Fruit Chat WhatsApp Channel

Fruit Chat

30 subscribers

About Fruit Chat

We live in the illusion of knowledge and freedom, the people of Pakistan have been subjected to the worst organized information flood. Everyone knows everything except what to do. The threat to "System" of oppression is consciousness and awareness. Remember: "To be a good dictator one must not stop the revolution but manage it". George Orwell

Similar Channels

Swipe to see more

Posts

Fruit Chat
Fruit Chat
2/14/2025, 9:33:39 AM

*پاکستان کا کوئی مستقبل نہیں۔۔* ہمارے ذہن میں کیونکہ صرف سیاسی عقائد اور سیاسی شعبدہ بازی کو زندہ رکھا جاتا ہے، اس لیے ہم سامنے ہونے والی تبدیلیوں کو بھی محسوس نہیں کر پاتے۔ ہم تیزی سے اس خطرناک صورتحال کی طرف جا رہے ہیں جس کے متعلق ہم خود اور مہذب دنیا نشان دہی کرتی آرہی ہے۔ وقت جس تیزی سے گزر رہا ہے، بچنے کے امکان اتنی ہی تیزی سے معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ ہم اکیلے نہیں ہیں جو اس صورتحال سے دوچار ہیں۔ پانی زندگی کی علامت ہے یہ پانی اگر رخ بدل لے تو ماہنجوداڑو جیسی اپنے وقت کی عظیم تہذیب قصہ ماضی بن جاتی ہے۔ پاکستان نے 2017 میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں پاکستان کے 2035 میں پاکستان میں پانی کے ختم ہو جانے کی نشان دہی کی گئی۔ سال 2022 میں برصغیر کی تاریخ ک شدید ترین سیلاب آیا۔ اس سیلاب سے پاکستان کا 75 فیصد سے زائد حصہ ڈوب گیا۔ ہم نے اس سال بھی صرف مر جانے والوں کے کفن دفن کے لیے بھیک ہی مانگی۔ اور اگلے سیلاب تک کی خاموشی اوڑھ لی۔ لیکن ایک بات جو غور کرنے کی ہے۔ کہ لاہور اور اس کے گرد و نواح کے تقریبا 16 ضلعے کیوں محفوظ رہے۔ انڈیا نے کشمیر میں ایک کے بعد ایک ڈیم بنائے اور ہم صرف ترانے بجاتے رہے۔ *انڈیا نے برصغیر کی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب روک لیا۔ اور روکنے کے بعد اسکو استعمال بھی کر لیا، آج انڈیا ایک گولی چلائے بغیر پاکستان کو تباہ کر سکتا ہے۔* برسات کا پانی سنبھالنے کا انتظام نہ کر کے ہم نے اپنا مستقبل تاریکی میں لکھ دیا ہے ۔ ہم ہمالیہ اور ہندو کش کے پانی پر اکتفا کرتے رہے۔ لیکن جب نیپالی کوہ پیمائی کو گئے تو واپسی پر جو فقرہ شہہ سرخیوں میں چھپا۔ *"Himalya is turning black”* برفانی ٹوپیاں سکڑ رہی ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم شہباز شریف صاحب نے کیا خوب فقرہ بولا تھا۔ *"Pakistan is Racing with Time”* آج ایک حکم کے زریعے پانی کے غیر ضروری استعمال پر پابندی اوت سخت جرمانہ کا حکم صادر ہوا ہے جو بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ یقینا ہم دوڑ سے پہلے ہار چکے ہیں ہم نے ابھی تک سمت بھی طے نہیں کی ہے۔ ایسے 188 ض ف کے آڑروں کی عادت ڈال لیں۔ کیونکہ ہم نے وقت گنوا دیا ہے۔ اور گنواتے جا رہے ہیں۔ https://fruit-chat.com/ur/urdu/column/water-shortfall-in-punjab/

