
🇦🇪A.K.P🇵🇰
February 5, 2025 at 02:31 AM
غزہ: 6000 دجالی ہلاک 15000 زخمی
اسرائیلی فوج کے نئے سربراہ، جنرل ایال زامیر نے غزہ جنگ میں ہونے والی دجالی ہلاکتوں اور زخمیوں کے نئے اعداد و شمار کا انکشاف ہوا ہے۔ تازہ اعداد و شمار کے حوالے سے بڑے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ جنرل زامیر نے غزہ پر جنگ کے آغاز سے لے کر گزشتہ سال (2024ء) کے آخر تک فوج کے نقصانات سے پردہ اٹھایا ہے۔
اسرائیلی چینل 12 پر نشر ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق جنرل زامیر اسرائیلی وزارت دفاع کے جنرل ڈائریکٹر بھی ہیں، ان کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ 2024ء کے دوران 5942 نئے اسرائیلی خاندانوں کو "شہداء کے خاندانوں کی فہرست" میں شامل کرکے ان کے بیٹوں کے قتل پر ان سے تعزیت کی گئی۔ اس دوران 15 ہزار سے زیادہ زخمیوں کو بحالی کے مراکز میں داخل کیا گیا۔ زامیر نے جاری جنگ کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں زخمیوں اور "مقتولوں" کے خاندانوں کا خیال رکھنا چاہیے اور ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ انہیں مناسب مدد اور حمایت حاصل ہو۔
اسرائیلی امور کے ماہر عزام ابو العدس کے مطابق "شہیدوں کے خاندان" کی اصطلاح اسرائیلی فوج کے یہاں اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ یہ وہ خاندان ہیں، جن کے کسی فرد کی جنگ میں موت واقع ہوئی ہو۔ ابو العدس نے الجزیرہ نیٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جنرل زامیر کی گفتگو میں استعمال ہونے والی اصطلاح "شہیدوں کے خاندانوں میں شمولیت" کا مطلب فوجیوں کے خاندانوں سے ہے، نہ کہ شہریوں کے خاندانوں سے، کیونکہ فوجی ہلاک شدگان کے لیے ایک مخصوص فہرست "شہیدوں کے خاندان" کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔"
یہ معلومات دجالی فوج کی طرف سے جنگ میں ہونے والے نقصانات کے بارے میں سب سے لیٹسٹ اعداد و شمار پر مبنی ہیں، جب کہ اس سے پہلے کے اعداد و شمار کے مطابق، طوفان الأقصیٰ آپریشن کے دوران صرف 1800 افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں سے تقریباً 400 فوجی غزہ میں زمینی آپریشن کے دوران مارے گئے۔
ابو العدس نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ جنرل زامیر نے اس تعداد کا افشا شاید اس لیے کیا ہو، کیونکہ یہ معلومات کسی طرح لیک ہو کر میڈیا تک ویسے ہی پہنچ چکی تھیں اور جنرل زامیر نے اس کا راستہ روکنے کی بہت کوشش کی ہوگی، مگر جب بات میڈیا تک پہنچ گئی تو میڈیا کے اعلان سے قبل ہی اس نے خود ہی اعلان کرنے کو بہتر سمجھا ہوگا۔ یہ کوئی انہونی نہیں، بلکہ ماضی میں بھی ایسی معلومات کے افشاء کے واقعات ہو چکے ہیں۔
دوسری طرف، اسرائیلی امور کے ماہر عماد ابو عواد کا کہنا ہے کہ دجالی فوج کی پرانی عادت ہے کہ وہ جنگ ختم ہونے کے بعد آہستہ آہستہ جانی و مادی نقصانات سے پردہ اٹھاتی ہے۔ جنرل زامیر کے بیانات کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ ابو عواد نے الجزیرہ نیٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اصل اعداد و شمار کے افشاء کا مقصد اسرائیلی عوام کو حقیقت سے آگاہ کرنا ہے، کیونکہ یہ اعداد و شمار کسی نہ کسی طریقے سے افشا ہو ہی جائیں گے اور تحقیقاتی کمیٹیاں جو معلومات رکھتی ہیں، وہ آخرکار نشر کر دیں گی۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی تمام جنگوں کے نتیجے میں آنے والے بحرانوں کا آغاز جنگ کے اختتام کے ساتھ ہوتا ہے، اس لیے جب غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ نافذ ہو گیا، تو حقائق سامنے آنا شروع ہوگئے۔ آپ دیکھیں گے ہر سمت میں حقیقی نقصانات کا حجم واضح ہوگا اور بحرانوں میں اضافہ ہونے لگے گا۔"
