعنی یوم عرفہ آتا ہے، جس کے بارے میں ابو قتادہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے کہ میرا خیال ہے کہ یوم عرفہ کا روزہ گزشتہ ایک سال اور آئندہ ایک سال کے گناہوں کے لئے کفارہ ہو جائے گا: صیام یوم عرفۃ احتسب علی اللہ أن یکفر السنۃ التی قبلہ والسنۃ بعدہ (عن ابن ابی قتادۃ ، حدیث نمبر: ۴۷۹) البتہ اس سے صغیرہ گناہ مراد ہیں، جو کبیرہ گناہ ہیں، وہ اس سے معاف نہیں ہوتے، ان کے لئے شریعت کے مقرر کئے گئے اصول کے مطابق مقررہ افعال کو انجام دینا ، لوگوں کے حقوق سے متعلق گناہ ہو تو ان حقوق کو ادا کرنا یا معاف کرانا اور توبہ کرنا ضروری ہے (مرقاۃ المفاتیح: ۴؍۱۴۱)البتہ حجاج کو میدان عرفات میں روزہ نہیں رکھنا چاہئے؛ تاکہ وہ اس دن اچھی طرح یوم عرفہ کی دعاؤں کا اہتمام کریں، حضرت ام فضل بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتی ہیں کہ عرفہ کے دن لوگوں کو شک تھا کہ آج آپ روزہ سے ہیں یا آپ نے روزہ نہیں رکھا ہے؟ میں نے اس کو جاننے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پانی کا ایک پیالہ بھیجا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے نوش فرما لیا (بخاری، حدیث نمبر: ۱۶۵۸) گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عملی طور پر واضح فرما دیا کہ آپ آج روزہ کی حالت میں نہیں ہیں؛ لہٰذا یوم عرفہ کو حجاج کے لئے روزہ نہیں رکھنا بہتر ہے۔ روزہ کے علاوہ اس عشرہ میں بعض دیگر اعمال بھی مستحب ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی تلقین فرمائی ہے، حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں : ما من أیام أعظم عند اللہ ولا أحب الیہ من العمل فیھن من ھٰذہ الأیام العشر فاکثروا فیھن من التھلیل والتکبیر والتحمید (مسند احمد، حدیث نمبر: ۱۳۱) ذو الحجہ کے ابتدائی دس دنوں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے نزدیک عظیم دن نہیں ہے اور ان دنوں کے اعمال سے بڑھ کر کسی دن کے اعمال اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب نہیں ہیں؛ اس لئے تم ان دنوں میں لا الٰہ الا اللہ، اللہ اکبر اور الحمدللہ کا کثرت سے اہتمام کرو۔ تکبیر کی ہی ایک صورت تکبیر ِتشریق ہے، یوں تو ۹؍ ذی الحجہ کی فجر سے ۱۳؍ ذی الحجہ کی مغرب تک ہر نماز باجماعت کے بعد تکبیر تشریق پڑھنا واجب ہے؛ لیکن اس کے علاوہ بھی زیادہ سے زیادہ تکبیر پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہئے؛ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ اس عشرہ میں بازار میں نکلتے ، زور سے تکبیر تشریق پڑھتے اور ان کے ساتھ ساتھ دیگر حضرات بھی پڑھتے: یخرجان الی السوق فی أیام العشر یکبر ان ویکبر الناس بتکبیر ھما (صحیح بخاری، کتاب العیدین باب فضل العمل فی ایام العشر) اسی طرح تیسرا کلمہ (سبحان اللہ، والحمد للہ، ولا الٰہ الا اللہ، واللہ اکبر وللّہ الحمد) ایک ایسا جامع کلمہ ہے، جو