A𝙮𝙮𝙖𝙢 𝙀 𝘼𝙯𝙖🕊️ツ
February 16, 2025 at 10:49 PM
معجزۂ حیات: زین ترابی کی داستانِ استقامت
یہ کہانی ہے ایک ایسے بچے کی جو معجزاتی طور پر موت کے منہ سے واپس آیا اور پھر اپنی زندگی خدمتِ خلق اور استقامت کے نام کر دی۔
یہ سنہ 2000 کی بات ہے جب محمد مجتبیٰ ترابی المعروف زین ترابی، محض سات یا آٹھ سال کا تھا، کہ اچانک ایک مہلک اور لاعلاج بیماری ٹیکنس میں مبتلا ہو گیا۔ بیماری نے اس کے جسم کو جکڑنا شروع کر دیا، اور جب حالت بگڑنے لگی تو اسے کراچی کے معروف نجی اسپتال، آغا خان میں داخل کروا دیا گیا۔ ابتدائی ٹیسٹوں کے بعد ڈاکٹروں نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بچہ 24 گھنٹے سے زیادہ زندہ نہیں رہ پائے گا، اور اس کے والد کو آخری دیدار کے لیے بلالیا گیا۔
زین ترابی کے والد، شہید راہِ خدا علامہ حسن ترابی، اس وقت سندھ کے ایک تبلیغی دورے پر تھے۔ جب انہیں پی ٹی سی ایل کے ذریعے یہ خبر ملی، تو ان کے قریبی ساتھی اور پولیس گارڈ "شاہ جی" نے اصرار کیا کہ وہ فوراً کراچی واپس لوٹیں۔ مگر شہید حسن ترابی ایک مقصد کے ساتھ نکلے تھے، اور وہ مقصد اہلِ بیتؑ کے مشن کو آگے بڑھانا تھا۔
واپسی کے دوران، سندھ کے ایک علاقے میں اہلِ تشیع کو شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ وہاں عزاداری پر پابندی تھی، مجالس برپا نہیں کرنے دی جا رہی تھیں، اور مقدس نشانات کی بے حرمتی ہو رہی تھی۔ جب شہید ترابی وہاں پہنچے، تو مظلوم عزاداروں نے ان کے آگے فریاد کی کہ اگر وہ بھی ان کی مدد نہ کریں، تو پھر ان کی آواز کون سنے گا؟
یہ سن کر شہید حسن ترابی نے ایک فیصلہ کیا جو تاریخ میں رقم ہو گیا۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا:
"میں نے اپنے بیٹے کو بابُ الحوائج حضرت عباسؑ کے سپرد کر دیا ہے، اب حضرت عباسؑ جانیں اور میرا بیٹا جانے۔ میرا فرض ہے کہ میں پہلے امام حسینؑ کے عزاداروں کا مسئلہ حل کروں، باقی معاملات اللہ اور اہلِ بیتؑ کے سپرد۔"
یہ کہہ کر وہ عزاداروں کی مدد کے لیے وہاں رک گئے۔ چند دن بعد جب وہ کراچی واپس پہنچے اور آغا خان اسپتال گئے، تو وہاں کا منظر حیران کن تھا۔ جس بچے کو ڈاکٹروں نے 24 گھنٹے کی مہلت دی تھی، وہ نہ صرف زندہ تھا بلکہ صحت یاب ہو چکا تھا! تمام ٹیسٹ کلیئر آ رہے تھے، اور ڈاکٹر حیرت میں تھے کہ آخر یہ کیسے ممکن ہوا؟ شہید حسن ترابی نے مسکراتے ہوئے کہا:
"یہ حضرت عباسؑ کا معجزہ ہے، میں نے اپنے بیٹے کو ان کے حوالے کیا تھا، اور انہوں نے اسے بچا لیا!"
یہ وہی زین ترابی تھا جو بعد میں کراچی کے مظلوموں، بیواؤں، یتیموں اور قیدیوں کا سہارا بنا۔ اپنی زندگی کے کئی سالوں تک وہ تکفیری دہشت گردوں کی سازشوں کا نشانہ بنتا رہا، جھوٹے مقدمات میں پھنستے رہا، مختلف مقامات پر مفروری کاٹی، حتیٰ کہ کئی سال کراچی کی جیل میں بھی قید رہا۔ لیکن اس سب کے باوجود، وہ استقامت اور بہادری کی مثال بنا رہا، جیسے یہ صفات اسے اپنے شہید والد سے وراثت میں ملی ہوں۔
یہ نوجوان اپنی قوم و ملت کے لیے سرگرم عمل رہا، حتیٰ کہ 15 شعبان کو ایک روڈ حادثے میں شہید ہو گیا۔ یوں وہی بچہ، جسے حضرت عباسؑ کے معجزے نے بچایا تھا، بالآخر اپنے رب کے حضور پہنچ گیا۔
ہم پروردگارِ عالم سے دعا کرتے ہیں کہ وہ شہید زین ترابی کے درجات بلند فرمائے اور ملت کے نوجوانوں کو ان کی زندگی سے سبق لینے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
🌼 ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ 🌼
🌹 اﻟﻠَّﻬُﻢَّ ﺻَﻞِّ ﻋَﻠٰﻰ ﻣُﺤَﻤَّﺪٍ ﻭﺁﻝِ ﻣُﺤَﻤَّﺪٍ ﻭﻋَﺠِّﻞْ ﻓَﺮَﺟَﻬُﻢْ🌹
🌼 ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ ⃟ 🌼
~ 🌥️🕊️