Khalid Saifullah Rahmani
Khalid Saifullah Rahmani
February 14, 2025 at 05:09 AM
🔰ہمارے جلسے قرآن وحدیث کی روشنی میں! (قسط-3) 🖋مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ‏‎#شمع_فروزاں🕯 https://t.me/hmksrahmani 9۔ آج کل جلسوں میں ایک ا ہم مد’’ ناظم ِجلسہ ‘‘ کی ہوتی ہے، ان کا کام ہوتا ہے رائی کو پہاڑ بنانا اور ذرہ کو آفتاب کہنا، یہ مقررین کی کچھ اس طرح تعریف کرتے ہیں کہ علم میں گویا امام غزالیؒ وامام رازیؒ اور فضل وتقویٰ میں خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ اور نظام الدین اولیاؒ دوبارہ پیدا ہوگئے ہوں، میں نے ایک جلسہ میں ایک ناظم جلسہ صاحب کو راقم الحروف کے بہ شمول مقررین کے لئے غیر معمولی قسم کے القاب بیان کرتے ہوئے سنا تو بڑی کوفت ہوئی اور اپنے ایک شاگرد سے کہا کہ ان کی تعریف اور اس میں مبالغہ تو بہت قابل مذمت ہے؛ لیکن مجھے اس شخص کی طلاقت لسانی اور قوت تعبیر پر حیرت ہوئی کہ انھوں نے اس قدر فصاحت وخوبصورتی کے ساتھ مقرر کا برجستہ تعارف کرایا ، تو انھوں نے نظامت جلسہ پر ایک کتاب لا کر دکھائی جو دیوبند کے کسی مکتبہ کی چھپی ہوئی تھی اور اس میں اعلان کے خوبصورت جملے اور مسجع الفاظ تھے اور بتایا کہ آج کل جو مشہور نظماء جلسہ ہیں، وہ اس کو رَٹے ہوئے ہیں، ظاہر ہے یہ تصنع، تکلف اور مبالغہ ایک نادرست عمل ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جھوٹ کی جو مذمت کی ہے، وہ کسی صاحب علم سے مخفی نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو بے جا تعریف کرنے والے کے منھ میں مٹی ڈالنے کا حکم فرمایا ہے: امرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان نحشو فی افواہ المداحین التراب (سنن ترمذی، عن ابی ہریرۃؓ، حدیث نمبر: 2394 ) بعض دفعہ مدارس کے اساتذہ، مہتمم اور ذمہ داروں کا تعارف کراتے ہیں، اگر سچ اور مبالغہ کے پیمانہ پر اُن کو تولا جائے تو اکثر وہ اسی تنبیہ کے مستحق ہوتے ہیں، اس میں احتیاط کی سخت ضرورت ہے، مدارس کے ذمہ داروں کو چاہئے کہ پیشہ ور ناظم ِجلسہ کو بلانے کی بجائے مدرسہ کے کسی استاذ کو یہ ذمہ داری سونپیں؛ کیوں کہ وہ جتنے بہتر طور پر ایک عالم دین کو دعوتِ خطاب دے سکتا ہے، دوسرے لوگ بظاہر نہیں دے سکتے ہیں، اور اساتذہ سے اس طرح کا کام لینے سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ادارہ کے مختلف کاموں کے لئے افراد تیار ہوتے ہیں، اس کا لحاظ رکھنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ 10۔ جلسوں میں ایک بگاڑ اشتہار کے واسطے سے بھی آگیا ہے، پہلے صرف جلسہ کا ایک صدر ہوتا تھا، اس کے لئے زیر صدارت لکھا جاتا تھا، اشتہار کے اخیر میں داعی کی حیثیت سے ذمہ دار مدرسہ کا یا کمیٹی یا مجلس استقبالیہ کا ذکر ہوتا تھا، اب ایک تو مقررین کے ناموں کی ایک طویل فہرست ہوتی ہے، اگر کسی نے آنے سے معذرت کر لی تب بھی اس کو معاف نہیں کیا جاتا اور کہا جاتا ہے کہ کم از کم اشتہار میں اپنا نام رکھنے کی اجازت دے دی جائے؛ اس لئے بہت سے نام فرضی طور پر اشتہار میں شامل کئے جاتے ہیں، اگلا مرحلہ ہے اشتہار کے چھاپنے کا، اس میں بھی مبالغہ آمیز القاب وآداب کی فراوانی ہوتی ہے، پہلے مولوی لکھا جاتا تھا، پھر یہ مولوی مولانا ہوا، اس کے بعد حضرت مولانا اور اب یہ حضرت مولانا کا لفظ بھی بہت ہلکا سمجھا جانے لگا، مفسر زمانہ، محدث عصر، فقیہ العصر، بحرالعلوم، ولی کامل، علامہ زماں، شیخ الاسلام، مفکر اسلام وغیرہ لکھنا عام ہوگیا ہے، اور الفاظ نے اپنی قیمت کھو دی ہے، اس میں سادگی لانے کی ضرورت ہے، نام کے شروع میں زیادہ سے زیادہ’’ حضرت مولانا ‘‘شامل کر دیا جائے اور اخیر میں عہدہ ذکر کر دیا جائے، یہ تعارف کے لئے کافی ہے، آج کل زیر صدارت کے علاوہ زیر قیادت، زیر سیادت، زیر نقابت، زیر نظامت ، زیر ولایت، زیر سرپرستی اور مختلف عنوانات دئیے جاتے ہیں، صاف اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا مقصد جاہ کے طلب گاروں کا پیٹ بھرنا اور ان کو مطمئن کرنا ہے، ایسے لوگوں کے خطاب سے اُمت کو کیا خاک فائدہ پہنچے گا؟ اسی طرح اشتہار میں ایک اور برائی پیدا ہوگئی ہے مصوّر پوسٹر اور بینر کی، اب پوسٹر میں مقررین کی تصویریں بھی شائع کی جاتی ہیں، جاندار کی تصویر چھاپنا حرام ہے، اس پر اُمت کا اجماع اور اتفاق ہے، ڈیجیٹل تصویروں کے سلسلے میں اختلاف ہے کہ اس کو تصویر شمار کیا جائے گا یا نہیں؟لیکن کوئی بھی تصویر کاغذ، کپڑے یا کسی چیز پر نقش ہو جائے تو پھر اس کے تصویر ہونے اور حرام ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے، افسوس کہ علماء اور ذمہ داران مدارس عوام کو تو خلاف شرع باتوں سے روکتے ہیں؛ لیکن خود اس کے مرتکب ہوتے ہیں، جلسہ شریعت کے نام پر ہو، اس میں شریعت کے احکام بتائے جائیں؛ لیکن وہ خود خلاف شرع باتوں پر مشتمل ہو تو اس سے کیسے دین کی اشاعت کی امید رکھی جا سکتی ہے؟ اور ایک قابل توجہ بات یہ بھی ہے کہ اب ہمارے دینی جلسوں میں بھی آواز اور روشنی کے استعمال میں بہت اسراف سے کام لیا جاتا ہے، روشنی تو صرف اس قدر ہونی چاہئے کہ جلسہ کا پنڈال اور میدان اچھی طرح روشن ہو جائے اور آمدورفت کے راستے میں تاریکی نہ رہے، آواز اتنی ہو کہ جو سامعین آئے ہوئے ہیں، ان تک بخوبی پہنچ جائے؛ مگر ہوتا یہ ہے کہ جلسہ گاہ کے علاوہ پورے محلہ اور گاؤں میں تیز روشنی کے بلب لگائے جاتے ہیں، اور ستم یہ ہے کہ اکثر یہ روشنی بھی چوری کی ہوتی ہے، سڑکوں پر بجلی کی ترسیل کے لئے حکومت نے جو وائر بچھا رکھے ہیں، ان ہی پر بلا اجازت اپنا وائر ڈال دیا جاتا ہے اور مائک اتنے زیادہ لگائے جاتے ہیں اور آواز بھی اتنی زیادہ رکھی جاتی ہے کہ پورا علاقہ تقریر کی آواز سے گونجتا رہتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلند آواز سے بولنے والوں کو پسند نہیں فرماتے تھے: کان یکرہ الرجل جھیرا رفیع الصوت (المعجم الکبیر للطبرانی ، عن ابی امامۃ، حدیث نمبر: 7726 ) یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن مجید کو بھی تیز آواز میں پڑھنے سے منع فرمایا اور فقہاء نے بھی لکھا ہے کہ ضرورت سے زیادہ بلند آواز میں قرآن مجید کا پڑھنا بہتر نہیں ہے (الدر المختار مع الرد: 249/1) جب اللہ تعالیٰ کے کلام کے لئے یہ ہدایت ہے تو انسان کے کلام میں تو بہ درجۂ اولیٰ اس کی رعایت ضروری ہوگی۔ اس بات کوبھی ملحوظ رکھنا چاہئے کہ جس آبادی میں جلسہ ہو رہا ہے، وہاں کچھ لوگ بیمار بھی ہوں گے، جن کے لئے تیز آواز نقصان دہ ہوگی، وہاں برادران وطن بھی ہوں گے، جن کو ہماری یہ آواز ناگوار گزرے گی، جیسا کہ اُن کا شور وہنگامہ ہمیں گراں گزرتا ہے، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی رحمت تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر چھوٹی بڑی بات میں انسانی ضرورتوں کا لحاظ رکھتے تھے، یہ نہایت تکلیف دہ اور غیر ضروری عمل ہے، اور اس کا کوئی دینی اور دنیوی فائدہ نہیں ہے۔ 12۔ جلسوں میں خطابات کا موضوع بھی ایک قابل اصلاح چیز ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خطاب ہمیشہ وقت کی ضرورت کے لحاظ سے ہوتا تھا، علامہ ابن قیمؒ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطبات کو جمع کیا ہے، ان کو دیکھ کر صاف طور پر اس کا اندازہ ہوتا ہے ، آج کل ہمارے سماج میں کتنی ہی برائیاں پھیلی ہوئی ہیں، بچوں کی تعلیم وتربیت کے سلسلے میں غفلت ، لوگوں کے حقوق سے لاپرواہی، نشہ، سود، فضول خرچی، ماں باپ کے ساتھ بدسلوکی، عورتوں پر ظلم، میراث کی صحیح تقسیم کا نہ ہونا، اختلاف وانتشار، چغل خوری، خاندانی قرابتوں کا لحاظ نہ کرنا وغیرہ، لیکن چند مخصوص موضوعات پر ہی بار بار بات کی جاتی ہے، اور زمانہ کی ضرورتوں اور وقت کے تقاضوں کو نظر انداز کر کے خطاب کئے جاتے ہیں، اسی وجہ سے ہم معاشرہ کی اصلاح میں ناکام ہیں، اگرچہ اس سلسلہ میں آہستہ آہستہ اصلاح ہو رہی ہے؛ لیکن ابھی بھی بڑی توجہ کی ضرورت ہے۔ ۰ ۰ ۰
❤️ 👍 ♥️ 😂 16

Comments