
ریحان سسا 🌱
June 9, 2025 at 04:00 PM
*پوروچیستا سے حفصہ تک | قاضی داد محمد ریحان*
https://dailysangar.online/?p=62175
نوٹ : یہ تحریر نصیر احمد بلوچ کی کتاب ’ جبری غلامی سے فکری آزادی تک ‘ کے تعارف میں لکھا گیا ہے۔ مذکورہ کتاب بی این ایم کے شعبہ نشر و اشاعت زْرمبش شنگکار نے شائع کی ہے اور ادارہ کے ٹیلی گرام چینل پر پی ڈی ایف کی شکل میں دستیاب ہے۔ ق د م ر
پیغمبر زرتشت اپنی دختر پورو چیستا کی شادی کے موقع پر ان سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں :
Pouručištā čā Spitāmā daiϑi
پوروچیستا چا اسپیتاما دئیتی
پوروچیستا، اے دخترِ اسپیتمان (زرتشت کی بیٹی!)
vīspāiš xratūm vīspāiš āsnā
ویسپائیش خراتوم ویسپائیش آسنا
عقل و دانش کے ہر پہلو سے غور و فکر کر، آگاہی سے۔
ašīm vohū manaŋhā aŋhat̰ dazdā
اشیم ووهو مننگها انگهت دزدا
راستی نیک اندیشی سے حاصل کی جاتی ہے۔
ahurā vaēnāt̰ ašāunąm vahištəm xratūm
اهورا وئینت اشاونم وهیشتم خراتوم
اہورمزدا پارساؤں کو بہترین عقل و حکمت عطا کرتا ہے۔
tōəm yem stuuiiēš yem mazdaiiehe
توم یوم ستوئیش یوم مزدیئیش
تو وہی ہو جس کی ستائش مزدا کرتا ہے۔
yem ahmaē spəṇtahū maŋhaṯ̰
یوم اهْمَئی سپنتهو مَنگهت
جو میری مقدس سوچ کے مطابق ہے۔
yem vohū manaŋhō yem ašāunąm
یوم ووهو مناهو یوم اشاونم
جو نیک خیالوں اور راستی کے پیروکاروں سے ہے۔
yem vohū xšaϑraṃ yem rəϑvō
یوم ووهو خشثرم یوم رثوو
جو نیک حکومت اور درست راستے کا حامل ہے۔
tōəm yem vohū urvānąm yem aŋhat̰ daiϑi
توم یوم ووهو اروانو یوم انگهت دئیت
تو وہی ہو جو نیک روحوں کی مانند ہے، جسے اختیار دیا گیا ہے۔
yem vahištəm xratūm āsaŋhō
یوم وهیشتم خراتوم آسنگهو
جو بہترین عقل سے وابستہ ہے۔
yu vā yem ahura mazdā yu vohū manaŋhō
یو وا یوم اهورو مزدا یو ووهو مناهو
وہی ہے جو اہورمزدا اور نیک اندیشی سے وابستہ ہے۔
ahmaē xšaϑraṃ ahmaē stuuiiēš
اَهْمَئی خشثرم اَهْمَئی ستوئیش
میری حکومت اور میری ستائش۔
ahmaē ašāunąm ahmaē spəṇtahū maŋhaṯ̰
اَهْمَئی اشاونم اَهْمَئی سپنتهو مَنگهت
میری پارسائی اور میری مقدس سوچ۔
ahmaē vahištəm xratūm āsaŋhō
اَهْمَئی وهیشتم خراتوم آسنگهو
میری بہترین عقل اور وابستگی۔
ahmaē fraŋhāiš ahmaē zautra
اَهْمَئی فرنگهایش اَهْمَئی زئوتره
میری فراست اور میری قربانی۔
tōəm yem xratūm mazdaiiehe yem
توم یوم خراتوم مزدیئیش یوم
تو وہی ہو جو مزدا کی عقل رکھتی ہو۔
vaēnāt̰ ašāunąm yem spəṇtahū maŋhaṯ̰
وئینت اشاونم یوم سپنتهو مَنگهت
جو پارساؤں اور مقدس سوچ سے وابستہ ہے۔
yem xšaϑraṃ yem ahmaē zum
یوم خشثرم یوم اَهْمَئی زوم
جو حکومت اور میری قوت ہے۔
yem daiϑi fraŋhāiš yem dazdā
یوم دئیت فرنگهایش یوم دزدا
جو فراست اور عطا کی گئی ہے۔
tōəm yem vahem yem nāŋhāiš yem
توم یوم وهَمَم یوم نانگهایش یوم
تو وہی ہو جو ہم آہنگی اور عزت رکھتی ہو۔
daēvaŋhō yem drəguu daēvaŋhō