اللہ تعالیٰ کی ’’تسبیح ،تہلیل ‘‘ یعنی لا الٰہ الا اللہ، اور تکبیر اور تحمید چاروں کو شامل ہے؛ اس لئے اگر ان ایام میں اس کلمہ کو زیادہ سے زیادہ پڑھا جائے تو حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی اوپر جو روایت گزری ہے، اس پر مکمل عمل ہو جائے گا، غرض ان دس ایام کا ایک اہم عمل زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے، اور ذکر میں قرآن مجید کی تلاوت اور درود شریف کا پڑھنا بھی شامل ہے، نیز ذکر نہایت آسان عبادت ہے، جس کے لئے نہ باوضو ہونے کی شرط ہے ، نہ کسی خاص ہیئت میں بیٹھنے کی، نہ یہ کہ ذکر کرتے ہوئے بندہ کوئی اور کام نہیں کر سکتا، اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی کیفیت نقل فرمائی ہے کہ وہ کھڑے کھڑے بیٹھے بیٹھے اور لیٹے ہوئے اللہ کا ذکر کیا کرتے ہیں: ویذکرون اللہ قیاما وقعودا وعلی جنوبھم (آل عمران: ۲۰۰) یہ سب عشرہ ذی الحجہ کے افعال ہیں، افسوس کہ حج کرنے والے حج کا اہتمام کرتے ہیں، قربانی کرنے والے قربانی کا اہتمام کرتے ہیں؛ لیکن عشرہ ذی الحجہ کی یہ عبادتیں جو تمام مسلمانوں کے لئے ہیں، امیر کے لئے بھی غریب کے لئے بھی، مسافر کے لئے بھی مقیم کے لئے بھی، مردوں کے لئے بھی اور عورتوں کے لئے بھی، اس کی طرف سے عمومی بے احتیاطی برتی جاتی ہے۔ ۰ ۰ ۰

"حکومت کی طرف سے وقف امید پورٹل کا قیام غیر قانونی اور عدالت کی توہین کے مترادف ہے" مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ نے اپنے پریس نوٹ میں کہا ہے کہ حکومت کا پیش کردہ قانون "وقف 2025" اس وقت سپریم کورٹ میں زیرِ دوراں ہے۔ تمام مسلم تنظیموں نے اسے مسترد کر دیا ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں، انسانی حقوق کی تنظیموں، اور سکھ، عیسائی نیز دیگر اقلیتوں نے بھی اسے ناقابلِ قبول قرار دیا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ اس کے باوجود حکومت 6 /جون سے "وقف امید پورٹل" قائم کر رہی ہے اور اس میں اوقافی جائیداد کے اندراج کو لازم قرار دے رہی ہے۔ یہ پوری طرح حکومت کی غیر قانونی حرکت ہے اور واضح طور پر عدالت کی توہین کا ارتکاب ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ رجسٹریشن پوری طرح اس متنازعہ قانون پر مبنی ہے، جس کو عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے اور جس کو آئین سے متصادم قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ سختی سے اس کی مخالفت کرتا ہے۔ مسلمانوں اور ریاستی وقف بورڈوں سے اپیل کرتا ہے کہ جب تک عدالت اس سلسلہ میں کوئی فیصلہ نہ کردے، اوقاف کو اس پورٹل میں درج کرانے سے گریز کریں۔ متولیان وقف بورڈ کو میمورنڈم پیش کریں کہ جب تک سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں ہو جائے، اس طرح کی کارروائی سے گریز کیا جائے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ عنقریب حکومت کے اس اقدام کے خلاف عدالت سے رجوع کرےگا۔

