Geography &History Of Bahawalpur &Pakistan WhatsApp Channel

Geography &History Of Bahawalpur &Pakistan

47 subscribers

About Geography &History Of Bahawalpur &Pakistan

Share knowledge of history and political science

Similar Channels

Swipe to see more

Posts

Geography &History Of Bahawalpur &Pakistan
Geography &History Of Bahawalpur &Pakistan
5/24/2025, 3:35:46 PM

تخت محل جو اجڑ گیا (احمد نعیم چشتی) بہاول نگر سے بہاول پور کو جاتی سڑک کے دائیں کنارے پہ یہ چھوٹا سا ریلوے اسٹیشن موجود ہے۔ تخت محل ریلوے اسٹیشن۔ نام کتنا خوب صورت ہے۔ تخت۔ محل۔ جیسے کسی بادشاہ نے محل بنوایا ہو، تخت سجایا ہو، دربار لگایا ہو، داد رسی کی ہو۔ اور پھر کوچ کر گیا ہو کہیں۔ بہاول نگر سے ڈھلتے سورج کی کرنیں پکڑنے نکلیں تو پندرہ کلومیٹر دور یہ بجھا چراغ آپ کو نظر آتا ہے۔ سڑک سے دیکھیں تو یہ ایک سنسان سی عمارت دکھائی دیتا ہے۔ قریب آ کر دیکھیں تو ویرانی آنکھوں کے رستے دل میں اتر جاتی ہے۔ اس کے ماتھے پہ درج ہے کہ یہ سن 1897 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ برطانوی راج کا سورج ہندوستان میں دہک رہا رھا تھا تب۔ ریاست بہاول پور پہ مسلمان نواب تخت نشیں تھے۔ اسی دور میں یہ ننھا سا اسٹیشن سمہ سٹہ بھٹنڈا دلی لائن پر بنایا گیا تھا۔ اگتے سورج کی سمت یہ اس لائن سے جڑا تھا جو بہاولنگر، منچن آباد سے ہوتی ہوئی بھٹنڈہ دلی تک مسافروں کو لے جاتی تھی اور بوڑھے سورج کی سمت چشتیاں، حاصل پور، بہاول پور، کراچی تک جڑی ہوئی تھی۔ کتنا پر رونق، چہل پہل سے بھرا یہ مقام رہا ہو گا۔ صبح طلوع ہوتے ہی مسافر یہاں امڈ آتے ہوں گے۔ چھک چھک کرتی ریل گاڑی کے کندھوں پہ سوار دور دور تک جاتے ہوں گے۔ ریل کی کوک کتنے ہی دیہاتوں میں گونجتی ہو گی۔ کتنی کہانیاں ہوں گی جو یہاں سے جنم لے کر یہیں خاک ہو گئی ہوں گی۔ دیس آزاد ہوا تو تخت محل اسٹیشن کی لائن مشرق کی وسعتوں سے ہمیشہ کے لیے کٹ گئی۔ زخما گئی۔ آدھی ادھوری سی رہ گئی۔ دلی بھٹنڈہ، فیروز پور جانا خواب ہو گیا۔ دیس نے مزید سفر کیا تو یہ لائن جگہ جگہ سے اکھڑنے لگی۔ اس پہ دوڑتی ریل گاڑیاں بوڑھی ہونے لگیں۔ کچھ مر گئیں۔ کچھ اور وقت گزرا تو اس پہ صرف ایک گاڑی رہ گئی۔ اس کا بھی نا کوئی آنے کا وقت نا جانے کا بھروسا۔ وطن عزیز کو پھر یہ ایک گاڑی بھی بوجھ لگنے لگی۔ بند ہو گئی۔ ریل کی کوک اس کے گلے ہی میں پھنس گئی۔ کئی سال بیتے تو ریلوے اسٹیشن میں بھوتوں کے بسیرے ہونے لگے۔ ویرانی کے ڈیرے لگنے لگے۔ کچھ عرصہ قبل محب وطن کسی ٹھیکیدار کمپنی نے اس کی اربوں روپے لاگت کی لائن اکھاڑ لی۔ کہا گیا کہ نئی بچھائی جائے گی۔ اب دیکھئیے اس چرخ کہن کو نئی ریلوے لائن دیکھنا نصیب ہوتا ہے یا نہیں۔ تخت محل ریلوے اسٹیشن کی دیوار پر کرایا نامہ درج ہے۔ اتنا کم کرایہ! ضرور بہت برس پہلے کا ہو گا۔ خستہ حالی سی خستہ حالی ہے۔ دور کجھور کے درخت کھڑے ہیں۔ جیسے اس بیابانی سے ڈر کر دور جا کھڑے ہوئے ہوں۔ وہ پرے گائیں بھینسیں بکریاں چر رہی ہیں۔ کچھ تپتی دھوپ سے بچنے کے لیے سائے میں ہانپ رہی ہیں۔ چرواہے اسٹیشن کے گرد آلود فرش پر لیٹے اونگھ رہے ہیں۔ اسٹیشن کے آس پاس سیم زدہ بے آباد زمیں میں جابجا جھاڑیاں اگی ہوئی ہیں۔ خاموشی بھی خاموش لیٹی ہے۔ بس بدن جھلساتی دھوپ برس رہی ہے اور گرم ہوائیں سر سرا رہی ہیں۔ تخت محل ریلوے اسٹیشن۔ کتنا خوب صورت نام تھا۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ جیسے کسی بادشاہ کا تخت اجڑ گیا ہو اور محل میں ویرانی پھنکار رہی ہو۔

