متاع گمشدہ کی تلاش WhatsApp Channel

متاع گمشدہ کی تلاش

696 subscribers

About متاع گمشدہ کی تلاش

*آئیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو عام کریں!!* *نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے، اور اس محبت کا تقاضا ہے کہ ہم ان کی ذات و صفات، اخلاق و عادات اور سیرت کو گہرائی سے جانیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل حیاتِ مبارکہ ہماری زندگی کے ہر پہلو کے لیے اعلی نمونہ اور ہر شعبے کے لیے بہترین رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ لیکن یہ رہنمائی تب حاصل کی جا سکتی ہے جب ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات، صفات اور اخلاق کا علم ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عبور حاصل ہو۔ اسی مقصد کے لیے ہم نے یہ چینل بنایا ہے، جہاں روزانہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کو سوال و جواب کی صورت میں ایک دلچسپ انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے آپ حضرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے اہم واقعات، اعلیٰ اخلاق، اور مبارک تعلیمات کو آسان اور مؤثر انداز میں سمجھ سکتے ہیں۔ ہمارا مشن یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو دلوں میں زندہ کیا جائے اور ان کی سیرت کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا جائے۔* *آئیے!! نیچے دیے گئے لنک پر کلک کر کے چینل کو فالو کریں۔ جزاکم اللہ خیرا* https://bit.ly/3C6H0fu

Similar Channels

Swipe to see more

Posts

متاع گمشدہ کی تلاش
متاع گمشدہ کی تلاش
6/12/2025, 8:23:41 AM

خلیج میں جنگ کے بادل: اسرائیل حملے کے قریب، امریکا نے عراق، کویت اور بحرین سے عملے کا انخلاء شروع کر دیا یروشلم اور واشنگٹن سے آنے والی اطلاعات خطے میں ممکنہ جنگ کی گھنٹیاں بجا رہی ہیں۔ اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کے قریبی صحافی، یااکوو بردوگو، نے چینل 14 کو دیے گئے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا ہے کہ: “اسرائیل ایران پر حملے کے بہت قریب ہے۔ ہم صرف چند دنوں کے فاصلے پر ہیں۔” اس بیان کے فوراً بعد خطے میں کشیدگی مزید شدت اختیار کر گئی ہے، اور امریکی اقدامات نے واضح اشارے دیے ہیں کہ واشنگٹن کسی بھی ممکنہ جنگی صورتِ حال کے لیے بھرپور تیاری کر رہا ہے۔ امریکا کا انخلاء: واضح پیغام امریکی محکمہ خارجہ نے بغداد میں موجود امریکی سفارت خانے سے تمام غیر ضروری عملے اور ان کے اہلِ خانہ کے فوری انخلا کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح بحرین اور کویت میں تعینات غیر ضروری فوجی و سفارتی عملے اور ان کے خاندانوں کو رضاکارانہ انخلا کی اجازت دے دی گئی ہے۔ پینٹاگون کا کہنا ہے کہ انخلاء کی مکمل معاونت کی جا رہی ہے، تاہم فی الحال سفارت خانے کھلے رہیں گے اور سفارتی سرگرمیاں محدود سطح پر جاری رہیں گی۔ برطانوی بحری حکام نے بھی خلیج میں گزرنے والے تمام بحری جہازوں کو وارننگ جاری کی ہے کہ وہ مکمل احتیاط اور ہوشیاری کے ساتھ سفر کریں۔ تناؤ کی وجوہات: • امریکا اور ایران کے درمیان جوہری مذاکرات مکمل طور پر تعطل کا شکار ہو چکے ہیں، جس کے بعد خطے میں کشیدگی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ • ایران کے وزیر دفاع نے کھل کر خبردار کیا ہے کہ اگر ایران پر حملہ کیا گیا تو وہ خطے میں موجود امریکی اڈوں کو نشانہ بنائے گا۔ • غزہ میں جاری جنگ، خلیج میں فوجی نقل و حرکت میں اضافہ، اور تیل کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ (برینٹ خام تیل میں 4 سے 5 فیصد تک اضافہ) بھی صورتحال کو مزید حساس بنا رہے ہیں۔ کیا جنگ یقینی ہے؟ ابھی تک امریکا یا اسرائیل کی جانب سے باضابطہ جنگ کا اعلان نہیں کیا گیا، اور نہ ہی کسی بڑے فوجی آپریشن کی تصدیق ہوئی ہے۔ یہ ایران پر دباؤ ڈالنے کے لیے “پوسچرنگ” بھی ہو سکتی ہے۔ تاہم موجودہ اقدامات واضح طور پر اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ دونوں ممالک ممکنہ طور پر ایران کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کے لیے آخری تیاریاں کر رہے ہیں۔ اسرائیلی ذرائع کے مطابق، فیصلہ کن لمحہ اب بہت قریب ہے۔ خلیج کے آسمان پر جنگ کے امکانات کے گہرے بادل منڈلا رہے ہیں، اور عالمی برادری شدید تشویش میں مبتلا ہے۔

