
ندائے حق 📚🖊️
February 8, 2025 at 10:06 AM
ایک نو مسلمہ سسٹر (نرس) کی کہانی.
رکن پاسبان علم و ادب ڈاکٹر ارشد صاحب کی زبانی
https://whatsapp.com/channel/0029VadkmQL2phHEM9YIXR3L
دوسال قبل جولائ کی ایک صبح جب بارش کے بعد فضاء کسی قدر نکھر چکی تھی میں اپنے گھر کے سامنے چہل قدمی میں مصروف تھا موبایل کی گھنٹی بجی میں نے یہ سوچ کر کہ شاید کسی مریض کا فون ہوگا ریسیو کیا کال کرنے والی کوئ خاتون تھیں سلیقہ سے سلام کے بعد کہا " ڈاکٹر ارشد میں بمبئ سے فایزہ سسٹر( نرس) ( تبدیل شدہ نام ) بول رہی ہوں مجھے تمہاری ہیلپ کی شدید ضرورت ہے ۔فایزہ سسٹر ممبئ کے ایک ملٹی اسپیشلٹی ہاسپیٹل میں نرسنگ انچارج تھیں جہاں میں بحیثیت ڈاکٹر کام کرچکا تھا وہ ایک ماہر، تجربہ کار ، مریضوں کی بے انتہا خیرخواہ ، غریب پرور اور ڈیوٹی کی پابند نرس تھیں میرے لئے وہ اس لئے بھی قابلِ احترام تھیں کہ وہ کنورٹیڈ مسلم تھیں حجاب لگاتی تھیں کبھی کبھی اسلام سے متعلق انکی معلومات سننے کا موقع ملتا تو رشک آتا تھا انکا مطالعہ بہت وسیع تھا ۔ لیکن شعبے علیحدہ تھے اس لئے علیک سلیک کے علاوہ اسلام قبول کرنے کی وجہ سامنے نہ آسکی تھی بس صرف اتنا معلوم تھا کہ گھر کے لوگ انتہائ نالاں تھے انھوں نے قبولِ اسلام کے بعد ایک مسلم برسرِ روزگار نوجوان سے شادی کر لی تھی بچے بھی تھے خوش و خرم زندگی کا سفر طے کررہے تھے
انھوں نے کہا میری ماں تیرتھ یاترا پر بنارس گئ تھیں اچانک انکی طبیعت بہت زیادہ خراب ہوگئ شاید ہارٹ اٹیک ہوا ہے فی الحال وہ بی ایچ یو میں ایڈمٹ ہیں ۔ میں اس وقت بمبئ ایئر پورٹ پر ہوں لیکن بنارس میں میرا کوئ نہیں ہے مجھے سمجھ میں نہیں آرہا ہے میں کیسے وہاں پہونچونگی ۔
میں نے انھیں دلاسا دیا حوصلہ دیا اور فلایٹ لینڈنگ کی ٹایم پوچھی اور کہا میں ایئر پورٹ پر اگیارہ بجے موجود رہونگا
میرے گھر سے بنارس ایئر پورٹ تقریبا چالیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے میں وقت پر ایئر پورٹ پہنچ گیا وہاں سسٹر فایزہ اپنی چھوٹی بہن ( نان مسلم ) کے ساتھ موجود تھیں دونوں کے ڈریسنگ جدا تھی ایک کے سر پر حجاب تھا شلوار سوٹ میں ملبوس تھی دوسری ساڑی میں ۔
میرے لئے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ کوئ شناسا اپنی کار میں اس طرح کے لباس میں مجھے نہ دیکھ لے اور نہ جانے کیا سوچے ۔
خیر ان دونوں کے ساتھ میں بنارس ہندو یونیورسٹی کے میڈیکل کالج پہنچ گیا راستہ بھر سسٹر حال احوال دریافت کرتی رہیں انکی بہن نسبتا خاموش تھی شاید جھجھک محسوس کررہی تھی اجنبی شہر میں اجنبی شخص کے ساتھ سفر کررہی تھی یا ماں کی بیماری سے پریشان تھی
میں ان دونوں کو لیکر متعلقہ شعبہ میں پہنچا جہاں اسکی ماں موت و زیست کی کشمکش مین مبتلا تھی میں نے براہِ ڈاکٹر سے ملاقات کی کیس ڈسکس کیا رپورٹس دیکھی ٹریٹمنٹ چک کیا Hypoglycemia کی تشخیص کے بعد میں نے دونوں بہنوں کو تسلی دی اور اطمینان دلایا کہ اگلے دو تین گھنٹوں میں وہ ہوش و حواس میں ہونگی جب اطمینان کی کچھ لکیریں چہرہ پر نظر آئیں میں انھیں کینٹین لیکر آگیا مشروبات سے ضیافت کی