Post image
Image
Geography &History Of Bahawalpur &Pakistan
Geography &History Of Bahawalpur &Pakistan
6/4/2025, 12:14:36 PM
Post image
Image
Geography &History Of Bahawalpur &Pakistan
Geography &History Of Bahawalpur &Pakistan
6/4/2025, 12:14:38 PM
Post image
Image
Geography &History Of Bahawalpur &Pakistan
Geography &History Of Bahawalpur &Pakistan
5/24/2025, 2:49:26 PM
Post image
Image
Geography &History Of Bahawalpur &Pakistan
Geography &History Of Bahawalpur &Pakistan
6/4/2025, 8:47:53 AM
Post image
Image
Geography &History Of Bahawalpur &Pakistan
Geography &History Of Bahawalpur &Pakistan
6/4/2025, 12:14:37 PM
Post image
Image
Geography &History Of Bahawalpur &Pakistan
Geography &History Of Bahawalpur &Pakistan
6/4/2025, 4:08:50 PM

الاندلس کے پانی کے پہیے مسلم اسپین نے جدید ترین نوریاس (واٹر وہیلز) سے پانی کے انتظام میں انقلاب برپا کیا۔ یہ بڑے، اکثر جانوروں سے چلنے والے یا دریا سے چلنے والے پہیے مؤثر طریقے سے دریاؤں اور کنوؤں سے پانی کو بلند پانیوں اور آبپاشی کے راستوں میں لے جاتے ہیں۔ یہ اختراع انتہائی اہم تھی، جس نے خشک زمینوں کو ناقابل یقین حد تک زرخیز زرعی میدانوں میں تبدیل کیا اور الاندلس کی بے پناہ خوشحالی کو سہارا دیا۔ اسلامی تاریخ کے بارے میں مزید جانیں پیغمبر اسلام کی سیرت سے لے کر عثمانیوں کے دور تک اور اس کے بعد فلسطین کی تاریخ

Post image
Image
Geography &History Of Bahawalpur &Pakistan
Geography &History Of Bahawalpur &Pakistan
6/4/2025, 12:19:34 PM

https://www.facebook.com/share/v/18Ai8D5eVJ/

Geography &History Of Bahawalpur &Pakistan
Geography &History Of Bahawalpur &Pakistan
6/4/2025, 12:14:35 PM
Post image
Image
Geography &History Of Bahawalpur &Pakistan
Geography &History Of Bahawalpur &Pakistan
5/23/2025, 3:58:14 PM

