
BoltaKarachi
February 26, 2025 at 02:21 PM
ہجرت کے دکھ
تحریر: ڈاکٹر عمر زبیر اعوان
سن 1947 کا سال برصغیر کی تاریخ کا سب سے ہنگامہ خیز اور المناک دور تھا۔ تقسیمِ ہند کے نتیجے میں لاکھوں خاندان اجڑ گئے، ہزاروں زندگیاں تباہ ہو گئیں، اور بے شمار لوگ اپنوں سے بچھڑ گئے۔ یہی کہانی بیگم کے نانا کے خاندان کی بھی تھی، جو جلندھر سے ہجرت کر کے پاکستان کی جانب روانہ ہوا۔
بیگم کے نانا، جو علی گڑھ کے تعلیم یافتہ فرد تھے، اپنے اہلِ خانہ کے 12 افراد کے ساتھ اس سفر پر روانہ ہوئے۔ یہ سفر امید اور خوف کا امتزاج تھا—امید ایک آزاد وطن کی، اور خوف اس راستے میں چھپے خطرات کا۔ بدقسمتی سے، ان کا قافلہ اس درندگی کا شکار ہو گیا جو اس وقت عام ہو چکی تھی۔ راستے میں بلوائیوں نے حملہ کر دیا، اور نانا نانی شہید کر دیے گئے۔ اس کے علاوہ، ایک خالہ اور ماموں بھی غائب ہو گئے، جن کا پھر کبھی کچھ پتہ نہ چل سکا۔
جو آٹھ لوگ کسی نہ کسی طرح پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوئے، وہ بھی سکون کی سانس نہ لے سکے۔ وہ مہاجر کیمپ، والٹن، لاہور پہنچے، جہاں کا ماحول مزید اذیت ناک تھا۔ یہاں نہ مناسب کھانے پینے کا بندوبست تھا، نہ رہنے کا کوئی ٹھکانا۔ بیماریوں اور بدحالی نے قافلے کے مزید دو افراد کو ہم سے چھین لیا۔
یہ کہانی محض ایک خاندان کی نہیں، بلکہ ہزاروں مہاجرین کی کہانی ہے جنہوں نے آزادی کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ پاکستان ان ہی قربانیوں کی بنیاد پر وجود میں آیا، لیکن ہجرت کے یہ زخم آج بھی زندہ ہیں۔ اس خونچکاں تاریخ کو یاد رکھنا اور ان قربانیوں کی قدر کرنا ہماری ذمہ داری ہے، تاکہ آنے والی نسلیں اس درد کو محسوس کر سکیں اور اس آزادی کی قدر کر سکیں جو بے شمار جانوں کے نذرانے کے بعد حاصل ہوئی۔
❤️
👍
2