متاع گمشدہ کی تلاش
متاع گمشدہ کی تلاش
May 17, 2025 at 06:45 PM
*آخری وار شروع، اہل غزہ اب کہاں جائیں گے* قیامت کا سماں ہے، ہر سو چیخ و پکار ہے، زمین دہک رہی ہے اور تباہ کن بم برسنے کے بعد دھویں کے مرغولوں سے آسمان سیاہ ہو چکا ہے۔ ہوا میں بارود کی بُو رچی ہے اور دیواروں پر آنسوؤں کی نمی ثبت ہے۔ غزہ کے گلی کوچوں میں موت کا عفریت رقص کناں ہے۔ جہاں کبھی بچوں کی ہنسی گونجتی تھی، آج وہاں خامشی ماتم کرتی ہے۔ کسی باپ کے بازو میں بیٹے کی لاش ہے، تو کسی ماں کی گود خالی ہے، آنکھیں پتھرائی ہوئی ہیں، شاید آنسو بھی ختم ہو چکے ہیں۔ کسی کھنڈر میں دبے ہوئے ہاتھ میں ایک پرانا کھلونا ہے، جس سے ابھی زندگی لپٹی ہوئی تھی۔ کوئی بچی اپنی ماں کو آوازیں دے رہی ہے، جو ملبے کے نیچے ہمیشہ کے لیے سو گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے پورا شہر ایک اجتماعی قبر میں بدل چکا ہے، جہاں سانس لینا بھی جرم ہے۔ غزہ میں زندگی کی تعریف بدل گئی ہے، زندہ وہ نہیں جو سانس لے رہا ہے، بلکہ وہ ہے جس کی لاش کو دفنانے کی جگہ مل گئی ہو۔ دنیا تماشائی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے کاغذوں پر قراردادیں گرد اُڑا رہی ہیں، جبکہ بچوں کی چیخیں زمین پر لکھا جانے والا سب سے خاموش احتجاج بن چکی ہیں۔ بچے کھچے قدسیوں کو بھی ختم کرنے کے لیے فیصلہ کن آپریشن “عرباتِ جدعون” شروع ہو چکا ہے۔ اسپتالوں میں لاشوں اور زخمیوں کی اور قبرستانوں میں میتوں کی گنجائش ختم۔ صرف36گھنٹے میں555بے جاں وجود ادویہ و سہولیات سے خالی برائے نام شفاخانوں میں لائے جاچکے۔ جو زندہ ہیں ان کے دو ہی مشغلے ہیں، صبح شام پیاروں کی تدفین، پھر جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے نوالے کے حصول کی تگ ودو۔ کبھی لمبی قطاروں میں کھڑے ہوکر بھی خالی ہاتھ لوٹنا پڑتا ہے۔19مارچ سے محصور پٹی میں آب و دانہ کی رسائی مسدود۔ راستوں پر سنگینوں کے پہرے۔ پانی کی بوتل یا دوا کی شیشی بھی پٹی میں داخل نہیں ہو سکتی۔ اس لیے بھوک، پیاس اور افلاس مجسم ہو کر الگ سے لاغر وجودوں کو کھا رہا ہے۔65ہزار بچے غذائی قلت سے موت کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ “بے بسی” بھی ان کی بے بسی کو بیان کرنے سے بے بس۔ حقیقی معنوں میں زمین تنگ ہوچکی۔ کلیجے منہ کو آرہے ہیں۔ مگر فریاد سننے والا کوئی نہیں۔ اب تو فریاد کی بھی سکت نہیں رہی۔ دنیا کی ایسی سنگ دلی کا ایک قوم پہلی دفعہ مشاہدہ کر رہی ہے۔ تاریخ میں پہلی دفعہ کیمروں کے سامنے اور دنیا کی نگاہوں کے آگے ایک قوم کی نسل مٹائی جا رہی ہے۔ مگر ہر طرف سکوت مرگ طاری ہے۔ جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اس لیے دنیا سے مایوس ہو کر ایک سادہ مگر سنجیدہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ہم پر ایٹم بم برسا دو۔ یہ تمہارا احسان ہوگا تاکہ اس اذیت ناک اور سسکتی زندگی سے نجات ملے! یہ کوئی مبالغہ نہیں، بلکہ بین الاقوامی خبر رساں ادارے ”انٹر پریس سروس” (آئی پی ایس) نے مظلومانِ قدس کے اس مطالبے پر رپورٹ شائع کی ہے۔ صورتحال اتنی ناگفتہ بہ ہو چکی ہے کہ اب قدسی کسی روشنی کی توقع نہیں رکھتے۔ اب جسے موت اپنی آغوش میں لے لیتی ہے، اسے خوش قسمت سمجھا جاتا ہے۔ یوں غزہ میں موت بھی بہت بڑی نعمت ہے۔ بھوک کے مارے بچے جب امدادی اداروں کے مراکز سے اپنے برتن خالی لے کر واپس لوٹتے ہیں تو جابجا بکھری قبروں کے پاس گزرتے ہوئے وہ آپس میں سرگوشی کرتے ہیں کہ “احمد شہید” کتنا خوش قسمت ہے، وہ جنت کے میوے کھا رہا ہوگا اور ہم یہاں ایک نوالے کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ کاش کہ ہم بھی جلد شہید ہو جائیں۔ غزہ دردوں کا دَر اور دکھوں کا گھر ہے۔ اس کا نوحہ لکھنے کے لیے بھی کسی ابوالکلام کا قلم درکار ہے۔ وہ بھی شاید اس تکلیف کو الفاظ کا جامہ نہ پہنا سکے، جس سے اہل غزہ گزر رہے ہیں۔ الجزیرہ کے نمائندے انس الشریف نے جمعہ کی صبح سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ لکھی کہ “مجھے پتہ ہے آپ لوگ مزے سے سوئے ہوں گے۔ مگر ہم پر قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔” صہیونی فوج نے غزہ کو مکمل طور پر ملیامیٹ کرنے کے آپریشن “عرباتِ جدعون” کا آغاز کر دیا ہے۔ ہفتہ کے روز اس خوفناک مہم کی شروعات کا آفیشلی اعلان کر دیا گیا۔ یہ کئی ہفتوں کی مسلسل تیاریوں کے بعد شروع کیا گیا ہے۔ جس کا مقصد بے خانماں فلسطینیوں کو دربدر کرکے غزہ پر مکمل قبضہ اور حماس سمیت دیگر مزاحمتی قوتوں کا مکمل صفایا ہے۔ واضح رہے کہ اس آپریشن کا آغاز عین ہفتہ کے روز کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہودی مذہب میں ہفتہ کا دن (سبت) بہت مقدس ہے۔ اس دن کوئی کام بالخصوص جنگ کرنا ممنوع سمجھا جاتا ہے۔
😢 👍 🙏 10

Comments