اَلْقُرْآنُ حَیَاتِیْ 🌱🌻
June 6, 2025 at 12:46 PM
*’’عرفہ کے دن عصر کے بعد دعا اور ذکر‘‘*
عرفہ کے دن غیر حاجی کے لیے عصر کے بعد مسجد میں بیٹھ کر عبادت وذکر میں مشغول رہنا بعض سلف سے ثابت ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح حجاج کرام میدانِ عرفات میں عصر کے بعد غروبِ آفتاب تک ذکر ودعا اور مناجات میں مشغول ہوتے ہیں اسی طرح دیگر لوگ بھی اس وقت کو انہی کی طرح گزار لیں۔
⇚امام حسن بصری تابعی رحمہ اللہ (١١٠هـ) بیان کرتے ہیں :
«أَوَّلُ مَنْ عَرَّفَ بِأَرْضِنَا ابْنُ عَبَّاسٍ، كَانَ يَتَّعِدُّ عَشِيَّةَ عَرَفَةَ، فَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ الْبَقَرَةَ آيَةً آيَةً، وَكَانَ مَثَجًّا عَالِمًا».
’’ہماری سرزمینِ بصرہ میں سب سے پہلے عرفہ کا معمول سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما (٦٨هـ) نے بنایا، وہ عرفہ کا موعد رکھتے، پھر سورہ البقرہ کی آیات کی ایک ایک کر کے تلاوت کرتے، وہ بہترین خطیب اور عالم تھے۔‘‘
(المصنف لعبد الرزاق - ت الأعظمي : ٤/٣٧٧ وسنده حسن إلى الحسن)
⇚ابو عوانہ الوضاح اليشكري رحمہ اللہ (١٧٦هـ) بیان کرتے ہیں :
«رَأَيْتُ الْحَسَنَ الْبَصْرِيَّ يَوْمَ عَرَفَةَ بَعْدَ الْعَصْرِ جَلَسَ، فَدَعَا وَذَكَرَ اللهَ فَاجْتَمَعَ النَّاسُ».
’’میں نے دیکھا، حسن بصری رحمہ اللہ عرفہ کے دن عصر کے بعد (مسجد میں) بیٹھے، اللہ تعالی سے دعا کی اور ذکر کیا تو لوگ بھی جمع ہو گئے۔‘‘
(السنن الكبرى للبيهقي : ٥/١٩١ وسنده صحیح)
⇚موسی بن أبي عائشہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
«رَأَيْتُ عَمْرَو بْنَ حُرَيْثٍ يَخْطُبُ يَوْمَ عَرَفَةَ وَقَدِ اجْتَمَعَ النَّاسُ إِلَيْهِ».
’’میں نے صحابی رسول، سیدنا عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ (٨٥هـ) کو دیکھا، وہ عرفہ کے دن وعظ و نصیحت کر رہے تھے اور لوگ ان کے پاس جمع تھے۔‘‘
(المصنف لابن أبي شيبة : ٣/٢٨٧ وسنده صحیح)
⇚عبد الرحمن بن حرملہ رحمہ اللہ (١٤٥هـ) بیان کرتے ہیں :
«أَنَّهُ رَأَى سَعِيدَ بْنُ الْمُسَيِّبِ عَشِيَّةَ عَرَفَةَ مُسْنِدًا ظَهْرَهُ إِلَى الْمَقْصُورَةِ، وَيَسْتَقْبِلُ الشَّامَ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ».
’’انہوں نے امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ (٩٤هـ) کو عرفہ کی شام دیکھا، وہ (مسجد میں قبلے کی جانب) چبوترے سے ٹیک لگائے، شام کی طرف رُخ کیے بیٹھے رہے، یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔‘‘ (المصنف لابن أبي شيبة : ٣/٢٨٧ وسنده صحیح)
⇚عبد اللہ بن عون رحمہ اللہ (١٥١هـ) بیان کرتے ہیں، لوگ امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ (١١٠هـ) سے عرفہ کی شام مسجد میں آنے کے بارے پوچھتے تو وہ فرماتے :
«لَا أَعْلَمُ بِهِ بَأْسًا».
’’میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا۔‘‘
البتہ وہ خود گھر ہی رہتے تھے اور ان کا اس شام کا معمول عام دنوں کے معمولات کی طرح ہی ہوتا تھا۔‘‘
(المصنف لابن أبي شيبة : ٣/٢٨٧ وسنده صحیح)
⇚ اثرم رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : میں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (٢٤١هـ) سے شہروں میں تعریف (یعنی یومِ عرفہ کو غیر حاجیوں کا مساجد میں جمع ہو کر دعا کرنے) کے بارے میں پوچھا کہ لوگ عرفہ کے دن مساجد میں جمع ہوتے ہیں۔ تو انہوں نے فرمایا:
«أَرْجُو أَنْ لا يَكُونَ بِهِ بَأْسٌ، قَدْ فَعَلَهُ غَيْرُ وَاحِدٍ: الْحَسَنُ، وَبَكْرٌ، وَثَابِتٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ وَاسِعٍ، كَانُوا يَشْهَدُونَ الْمَسَجِدَ يَوْمَ عَرَفَةَ»
’’مجھے امید ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ یہ کام بہت سے لوگوں نے کیا ہے: حسن بصری، بَکر، ثابت، اور محمد بن واسع رحمہم اللہ یہ سب لوگ عرفہ کے دن مسجد میں حاضر ہوتے تھے۔‘‘
(مثير الغرام الساكن لابن الجوزي، صـ ١٩٩)
... حافظ محمد طاھر
(المسجد النبوي، بعد العصر، يوم عرفة ١٤٤٦هـ، 5 جون 2025ء)
❤️
❤🩹
5