دَئِوَنغو یوم درِغوو دَئِوَنغو
جو دیووں کی جھوٹ اور فریب سے دور ہے۔
tōəm yem yaϑā ašā vahem yem
توم یوم یثا اشا وهَمَم یوم
تو وہی ہو جو راستی کے مطابق ہم آہنگ ہے۔
mantram yem uštāš yem fraŋhāiš
منترم یوم اوشتاش یوم فرنگهایش
جو منتر، خوشی اور فراست رکھتی ہو۔
tōəm yem nāŋhāiš yem vahem yem
توم یوم نانگهایش یوم وهَمَم یوم
تو وہی ہو جو عزت اور ہم آہنگی رکھتی ہو۔
vaēnāt̰ yem ašāunąm yem
وئینت یوم اشاونم یوم
جو پارساؤں سے وابستہ ہے۔
hōtərə yem ašāunąm yem
هوتره یوم اشاونم یوم
جو پارساؤں کی قربانی ہے۔
ašā vahem yem daēvaŋhō
اشا وهَمَم یوم دَئِوَنغو
راستی کے ساتھ ہم آہنگ ، دیووں سے دور ہے۔
tōəm yem spəṇtahū maŋhaṯ̰ yem ašāunąm
توم یوم سپنتهو مَنگهت یوم اشاونم
تو وہی ہو جو مقدس سوچ اور پارسائی رکھتی ہو۔
tōəm yem vohū manaŋhō yem
توم یوم ووهو مننگهو یوم
تو وہی ہو جو نیک اندیشی رکھتی ہو۔
vahem yem xšaϑraṃ yem
وهَمَم یوم خشثرم یوم
ہم آہنگی اور حکومت رکھتی ہو۔
daēvaŋhō yem drəguu daēvaŋhō
دَئِوَنغو یوم درِغوو دَئِوَنغو
دیووں کی جھوٹ اور فریب سے دور ہے۔
tōəm yem vahem yem mantram
توم یوم وهَمَم یوم منترم
تو وہی ہو جو ہم آہنگی اور منتر ( اثرانگیز کلام ) رکھتی ہو۔
زیر نظر کتاب کے بارے میں جب کماش نصیر نے بتایا تو مجھے بے اختیار زرتشت اسپیتمان یاد آگئے ، زرتشت جسے ہم پیغمبر زرتشت کے نام سے جانتے ہیں۔ آپ نے اپنی بیٹی پوروچیستا کی شادی کے موقع پر انھیں مادی دولت دینے کی بجائے حکمت اور دانش کی دولت عطا کی ، انھیں جھوٹ اور بدکرداری سے بچنے اور سچائی پر قائم رہنے کی تلقین کی۔
حضرت زرتشت کے مندرجہ بالا خیالات پر غور کریں ،آپ اپنی بیٹی کو کدبانو یعنی خاتون خانہ بن کر رہنے کی نصیحت نہیں کر رہے بلکہ انھیں عقل و شعور کے ساتھ غور و فکر کی ترغیب دے رہے ہیں ، ویسپائیش خراتوم ویسپائیش آسنا ( مکمل خرد ، مکمل آگاھی )۔
آج ہم اپنی اولاد کو تعلیم کی اگر ترغیب دیتے بھی ہیں تو اس کے فورا بعد یہی کہتے ہیں کہ پڑھنے لکھنے سے اس کی معاشی حالت بہتر ہوگی ، اگر وہ تعلیم حاصل نہیں کرئے گا تو ہمیں یہ فکر دامن گیر رہتا ہے کہ وہ معاشی بدحالی کا شکار ہو گا ، ہم اپنے بچوں کو یہ نہیں کہتے کہ وہ تعلیم کے ذریعے شعور حاصل کریں بلکہ یہ کہتے ہیں کہ تعلیم حاصل کرکے پیسہ کمائیں ۔اس عمومی سوچ سے ہٹ کر کماش نصیر نے جب’سنت اسپیتاما ‘ اختیار کیا تو مجھے خوشی ہوئی لیکن حیرت ہرگز نہیں ۔ گوکہ مجھے آپ سے ملاقات کا شرف نہیں لیکن دیرینہ آشنائی کا فیض حاصل ہے ، اس لیے آپ کا اپنی اولاد کو شادی کے تحفے میں ایک نظریاتی کتابچہ دینے کا خیال میرے لیے چونکا دینے والا نہیں تھا بلکہ ہر انقلابی شخصیت سے یہی امید رہتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت انقلابی اقدار کے مطابق کریں گے ۔