🔰بچوں كی دینی تعلیم كا سنہرا موقع 🖋مولانا خالد سیف اللہ رحمانی #شمع_فروزاں🕯 https://whatsapp.com/channel/0029Va9wjem47Xe94AA3CF37 اگر کسی آبادی میں سیلاب آجائے تو آبادی کا ہر شخص فکر مند اور بے قرار نظر آتا ہے ، کبھی کبھی یہ تباہی و بربادی پورے ملک کے لوگوں کو اس کے نقصانات کے تدارک کے لئے بے چین کردیتی ہے ، خدا نخواستہ کسی شہر میں زلزلہ آگیا تو ہلاک ، زخمی اور بے گھر ہونے والوں کے لئے پوری دنیا اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور ریلیف کی تقسیم عمل میں آتی ہے ، اور اگر کہیں تباہ کن طوفان آگیا تو پوری دنیا کے ذارئع ابلاغ جاگ اٹھتے ہیں اور اسی کی داستانیں نوکِ زبان ہوتی ہیں ، سونامی کی ظالم موجوں نے کسی خطہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہو تو برسہابرس وہ اخبارات و رسائل کا موضوع بنے رہتے ہیں ؛ لیکن ایک سیلاب ان سیلابوں سے بڑھ کر ، ایک زلزلہ ان زلزلوں سے زیادہ ہیبت ناک ، ایک طوفان ہواؤں کے طوفان سے زیادہ خطرناک اور ایک سونامی سمندر کی سرکش موجوں سے پیداہونے والی سونامیوں سے بھی زیادہ جان لیوا ہے ؛ لیکن انسان ان سے غافل ، بے پروا اور ان کے بارے میں تساہل کا شکار ہے ۔ یہ وہ سیلاب ہے ، جو درختوں اور کھیتوں کو بہا نہیں لے جاتا ؛ بلکہ اخلاق کو بہالے جاتا ہے ، یہ وہ زلزلہ ہے ، جس میں زمین کے اندر چھپی ہوئی چٹانیں متزلزل نہیں ہوتیں ؛ بلکہ انسان کے سینوں میں موجود دلوں کی دنیا تباہ و برباد ہوجاتی ہے ، یہ وہ طوفان نہیں ، جو درختوں کو اٹھاکر پھینک دے اور گھروں کو تہ وبالا کردے ؛ بلکہ یہ وہ طوفان ہے ، جو ایمان کے شجر طوبی کو اکھاڑ پھینکتا ہے ، یہ وہ سونامی نہیں ، جس سے آبادیاں ویران ہوجاتی ہیں ؛ بلکہ یہ وہ سونامی ہے ، جس سے اخلاق و کردار کی دنیا ویران ہوجاتی ہے ، یہ ہے برائیوں کا سیلاب ، یہ ہے اخلاق و کردار کی تباہی اور یہ ہے ایمان و یقین کی غارت گری ، یہ وہ سیلاب ہے ، جو دبے پاؤں ہمارے معاشرہ میں داخل ہورہا ہے ، اس کو روکنے کی کوشش نہیں کی جاتی ؛ بلکہ اکثر اوقات اس کا استقبال کیا جاتا ہے ، یہ انسانی آبادیوں میں اس طرح داخل ہوتا ہے کہ نہ ہواؤں کا شور ، نہ پانی کا زور ، نہ زلزلہ کی گھڑ گھڑاہٹ اور نہ سونامی کی دل دہلا دینے والی متلاطم موجوں کی اکھاڑ و پچھاڑ ، سارا ماحول معتدل ، خطرہ کے احساس سے عاری اور ان کے سد باب کی فکر سے خالی ؛ لیکن اس کی تباہیاں مادی اور ظاہری تباہیوں سے کہیں بڑھ کر ہیں ، وہ آسمان کی بلندی پر پہنچی ہوئی قوموں کو ذلت و رسوائی کے گہرے غار میں پہنچادیتی ہیں اور بعض اوقات انسان کے مزاج کو اس طرح بدل دیتی ہیں کہ کردار و عمل کے اعتبار سے جانور بھی ان سے بہتر لگتے ہیں ۔ اس وقت ہماری نئی نسل ، اسی اَن دیکھے اور غیر محسوس حملہ سے دوچار ہے ، انسان کی اصلاح اور اس کے بگاڑ ، نیز شخصیت کی تعمیر و تخریب میں تین چیزوں کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے ، ذرائع ابلاغ ، ماحول اور تعلیم ----- ذرائع ابلاغ پر اس وقت عملا مغرب کا قبضہ ہے، مغربی تہذیب ایسے نظام زندگی سے عبارت ہے ، جس میں کسی اخلاقی رکاوٹ کو قبول نہیں کیا جائے اور انسان کے لئے اس کی ہوس کو پوری کرنے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہے ؛ چنانچہ اس وقت ٹی وی ، انٹرنیٹ اور اخبارات و جرائد --- جوا بلاغ کے اہم اور مؤثر ذرائع ہیں --- کی صورت حال ہمارے سامنے ہے ، ٹی وی میں مخرب اخلاق پروگرام کا غلبہ ہے اور کوئی شریف انسان اپنے بزرگ یا عزیز کے ساتھ ٹی وی کے سامنے بیٹھنے کی جرأت بھی نہیں کرسکتا ، کھیل اور خبروں کا حالاںکہ نیم عریاں لباس سے کوئی تعلق نہیں ؛ لیکن مغرب کی بے لباس تہذیب نے ان پروگراموں کو بھی عریانیت اور بے حیائی کے مناظر سے آلودہ کردیا ہے ، خواتین کو ٹی وی اسکرین پر اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ گویا لباس ان کے لئے بہت بڑا بوجھ ہے ، انٹرنیٹ میں فحاشی اپنی آخری حدوں تک پہنچ چکی ہے ، ترقی یافتہ ممالک انسانی جان کو تلف کرنے اور آبادیوں کو ویران کرنے کے لئے تو دن و رات کوشاں ہیں اور اس کے لئے سائنسی تحقیق شب و روز جاری ہے ؛ لیکن انٹرنیٹ کے بے حیائی پر مبنی پروگراموں کو روکا جائے ، اس کی کوئی تدبیر نہیں کی جاتی ؛ کیوںکہ یہ ان شیطانی مقاصد کو پورا کررہے ہیں ، جن کی مغرب تبلیغ کرتا ہے ، اخبارات و جرائد میں بھی بے حیائی ایک اہم عنصر بن چکا ہے اور ماضی قریب میں ہندوستان میں بیرونی جرائدو رسائل کو سرمایہ کاری کی بے قید اجازت دے دی گئی ہے ، یہ در اصل خطرہ کی گھنٹی اور اس بات کا اعلان ہے کہ جس قسم کی بے ہودہ چیزیں یورپ اور امریکہ میں شائع ہواکرتی ہیں ، اب ہندوستان میں بھی شائع ہوا کریں گی ۔ ’’ماحول ‘‘ کے بنانے اور بگاڑ نے میں اس وقت ذرائع ابلاغ کا سب سے زیادہ موثر رول ہے ؛ چنانچہ پچھلے دس سالوں میں اس بات کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے کہ ہندوستان کے ماحول میں اخلاقی اعتبار سے تباہ کن بدلاؤ آیا ہے ، مشرقی قدریں اب دقیانوسیت سمجھی جاتی ہیں ، گرہست بوڑھی خواتین میں جو حیا باقی ہے ، نوخیز اور نوجوان لڑکیوں میں اس کا تصور دشوار ہے ، مسلم معاشرہ میں بھی اوڑھنیاں گلوبند بنتی جارہی ہیں ، چہرہ چھپانے کی اہمیت ختم ہوتی جارہی ہے ، نقاب یا تو استعمال نہیں کیاجاتا ہے ، یا ایسے نقاب استعمال کئے جاتے ہیں ، جن کا مقصد اپنے آپ کو چھپانا نہیں ہے ، نمایاںکرناہے ، بیوٹی پارلر کی کثرت اور نئے نئے فیشنوں کی بہتات ہے ، ’’ یوم عاشقاں ‘‘ اس اہتمام سے منایا جانے لگا کہ گویا یہ بھی کوئی تہوار ہو ، یہ وہ ماحول ہے ، جس نے نوجوان نسل کو اخلاقی بندھنوں سے آزاد ؛ بلکہ ان کا باغی بنا دیا ہے اور اس کی مخالفت کرنے والوں کو مُلاّاور ’’مسجد کا لوٹا ‘‘کہا جاتاہے ۔ ’’ تعلیم ‘‘ انسان کے دماغ اور اس کی فکر کو متاثر کرنے والا طاقت ور ہتھیار ہے ، ماحول سے تو عام لوگ متاثر ہوتے ہیں ؛ لیکن تعلیم کی پڑھے لکھے لوگوں کے ذہن پر حکمرانی ہوتی ہے ، ایک زمانہ میں تعلیمی مواد میں اخلاقیات بھی شامل ہواکرتی تھیں ، مسلمانوں کے زیر انتظام اداروں میں اسلامیات کی تعلیم بھی ہواکرتی تھی ، لڑکوں اور لڑکیوں کی مخلوط تعلیم کے بجائے جداگانہ تعلیم کو ترجیح دی جاتی تھی ، اساتذہ کے لئے اچھے اخلاق کے حامل ہونے کو ضروری خیال کیاجاتا تھا ، مختلف مذاہب کی عبرت آمیز باتیں اور کہانیاں بھی نصاب میں شامل ہوتی تھیں ، اس سے طلبہ و طالبات میں مثبت سوچ جنم لیتی تھی ، اگر به تقاضۂ عمر اخلاقی ذمہ داریوں کی طرف سے غفلت بھی ہو تو بہر حال ان کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوتی تھی کہ حیا ، تواضع ، دوسروں کی جان و مال او رعزت و ناموس کی حفاظت ، بزرگوں کا احترام اور چھوٹوں کے ساتھ شفقت اعلی قدریں ہیں ، اور یہی انسان کی شرافت کے لئے معیار ہیں ؛ لیکن اب ہمارے تعلیمی نظام میں اخلاقیات کے لئے کوئی جگہ نہیں رہی ، اسکولوں میں جنسیات کی تعلیم نے رہی سہی اخلاقی قدروں کو بھی تباہ کردیا ہے ، جداگانہ تعلیمی نظام کے بجائے مخلوط تعلیمی نظام کا نہ صرف غلبہ ہوگیا ؛ بلکہ اس کو قابل فخر شمار کیا جانے لگا ، اسکولوں کے اشتہارات میں بھی خصوصیت کے ساتھ اس کا ذکر کیا جاتا ہے ، افسوس کہ مسلم انتظامیہ کے تحت چلنے والی اکثر درسگاہیں بھی اسی طرزپر چل رہی ہیں ، ان کے یہاں بھی لڑکیوں کے یونیفارم میں ٹانگوں کے کھلارکھنے ، سر کے بے پردہ ہونے اور بازؤں کے نظر آنے کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے ، کلچرل پروگرام کے نام پر ڈانس سکھائے جاتے ہیں اور لڑکوں اور لڑکیوں کے ڈانس پروگرام رکھے جاتے ہیں ۔ غرض کہ انسان کے افکار و اعمال پر اثر انداز ہونے والے یہ تین مؤثر ترین ذرائع --- ابلاغ ، ماحول ، تعلیم --- اس وقت برائی ، بے حیائی اور مادہ پرستی کے نقیب بنے ہوئے ہیں اور بحیثیت مجموعی ان کی وجہ سے نئی نسل اخلاقی تباہی و بربادی کے آخری کنارے پر کھڑی ہوئی ہے ، ان حالات میں ہر انسان اور خصوصاً ہر مسلمان کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کے بارے میں فکر مند ہو اورانہیں اس تباہی سے بچانے کی کوشش کرے ، صورت حال یہ ہے کہ بے دینوں کا تو کیا پوچھنا ؟ جو لوگ بظاہر دین دار ہیں ، ان کے بچے بھی مغرب کی حیا سوز قدروں کے دل دادہ ہیں اوردین و اخلاق کو ایک بوجھ سمجھنے لگے ہیں ، یہ صورت حال فرقہ وارانہ فسادات ، معاشی پسماندگی اور تعلیمی پچھڑاپن سے بھی زیادہ قابل توجہ اور قابل فکر ہے ، تعلیم گاہوں کا نظام کچھ ایسا ہے کہ بہت چھوٹی عمر میں بچوں کو اسکول پہنچادیا جاتا ہے ، اسکولوں کے تعلیمی اوقات اور کبھی لوگوں کے مقام رہائش سے ان کا فاصلہ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ انہیں صبح میں جلد سے جلد گھر سے روانہ ہوجانا پڑتا ہے ، پھر نصاب اتنا