
علم القرءان والحدیث
February 25, 2025 at 12:44 PM
`ہمیں پردیس میں کس طرح رہنا چاہیے....؟`
ڈاکٹر خالد جمیل اختر نےلکھاہے:
1986 ء میں ، مَیں انگلینڈ میں ایک ٹریننگ حاصل کر رہا تھا ، کھانا مَیں میس میں کھایا کرتا تھا ، کھانے میں ایک ڈش چاولوں کی ضرور ہوا کرتی تھی ۔
پہلی دفعہ جب میں نے پلیٹ میں چاول ڈال کر ہاتھ سے کھانا شروع کیا تو وہاں پر موجود بہت سے لوگوں نے مجھے دیکھنا شروع کر دیا ، اُن کی آنکھوں میں تجسس تھا ۔
چوں کہ گورے عام طور پر کسی کی ذاتی زندگی میں مداخلت نہیں کرتے ، اس لیے وہ صرف دور دور سے دیکھنے پر ہی اکتفا کر رہے تھے ۔
میرا ایک گورا دوست بھی میری ہی میز پر کھانا کھا رہا تھا ، میری اُس سے کافی بے تکلفی ہو چکی تھی ، شاید اِسی لیے اُس نے مجھ سے پوچھا:
"What is so special about it?"
( اس طرح کھانا کھانے میں کیا خاص بات ہے؟ )
میں نے کہا:
مجھے چاول ہمیشہ یوں ہی کھانے میں مزہ آتا ہے ، چمچ سے چاول کھانے سے میری بھوک نہیں مِٹتی ؛ تم بھی ذرا ہاتھ سے کھا کر دیکھو تمھیں یقیناً اچھا لگے گا۔
اُس نے ہچکچاتے ہوئے کچھ نوالے ہاتھ سے کھائے ، لیکن اُسے اِتنا مزہ آیا کہ اُس کے بعد اُس نے چاول کھاتے ہوئے کبھی چمچ استعمال نہیں کیا ۔
( تیسرا جنم ، کراچی کی طرف روانگی ، ص38 ، 39 ، زیب پبلشرز لاہور )
ہمارے بعض احباب خواہ مخواہ چھوٹی چھوٹی باتیں دل پر لے لیتے ہیں ، اور دوسروں کو بھی ہمخیال بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
حال ہی میں کچھ احباب اس پر مُصِر تھے کہ جس ملک میں جائیں اسی کا لباس پہنیں ۔
بھئی کیوں ؟؟
ہمیں اپنا لباس پسند ہے ، ہمیں عمامہ شریف اور کرتہ دنیا بھر کے لباسوں سے پیارا لگتا ہے ، ہم تو جہاں جائیں گے یہی پہنیں گے ۔
آپ اپنے لباس سے مطمئن نہیں ، تو نہ ہوں ، " کمتری " کا فضول بوجھ کندھوں پر اٹھائے پھرتے رہیں !
بعض ناصحین تو یہ بھی کہتے نظر آئے کہ:
کفار کے ملکوں میں اُن جیسا لباس نہیں پہنیں گے تو انھیں متاثر کیسے کریں گے ؟
میرے بھائی! یہ متاثر کرنا نہ ہوا ، یہ تو متاثر ہونا ہوگیا ۔
اس کا مطلب ہے آپ اُن کی پَھٹی پینٹیں ، اور چِری شرٹیں تبدیل نہیں کروا سکتے ، الٹا اپنا معزز لباس چھوڑنے پہ تُلے ہوئے ہیں ۔
اپنی وضع قطع اور لباس سے مطمئن رہیے ، یہ کل بھی پیارا تھا ، آج بھی پیارا ہے ؛ یہ فطرت کا عکاس ہے ۔
*✍🏻: لقمان شاہد*
👍
2