🌻زندگی 🌴
🌻زندگی 🌴
June 4, 2025 at 02:01 PM
*آپا کی سلائی مشین...!!* زہر لگتی تھی مجھے آپا کی سلائی مشین۔ آپا، برآمدہ اور سلائی مشین۔ جب سے ہوش سنبھالا تینوں کو اکٹھے دیکھا۔ آپا مجھ سے دس سال بڑی تھی ۔ ہم دو ہی بہن بھائی تھے۔ بڑی محبت سے بیاہ کر لے جانے والے نے تیسرے سال ہی دوسرا بیاہ رچا کر آپا کو طلاق دے دی تھی۔ اللہ کی رضا میں راضی چُپ چاپ، لب سیئے آپا واپس چلی آئی۔ اگلے ہی دن امّاں کے جہیز کی مشین سٹور سے نکالی۔ “سلائی کروں گی۔ ابا پر بوجھ نہیں بننا مجھے” کملی جانتی نہیں تھی دو وقت کی روٹی کہاں بھاری تھی ابا پر، اُن کے سینے پر تو اُس کی پھوٹی قسمت کی بھاری سل دھری تھی۔ جو سانسوں کے آنے جانے میں رُکاوٹ بنی رہتی۔ نتیجہ فالج کی صورت نکلا۔ ابا کی حالت کا ذمہ دار خود کوٹہراتے، آپا برآمدے میں خاموش بیٹھی سلائی کا کام کرتی اپنی چُپ سے جانے کیا دُکھ سُکھ کرتی رہتی۔ یوں تو آنکھوں پر پلکوں کے گھنے پردے گرے رہتے مگر کبھی کبھی آنکھ کی آہ و بُکا سے گھبرا کر اچانک ایک ننھا قطرہ سلائی مشین پر گرتا۔ شاید وہی تھا جو بخیئے کو انمول کر جاتا اور معمولی سے کپڑے کو خاص۔ اُتنا خاص جتنی عام میری آپا تھی۔ دیکھتے دیکھتے سلائی کا کام بڑھتا گیا۔ برآمدہ چھوٹے سے سلائی اسکول میں بدلا اور آپا ابا کا بیٹا بن گئی۔ بڑی بڑی بیگمات کے کپڑے سلائی کے لیئے آتے۔ سب کو آپا کے ہاتھ کی سلائی چاہیئے تھی قیمت چاہے کچھ بھی ہو۔ ایک بار ایک بیگم کے تعریف کرنے پر میں نے آپا کے ُترپائی کرتے ہاتھوں سے قمیض پکڑ کر کہا ، “آپا دکھاؤ تو سہی ایسا کیا جادو ہے تمہاری سلائی میں “؟ ترپائی تھی کہ انگلیوں نے روح کے پوروں سے قمیض کے دامن پر الم لکھے تھے۔ قطار در قطار یوں ٹانکے بھرے تھے اینٹوں کی دیوار ہو جیسے۔ اُس دیوار میں میری آپا چنوائی گئی تھی۔ اُن ٹانکوں کو دیکھ کر میرا دل ڈوبنے لگا۔ اُس رات میں نے پہلی بار آپا کے دکھ کو محسوس کیا۔ میں شاید بڑا ہو گیا تھا۔ اُس رات بھی آپا دیر تک سلائی کرتی رہی۔ ساری رات مشین چلتی، روتی اور گاتی رہی “محبت کی جھوٹی کہانی پہ روئے“ اچانک سلائی مشین اپنی اپنی سی لگنے لگی تھی ہمدرد غمگُسار۔ اُس رات پہلی بار سلائی مشین کی آواز میں بھرا دُکھ سُن پایا تھا میں۔ مشین کے ساتھ میں بھی ساری رات روتا رہا “محبت کی جھوٹی کہانی پہ روئے“ اگلی صبح میری برطانیہ کی فلائٹ تھی میرا وہاں کی یونیورسٹی میں داخلہ ہو گیا تھا۔ آپا سلائی مشین کی سوئی میں دھاگہ نہیں خواب ڈالاکرتی تھی۔ بخیہ کیسے نہ جچتا۔ اُس نے پھٹے پُرانے ادھڑے دُکھوں کو رفو کر کے سپنوں کی ایسی چادر بُنی تھی جس نے ہمارے بےسر و ساماں، سروں پر چھاتا کر دیا۔ میں اپنی آپا کا مقروض ہوں۔ میں اپنی آپا کی سلائی مشین کا مقروض ہوں اور ہمیشہ رہوں گا۔ آپ سب کو اپنے والدین کا بازو بن کر اس قرض کو اتارنے میں میری مدد کرنی ہے۔ آپا کے نام پر کھولے جانے والے سلائی سکول کا افتتاح کرتے ہوئے میں رو پڑا۔ وہیل چیئر پر بیٹھے ابا آج بہت خوش تھے۔ وقت نے اچانک آپا کی زندگی کی پتنگ لوٹ لی۔ برآمدہ خالی تھا۔ اور میرے ہاتھوں میں کپڑے کالمس باقی۔ راتوں کو اب بھی اکثر سلائی مشین گایا کرتی ہے۔ *“محبت کی جھوٹی کہانی پہ روئے“*

Comments