
Geography &History Of Bahawalpur &Pakistan
May 23, 2025 at 03:58 PM
منڈی صادق گنج
ماضی کے جھروکے
"نواب سر صادق محمد خان عباسی پنجم"
24 مئی 1967ء یوم وفات
امیر آف بہاولپور نواب سرصادق محمد خاں عباسی (پنجم )
نواب آف بہاولپور کی پاکستان اور عالم اسلام کے لئے خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
نواب سر صادق محمد خان عباسی پنجم ریاست بہاولپور کے آخری حکمران تھے۔۔ آپ ستمبر 1904 میں پیدا ہوئے اور24مئی1967 کو لندن میں رحلت فرمائی۔ آپ تین سال کی عمر میں ریاست بہاولپور کے حاکم منتخب ہوئے اور آپ نے 1955 تک بہاولپور کی رعایا کے دلوں پر حکومت کی۔ اور عوامی فلاح بہبود کے لئے تاریخ ساز فیصلے کئے ۔
نواب سر صادق محمد خاں عباسی پنجم نے ﺗﺤﺮﯾﮏ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﮐﺮﺍﭼﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻟﺸﻤﺲ ﻣﺤﻞ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻘﻤﺮ ﻣﺤﻞ بانی پاکستان ﻗﺎﺋﺪ ﺍﻋﻈﻢ ﻣﺤﻤﺪ ﻋﻠﯽ ﺟﻨﺎﺡ ﺍﻭﺭ محترمہﻓﺎﻃﻤﮧ ﺟﻨﺎﺡ ﮐﻮ ﺩﮮ ﺩﯾﮱ ﺗﮭﮯ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﺁﺝ ﺳﻨﺪﮪ ﮐﺎ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﺑﯿﭩﮭﺘﺎ ﮬﮯ ۔
آپ نے سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر "رسول صادق" کے نام سے سیرت کی کتاب تحریر فرمائی۔آپ صلی اللہ وسلم سے آپ کی عقیدت کا والہانہ اظہار ہے۔
آپ کے دور حکمرانی میں ریاست کی عدالت کے جج محمد اکبر خاں نے 7 فروری 1935 کو اپنے تاریخی فیصلے میں قادیانیوں کو کافر اورخارج از دائرہ اسلام قرار دیا۔
1972 کی دہائی تک حجاج کرام بتاتے تھے کہ مدینہ منورہ باب السلام کے سامنے والی گلی میں اور مکہ مکرمہ میں نواب صاحب نے ذاتی خرچ سے رباط تعمیر کروائے۔ جہاں ریاست کے شہریوں کو عمرہ اور حج کی ادائیگی کے لئے باوقار مفت سہولیات میسر تھیں ۔بعد ازاں مسجد نبوی صلی اللہ وسلم کی توسیع کے دوران ریاست کی وہ جگہ اب مسجد نبوی صلی اللہ وسلم کا حصہ ہے۔
اعتکاف پر بیٹھنے والے سرکاری ملازمین کی چھٹی نہیں شمار کی جاتی تھی۔
ممتاز سیرت نگار سید سلیمان ندوی نے کہا کہ ریاست بہاولپور مالی اعانت نہ کرتی تو برصغیر پاک و ہند کے عظیم ادارے ندوة العلماء کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوتا۔
نواب آف بہاولپور نے ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺑﻨﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﮐﺮﻧﺴﯽ ﮐﯽ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﮔﺎﺭﻧﭩﯽ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ ﺟﺐ ﮐﻮﺋﯽ ملک ﮔﺎﺭﻧﭩﯽ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ پاکستان کی فوج اور سول ملازمین کیﭘﮩﻠﯽ ﺗﻨﺨﻮﺍﮦ ﭼﻼﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺧﻄﯿﺮ ﺭﻗﻢ ﺑﮭﯽ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ۔ آپ ﮐﯽ ﺩﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﺷﺎﮨﯽ ﺳﻮﺍﺭﯼ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﻗﺎﺋﺪ ﺍﻋﻈﻢ ﻣﺤﻤﺪ ﻋﻠﯽ ﺟﻨﺎﺡ ﺑﻄﻮﺭ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﺟﻨﺮﻝ ﺣﻠﻒ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﮔﺌﮯ۔
آپ نے پاکستان کے سربراہ قائداعظم کو ان کے شایان شان مہنگی ترین رولز رائس گاڑی ان کو تحفے میں دے دی ۔ جو اس وقت کراچی میوزیم میں موجود ہے۔ جس کا نمبر BWP1 ہے۔جبکہ آپ کی رہائش کے لیے ذاتی محل بھی پیش کردیا۔
جب ایران کا صدر پہلی بار پاکستان کے دورے پر آئے تو پاکستانی حکومت کے پاس اچھے برتن بھی نہ تھے، جسے وہ ایرانی صدر کے سامنے پیش کر سکتے۔ اس موقع پر بھی نواب سر صادق محمد خاں عباسی نے شاہی برتنوں سے بھر کر ایک ٹرین کراچی روانہ کی۔ جن میں زیادہ تر برتن چاندی اور سونے کے بھی تھے۔ آپ نے یہ برتن بھی بعد میں واپس نہیں لئے۔