❤️ 👍 2
Fruit Chat
Fruit Chat
2/16/2025, 7:16:15 AM

اچھائی لوٹ آتی ہے۔ ایک بندر کی تصویر سے شروع ہونے والا پہ در پہ واقعات کا سلسلہ جو ایک اندھے گینگ ریپ کے ملزم کو بے نقاب کرنے پر مکمل ہوا۔ وہ ہفتہ کا روز تھا، ایک عام سا دن، ہر شے ہر معمول، معمول کے مطابق۔ میں گھر جانے کے لیے تقریباً بارہ بجے کے قریب روانہ ہوا. گھر سے صرف آدھا کلومیٹر دور تھا کہ رات کے ڈیوٹی آفیسر کی کال آئی، اس نے ایک بوڑھی عورت کے ساتھ واردات کی بابت بتایا۔ آدھی رات کو واردات خلاف معمول سی بات تھی۔ اس لیے میں نے اسکو سختی سے کیمرہ جات چیک کرنے اور وقوعہ کی تصدیق کی ہدایت کی۔ کال کاٹنے ہی والا تھا کہ اس نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ بوڑھیا کچھ اور بھی کہہ رہی ہے، یہ کہتے ہوئے اس کی زبان جیسے تھتھلا گئی۔ "بوڑھیا کہ رہی ہے کہ اس کا ریپ ہوا ہے۔” ڈیوٹی آفیسر کی پہلی فیلڈ پوسٹنگ تھی۔ میں نے فورا انجم سب انسپکٹر کو کال کی جو میری سٹیشن سے روانگی تک موجود تھا۔ اسکو واپس جانے اور معاملات کی تصدیق کی ہدایت کی۔ پندرہ سے بیس منٹ بعد میں نے انجم کو فون کال کی اور تفصیل جاننا چاہی ۔ انجم اس وقوعہ کو خود ساختہ اور جھوٹا قرار دے رہا تھا، کیونکہ بوڑھیا جھاڑیوں اور جنگل کا ذکر کررہی تھی اور انجم بضد تھا کہ شہری تھانہ ہونے کے سبب ایسا کوئی مقام نہیں۔ میں نے نہر کے ساتھ موجود جھاڑیوں کی موجودگی کی بابت اسکو بتلایا اور خود بھی گھر سے مقام وقوعہ کی جانب روانہ ہوا۔ انجم کو ابتدائی تلاش میں ہی ایک جگہ ایک لیڈیز سٹالر اور کیپ ملا جو خاتون نے شناخت کر لیا۔ جو بعد ازاں ایک خالی پانی کی بوتل اور مقام وقوعہ بھی تلاش کر لیا گیا۔ یہ رات کا سب سے خوفناک سچ تھا۔ ایک ستر سالہ خاتون کے ساتھ دو نامعلوم افراد نے زیادتی کی مسلسل خاک چھاننے کے باوجود کوئی سراغ ملنے کو نہ آرہا تھا۔ اندارج مقدمہ کے وقت محکمانہ سیانو نے دبے الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کی لیکن میرا سادہ سا جواب تھا۔ پہلا ظلم تو اس بوڑھی خاتون پر ہو چکا، غبارہ پھٹنے کے الزام پر ختم ہو سکنے والی پوسٹنگ کی خاطر میں دوسرا ظلم نہیں کروں گا۔ مقدمہ گینگ ریپ کی دفعات میں ہی درج ہو گا۔ فیصلہ رنگ دکھانے لگا تھا۔ محکمہ پولیس کی ہر معلوم شاخ/ونگ حرکت میں آچکی تھی ۔ اس پورے وقت میں جس شخص کو نظر انداز اور سب کم جواب طلبی ہوئی وہ میں تھا۔ اگلے روز اس واقعہ طبیعت میں بے چینی پیدا کیے رکھی, دوپہر کے وقت ایک تصویر واٹس ایپ پر موصول ہوئی جس میں ایک بندھا ہوا بندر زخمی حالت میں بے بسی کی داستان سنا رہا تھا۔ اس تصویر کے ساتھ ایک صوتی پیغام بھی تھا جس میں اطلاع دہندہ نے میرے اختیار کے علاقہ کا حوالہ دیا ور مجھے یاد کروایا کہ یہاں ہر ہونے والے ظلم پر میں جواب دہ ہوں۔ آخری فقرہ جذباتی لہجہ میں ادا کیا۔ سر ویکھو نہ تسی ایس ایچ او نے تسی علاقہ دے بادشاہ ہو کی ظلم ہو رہیا ظلم دی اخیر ہو گئی۔ میرا کم سی تانوں دسنا ہن تسی جانو تے اللہ جانے۔ اسکا آخری فقرہ سننے کے بعد مجھ سے رکا نہیں گیا، اسوقت میرے ساتھ انجم دفتر میں موجود تھا، ہم سیدھا بتائے ہوئے مقام پر گئے اور تھوڑی تلاش کے بعد ایک زخمی بندر کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے، ۔گجر فیملی نے جادو ٹونے کے توڑ کے لیے بندر رکھا ہوا تھا ہم بندر اور اس کے مالک کو لیکر تھانہ آگئے، میں اینمل ریسکیو سنٹر سے رابطہ کی کوشش کر نے لگا جو تھوڑی دیر بعد رابطہ قائم ہو گیا، اور انکی ٹیم روانہ کر دی۔ اس دوران بندر کے مالک کے پیچھے بہت سے لوگ تھانہ میں آنا شروع ہو گئے۔ میں نے اس کے خلاف ازخود کوئی کاروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ کاروائی کو اینمل ریسکیو ٹیم کی صوابدید پر چھوڑ دیا۔ بندر کے مالک کی سفارش کے لیے ایک پولیس والا بھی تھانہ میں آیا، جو گھنٹوں تک تھانہ میں موجود بھی رہا، میرے بندر کے مالک کو فوری رہا نہ کرنے کے سخت موقف پر مایوس ہو کر اس شخص نے میرے ساتھ بندر کو ریسکیو کر کے لانے والے انجم سب انسپکٹر سے درخواست کی اور دوران گفتگو اندھے گینگ ریپ کا بھی ذکر آیا، اس نے سرسری طور پر ایک ملزم کا ذکر کیا جس کو اس نے تقریبا 10 سال پہلے تھانہ شمالی کے ایک مقدمہ میں چالان دیکھا ہوتے دیکھا تھا۔ طریقہ واردات ایک جیسا ہونے کی وجہ سے وہ سو فیصد یقینی تھا کہ یہ وہی شخص ہے۔ ۔ ملزم کا نام مقام مقدمہ کا سال اور مقدمہ اسکو کچھ بھی درست طور پر یاد نہ تھا لیکن ملزم کا طریقہ انوکھا ہونے کی وجہ سے وہ اسکو یاد رہ گیا تھا۔ مزید اس نے اس ملزم کو تقریبا بیس روز پہلے دیکھا بھی تھا۔ اس کیس کے سلسلے میں یہ اکلوتا سراغ تھا جو پورے پولیس محکمہ کے پاس موجود تھا۔ ٹیکنیکل سپورٹ برانچ انچارج نے مجھ سے یہ سراغ دیگر کو بتانے کی بابت پوچھا۔ میں نے سب کو بتانا اس لیے مناسب سمجھا کہ اس قدر خوفناک اور سنگین واقعہ میں ملزم کا گرفتار ہونا ضروری ہے خواہ کوئی بھی کرے۔ مردہ گھوڑے میں جان پڑ گئی مایوس ہوتے تفتیشی پھر سے کام پر لگ گئے لیکن کوئی بھی ایف آئی آر یا مقدمہ تلاش نہیں کر پا رہا تھا۔ کوئی ٹیکنیکل فلٹر کمپیوٹر کی جدت کام نہیں آرہی تھی۔ باقی ٹیم کے رکن اپنا اپنا کام کرتے رہے کوئی سینکڑوں سکیورٹی گارڈ روانہ کو چیک کر رہا تھا اور کوئی کیمروں کے زاویے تلاش رہاتھا۔ باقی ہیومن ریسورس پر بھروسا کرتے ایک شخص کے پرانے پتہ کو اندازوں سے تلاش رہے تھے۔ یہاں یہ بات شائد عجیب لگے کہ جس رات یہ واقعی پیش آیا میں اس بوڑھی خاتون سے ایک لفظ مخاطب نہ ہو پایا تھا۔ میں نے اس خاتون کے چہرہ دیکھنے کی ہمت بھی کھو دی تھی۔ آفیسر مہتمم کے دفتر درخواست لکھواتے میرے اندر اتنی طاقت بھی نہ تھی کہ اپنی کرسی پر بیٹھ جاتا ۔ میں دروازے کے ساتھ جہاں اردلی بیٹھ سکتے ہیں۔ بیٹھ رہا اور اس تذبذب کا شکار کہ کیا میں سامنے پڑی کرسی پر بیٹھنے کا اہل ہوں۔اس احساس اور تکلیف کو بیان نہیں کر سکتا۔ اسی تکلیف کے زیر اثر کوشش کرتا رہا۔ ۔ پندرہ جنوری میں اکتاہٹ کا شکار ہو گیا یہ بات میرے ذہن میں بار بار ابھر رہی تھی مقدمات کو چیک کرنے کا کام کانسٹیبل یا کلرک کے کرنے کا نہیں ہے۔ سابقہ تجربات سے باور تھا کہ آپ کاج مہا کاج اس وقت تک ایف آئی آر کی عدم موجودگی تقریبا یقینی بیان کی جا چکی تھی۔ میں نے خود ایک ایک ایف آئی ار پڑھنے کا فیصلہ کیا اور اخر ہو بہو طریقہ واردات کے ملزم تک پہنچ گیا۔ مقدمہ ملتے ہی اگلا سفر مشکل نہ تھا سی آر او سے ملنے والی ٹیکنیکل سپورٹ تھانہ شمالی میں فیلڈ پوسٹنگ دور کے ٹیم ممبران، و لوکل ریسورس اور مسلسل میرا غصہ برداشت کرتے کام ختم ہو جانے تک ساتھ رہنے والی میری ٹیم نے راتوں رات اس ظالم کو بے نقاب کیا کہ جس کے عمل کی تاریکی کو اماؤس نے بھی چھپانے سے انکار کر دیا۔ پھر وہ دن بھی آیا جب ملزم اپنی لاٹھی ٹیکتا بوڑھی خاتون کے سامنے آیا ۔۔۔ متاثرہ خاتون کے سامنے کھڑے ملزم کا اڑتا رنگ کانپے وجود اور بے پناہ رفتار سے دھڑکتا دل حقیقت بیان کر چکا تھا۔ ملزم کے سامنے کھڑے ہو کر اس خاتون نے کہا ہاں یہ وہی ہے ہاں یہ وہی ہے ہاں یہ وہی ہے۔ اس وقت میں نے اس خاتون کے چہرہ کی طرف پہلی بار براہ راست دیکھا اور کرسی پر ڈھے گیا۔ ۔ آنکھوں میں آنسو رواں تھے لیکن یہ شکرانے کے آنسو تھے۔ میں نے اپنا کام کر دیا باقی رب دی رضا۔ ایک بے زبان بندر کی تکلیف اور اسکی جواب دہی کے خوف سے شروع ہونے والا سلسلہ مکمل ہو چکا تھا۔ صدائیں زندہ رہتی ہیں۔ اچھائی لوٹ آتی ہے.

