Learn & Fun Hub
Learn & Fun Hub
June 8, 2025 at 03:01 PM
*گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے ترا* *"کہاں سے آئے صدا 'لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ'"* تشریح: علامہ اقبال اس شعر میں وقت کے رسمی و روایتی نظامِ تعلیم پر شدید تنقید کر رہے ہیں۔ یہاں "اہلِ مدرسہ" سے مراد صرف مذہبی مدرسے نہیں، بلکہ وہ تمام تعلیمی ادارے ہیں جو نوجوانوں میں خودی، تخلیقی شعور، روحانی بیداری اور انقلابی فکر پیدا کرنے کے بجائے ان کی فکری آزادی کو سلب کر دیتے ہیں۔ پہلا مصرع: "گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے ترا" یہاں "گلا گھونٹ دینا" علامتی طور پر استعمال ہوا ہے — یعنی اس تعلیمی نظام نے طالب علموں کی آزاد فکر، سوال اٹھانے کی صلاحیت، خودی کی آواز اور انقلابی جذبے کو دبا دیا ہے۔ اقبال کا یقین تھا کہ تعلیم کا مقصد انسان کے باطن کو بیدار کرنا، اسے شعورِ ذات دینا اور سچ کے لیے کھڑا ہونے کا حوصلہ پیدا کرنا ہے۔ لیکن موجودہ نظام نے اسے محض اطاعت گزار اور مقلد بنا دیا۔ دوسرا مصرع: "کہاں سے آئے صدا 'لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ'" یہاں اقبال سوال اٹھا رہے ہیں کہ جب تعلیم نے انسان کی آوازِ حق کو دبا دیا ہے، تو پھر وہ انقلابی صدا — جو "لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ" کے مفہوم میں چھپی ہوئی ہے — کہاں سے آئے گی؟ "لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ" صرف ایک مذہبی نعرہ نہیں، بلکہ اقبال کے نزدیک یہ باطل کے انکار، آزادی فکر، روحانی خودمختاری اور اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کرنے کی صدا ہے۔ جب انسان کے اندر سے یہ آواز ہی ختم ہو جائے، تو معاشرے میں تبدیلی، انقلاب اور بیداری کیسے آئے گی؟ یہ شعر ایک گہرے فکری اور تہذیبی المیے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اقبال ہمیں یہ سمجھا رہے ہیں کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ امت میں دوبارہ روحِ محمدی اور انقلابی شعور پیدا ہو، تو ہمیں اپنا نظامِ تعلیم بدلنا ہوگا — ایسا نظام جو خودی کو جگائے، فکر کو آزاد کرے اور انسان کو اس کی اصل حقیقت سے روشناس کروائے۔ #allamaiqbal #education #system
❤️ 1

Comments