
Geography &History Of Bahawalpur &Pakistan
May 24, 2025 at 03:35 PM
تخت محل جو اجڑ گیا
(احمد نعیم چشتی)
بہاول نگر سے بہاول پور کو جاتی سڑک کے دائیں کنارے پہ یہ چھوٹا سا ریلوے اسٹیشن موجود ہے۔ تخت محل ریلوے اسٹیشن۔ نام کتنا خوب صورت ہے۔ تخت۔ محل۔ جیسے کسی بادشاہ نے محل بنوایا ہو، تخت سجایا ہو، دربار لگایا ہو، داد رسی کی ہو۔ اور پھر کوچ کر گیا ہو کہیں۔
بہاول نگر سے ڈھلتے سورج کی کرنیں پکڑنے نکلیں تو پندرہ کلومیٹر دور یہ بجھا چراغ آپ کو نظر آتا ہے۔
سڑک سے دیکھیں تو یہ ایک سنسان سی عمارت دکھائی دیتا ہے۔ قریب آ کر دیکھیں تو ویرانی آنکھوں کے رستے دل میں اتر جاتی ہے۔ اس کے ماتھے پہ درج ہے کہ یہ سن 1897 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ برطانوی راج کا سورج ہندوستان میں دہک رہا رھا تھا تب۔ ریاست بہاول پور پہ مسلمان نواب تخت نشیں تھے۔ اسی دور میں یہ ننھا سا اسٹیشن سمہ سٹہ بھٹنڈا دلی لائن پر بنایا گیا تھا۔ اگتے سورج کی سمت یہ اس لائن سے جڑا تھا جو بہاولنگر، منچن آباد سے ہوتی ہوئی بھٹنڈہ دلی تک مسافروں کو لے جاتی تھی اور بوڑھے سورج کی سمت چشتیاں، حاصل پور، بہاول پور، کراچی تک جڑی ہوئی تھی۔
کتنا پر رونق، چہل پہل سے بھرا یہ مقام رہا ہو گا۔ صبح طلوع ہوتے ہی مسافر یہاں امڈ آتے ہوں گے۔ چھک چھک کرتی ریل گاڑی کے کندھوں پہ سوار دور دور تک جاتے ہوں گے۔ ریل کی کوک کتنے ہی دیہاتوں میں گونجتی ہو گی۔ کتنی کہانیاں ہوں گی جو یہاں سے جنم لے کر یہیں خاک ہو گئی ہوں گی۔
دیس آزاد ہوا تو تخت محل اسٹیشن کی لائن مشرق کی وسعتوں سے ہمیشہ کے لیے کٹ گئی۔ زخما گئی۔ آدھی ادھوری سی رہ گئی۔ دلی بھٹنڈہ، فیروز پور جانا خواب ہو گیا۔
دیس نے مزید سفر کیا تو یہ لائن جگہ جگہ سے اکھڑنے لگی۔ اس پہ دوڑتی ریل گاڑیاں بوڑھی ہونے لگیں۔ کچھ مر گئیں۔ کچھ اور وقت گزرا تو اس پہ صرف ایک گاڑی رہ گئی۔ اس کا بھی نا کوئی آنے کا وقت نا جانے کا بھروسا۔
وطن عزیز کو پھر یہ ایک گاڑی بھی بوجھ لگنے لگی۔ بند ہو گئی۔ ریل کی کوک اس کے گلے ہی میں پھنس گئی۔
کئی سال بیتے تو ریلوے اسٹیشن میں بھوتوں کے بسیرے ہونے لگے۔ ویرانی کے ڈیرے لگنے لگے۔ کچھ عرصہ قبل محب وطن کسی ٹھیکیدار کمپنی نے اس کی اربوں روپے لاگت کی لائن اکھاڑ لی۔ کہا گیا کہ نئی بچھائی جائے گی۔
اب دیکھئیے اس چرخ کہن کو نئی ریلوے لائن دیکھنا نصیب ہوتا ہے یا نہیں۔
تخت محل ریلوے اسٹیشن کی دیوار پر کرایا نامہ درج ہے۔ اتنا کم کرایہ! ضرور بہت برس پہلے کا ہو گا۔
خستہ حالی سی خستہ حالی ہے۔ دور کجھور کے درخت کھڑے ہیں۔ جیسے اس بیابانی سے ڈر کر دور جا کھڑے ہوئے ہوں۔ وہ پرے گائیں بھینسیں بکریاں چر رہی ہیں۔ کچھ تپتی دھوپ سے بچنے کے لیے سائے میں ہانپ رہی ہیں۔ چرواہے اسٹیشن کے گرد آلود فرش پر لیٹے اونگھ رہے ہیں۔ اسٹیشن کے آس پاس سیم زدہ بے آباد زمیں میں جابجا جھاڑیاں اگی ہوئی ہیں۔
خاموشی بھی خاموش لیٹی ہے۔ بس بدن جھلساتی دھوپ برس رہی ہے اور گرم ہوائیں سر سرا رہی ہیں۔
تخت محل ریلوے اسٹیشن۔ کتنا خوب صورت نام تھا۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ جیسے کسی بادشاہ کا تخت اجڑ گیا ہو اور محل میں ویرانی پھنکار رہی ہو۔