منڈی صادق گنج ماضی کے جھروکے "نواب سر صادق محمد خان عباسی پنجم" 24 مئی 1967ء یوم وفات امیر آف بہاولپور نواب سرصادق محمد خاں عباسی (پنجم ) نواب آف بہاولپور کی پاکستان اور عالم اسلام کے لئے خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ نواب سر صادق محمد خان عباسی پنجم ریاست بہاولپور کے آخری حکمران تھے۔۔ آپ ستمبر 1904 میں پیدا ہوئے اور24مئی1967 کو لندن میں رحلت فرمائی۔ آپ تین سال کی عمر میں ریاست بہاولپور کے حاکم منتخب ہوئے اور آپ نے 1955 تک بہاولپور کی رعایا کے دلوں پر حکومت کی۔ اور عوامی فلاح بہبود کے لئے تاریخ ساز فیصلے کئے ۔ نواب سر صادق محمد خاں عباسی پنجم نے ﺗﺤﺮﯾﮏ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﮐﺮﺍﭼﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻟﺸﻤﺲ ﻣﺤﻞ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻘﻤﺮ ﻣﺤﻞ بانی پاکستان ﻗﺎﺋﺪ ﺍﻋﻈﻢ ﻣﺤﻤﺪ ﻋﻠﯽ ﺟﻨﺎﺡ ﺍﻭﺭ محترمہﻓﺎﻃﻤﮧ ﺟﻨﺎﺡ ﮐﻮ ﺩﮮ ﺩﯾﮱ ﺗﮭﮯ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﺁﺝ ﺳﻨﺪﮪ ﮐﺎ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﺑﯿﭩﮭﺘﺎ ﮬﮯ ۔ آپ نے سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر "رسول صادق" کے نام سے سیرت کی کتاب تحریر فرمائی۔آپ صلی اللہ وسلم سے آپ کی عقیدت کا والہانہ اظہار ہے۔ آپ کے دور حکمرانی میں ریاست کی عدالت کے جج محمد اکبر خاں نے 7 فروری 1935 کو اپنے تاریخی فیصلے میں قادیانیوں کو کافر اورخارج از دائرہ اسلام قرار دیا۔ 1972 کی دہائی تک حجاج کرام بتاتے تھے کہ مدینہ منورہ باب السلام کے سامنے والی گلی میں اور مکہ مکرمہ میں نواب صاحب نے ذاتی خرچ سے رباط تعمیر کروائے۔ جہاں ریاست کے شہریوں کو عمرہ اور حج کی ادائیگی کے لئے باوقار مفت سہولیات میسر تھیں ۔بعد ازاں مسجد نبوی صلی اللہ وسلم کی توسیع کے دوران ریاست کی وہ جگہ اب مسجد نبوی صلی اللہ وسلم کا حصہ ہے۔ اعتکاف پر بیٹھنے والے سرکاری ملازمین کی چھٹی نہیں شمار کی جاتی تھی۔ ممتاز سیرت نگار سید سلیمان ندوی نے کہا کہ ریاست بہاولپور مالی اعانت نہ کرتی تو برصغیر پاک و ہند کے عظیم ادارے ندوة العلماء کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوتا۔ نواب آف بہاولپور نے ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺑﻨﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﮐﺮﻧﺴﯽ ﮐﯽ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﮔﺎﺭﻧﭩﯽ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ ﺟﺐ ﮐﻮﺋﯽ ملک ﮔﺎﺭﻧﭩﯽ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ پاکستان کی فوج اور سول ملازمین کیﭘﮩﻠﯽ ﺗﻨﺨﻮﺍﮦ ﭼﻼﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺧﻄﯿﺮ ﺭﻗﻢ ﺑﮭﯽ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ۔ آپ ﮐﯽ ﺩﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﺷﺎﮨﯽ ﺳﻮﺍﺭﯼ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﻗﺎﺋﺪ ﺍﻋﻈﻢ ﻣﺤﻤﺪ ﻋﻠﯽ ﺟﻨﺎﺡ ﺑﻄﻮﺭ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﺟﻨﺮﻝ ﺣﻠﻒ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﮔﺌﮯ۔ آپ نے پاکستان کے سربراہ قائداعظم کو ان کے شایان شان مہنگی ترین رولز رائس گاڑی ان کو تحفے میں دے دی ۔ جو اس وقت کراچی میوزیم میں موجود ہے۔ جس کا نمبر BWP1 ہے۔جبکہ آپ کی رہائش کے لیے ذاتی محل بھی پیش کردیا۔ جب ایران کا صدر پہلی بار پاکستان کے دورے پر آئے تو پاکستانی حکومت کے پاس اچھے برتن بھی نہ تھے، جسے وہ ایرانی صدر کے سامنے پیش کر سکتے۔ اس موقع پر بھی نواب سر صادق محمد خاں عباسی نے شاہی برتنوں سے بھر کر ایک ٹرین کراچی روانہ کی۔ جن میں زیادہ تر برتن چاندی اور سونے کے بھی تھے۔ آپ نے یہ برتن بھی بعد میں واپس نہیں لئے۔ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺎﺕ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻗﺎﺋﺪ ﺍﻋﻈﻢ نے آپ کو ''ﻣﺤﺴﻦ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ'' ﮐﺎ ﺧﻄﺎﺏ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ " ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺑﻨﻨﮯ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﮨﮯ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﺑﮩﺎﻭﻟﭙﻮﺭ ۔" جی ہاں، وہ ریاست جہاں ستلج ویلی پراجیکٹ اور برصغیر کے سب سے بہترین نہری نظام کی وجہ سے "باغات کی سر زمین" کہا جاتا تھا۔ یہ برصغیر کی واحد ریاست تھی جس کی سرکاری زبان اردواور مذہب اسلام تھا۔ وہ ریاست جس میں صادق ایجرٹن کالج، صادق ڈین ہائی سکول اور جامعہ اسلامیہ جیسے ادارے مفت تعلیم کے فروغ میں کوشاں رہے، جہاں سے منیر نیازی، احمد ندیم قاسمی اور شفیق الرحمان جیسی نامور شخصیات نے صلاحیتیں پروان چڑھیں۔ وہ ریاست جہاں بہاول وکٹوریہ ہسپتال اور سول ہسپتال احمد پور شرقیہ جیسے مراکز میں جدید طبی سہولیات مفت فراہم کی جاتی تھیں اور مریضوں کے لیے وظیفہ مقرر ہوتا تھا۔ تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ پنڈت نہرو لندن میں ریاست بہاول پور کے امیر نواب صادق خان عباسی کو ہندوستان میں شمولیت پر اکساتے ہوئے اقتدار اور مراعات کی ترغیب دے رہا ہے۔ مورخ سانس روکے نواب آف بہاول پور کے فیصلے کا منتظر ہے۔۔ایک طرف ذاتی مفاد ہے اور دوسری طرف عوام کی خواہش۔ نواب صاحب ذاتی مفاد کو پس پشت ڈال کر مذہبی رشتے اور عوامی رائے کو ترجیح دیتے ہوئے پاکستان میں شمولیت کا اعلان کرتے ہیں۔۔ مورخ نے ان کی عظمت کو سلام پیش کیا اور تاریخ کے اوراق پر ان لمحات کو محفوظ کر لیا۔ ۔ آپ نے 05 اکتوبر 1947 کو ریاست بہاولپور کا الحاق پاکستان کے ساتھ کیا۔۔ اس طرح بہاولپور پہلی ریاست تھی جس نے سب سے پہلے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔ نواب صاحب نے تحریک پاکستان کے لیے 52 ہزار پاؤنڈ کی امداد دینے کے بعد نوزائیدہ ملک کو مالی طور پر مستحکم کرنے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے مزید 10 کروڑ روپے حکومت پاکستان کو دیے جو موجودہ تقریباً چار-پانچ ارب سے زائد روپے بنتے ہیں۔ آپ نے ہجرت کر کے پاکستان آنے والوں کو رہنے کے لئے جگہ دی اور بہترین سہولیات فراہم کی۔ جب 1935 میں کوئٹہ میں شدید زلزلہ آیا تو آپ نے متاثرین کی ہر طرح سے امداد کی۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق آپ نے پنجاب یونیورسٹی ، ایچی سن کالج اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کو بیش بہا عطیات دیے جو کبھی زمین کے تحفہ کی صورت میں اور کبھی عمارتیں بنانے کے لیے سرمایہ کی فراہمی کی صورت میں تھے۔۔ آپ نے 1942 میں بہاولپور میں ایک چڑیاگھر بنوایا۔۔ ڈرنگ سٹیڈیم بنوایا۔ 1954 میں پاکستان اور بھارت کا پہلا میچ بھی ڈرنگ سٹیڈیم میں ہوا تھا۔ یہ فہرست بہت طویل ہے۔ ﻣﮕﺮ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮐﮧ ﺁﺝ ﻣﻠﮏ ﻋﺰﯾﺰ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﻧﻮﺍﺏ ﺳﺮ ﺻﺎﺩﻕ ﻣﺤﻤﺪ ﺧﺎﻥ ﻋﺒﺎﺳﯽ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻭﻧﺸﺎﻥ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ، ﻧﮧ ﮨﯽ ﻧﺼﺎﺏ ﮐﯽ ﮐﺴﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺎﺕ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﮐﯽ ﺍﻣﯿﺮﺗﺮﯾﻦ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﮐﺎ ﻧﻮﺍﺏ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﻋﺰﺍﺯ ﺣﺎﺻﻞ ﺗﮭﺎ، ﻭﮦ ﺟﺲ ﻧﮯ ﻧﻮﺯﺍئیدہ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﻮ ﭘﮩﻼ آکسیجن ماسک فراہم کیا. ضلعی انتظامیہ کا نواب صاحب کی برسی پر تعطیل عام کرنا قابل ستائش ہے. صادق دوست زندہ باد❤️

Post image
Image
Link copied to clipboard!