مجھے آپ کی سن 2009 کی بھیجی گئی ای میل آج بھی یاد ہے ، جس میں آپ نے بی این ایم میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تھا ، میں نے اس وقت کے پارٹی کے سربراہ کی ہدایت کے مطابق آپ کو ایک سوال نامہ بھیجا جو پارٹی ممبرشپ فارم کی طرح تھا۔ بدقسمتی سے اس زمانے میں ٹکنالوجی اتنی ترقی یافتہ نہیں تھی اس لیے آپ یہ سمجھے کہ ہمیں آپ کی ای میل نہیں ملی۔ آپ سے دوسری آشنائی روزنامہ توار میں آپ کے بیانات کے توسط تھی ، اس زمانے میں پردیس سے بلوچ تحریک کے حق میں اٹھنے والی آوازیں کمیاب تھیں ، اس لیے یہ گونج بہت دور تک سنی جاتی تھی کہ دیس سے بچھڑا وطن کا ایک سپوت اپنی قومی آزادی کی جدوجہد میں حصہ ڈالنے کو بیقرار ہے۔
میں دانستہ ان قربانیوں کا ذکر ان سطور میں نہیں کر رہا جو راہ آزادی کے انتخاب کے عوض آپ نے ادا کیں کیونکہ یہ کتاب خوشی کے موقع کا تحفہ ہے اور غم اس سفر میں وہ معمولات ہیں جو اگر نہ ہوں تو ہمیں اپنے کردار کے غیرموثر ہونے کا گمان ہو ، کیونکہ اس عمل کا ردعمل ہی اس بات کا مظہر ہے کہ ہم درست سمت میں گامزن ہیں۔
اس لیے ذکر ان اجلے خیالات کا ہونا چاہیے جو ان قربانیوں کو انمول بناتے ہیں۔ ہم ان افکار اور جذبات کی گہرائیوں تک پہنچنے کا زینہ کھوجیں ، تاکہ سمجھ سکیں کہ کیوں ایک باپ اپنی بیٹی کو اپنے عمر بھر کی جمع پونجی میں یہ چند صفحات دے رہے ہیں ۔ مجھے کامل یقین ہے کہ میری بہن ’ حفصہ ‘الفاظ کے اس نگینے پر ہمیشہ فخر کریں گی۔
یہ انوکھی بات نہیں ہے کہ ’’ بیٹایاں باپ کو بیحد عزیز ہوتی ہیں ‘‘ لیکن اس جملے کا درست مفہوم ایک باپ ہی جانتا ہے ، الفاظ اس کو بیان کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ جب کماش نصیر نے مجھے اس کتاب کی ترتیب کا حکم دیا ، اور کئی بار کہا کہ ’’ میں ایک تہی دامن باپ ہوں ، اس کتاب کے علاوہ میں اپنی بیٹی کو کچھ اور نہیں دے سکتا اس لیے ان کی رخصتی کے وقت یہ کتاب مکمل ہونی چاہیے ۔‘‘ پارٹی کی پے درپے سرگرمیوں کی وجہ سے میں نڈھال تھا ذہن میں سوچ ایک دوسرے سے متضاد تھے۔ کئی گھریلو معاملات بھی وقت طلب تھے ، لیکن میں اس سعادت سے محروم نہیں ہونا چاہتا تھا ، اس اعتماد کا میں شکرگزار ہوں جو میرے دوست واجہ نصیر احمد نے مجھ پر کیا ہے ، کیونکہ اعتماد ہرکسی کے لیے نہیں ہوتا۔
یہ کتاب عام پڑھنے والوں کو بھی مایوس نہیں کرتا ممکن ہے کہ یہ عقل کی بجائے جذبات پر دستک دے ، بلکہ اس کتاب کے مطالعے کے لیے شرط ہی ان جذبات سے واقف ہونا ہے جو ایک وطن دوست باپ کا سرمایہ زیست ہیں۔ اولاد کے لیے کتابیں لکھنا ، ان کو بہتر زندگی کی نصیحت کرنا ، روایات ہیں لیکن شادی میں ایک کتاب تحفے میں دینا عام سی بات نہیں۔ البتہ تاریخ میں کئی کتابوں کا ذکر ہے جو مصنفین نے اپنی بیٹیوں کے لیے لکھیں۔
سیاستدانوں میں ہمارے خطے کے مشہور سیاستدان پنڈت جواہر لال نہرو بھی اس فہرست میں شامل ہیں جنھوں نے اپنی بیٹی اور تاریخ ساز سیاستدان ’ اندار گاندھی ‘ کے لیے کوئی باقاعدہ کتاب تو نہیں لکھی لیکن 1928 میں اپنی دس سالہ بیٹی اندرا نہرو کو 30 خطوط لکھے، جنھیں بعد میں "Letters from a Father to His Daughter” کے عنوان سے شائع کیا گیا۔ ان خطوط میں انھوں نے تاریخ، سائنس، اور تہذیب کے موضوعات پر روشنی ڈالی۔ یہ خطوط نہ صرف تعلیمی ہیں بلکہ ایک باپ کی اپنی بیٹی سے محبت اور رہنمائی کا مظہر بھی ہیں۔