حیران کن اعداد و شمار:
اسرائیلی فوج کی جانب سے نقصانات پر پردہ ڈالنے کے باوجود، کچھ اسرائیلی ذرائع نے سوشل میڈیا پر یہ اطلاع دی ہے کہ اسپتالوں میں ریکارڈ کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق غزہ، لبنان اور مغربی کنارے کی جنگوں میں اسرائیلی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 13 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ اس سے قبل، یوسی یہوشع، جو اخبار "یدیعوت احرونوت" کے فوجی تجزیہ کار ہیں، نے ایک رپورٹ میں اندازہ ظاہر کیا تھا کہ اسرائیلی فوج نے گزشتہ سال غزہ کی جنگ میں سینکڑوں فوجی افسران اور سپاہیوں کو کھو دیا ہے، اس کے علاوہ تقریباً 12 ہزار زخمی اور معذور افراد بھی شامل ہیں۔ اسرائیلی فوج نے 22 جنوری کو بتایا کہ غزہ کی پٹی سے حالیہ دنوں میں نکلنے والے غفعاتی بریگیڈ نے جنگ کے دوران 86 جنگجو اور افسران کو کھو دیا۔
یہ نئے اعداد و شمار جو نئے فوجی سربراہ نے جاری کیے، اس سے پہلے کے فوجی بیانات سے بالکل مختلف ہیں، سابقہ بیانات میں صرف 900 ہلاکتوں کا اعتراف کیا گیا تھا۔ کہاں 900 اور کہاں 6000 اور پھر کہاں 13000؟ اسرائیلی فوج نے جنگ کے دوران مختلف محاذوں پر اپنی ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد بہت کم ظاہر کی، تاہم "ہآرتس" اخبار نے جنگ کے ایک سال مکمل ہونے پر ایک رپورٹ شائع کی، جس میں کہا گیا کہ 12 ہزار فوجی زخمی اور معذور ہوئے، جنہیں وزارتِ دفاع کے بحالی کے شعبے میں منتقل کیا گیا۔ ان زخمیوں میں 51% کی عمر 18 سے 30 سال کے درمیان ہے اور 66% افراد ریزرو فوجی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بحالی کے شعبے میں ہر ماہ تقریباً 1000 جنگ کے زخمی داخل ہوتے ہیں، ساتھ ہی تقریباً 500 نئے درخواستیں بھی وصول کی جاتی ہیں، جن میں پچھلی جنگی زخمیوں کو شناخت کرنے کے لیے درخواست کی جاتی ہے۔ اس شعبے کے تخمینوں کے مطابق، 2030 تک اسرائیلی فوج میں تقریباً ایک لاکھ معذور افراد ہوں گے، جن میں سے نصف ذہنی مریض ہوں گے۔ اسرائیلی وزارت دفاع نے 28 جنوری کو جاری کردہ ایک بیان میں اعتراف کیا کہ "وزارت کے بحالی کے شعبے نے جنگ کے آغاز سے اب تک 15 ہزار سے زیادہ فوجی زخمیوں کی دیکھ بھال کی ہے۔"
عاموس ہرئیل، جو "ہآرتس" کے فوجی تجزیہ کار ہیں، نے ایک مضمون میں جو گزشتہ ماہ کے وسط میں شائع ہوا، کہا کہ فوج کے نقصانات غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے حصول میں ایک اہم عنصر بنے اور ساتھ ہی فلسطینی مزاحمت کے زیر قبضہ علاقے سے قیدیوں کی فوری رہائی کی ضرورت بھی تھی۔"
"ایک بڑی فوج کی ضرورت"
فوجی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جنرل زامیر کے ان اعداد و شمار کو افشا کرنے کی وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ہمیشہ اس بات کا مطالبہ کرتا رہا ہے کہ دجالی ریاست کے لیے ایک بڑی فوج بنائی جائے اور ایک چھوٹی مگر جدید ٹیکنالوجی اور آلات سے لیس فوج پر انحصار نہ کیا جائے۔ ابو عواد کا کہنا ہے کہ جنرل زامیر اسرائیل کے فوجی نظریئے اور حکمت عملی کو تبدیل کرنے کی کوشش میں ہے اور وہ ایک بڑی فوج کی تشکیل چاہتا ہے، نہ کہ سابقہ چیف آف اسٹاف ایویو کوہافی کی ایک چھوٹی فوج پر اکتفا۔
