
ᑭ ᑌ K ᗩ ᗩ ᖇ ᑎ E ᗯ 𝐒 QTᗩ
June 6, 2025 at 03:36 PM
امریکہ مردہ باد سے امریکہ زندہ باد تک کا خوش گوار سفر!
تحریر: مولانا عباد الرحمٰن بلوچ
جسے مولانا نے "مردہ" قرار دیا تھا، آج اسی امریکہ کی یومِ آزادی کی تقریب میں مولانا کی شرکت کا مطلب ہے:
"امریکہ زندہ باد!"
یہ صرف ایک تصویری خبر نہیں، یہ ایک فکری حادثہ ہے۔
یہ تصویر نہیں، ایک بیانیے کی قبر ہے۔
یہ محض ایک شرکت نہیں، بلکہ وہ لمحہ ہے جہاں نعرہ بازی، اصول پسندی، امت مسلمہ کا غم، اور امریکہ دشمنی — سب کی قلعی کھل گئی ہے۔
یہ سب کچھ حیران کن ہوتا اگر یہ پہلی بار ہوتا، لیکن افسوس کہ یہ نئی قلابازی نہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے اپنی پوری سیاسی زندگی کو "اسلامی نظریہ"، "استعمار دشمنی"، "فل سطینی دوستی" اور "امریکہ مخالفت" کے اردگرد تعمیر کیا۔
جلسوں میں آنسو بہائے، امریکہ کو شیطان قرار دیا، فل سطینی پرچم اٹھایا، اور غزہ کے بچوں کے ساتھ "امت" کا دکھ بانٹا۔
مگر!
ابھی آج، وہی مولانا اسی امریکہ کے سفارت خانے میں، خوشگوار چہروں، مہذب مسکراہٹوں اور مکمل پروٹوکول کے ساتھ شریک نظر آتے ہیں۔
اور جیسے ہی عوام سوال اٹھاتے ہیں، وضاحت آتی ہے:
> "ہم نے امت مسلمہ کا مقدمہ رکھا!"
یہ وضاحت خود اپنی نفی ہے۔
جناب! آپ نے جس ملک کو برسوں "قاتل، اسلام دشمن، استعمار" کہا — اسی کی تقریب میں شرکت کیسے "امت کی نمائندگی" بن گئی؟
کیا امت کی ترجمانی اب سرخ قالین پر قدم رکھنے اور تصویری مسکراہٹوں سے ہوگی؟
بات صرف یہاں ختم نہیں ہوتی۔
یہ شرکت ایک ایسے دن ہوئی جب اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک اہم قرارداد پر ووٹنگ ہو رہی تھی۔
قرارداد: غزہ میں جنگ بندی ہونی چاہیے
نتیجہ: تمام ممالک نے حمایت کی،
مگر امریکہ نے ویٹو کر دیا!
یہاں تضاد اپنی انتہا کو چھو لیتا ہے۔
مولانا اُس ملک کی تقریب میں شریک تھے، جس نے کھلم کھلا فل سطینی بچوں کے قاتل اسرائیل کی حمایت میں دنیا کے ضمیر کو روند دیا۔
یعنی ایک ہاتھ میں فل سطینی پرچم، اور دوسرے میں امریکہ کے پروٹوکول کا دعوت نامہ؟
تو سوال یہ ہے:
کیا امت کی نمائندگی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آنکھوں میں آنسو ہوں اور پیروں میں امریکہ کی سرخ قالین؟
کیا "غ زہ کے حق میں بیانیہ" اور "امریکہ کے ساتھ عملی شرکت" ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں؟
ماضی کو کریدیں تو حیرت اور بھی بڑھتی ہے۔
عمران خان کو مولانا نے بارہا "یہودی ایجنٹ" کہا — مگر بعد میں خود فرمایا:
> "یہ تو محض سیاسی نعرہ تھا"
یعنی مذہب اور قوم پرستی کی مقدس چادر کو محض ایک نعرے کے طور پر استعمال کیا گیا۔
اور پھر اس سے بھی بڑھ کر، جب عمران خان کی حکومت کو گرانے کے بعد خود مولانا نے انکشاف کیا کہ:
> "جنرل باجوہ نے کہا تھا امریکہ کی طرف سے بڑا دباؤ ہے"
تو گویا مولانا بزبانِ حال یہ مان چکے ہیں کہ وہ امریکی خواہش پر ایک منتخب حکومت کے خاتمے میں شامل ہوئے۔
اب جب وہی مولانا، اسی امریکہ کی آزادی کی تقریب میں شریک ہوتے ہیں — تو کیا اسے "سیاسی حکمت" کہا جائے یا اصولی خودکشی؟
یہ سب واقعات کسی ایک شخصیت کا معاملہ نہیں، بلکہ مذہبی سیاست کے بدنما چہرے کا عکس ہیں۔
یہ طرزِ عمل ایک گہری سچائی کو بے نقاب کرتا ہے:
سیاست اگر واقعی سمجھداری سے ہوتی ہے تو بیانیے میں استقامت شرط ہے۔
بیانیہ بدل بدل کر وقتی مفاد تو حاصل کیا جا سکتا ہے، مگر عزت نہیں۔
اگر "امریکہ مردہ باد" صرف ایک نعرہ تھا — تو اب کا "امریکہ زندہ باد" ایک حقیقت بن چکا ہے۔
قوم کے شعور سے کھیلنا، جذبات کو بیچنا، اور پھر فتووں کی چادر اوڑھ لینا — یہ مذہبی سیاست کی سب سے خطرناک صورت ہے۔
ایسے میں قوم کو گمراہ کرنے سے پہلے، ذرا خود کو دیکھ لیجیے۔
فل سطین کا پرچم لہرا کر اگر اسی امریکہ کی تقریب میں جانا تھا —
تو بہتر تھا کہ پہلے نعرے بند کرتے، وضاحتیں دیتے، اور امت کو اعتماد میں لیتے۔
مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔
لہٰذا اب جو ہو رہا ہے، وہ تنقید نہیں، آئینہ ہے۔
حضرت!
اگر آپ نے "ٹرک کی بتی" کے پیچھے چلنا ہی ہے، تو ضرور چلیں۔
مگر خدا را دوسروں کو اس بتی کی روشنی میں اندھیروں کی طرف مت لے جائیے۔
👍
1