Post image
👍 ❤️ 4
Image
متاع گمشدہ کی تلاش
متاع گمشدہ کی تلاش
5/16/2025, 7:50:33 PM

*امریکی صدر ٹرمپ عرب حکمرانوں سے 3320 ارب ڈالر لے کر واپس گھر روانہ. وہ ملعون اسی رقم کو دجا ل کی راہ ہموار کرنے اور امت مسلمہ کے خلاف استعمال کرے گا* یہ رقم پاکستانی کرنسی میں تقریباً 925 کھرب روپے بنتی ہے۔ کتنی؟ 925,284,000,000,000 روپے.

😢 😮 👍 11
متاع گمشدہ کی تلاش
متاع گمشدہ کی تلاش
5/16/2025, 7:03:31 AM

نسل کشی مزید تیز۔ کل 143 شہید ہوئے تھے۔ آج صبح سے اب تک صرف شمال میں 100 سے زاید لاشیں نکالی جا چکی ہیں۔ بیشتر بچے اور خواتین

😢 3
متاع گمشدہ کی تلاش
متاع گمشدہ کی تلاش
5/16/2025, 7:03:31 AM

پورا غزہ جاگ رہا ہے، بمباری تھمنے کا نام نہیں لے رہی، پوری غزہ کی پٹی پر شدید اور وحشیانہ حملے جاری ہیں يا رب سلم أهلنا في غز ة