اسرائیلی اخبار "معاريف" نے رپورٹ کیا کہ دجالی فوج اس وقت، ان کوششوں میں مصروف ہے کہ کسی طرح وہ اپنے بری شعبے کو دوبارہ بحال کرے، اس میں بڑی تعداد میں جوانوں کا اضافہ کیا جائے اور ان میں سب سے اہم شعبہ "میکانائزڈ ٹینک فورس" کو مضبوط کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ رپورٹ میں ذکر کیا گیا کہ فوج نے اسرائیل میں تیار کی جانے والی میرکاوا "4" ٹینکوں کی سینکڑوں پیداوار برھانے پر توجہ مرکوز کی ہے اور اسے میرکاوا "3" ٹینکوں کو سروس سے نکالنے کا فیصلہ ملتوی کرنا پڑا ہے، کیونکہ غزہ کی جنگ میں اس کے بکتربند گاڑیوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچا اور اس کے پاس مطلوبہ تعداد میں ٹینک بنانے کی صلاحیت نہیں تھی تاکہ کمی کو پورا کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ، فوج کو ان سینکڑوں ٹینکوں اور بکتربند گاڑیوں کی مرمت کے لیے دو نئے مراکز قائم کرنے پر مجبور ہونا پڑا جو یا تو جنگ کے دوران زیادہ استعمال کی وجہ سے خراب ہو گئے تھے یا انہیں نقصان پہنچا تھا، جس کے نتیجے میں ان کی عمر تیزی سے گھٹ گئی، حالانکہ پہلے اسرائیل یہ ٹینک دنیا کے تیسرے درجے کے ممالک کو بیچنے کا ارادہ رکھتا تھا۔"
"فوج کی بحالی کی صلاحیت"
اسرائیلی امور کے ماہر فراس یاغی کا کہنا ہے کہ جنرل زامیر کی باتیں اسرائیلی فوج کی شدید ضرورت کو ظاہر کرتی ہیں کہ اسے تربیت یافتہ سپاہیوں کی ضرورت ہے تاکہ جو نقصان فوج نے اٹھایا ہے، اس کا تدارک کیا جا سکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ "اگر فوج کو یہ نقصانات پورے کرنے ہیں، تو متبادل سپاہی کو مکمل تربیت یافتہ، اہل اور لڑنے کے قابل ہونا چاہیے۔" عسکری تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسرائیلی فوج کو اپنی سابقہ حالت میں واپس آنے میں 8 سال لگیں گے، جس میں کمانڈرز، کمپنی کمانڈرز، بریگیڈ کمانڈرز اور بٹالین افسران کی تبدیلی شامل ہوگی۔ اس لیے جنرل زامیر ایک بڑی اور طاقتور فوج کی بات کر رہا ہے اور وہ لازمی فوجی سروس کی مدت میں اضافہ کرنے، حریدیوں (مذہبی اسرائیلیوں) کو بھرتی کرنے اور فوج کے داخلی ڈھانچے کا دوبارہ جائزہ لینے پر زور دے رہا ہے۔ اس کے لیے زامیر کو "فوج کے اندر مکمل انقلاب" لانا ہوگا، زامیر ہمیشہ اس بات کا مطالبہ کرتا رہا ہے کہ فوج کے پاس ایک مضبوط انفنٹری فورس ہونی چاہیے، وہ وہ خود بھی ٹینک فورس کے شعبے سے تعلق رکھتا ہے اور اس کا زیادہ تر فوکس انفنٹری فوج پر ہے۔
حریدیوں کی بھرتی:
یاغی کا کہنا ہے کہ جنرل زامیر کا بھاری نقصانات کا انکشاف واضح طور پر اس بات کی ضرورت کو ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل میں "حریدی" یہودیوں کو فوج میں بھرتی کیا جائے، جو اب اسرائیل میں ایک عوامی رائے کا معاملہ بن چکا ہے۔ زامیر اس معاملے کو نظرانداز نہیں کر سکتا، اس لیے وہ فوجی اور سیاسی اداروں میں عوامی رائے تشکیل دینے کے لیے نقصانات کے حجم کا ذکر کر رہا ہے تاکہ سخت گیر یہودیوں کی بھرتی کے قوانین کو منظور کروایا جا سکے۔ یاغی کے مطابق اس معاملے کا اہم سوال یہ ہے: کیا اس بات کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے؟ خاص طور پر چونکہ زامیر کو چیف آف اسٹاف کے طور پر منتخب کرنے والا وزیر اعظم نیتن یاہو ہے، جو اپنی حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے مذہبی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کا خواہش مند ہے۔ جبکہ حریدی کسی صورت فوج میں بھرتی ہونے کو تیار نہیں۔ (ضیاء چترالی)
💪
1