Fruit Chat
Fruit Chat
February 16, 2025 at 07:16 AM
اچھائی لوٹ آتی ہے۔ ایک بندر کی تصویر سے شروع ہونے والا پہ در پہ واقعات کا سلسلہ جو ایک اندھے گینگ ریپ کے ملزم کو بے نقاب کرنے پر مکمل ہوا۔ وہ ہفتہ کا روز تھا، ایک عام سا دن، ہر شے ہر معمول، معمول کے مطابق۔ میں گھر جانے کے لیے تقریباً بارہ بجے کے قریب روانہ ہوا. گھر سے صرف آدھا کلومیٹر دور تھا کہ رات کے ڈیوٹی آفیسر کی کال آئی، اس نے ایک بوڑھی عورت کے ساتھ واردات کی بابت بتایا۔ آدھی رات کو واردات خلاف معمول سی بات تھی۔ اس لیے میں نے اسکو سختی سے کیمرہ جات چیک کرنے اور وقوعہ کی تصدیق کی ہدایت کی۔ کال کاٹنے ہی والا تھا کہ اس نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ بوڑھیا کچھ اور بھی کہہ رہی ہے، یہ کہتے ہوئے اس کی زبان جیسے تھتھلا گئی۔ "بوڑھیا کہ رہی ہے کہ اس کا ریپ ہوا ہے۔” ڈیوٹی آفیسر کی پہلی فیلڈ پوسٹنگ تھی۔ میں نے فورا انجم سب انسپکٹر کو کال کی جو میری سٹیشن سے روانگی تک موجود تھا۔ اسکو واپس جانے اور معاملات کی تصدیق کی ہدایت کی۔ پندرہ سے بیس منٹ بعد میں نے انجم کو فون کال کی اور تفصیل جاننا چاہی ۔ انجم اس وقوعہ کو خود ساختہ اور جھوٹا قرار دے رہا تھا، کیونکہ بوڑھیا جھاڑیوں اور جنگل کا ذکر کررہی تھی اور انجم بضد تھا کہ شہری تھانہ ہونے کے سبب ایسا کوئی مقام نہیں۔ میں نے نہر کے ساتھ موجود جھاڑیوں کی موجودگی کی بابت اسکو بتلایا اور خود بھی گھر سے مقام وقوعہ کی جانب روانہ ہوا۔ انجم کو ابتدائی تلاش میں ہی ایک جگہ ایک لیڈیز سٹالر اور کیپ ملا جو خاتون نے شناخت کر لیا۔ جو بعد ازاں ایک خالی پانی کی بوتل اور مقام وقوعہ بھی تلاش کر لیا گیا۔ یہ رات کا سب سے خوفناک سچ تھا۔ ایک ستر سالہ خاتون کے ساتھ دو نامعلوم افراد نے زیادتی کی مسلسل خاک چھاننے کے باوجود کوئی سراغ ملنے کو نہ آرہا تھا۔ اندارج مقدمہ کے وقت محکمانہ سیانو نے دبے الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کی لیکن میرا سادہ سا جواب تھا۔ پہلا ظلم تو اس بوڑھی خاتون پر ہو چکا، غبارہ پھٹنے کے الزام پر ختم ہو سکنے والی پوسٹنگ کی خاطر میں دوسرا ظلم نہیں کروں گا۔ مقدمہ گینگ ریپ کی دفعات میں ہی درج ہو گا۔ فیصلہ رنگ دکھانے لگا تھا۔ محکمہ پولیس کی ہر معلوم شاخ/ونگ حرکت میں آچکی تھی ۔ اس پورے وقت میں جس شخص کو نظر انداز اور سب کم جواب طلبی ہوئی وہ میں تھا۔ اگلے روز اس واقعہ طبیعت میں بے چینی پیدا کیے رکھی, دوپہر کے وقت ایک تصویر واٹس ایپ پر موصول ہوئی جس میں ایک بندھا ہوا بندر زخمی حالت میں بے بسی کی داستان سنا رہا تھا۔ اس تصویر کے ساتھ ایک صوتی پیغام بھی تھا جس میں اطلاع دہندہ نے میرے اختیار کے علاقہ کا حوالہ دیا ور مجھے یاد کروایا کہ یہاں ہر ہونے والے ظلم پر میں جواب دہ ہوں۔ آخری فقرہ جذباتی لہجہ میں ادا کیا۔ سر ویکھو نہ تسی ایس ایچ او نے تسی علاقہ دے بادشاہ ہو کی ظلم ہو رہیا ظلم دی اخیر ہو گئی۔ میرا کم سی تانوں دسنا ہن تسی جانو تے اللہ جانے۔ اسکا آخری فقرہ سننے کے بعد مجھ سے رکا نہیں گیا، اسوقت میرے ساتھ انجم دفتر میں موجود تھا، ہم سیدھا بتائے ہوئے مقام پر گئے اور تھوڑی تلاش کے بعد ایک زخمی بندر کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے، ۔گجر فیملی نے جادو ٹونے کے توڑ کے لیے بندر رکھا ہوا تھا ہم بندر اور اس کے مالک کو لیکر تھانہ آگئے، میں اینمل ریسکیو سنٹر سے رابطہ کی کوشش کر نے لگا جو تھوڑی دیر بعد رابطہ قائم ہو گیا، اور انکی ٹیم روانہ کر دی۔ اس دوران بندر کے مالک کے پیچھے بہت سے لوگ تھانہ میں آنا شروع ہو گئے۔ میں نے اس کے خلاف ازخود کوئی کاروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ کاروائی کو اینمل ریسکیو ٹیم کی صوابدید پر چھوڑ دیا۔ بندر کے مالک کی سفارش کے لیے ایک پولیس والا بھی تھانہ میں آیا، جو گھنٹوں تک تھانہ میں موجود بھی رہا، میرے بندر کے مالک کو فوری رہا نہ کرنے کے سخت موقف پر مایوس ہو کر اس شخص نے میرے ساتھ بندر کو ریسکیو کر کے لانے والے انجم سب انسپکٹر سے درخواست کی اور دوران گفتگو اندھے گینگ ریپ کا بھی ذکر آیا، اس نے سرسری طور پر ایک ملزم کا ذکر کیا جس کو اس نے تقریبا 10 سال پہلے تھانہ شمالی کے ایک مقدمہ میں چالان دیکھا ہوتے دیکھا تھا۔ طریقہ واردات ایک جیسا ہونے کی وجہ سے وہ سو فیصد یقینی تھا کہ یہ وہی شخص ہے۔ ۔ ملزم کا نام مقام مقدمہ کا سال اور مقدمہ اسکو کچھ بھی درست طور پر یاد نہ تھا لیکن ملزم کا طریقہ انوکھا ہونے کی وجہ سے وہ اسکو یاد رہ گیا تھا۔ مزید اس نے اس ملزم کو تقریبا بیس روز پہلے دیکھا بھی تھا۔ اس کیس کے سلسلے میں یہ اکلوتا سراغ تھا جو پورے پولیس محکمہ کے پاس موجود تھا۔ ٹیکنیکل سپورٹ برانچ انچارج نے مجھ سے یہ سراغ دیگر کو بتانے کی بابت پوچھا۔ میں نے سب کو بتانا اس لیے مناسب سمجھا کہ اس قدر خوفناک اور سنگین واقعہ میں ملزم کا گرفتار ہونا ضروری ہے خواہ کوئی بھی کرے۔ مردہ گھوڑے میں جان پڑ گئی مایوس ہوتے تفتیشی پھر سے کام پر لگ گئے لیکن کوئی بھی ایف آئی آر یا مقدمہ تلاش نہیں کر پا رہا تھا۔ کوئی ٹیکنیکل فلٹر کمپیوٹر کی جدت کام نہیں آرہی تھی۔ باقی ٹیم کے رکن اپنا اپنا کام کرتے رہے کوئی سینکڑوں سکیورٹی گارڈ روانہ کو چیک کر رہا تھا اور کوئی کیمروں کے زاویے تلاش رہاتھا۔ باقی ہیومن ریسورس پر بھروسا کرتے ایک شخص کے پرانے پتہ کو اندازوں سے تلاش رہے تھے۔ یہاں یہ بات شائد عجیب لگے کہ جس رات یہ واقعی پیش آیا میں اس بوڑھی خاتون سے ایک لفظ مخاطب نہ ہو پایا تھا۔ میں نے اس خاتون کے چہرہ دیکھنے کی ہمت بھی کھو دی تھی۔ آفیسر مہتمم کے دفتر درخواست لکھواتے میرے اندر اتنی طاقت بھی نہ تھی کہ اپنی کرسی پر بیٹھ جاتا ۔ میں دروازے کے ساتھ جہاں اردلی بیٹھ سکتے ہیں۔ بیٹھ رہا اور اس تذبذب کا شکار کہ کیا میں سامنے پڑی کرسی پر بیٹھنے کا اہل ہوں۔اس احساس اور تکلیف کو بیان نہیں کر سکتا۔ اسی تکلیف کے زیر اثر کوشش کرتا رہا۔ ۔ پندرہ جنوری میں اکتاہٹ کا شکار ہو گیا یہ بات میرے ذہن میں بار بار ابھر رہی تھی مقدمات کو چیک کرنے کا کام کانسٹیبل یا کلرک کے کرنے کا نہیں ہے۔ سابقہ تجربات سے باور تھا کہ آپ کاج مہا کاج اس وقت تک ایف آئی آر کی عدم موجودگی تقریبا یقینی بیان کی جا چکی تھی۔ میں نے خود ایک ایک ایف آئی ار پڑھنے کا فیصلہ کیا اور اخر ہو بہو طریقہ واردات کے ملزم تک پہنچ گیا۔ مقدمہ ملتے ہی اگلا سفر مشکل نہ تھا سی آر او سے ملنے والی ٹیکنیکل سپورٹ تھانہ شمالی میں فیلڈ پوسٹنگ دور کے ٹیم ممبران، و لوکل ریسورس اور مسلسل میرا غصہ برداشت کرتے کام ختم ہو جانے تک ساتھ رہنے والی میری ٹیم نے راتوں رات اس ظالم کو بے نقاب کیا کہ جس کے عمل کی تاریکی کو اماؤس نے بھی چھپانے سے انکار کر دیا۔ پھر وہ دن بھی آیا جب ملزم اپنی لاٹھی ٹیکتا بوڑھی خاتون کے سامنے آیا ۔۔۔ متاثرہ خاتون کے سامنے کھڑے ملزم کا اڑتا رنگ کانپے وجود اور بے پناہ رفتار سے دھڑکتا دل حقیقت بیان کر چکا تھا۔ ملزم کے سامنے کھڑے ہو کر اس خاتون نے کہا ہاں یہ وہی ہے ہاں یہ وہی ہے ہاں یہ وہی ہے۔ اس وقت میں نے اس خاتون کے چہرہ کی طرف پہلی بار براہ راست دیکھا اور کرسی پر ڈھے گیا۔ ۔ آنکھوں میں آنسو رواں تھے لیکن یہ شکرانے کے آنسو تھے۔ میں نے اپنا کام کر دیا باقی رب دی رضا۔ ایک بے زبان بندر کی تکلیف اور اسکی جواب دہی کے خوف سے شروع ہونے والا سلسلہ مکمل ہو چکا تھا۔ صدائیں زندہ رہتی ہیں۔ اچھائی لوٹ آتی ہے.
👍 ❤️ 3

Comments