ﺟﺲ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺎﺕ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻗﺎﺋﺪ ﺍﻋﻈﻢ نے آپ کو ''ﻣﺤﺴﻦ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ'' ﮐﺎ ﺧﻄﺎﺏ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ " ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺑﻨﻨﮯ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﮨﮯ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﺑﮩﺎﻭﻟﭙﻮﺭ ۔"
جی ہاں، وہ ریاست جہاں ستلج ویلی پراجیکٹ اور برصغیر کے سب سے بہترین نہری نظام کی وجہ سے "باغات کی سر زمین" کہا جاتا تھا۔
یہ برصغیر کی واحد ریاست تھی جس کی سرکاری زبان اردواور مذہب اسلام تھا۔
وہ ریاست جس میں صادق ایجرٹن کالج، صادق ڈین ہائی سکول اور جامعہ اسلامیہ جیسے ادارے مفت تعلیم کے فروغ میں کوشاں رہے، جہاں سے منیر نیازی، احمد ندیم قاسمی اور شفیق الرحمان جیسی نامور شخصیات نے صلاحیتیں پروان چڑھیں۔
وہ ریاست جہاں بہاول وکٹوریہ ہسپتال اور سول ہسپتال احمد پور شرقیہ جیسے مراکز میں جدید طبی سہولیات مفت فراہم کی جاتی تھیں اور مریضوں کے لیے وظیفہ مقرر ہوتا تھا۔
تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ پنڈت نہرو لندن میں ریاست بہاول پور کے امیر نواب صادق خان عباسی کو ہندوستان میں شمولیت پر اکساتے ہوئے اقتدار اور مراعات کی ترغیب دے رہا ہے۔ مورخ سانس روکے نواب آف بہاول پور کے فیصلے کا منتظر ہے۔۔ایک طرف ذاتی مفاد ہے اور دوسری طرف عوام کی خواہش۔ نواب صاحب ذاتی مفاد کو پس پشت ڈال کر مذہبی رشتے اور عوامی رائے کو ترجیح دیتے ہوئے پاکستان میں شمولیت کا اعلان کرتے ہیں۔۔ مورخ نے ان کی عظمت کو سلام پیش کیا اور تاریخ کے اوراق پر ان لمحات کو محفوظ کر لیا۔
۔ آپ نے 05 اکتوبر 1947 کو ریاست بہاولپور کا الحاق پاکستان کے ساتھ کیا۔۔ اس طرح بہاولپور پہلی ریاست تھی جس نے سب سے پہلے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔
نواب صاحب نے تحریک پاکستان کے لیے 52 ہزار پاؤنڈ کی امداد دینے کے بعد نوزائیدہ ملک کو مالی طور پر مستحکم کرنے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے مزید 10 کروڑ روپے حکومت پاکستان کو دیے جو موجودہ تقریباً چار-پانچ ارب سے زائد روپے بنتے ہیں۔
آپ نے ہجرت کر کے پاکستان آنے والوں کو رہنے کے لئے جگہ دی اور بہترین سہولیات فراہم کی۔
جب 1935 میں کوئٹہ میں شدید زلزلہ آیا تو آپ نے متاثرین کی ہر طرح سے امداد کی۔
سرکاری ریکارڈ کے مطابق آپ نے پنجاب یونیورسٹی ، ایچی سن کالج اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کو بیش بہا عطیات دیے جو کبھی زمین کے تحفہ کی صورت میں اور کبھی عمارتیں بنانے کے لیے سرمایہ کی فراہمی کی صورت میں تھے۔۔
آپ نے 1942 میں بہاولپور میں ایک چڑیاگھر بنوایا۔۔ ڈرنگ سٹیڈیم بنوایا۔ 1954 میں پاکستان اور بھارت کا پہلا میچ بھی ڈرنگ سٹیڈیم میں ہوا تھا۔ یہ فہرست بہت طویل ہے۔
ﻣﮕﺮ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮐﮧ ﺁﺝ ﻣﻠﮏ ﻋﺰﯾﺰ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﻧﻮﺍﺏ ﺳﺮ ﺻﺎﺩﻕ ﻣﺤﻤﺪ ﺧﺎﻥ ﻋﺒﺎﺳﯽ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻭﻧﺸﺎﻥ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ، ﻧﮧ ﮨﯽ ﻧﺼﺎﺏ ﮐﯽ ﮐﺴﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺎﺕ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﮐﯽ ﺍﻣﯿﺮﺗﺮﯾﻦ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﮐﺎ ﻧﻮﺍﺏ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﻋﺰﺍﺯ ﺣﺎﺻﻞ ﺗﮭﺎ، ﻭﮦ ﺟﺲ ﻧﮯ ﻧﻮﺯﺍئیدہ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﻮ ﭘﮩﻼ آکسیجن ماسک فراہم کیا.
ضلعی انتظامیہ کا نواب صاحب کی برسی پر تعطیل عام کرنا قابل ستائش ہے.
صادق دوست
زندہ باد❤️
