
Learn & Fun Hub
308 subscribers
About Learn & Fun Hub
Welcome 🤗 Everyone! +923416906676 (For Person Contact only) Please Share this Channel and help us to Grow
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

منایا نہیں گیا مجھ سے اِس بار اُس کی ناراضگی میں آباد کوئی اور تھا

سُوکھ گئے پَت جَھڑ میں پات ٹُوٹ گئے پُھولوں کے ہاتھ کِتنا نازک ہے یہ دَرد اشکِ گراں ، غم کی بہتات دشتِ اَلم کی وِیرانی میں کاٹی ہے برکھا کی رات ہم دِیوانے ـــــــ ہم آوارہ چل نہ سکو گے اپنے سات ساغرؔ مَیخانے میں ہو گا چھوڑ بھی دو پَگلے کی بات ساغرؔ صدیقی

*Building a Daily Writing Habit* Unlock your daily writing habit with easy, proven steps—design your routine, structure your day, and stay consistent. https://mohibwrites.com/building-a-daily-writing-habit/

مستند رستے وہی مانے گئے جن سے ہو کر تیرے دیوانے گئے آہ کو بھی نسبت ہے کچھ عشاق سے آہ نکلی اور پہچانے گئے آئے جب طے کر کے ہم راہِ وفا ایسے بدلے پھر نا پہچانے گئے لوٹ آئے جتنے بھی فرزانے گئے طاب منزل صرف دیوانے گئے آگیا جب وقتِ الم ہم پہ نثار پہلے اپنے بعد بہگانے گئے

وہ جس کی ایک پل کی بے رُخی بھی دل کو بار تھی اُسے خود اپنے ہاتھ سے لکھا ہے۔مجھ کو بھُول جا پروین شاکر

*اُٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک* *نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ* I rose, sorrowful, from the school and the monastery No life, no love, no insight, no inner sight. شرح: یہ شعر علامہ اقبال کے گہرے فکری اور روحانی اضطراب کا اظہار ہے۔ وہ ان دونوں اداروں یعنی: مدرسہ (تعلیمی ادارہ – School/Academy) اور خانقاہ (صوفی سلسلہ – Monastery/Sufi Lodge) سے مایوس ہو کر غمناک ہو جاتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک مدرسے کا نظام علم کو محض معلومات تک محدود کر دیتا ہے۔ اس میں نہ زندگی کی حرارت ہے، نہ عملی بصیرت، نہ فکر کی گہرائی۔ اقبال کی نظر میں صوفی خانقاہوں میں بھی رسم و رواج، جمود اور عمل سے کنارہ کشی غالب آ چکی ہے۔ روحانیت محض الفاظ اور مجربات کا کھیل بن گئی ہے، نہ کہ حرکت، محبت، اور قربِ الٰہی کی جدوجہد۔ اقبال ان دونوں اداروں سے فکری اور روحانی پیاس بجھنے کے بجائے مزید پیاسا ہو کر نکلتے ہیں۔ انہیں وہاں زندگی (حرکت، جوش، عمل)، محبت (الٰہی عشق، انسانی تعلق)، معرفت (حقیقی عرفانِ الٰہی) اور نگاہ (باطنی بصیرت، روحانی شعور) کی کوئی روشنی نظر نہیں آتی۔ یہ شعر اقبال کی اس تحریکِ تجدیدِ فکر کا اظہار ہے جس میں وہ روایتی تعلیم و تصوف دونوں کو رد کرتے ہیں اگر وہ زندگی، حرکت، عشق، اور روحانی بصیرت سے خالی ہوں۔ وہ ایک زندہ، باعمل، اور بیدار مسلمان کی تلاش میں ہیں، جس کی تعلیم اور روحانیت دونوں قرآن کی انقلابی فکر سے جڑی ہوں۔ کتاب: بالِ جبریل غزال: تری نگاہ فرومایہ ہاتھ ہے کوتاہ #allamaiqbal #life #love #insights