🌹 سپاہ مختار 313🌹
🌹 سپاہ مختار 313🌹
February 27, 2025 at 03:27 AM
92-92-92-92 *{{ مطہر الارض ؐ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف و صلوات اللہ علیہ }}* قسط چہارم اس بات سے شاید کئی لوگ باقی آئمہ ہدیٰ علیھم الصلوات والسلام سے انکار مراد لیں گے تو انہیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ جیسے سابقہ نبیوں کو حق ماننا واجب ہے یہاں بھی یہی صورت ہے کہ انہیں حق تو ماننا ہے مگر شریکِ اقتدار ماننا مناسب نہیں ہے اس بات کو ایک اور طرح سے سمجھیں دیکھئے " کفر بالنبوت " کیا ہے؟ " کفر بالنبوت " یہ ہے کہ کسی زمانہ موجود کے حقیقی نبی کو نبی نہ ماننا - یہ کفر بالنبوت ہے چاہے باقی سوا لاکھ انبیاء علیھم السلام کو نبی کیوں نہ مان لیا جائے یہ کفر ہی ہے یعنی سارے انبیاء علیھم السلام کو ماننے والا اگر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں مانتا تو کافر ہی رہے گا کیونکہ یہ زمانہ موجود کے نبی اور رسول ہیں " شرک بالنبوۃ " یہ نہیں ہے کہ کسی سابق نبی کو نبی مان لیا جائے بلکہ ہمیں تو کلام الہٰی میں سوا لاکھ انبیاء علیھم السلام کی نبّوت پر ایمان لانے کا حکم ہے فرمایا گیا ہے کہ *" آمنت باللہ وکتبہ و رسلہ " ......() الخ* یعنی کسی نبی کو نبی ماننا " شرک بالنبوۃ " نہیں ہے بلکہ ایک متوازن عقیدہ یہ ہے کہ ان سب کو اپنے اپنے زمانے کا برحق نبی و رسول مانو حقیقت یہ ہے کہ " شرک بالنبوۃ " دو طرح کا ہوتا ہے ایک تو کسی غیر نبی کو نبی ماننا یا کسی ماضی کے حقیقی نبی کو زمانہ حاضر کے نبی کے حکم و شریعت میں سہیم و شریک ماننا یا اپنے نبی کے برابر واجب اطاعت سمجھنا یہ بھی شرک ہے دیکھئے آج اگر جناب ابراہیم علیہ السلام تشریف لائیں اور ان کے ساتھ شہنشاہِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تشریف لائیں اب اگر شہنشاہ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں ایک حکم دیں اور جناب ابراہیم علیہ السلام ہمیں ان کے حکم کے خلاف کوئی حکم دیں تو خود سوچیں کہ ہمیں کس کا حکم ماننا واجب ہے ..؟ ایک درست عقیدہ ہے کہ ہمیں اپنے شہنشاہ معّظم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم ماننا واجب ہے اگر ہم ان کے حکم کے برابر جناب ابراہیم علیہ السلام کے حکم کو سمجھیں گے تو یہ بھی ایک شرک ہی ہے کیونکہ وہ اپنے زمانے کے نبی تھے ہمارے زمانےسے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے ہم انہیں حق مانتے ہیں مگر اپنے شہنشاہ انبیاءصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے برابر نہیں اسی طرح " شرک بالامامت " یہ نہیں کہ اپنے امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے علاوہ کسی کو امام مانا جائے بلکہ ہر زمانے کے پاک امام حق کو امام ماننا واجب ہے جو ان میں سے ایک کا بھی منکر ہے وہ کافر ہے اور زمانے کے امام کی امامت سے منکرین کو سارے عرفا کافر مانتے ہیں بات صرف اتنی ہے کہ انہیں زمانے کے امام عجل اللہ فرجہ الشریف کے حکم میں شریک نہیں ماناجا سکتا جیسا کہ دعائے فرج کی سند میں ہے کہ جب علامہ مرحوم نے یہ سوال کیا کہ آپ نے کئی نام پاک لئے ہیں اور آخر میں فرمایا ہے " ادرکنی " جبکہ عربی گرائمر کے لحاظ سے " ادرکونی" یعنی جمع کا صیغہ ہونا چاہیے تھا اس پر آپ نے فرمایا تھا ان کا ہمارے ملک میں کیا عمل دخل ؟ جو کچھ کرنا ہے ہم نے کرنا ہے ان کا ذکر خیر تو تبرک و تیمن کیلئے ہوا ہے ہمارے لئے ہمارے اجداد طاہرین علیھم الصلوات والسلام کو وسیلہ بناؤ کام ہم نے کرنا ہے یعنی کسی زمانے کے امام کے معاملات اور اختیار میں کسی ماضی یا مستقبل کے امام کو مداخلت کرنے والا یا شریک اقتدار سجھنا بھی شرک خفی ہے جیسے اللہ ہمہشہ ایک ہوتا ہے اسی طرح امام زمانہ علیہ الصلوات والسلام بھی ایک ہوتا ہے اور اگر اللہ دو ہوتے تو کائنات میں فساد ہوتا اسی طرح ناظم کائنات امام ناطق علیہ الصلوات والسلام بھی ایک ہی ہوتا ہے اگر یہ بھی دو ہوتے تو پھر بھی اس کائنات میں فساد ہی ہوتا یعنی ایک وقت میں دو امام ناطق سمجھنا بھی شرکِ خفی ہے اب اس آیت کو دیکھیں کہ " انما المشرکون نجس " یعنی ہر قسمی شرک کرنے والے نجس ہوتے ہیں - جاری ہے ....... .......... 🤲دعاء پاک سدا پکار 🤲 العجل العجل یا ولی العالمین عجل اللہ فرجك الشریف صلواة الله عليك بحوالہ..... کتاب اسما الحجت جلد دوئم مصنف مرشد کریم سید محمد جعفر الزمان نقوی البخاری سرکار دام ظلہ تعالیٰ عباس ہمدانی 59

Comments