بھاری بھر کم ہے کہ اکثر بچوں کو ٹیوشن بھی کرنا پڑتا ہے ؛ چنانچہ گھر واپس ہونے کے بعد ٹیوشن پڑھتے ہیں ، پھر ہوم ورک اتنا زیادہ ہوتاہے کہ اس کے بعد وہ اس میں لگ جاتے ہیں اور بعض اوقات تو پڑھنے لکھنے کے درمیان ہی چھوٹے بچوں کو نیند آجاتی ہے ، یہ وہ صورت حال ہے ، جس میں بچوں سے ان کا بچپن چھین لیا گیا ہے ، انہیں جوانوں سے بھی بڑھ کر کام کرنا ہوتاہے ، اس کا اثر صحت پر تو پڑتاہی ہے ، ساتھ ہی ساتھ ان کے پاس روزانہ دینی تعلیم کے لئے کوئی وقت باقی نہیں رہتا ، ہفتہ میں ایک دن اتوار کو چھٹی ہوئی تو ماں باپ اور بچے دونوں اپنا حق سمجھتے ہیں کہ اس دن کو ایک ساتھ تفریح میں گذاراجائے ، اس طرح روز مرہ کے معمول میں دینی و اخلاقی تعلیم کے لئے کوئی جگہ باقی نہیں رہ جاتی ۔ موسم گرما میں اسکولوں اور کالجوں میں جو تعطیل دی جاتی ہے ، یہی ایک ایسا موقع ہے ، جسے ہم اپنے نو نہالوں کی دینی تعلیم و تربیت کے لئے استعمال کرسکتے ہیں ، یہ تعطیل کم و بیش پچاس دن کی ہوتی ہے ، اگر اس میں سے چالیس دن بھی ہم بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے نکالیں اور روزانہ چھ گھنٹے ان کو تعلیم دلائیں تو دو سو چالیس گھنٹے ہوتے ہیں ، عام طور پر تعلیم گاہوں میں سال میں دو سو دنوں تعلیم ہوتی ہے تو گویا سال کے لحاظ سے روزانہ ایک گھنٹہ سے زیادہ تعلیم کا اوسط ہوا ، اگر ان اوقات کو صحیح طور پر استعمال کیا جائے ، تو یہ کم نہیں ہیں ، ان اوقات میں بچوں کی استعداد اور ان کی عمر کے لحاظ سے قرآن مجید کا ناظرہ ، کچھ سورتوں کا حفظ ، ضروری دینی مسائل ، سیرت نبوی ، اردو پڑھائی و لکھائی ، وضوء و نماز کی عملی مشق ، جیسے اہم موضوعات سے طلبہ و طالبات کو آشنا کیا جاسکتا ہے ، اور چند سالوں میں ان کو معتدبہ تعلیم دی جاسکتی ہے ، اس مقصد کے لئے دینی اداروں اور تنظیموں کو گرمائی کلاسس کھولنے چاہئیں اور جو ادارے ان کلاسوں کا نظم کر رہے ہیں ، طلبہ و طالبات کو ان سے استفادہ کرنا چاہئے ، گھروں میں اچھے اساتذہ کے ذریعہ ٹیوشن پڑھوانا چاہئے ، دینی جماعتیں اگر کوئی تعلیمی و تربیتی پروگرام چلاتی ہوں تو ان سے استفادہ کرنا چاہئے ، میرے تجربہ میں نوجوان اگر کچھ عرصہ تبلیغی جماعت میں نکل جائیں تو انہیں بڑا دینی نفع پہنچتا ہے ، کم وقت میں وہ نماز وغیرہ کے ضروری مسائل سے واقف ہوجاتے ہیں ؛ اس لئے اگر سر پرست حضرات اپنے بچوں کو اس سے وابستہ کریں تو ان شاء اللہ بہت مفید ہوگا ، دینی جماعتوں سے نوجوانوں کے وابستہ ہونے کا ایک بڑا نفع یہ ہے کہ ان کو اچھے دوستوں کا حلقہ مل جاتا ہے ، اور بری صحبتوں سے حفاظت ہوجاتی ہے ، اور نوجوانوں کے لئے اس کی بڑی اہمیت ہے ، --- بہر حال سرپرستوں کو چاہئے کہ گرمائی تعطیل کی اس مہلت کو اپنے بچوں کی دینی تعلیم و تربیت اور انہیں اخلاق اور بہتر اعمال سے آراستہ کرنے میں استعمال کریں کہ اس سے بڑھ کر ان کے حق میں کوئی اور بھلائی نہیں ہوسکتی ۔ . . .