😢 ❤️ 4
متاع گمشدہ کی تلاش
متاع گمشدہ کی تلاش
5/16/2025, 7:03:31 AM

*صدر ٹرمپ اور "ابراہیمی معاہدہ"* تحریر: زاہدالراشدی ریاستہائے متحدہ امریکا کے صدر جناب ڈونلڈ ٹرمپ ان دنوں سعودی عرب کے دورے پر ہیں اور سعودی حکومت کے ساتھ تجارت و معیشت کے حوالہ سے معاملات طے کر رہے ہیں۔ اس موقع پر ان کی طرف سے دو باتیں سوشل میڈیا میں گردش کر رہی ہیں جو بہرحال توجہ طلب ہیں۔ ایک یہ کہ سعودی عرب کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان ہوا تو وہ اسے اپنی عزت افزائی سمجھیں گے اور دوسرا یہ کہ انہیں امید ہے کہ سعودی عرب ”ابراہیمی معاہدہ” میں شامل ہو جائے گا۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالہ سے ہم اپنا موقف متعدد بار واضح کر چکے ہیں اور ”ابراہیمی معاہدہ” کی بات بظاہر عرب اسرائیل سفارتی تعلقات کے حوالے سے کی جاتی ہے لیکن اس کا جو درپردہ پہلو ہے اس پر ہم کچھ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ایک عرصہ سے عالمی سطح پر یہ بات کہی جا رہی ہے کہ مذاہب کو آپس میں ہم آہنگی بلکہ اتحادِ مذاہب کے عنوان سے باہمی ایڈجسٹمنٹ کی کوئی صورت نکالنی چاہیے جس کی وجہ ہمارے خیال میں یہ ہے کہ چونکہ مذہب کو معاشرتی کردار اور سیاسی و تہذیبی ماحول سے الگ کر کے صرف عقائد اور اخلاقیات کے دائرے میں محدود رکھنے کا فلسفہ عالمی قوتوں نے آپس میں طے کر لیا ہے اور اس کو قبول کرانے میں رکاوٹ صرف مسلم معاشرہ میں پیش آ رہی ہیں کہ حکمران طبقوں سے قطع نظر دینی و عوامی ماحول میں مسلم امت اور عوام مذہب کے معاشرتی و تہذیبی کردار سے دستبردار ہونے کے لیے کسی صورت میں آمادہ نہیں ہیں اس لیے مختلف مذاہب کے درمیان مکالمہ، ہم آہنگی اور یکجہتی کا ایسا ماحول پیدا کیا جائے جس سے مسلم دنیا کو بھی مذہب کے بارے میں آج کے عالی فلسفہ کے دائرے میں محصور کیا جا سکے۔ اس کا ایک دائرہ ”ابراہیمی مذاہب” کو یکجا کرنے اور ایک میز پر بٹھانے کی یہ کوشش بھی ہے کہ چونکہ مسیحی، یہودی، مسلمانوں اور بعض دانشوروں کے نزدیک ہندو بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف نسبت کا دعویٰ کرتے ہیں اس لیے انہیں ایک چھت کے نیچے جمع کیا جا سکتا ہے، جس کے لیے بین الاقوامی ماحول میں محنت کا ایک میدان گرم ہے اور ”ابراہیمی معاہدہ” بھی اسی کا ایک حصہ دکھائی دیتا ہے، اور اس کے لیے ابوظہبی میں ”خاندان ابراہیم ہاؤس” تعمیر بھی کیا جا چکا ہے۔ اس پر علمی حلقوں کے متوجہ ہونے کی ضرورت ہے اور ہم بھی اس سلسلہ میں کچھ طالب علمانہ گزارشات پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ان شاء اللہ تعالیٰ۔ مگر سرِدست ایک دو پرانی یادوں کو گفتگو کے آغاز کے طور پر قارئین کی نذر کرنا چاہتے ہیں۔ نصف صدی قبل کی بات ہے لیبیا کے دارالحکومت طرابلس میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے موضوع پر ایک عالمی کانفرنس میں لیبیا کے حکمران جناب معمر قذافی نے اپنے صدارتی خطاب میں یہ بات کہہ دی تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات گرامی چونکہ بیشتر آسمانی مذاہب کا مرکز و محور ہے اور انہوں نے ہی اپنے ماننے والوں کو ”مسلم” ہونے کا خطاب دیا تھا ”ملة ابیکم ابراہیم ہو سماکم المسلمین” (الحج 78) اس لیے مسلمان کہلانے کے لیے یہ نسبت ہی کافی ہے اور انہیں اپنا مرکز و محور ماننے والوں کے لیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا اور ان کے عنوان سے الگ تشخص قائم کرنا ضروری نہیں ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ اس وقت مصر کے نائب صدر جناب حسین الشافعی بھی کانفرنس میں شریک تھے اور انہوں نے صدر قذافی کی اس بات کو موقع پر ہی ٹوک دیا تھا کہ ان کی اس بات کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا اور ”مسلمان” کہلانے کے لیے پہلے انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا اور انہیں آخری نبی کے طور پر اپنا پیشوا تسلیم کرنا بھی لازمی ہے، اس کے بغیر کوئی بھی شخص مسلمان کہلانے کا حقدار نہیں ہے اور نہ کسی کو مسلمان تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہم ایک مشاہدہ بھی شامل کرنا چاہتے ہیں جو اسی تناظر یں شکاگو کے ایک سفر میں ہمارے سامنے آیا تھا۔ امریکا کے ایک سفر میں حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی کے ساتھ رفاقت تھی اور ہم دونوں شکاگو میں چنیوٹ کے ایک تاجر دوست ریاض وڑائچ صاحب مرحوم کے مہمان تھے۔ شکاگو میں مرزا بہاء اللہ شیرازی کے پیروکار ”بہائیوں” کا بہت بڑا مرکز ہے جسے دیکھنے اور وہاں کی شب و روز کی سرگرمیاں معلوم کرنے کا مجھے تجسس تھا۔ مولانا چنیوٹی سے ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ چھوڑو وہاں کون ہمیں اندر جانے دے گا (کون وڑن دیسی؟)۔ میں نے اصرار کیا تو آمادہ ہوگئے اور ہم اپنے میزبان ریاض وڑائچ صاحب کے ہمراہ وہاں جا پہنچے۔ منتظمین نے ہمیں پہچان لیا اور بڑے احترام کے ساتھ اپنے مرکز کا وزٹ کرایا۔ بہائیوں کا عقیدہ ہے کہ دنیا میں موجود سب مذاہب برحق ہیں اور وہ سب کے جامع ہیں۔ اس کے اظہار کے لیے انہوں نے شکاگو کے اس مرکز کے مین ہال میں، جو بہت بڑا ہال ہے، ایک چھت کے نیچے چھ مذاہب کی عبادت گاہوں کا الگ الگ ماحول بنا رکھا ہے۔ ایک کونے میں مسجد ہے، دوسرے میں چرچ ہے، تیسرے میں مندر ہے اور چوتھے کونے میں یہودیوں کا سینی گاگ ہے جبکہ ہال کے وسط میں گوردوارہ اور بدھوں کی عبادت گاہ ہے اور ہر عبادت گاہ کو اس کا پورا ماحول فراہم کیا گیا ہے۔ مسجد اس کونے میں ہے جدھر مکہ مکرمہ کا رخ ہے، اس میں صفیں بچھی ہوئی ہیں، محراب ہے اور اس میں منبر ہے۔ مسجد کے ایک کونے کی الماری میں قرآن کریم کے چند نسخے رکھے ہوئے ہیں۔ مرکز کے منتظمین کا کہنا تھا کہ ہر مذہب والے کو اپنی عبادت گاہ میں آنے اور اپنے طریقے کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت ہے اور بہت سے لوگ عبادت کے لیے آتے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر ان میں سے ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ ایک چھت کے نیچے مسجد، مندر اور چرچ کو دیکھ کر آپ کو کیسا لگا؟ میں نے کہا کہ مسجد اور چرچ تو آپ نے ایک چھت کے نیچے اور ایک چار دیواری کے اندر بنا دیے ہیں لیکن ایک خدا اور تین خداؤں کو کیسے جمع کر لیا ہے؟ مسکرا کر بولے کہ چھوڑیں یہ فلسفہ کی باتیں ہیں۔ میں نے کہا کہ فلسفہ کی نہیں بلکہ یہ عقیدہ اور ایمان کی بات ہے۔ ہمارے خیال میں یہی تصور ”ابراہیمی معاہدہ” کے پیچھے بھی کارفرما ہے جو اہلِ علم اور دینی قیادتوں کی فوری توجہ کا طالب ہے۔ یہ گزارش ہم نے تمہید کے طور پر کی ہے جس کی تفصیلات پر ان شاء اللہ تعالیٰ چند کالموں میں کچھ معروضات پیش کریں گے۔