👍 ❤️ 3
Image
Fruit Chat
Fruit Chat
2/19/2025, 3:39:52 PM

https://www.facebook.com/share/p/1ALtYmoLkK/

Fruit Chat
Fruit Chat
2/21/2025, 3:45:55 AM

تحریر *وسعت اللہ خان* اگر مطالعہِ پاکستان کے عدسے سے پاکستان کا مطالعہ کیا جائے تو شدت سے احساس ہوتا ہے کہ اس ملک کے عوام نہیں بلکہ حکمران بدقسمت ہیں جنھیں ایسی قوم میسر آئی جو ترقی کرنے کی قطعاً خواہش مند نہیں۔ ہر حکمران پاکستان کو بلندی تک پہنچانے کے لیے دن رات ایک کر دیتا ہے مگر عوام ہیں کہ ہر رسی کو سانپ سمجھ کے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ ایوب خان نے زرعی اصلاحات کے زریعے بڑے زمینداروں سے 40 لاکھ ایکڑ زمین چھڑوائی تاکہ بے زمینوں میں بانٹ کے غربت ختم کی جائے، تربیلا اور منگلا ڈیم بنائے۔ بھٹو صاحب نے ان اصلاحات کو ناکافی سمجھتے ہوئے مزید اصلاحات کیں۔ ان کے نتیجے میں سبز انقلاب تو آ گیا مگر غربت کم نہ ہوئی۔ حاسد لوگ کہتے ہیں کہ جو بھی ترقی ہوئی اس کے ثمرات اوپر اوپر ہی عسکریوں، نوکرشاہوں اور کاسہ لیس سیاسی و کاروباری و کارپوریٹ مافیا میں بٹ بٹا گئے مگر حکمران کہتے ہیں کہ ہم نے پیداوار دوگنی کی تو عوام نے بچے دوگنے کر کے ساری محنت پر پانی پھیر دیا۔ ہر سادہ و خاکی بادشاہ قومی دنوں کے موقع پر جو روایتی پیغام جاری کرتا ہے اس میں زور اس پر ہوتا ہے کہ سب کو پاکستانی بن کے سوچنا چاہیے مگر ناخواندہ جنتا کہتی ہے کہ جس روز قومی وسائل کو 25 ہزار خاندانوں کے بجائے پچیس کروڑ لوگوں سے تقسیم دے دی جائے گی اس دن ہر شخص خود بخود پاکستانی بن کر سوچنے لگے گا۔ حکمران کہتے ہیں کہ ہم جو بھی ترقیاتی منصوبہ بناتے ہیں لوگ اس کی اچھائیوں پر دھیان دینے کے بجائے کیڑے نکالنے بیٹھ جاتے ہیں۔ بھلے وہ کالاباغ ڈیم ہو یا موٹر وے یا گوادر پورٹ یا سی پیک ۔ مگر لوگ کہتے ہیں کہ کمرے میں بند درزیوں کی سی ہوئی ترقیاتی پوشاک مار مار کے پہنانے کے بجائے کم از کم یہی پوچھ لو کہ ہمیں کون سا کپڑا، کون سا رنگ پسند ہے اور ہمارے تن و توش کا سائز کیا ہے۔ ہم پاگل یا ننھے کاکے تو نہیں کہ جنھیں ترقی کا مطلب ہی نہیں معلوم۔ ہم اپنی ہی غربت کی عالمی نمائش لگا کے تمہیں اربوں ڈالر کے قرضے لینے سے نہیں روک رہے مگر ہم مقروضوں کو یہ تو بتا دیا کرو کہ کس مد میں کن شرائط پر ہمارا کیا کیا رہن رکھوا کے قرض لیا ہے؟ حکمران کہتا ہے مجھ پر اعتماد کرو میں آخر کیوں تمہارا برا سوچوں گا۔ لوگ کہتے ہیں کہ تمہیں جب ہمارے ووٹ پر ہی اعتماد نہیں تو ہم کیوں اندھا اعتماد کریں۔ ووٹ تو دور کی بات تمہیں تو خود پر، اپنی عدلیہ اور پارلیمنٹ پر بھی بھروسہ نہیں تو ہمارے یقین یا بے یقینی کی اتنی فکر کیوں؟ کبھی کبھی تو ایسے ترقیاتی منصوبے بھی حلق سے اتروانے کی کوشش ہوتی ہے جن کے بارے میں خود منصوبہ سازوں کو بھی پورا علم نہیں ہوتا کہ اس سے انھیں یا لوگوں کو کتنا فائدہ پہنچے گا یا اس کے عوض بدزنی کے درخت میں اور کتنے زہریلے پھل لگیں گے میں تو سرکار ہی بتاتی آئی ہے کہ پاکستان کا شمار ان 10 ممالک میں ہے جو شدید قحطِ آب سے دوچار ہیں۔ ہمیں ماحولیاتی ماہرین سے ہی پتہ چلتا ہے کہ ہمارے گلیشیئر اتنی تیزی سے پگھل رہے ہیں کہ اگلی نصف صدی میں دریا اور صحرا کا فرق مٹ جائے گا۔ یہ بھی ہمیں پانی کا تقسیم کار ادارہ ارسا ہی بتاتا ہے کہ موسمیاتی اتار چڑھاؤ کے سبب پنجاب کو ضرورت سے 14 فیصد اور سندھ کو 20 فیصد کم پانی مل رہا ہے۔ ہمیں یہ بھی کوئی سرکاری بابو ہی بتاتا ہے کہ ڈاؤن سٹریم پانی کی مسلسل قلت کے سبب انڈس ڈیلٹا کو سمندر نگل رہا ہے مگر ان میں سے کوئی نہیں بتاتا کہ کس برس سیلاب آئے گا اور کس برس اتنی کم بارشیں ہوں گی کہ زمین کے چہرے پر جھریاں پڑنے لگیں۔ دوسری جانب انڈیا ہے جو 1960 میں تین مشرقی دریا لینے کے باوجود مسلسل بضد ہے کہ سندھ طاس معاہدے پر ازسرِ نو غور وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس پس منظر میں جب یہ خبر آتی ہے کہ مشترکہ مفادات کی آئینی کونسل کا اجلاس بھی 11 ماہ سے نہیں ہوا مگر وفاق اور پنجاب نے چولستان میں 70 لاکھ ایکڑ کو باغ و بہار بنانے کا منصوبہ شروع کر دیا تو نچلے صوبوں میں ایک نئی بے چینی پھیلنے لگتی ہے۔ سندھ کو تو یہی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ یہاں پر حکمران پارٹی کا سربراہ بطور صدرِ مملکت ہرے بھرے پاکستان پروجیکٹ کے ساتھ ہے مگر ان کی پارٹی پارلیمنٹ کے اندر باہر اس منصوبے پر مسلسل تحفظات بھی جتا رہی ہے۔ سرسبز پاکستان سازوں کا کہنا ہے کہ چولستان کی سیرابی کسی صوبے کے طے شدہ آبی کوٹے کو کم کر کے نہیں ہو گی بلکہ اس کے لیے اضافی پانی یا تو انڈیا کو دیے گئے دریائے ستلج کے مون سون سیلاب سے حاصل ہو گا یا پھر پنجاب اپنے کوٹے میں سے پانی دان کرے گا۔ سوال یہ ہے کہ جب یہی طے نہیں کہ سیلاب ہر سال نہیں آتا وہ اپنی مرضی کا مالک ہے تو اتنے خطیر منصوبے کی بنیاد ایک مفروضے پر کیسے رکھی جا سکتی ہے؟ جن خلیجی سرمایہ کاروں کو دو سو گیارہ ارب روپے کے اس منصوبے میں شامل ہونے کی ترغیب دی جا رہی ہے، کیا انھیں بتا دیا گیا ہے کہ بھائی صاحب اگر کسی سال ستلج میں سیلاب نہ آیا تو آپ جانیں اور آپ کی کارپوریٹ فارمنگ جانے، ہمارے بھروسے مت رہیے گا۔ اور اگر پنجاب کے آبی کوٹے سے ہی چولستان کی آبیاری ہونی ہے تو پھر ان پنجابی کاشت کاروں کو کیا بتائیں گے کہ جن کے حصے میں پہلے ہی کم پانی آ رہا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ چولستان میں ڈرپ اریگیشن اور دیگر جدید طریقوں سے فصلی پانی کے استعمال میں 80 فیصد بچت ہو گی۔ کسانوں کو اس بارے میں تربیت کے علاوہ رعایتی نرخوں پر بیج کھاد اور زرعی ادویات فراہم ہوں گی۔ اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کارپوریٹ فارمنگ کے لیے ہزاروں ایکڑ زمین ملکی و غیر ملکی کمپنیوں کو الاٹ ہو گی یعنی وہ زمین اور آبی و غیرآبی سہولتوں کا کرایہ دے کر اپنی فصلیں اگائیں اور لے جائیں۔ جیسا کہ سوڈان اور ایتھوپیا میں ہو رہا ہے۔ مگر سو دو سو ایکڑ والے چھوٹے کاشتکار جنھیں بیج، کھاد، ادویات اور فصل کی فروخت کے لیے قدم قدم پر آڑھتی کی ضرورت پڑتی ہے۔ کبھی انھیں پوری رقم اگلی فصل کے لیے نہیں ملتی تو کبھی فصل زیادہ ہو جائے تو زمین خالی کرنے کے لیے اونے پونے بیچنا یا ضائع کرنا پڑ جاتی ہے، وہ کیسے یہ سہولتیں خریدیں گے؟ پانی ہزاروں ایکڑ پر مشتمل کارپوریٹ فارمز کو پہلے ملے گا یا چھوٹے کاشتکاروں کو بھی برابر ملے گا؟ بھیڑ بکریاں اور اونٹ پالنے والے چولستانیوں کی تاریخی ملکیت تسلیم ہو گی یا پھر اوکاڑہ فارمز والی کہانی دہرائی جائے گی ؟ چولستان آباد کرنے کا خواب نیا نہیں۔ اس بارے میں ماضی میں کئی فیزیبلٹی رپورٹس بنیں مگر ہر بار یہی سوال رکاوٹ بن جاتا کہ بارانی علاقے کو نہری میں بدلے بغیر یہ خواب کیسے پورا ہو گا اور اس کے لیے اضافی پانی کہاں کہاں سے لیا جائے گا؟ ہمارے پاس زیرِ زمین پانی کے بہت بڑے ذخائر بتائے جاتے ہیں مگر حالت یہ ہے کہ جہاں چالیس برس پہلے سو فٹ پر پانی نکل آتا تھا وہاں اب نو سو، ہزار، بارہ سو فٹ تک بورنگ کرنا پڑ رہی ہے۔ یہ سب کچھ سلٹ سکتا ہے اگر تمام سٹیک ہولڈرز کو ساتھ بٹھا کر بامعنی مباحثہ ہو۔ جو جراتِ اختلاف کریں انھیں بھی پاکستانی سمجھا جائے۔ سنتے ہیں پہلے زمانے میں اہلِ کرامات زمین پر ڈنڈا مار کے پانی نکال لیتے تھے۔ اب وہ معجزاتی زمانہ نہیں رہا۔ آج ڈنڈہ گھمانے سے بس وفاقی یونٹوں کی آنکھوں سے ہی پانی نکلتا ہے۔

❤️ 👍 3
Link copied to clipboard!