اسکاٹش معالج اور اخلاقی مصنف ڈاکٹر جان گریگوری نے اپنی بیٹیوں کے لیے "A Father’s Legacy to His Daughters” کے عنوان سے ایک کتاب لکھی، جس میں انھوں نے خواتین کی تعلیم، اخلاقیات، اور معاشرتی کردار پر نصیحتیں کیں۔ یہ کتاب ان کی وفات کے بعد 1774 میں شائع ہوئی اور خواتین کی تعلیم کے حوالے سے ایک اہم دستاویز سمجھی جاتی ہے۔
معروف امریکی شاعر ای۔ ای۔ کمنگز نے اپنی بیٹی نینسی کے لیے چار کہانیاں لکھیں، جو بعد میں "Fairy Tales” کے عنوان سے 1965 میں شائع ہوئیں۔ ان کہانیوں میں تخیل اور زبان کی جدت کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔
معروف امریکی مصنف ایف۔ سکاٹ فِٹز جیرالڈ نے 1933 میں اپنی 11 سالہ بیٹی سکاٹی کو ایک خط لکھا، جس میں انھوں نے زندگی، محبت، اور خود اعتمادی کے بارے میں نصیحتیں کیں۔ یہ خط ایک باپ کی اپنی بیٹی کے لیے محبت اور رہنمائی کا عکاس ہے۔
انہی کتابوں میں اب ہمارے عزیز دوست نصیر احمد بلوچ کی کتاب ’ جبری غلامی سے فکری آزادی تک ‘ کا اضافہ ہوا ہے ، ایک ایسی بیٹی کے لیے جو خود بھی بلوچ قومی تحریک کی ایک باعمل شخصیت ہیں۔ بانک حفصہ کافی عرصے تک ریڈیو زرمبش کے لیے کام کرتی رہی ہیں ،ان کی نظریاتی پختگی اور فکری وابستگی متاثر کن ہے ۔
پوروچیستا اور حفصہ کے درمیان وقت نے ایک طویل لکیر ضرور کھینچی ہے ، لیکن اس لگ بھگ تین ہزار سالہ عرصے میں بیٹی سی وابستگی کا پدرانہ جذبہ وہی ہے جو زرتشت بزرگ تھا ۔ پوروچیستا محض زرتشت بزرگ کی بیٹی نہیں، بلکہ روحانیت اور اخلاق کا اعلی نمونہ ہیں— ایسی خاتون جو اپنی زندگی کے فیصلے عقل، ایمان، اور سچائی کی بنیاد پر کرتی ہے۔اسی طرح یہ کتاب بھی ’ حفصہ ‘ کے نام ضرور ہے لیکن صرف ان ہی کے لیے فائدہ مند نہیں بلکہ ان تمام فرزندان بالخصوص بلوچ بیٹیوں کی سوچ کو بھی جِلا دیتی ہے جو آزادی کے اس سفر اور اس کے بعد منزل تک پہنچ کر اپنے خوابوں کے معاشرے اور آزاد وطن بلوچستان کو درست خطوط پر سنوارنے میں اپنا کردار ادا کریں گی۔
میں نے بھی سوچا تھا کہ اپنی بیٹی ’ بْراھناز ‘ کی تعلیم کے لیے پہلی کتاب لکھوں گا تاکہ وہ بلوچی سے ہی لکھنا پڑھنا سیکھے ، لیکن میری مصروفیت نے مجھ سے وہ موقع چھین لیا جس کا اب کبھی ازالہ نہیں ، آج یہ سطور لکھتے ہوئے میں تھوڑا سکون محسوس کر رہا ہوں کہ میں نے نہ سہی میرے ایک دوست نے بطور باپ ایک موقع کا سب سے بہترین استعمال کیا ہے۔
’’ یہ کتابچہ میرا نذرانہ ہے، صرف بیٹی کے لیے نہیں، بلکہ ہر اس بلوچ بیٹی کے لیے جو قیدخانوں میں امید کا چراغ سنبھالے ہوئے ہیں، جو قربانی دے کر بھی پیچھے نہیں ہٹتی۔‘‘
__نصیر احمد بلوچ
’’ توم یوم خراتوم مزدیئیش یوم ‘‘
***