اس دوران فایزہ سسٹر کی بہن کچھ کلوز ہوئ اور پہلی بار براہِ راست مجھ سے مخاطب ہوئ اور کہا آپ نے جو احسان کیا ہے ہم زندگی بھر اسکا بدلہ نہیں چکا سکتے ۔
پھر ہم تینوں ایمرجنسی روم کی طرف بڑھے ڈاکٹر نے ہوش میں آنے اور وایٹلس نارمل ہونے کی خوشخبری سنائ اور ملاقات کی اجازت دیدی ۔
ہم وارڈ میں داخل ہوئے سسٹر فایزہ نے ماں سے احوال پوچھنے کے بعد میرا تعارف کرایا ماں نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں لیا کہنے لگی بیٹا کیا مسلمان ایسے بھی ہوتے ہیں تم تو بھگوان کے روپ میں ہو ۔
میں نے کہا ماں جی یہ تو اخلاقی فریضہ تھا اور ہمارا مذہب تو ہمیں اسکی تعلیم بھی دیتا ہے ۔
وہ مجھے دیکھے جارہی تھی اور روتی جارہی تھی
سسٹر فایزہ مجھے کچھ بہانے سے الگ لے گئی اور کہا ڈاکٹر میں نے بہت کوشش کر لی ہے ۔ اس وقت وہ تم سے متاثر ہے اسلام پیش کرو ورنہ میری ماں جہنم میں چلی جائے گی ۔
میں پہلے کینٹین سے کچھ کھانے کی چیزیں لے آیا اپنے ہاتھوں سے کھلایا اور ماں کو اسلام کی خوبیاں بتلائ اور داخل ہونے کی درخواست کی ۔ اس نے مجھ سے وقت مانگا اور کہا سوچ کر بتاونگی ۔
سسٹر فایزہ ہتھیلی مل رہی تھی اسکی پیشانی پر مختلف رنگ آ اور جارہے تھے وہ ماں کی عارضی صحت سے زیادہ دایمی راحت کے لئے بیچین تھی ۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا مجھے گھر لوٹنا تھا اور ہاسپیٹل کا ملاقات کا وقت ختم ہوچکا تھا ۔
سسٹر نے مجھ سے کہا ڈاکٹر میری ماں اسلام کے لئے اتنی نرم کبھی نہ تھی بلکہ جب بھی میں اس سے کہتی وہ مجھے گھر سے بھگا دیتی تھی اور سخت سست کہتی تھی آج اس نے غور کرنے کے لئے تم سے وقت مانگا ہے میری امید جاگ اٹھی ہے ۔ ۔۔
میں دل دل ہی دل میں دعائیں مانگتا ، حسرت کی تصویر بنا بوجھل قدموں کے ساتھ ایک بار پھر ماں سے رخصت ہونے کے لئے ملاقات کیا وہ پھر روئ اور پھر وقت مانگ لیا ۔
میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے رخصت ہوا فایزہ سسٹر اور انکی بہن گاڑی تک چھوڑنے آییں فایزہ کی بہن جو
اب کسی حد تک بیتکلف ہوچکی تھی آنسووں کے ساتھ یہ کہتے ہوئے رخصت کیا میں نہیں سمجھتی تھی کہ مسلمان ایسے ہوتے ہیں ۔
فایزہ سسٹر کے فون کبھی کبھی آتے ہیں جب بھی فون آتا ہے ماں کا تذکرہ ضرور کرتی ہیں اور کہتی ہیں ماں تمہیں بہت یاد کرتی ہے ۔ لیکن ابھی تک اس نے تمہارے مشورہ پر عمل نہیں کیا ہے۔ یہ کہتے ہوئے اسکے لہجہ میں یاسیت کی جھلک محسوس ہوتی ہے ۔ لیکن میں اسے تسلی دیتا ہوں اور مسلسل کوششوں کی تلقین کرتا ہوں ۔
میں جب بھی اس واقعہ کو یاد کرتا ہوں سوچتا ہوں برادرانِ وطن کے دلوں میں کتنی غلط فہمیاں ہیں اور ہماری ادنی سی کوششیں کس طرح ان کو دور کرسکتی ہیں ۔
قارئین سے درخواست ہے وہ فایزہ سسٹر کی امی کے لئے ہدایت کی دعا کریں ۔
ڈاکٹر ارشد قاسمی
❤️
1