❤️ 👍 10
متاع گمشدہ کی تلاش
متاع گمشدہ کی تلاش
5/16/2025, 7:27:43 PM
❤️ 😢 👍 6
Video
متاع گمشدہ کی تلاش
متاع گمشدہ کی تلاش
5/15/2025, 3:29:28 PM

غم و الم سے بھرے دلوں کو ٹھنڈا کیجیے ۔۔ دیکھیے جانبازوں کی صہیونی بزدلوں سے دوبدو لڑائی ۔۔۔ القسام بریگیڈ کمین "اسود المنطار" (المنطار کے شیر) کے مناظر نشر کرتی ہے🔻

❤️ 👍 27
Video
متاع گمشدہ کی تلاش
متاع گمشدہ کی تلاش
5/17/2025, 6:54:04 PM

*آپریشن: "عرباتِ جدعون" کیا ہے ؟* “عربات جدعون” ایک عبرانی اصطلاح ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے “جدعون کی گاڑیاں” یا “جدعون کے پہیے”۔ انگریزی میں اسے(Gideon’s Chariots)کا نام دیا جاتا ہے۔ “جدعون”(Gideon) ایک بائبلی (تورات/ عہدِ قدیم) کردار ہے، جو اسرائیلیوں کا ایک معروف فوجی رہنما اور قاضی تھا، جسے ایک طرح سے اسرائیل کا نجات دہندہ سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اس نے دشمنوں، خاص طور پر مدیانیوں کے خلاف کامیاب جنگ لڑی تھی۔ صہیونیوں نے فتح مبین حاصل کرنے کے لیے اس آپریشن کا نام جدعون سے موسوم کیا ہے۔ اسرائیل میں اکثر فوجی کارروائیوں کو بائبلی یا علامتی نام دیئے جاتے ہیں تاکہ اہلکاروں کو تاریخی، مذہبی اور نفسیاتی تاثر کے تحت جنگ پر آمادہ کیا جائے تاکہ وہ اسے خالص مذہبی جذبے سے لڑیں۔ پھر “جدعون” کا نام اس لیے بھی چنا گیا ہے کہ وہ ایک چھوٹے گروہ کے ساتھ دشمن کی بڑی فوج کو شکست دینے والا رہنما تھا، یعنی یہ ایک ماہرانہ فوجی حکمتِ عملی کی علامت ہے۔19 ماہ کی مسلسل جنگ کے باوجود جب اسرائیل فلسطینیوں کی مزاحمتی تنظیموں کو شکست نہ دے سکا تو آخر میں یہ جدعون کے نام سے یہ آپریشن لانچ کیا گیا۔ آپریشن کی تکمیل کے بعد غزہ میں یہودی آبادگاروں کو بسایا جائے گا۔ بالخصوص امریکا سے آنے والے صہیونیوں کو۔ اس آپریشن کے تحت فضائی کارروائیوں کا آغاز چار دن پہلے ہی ہوگیا تھا، پھر ایک ساتھ زمینی اور بحری کارروائیاں شروع کی گئی ہیں۔ اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے اس بائبلی نام کی حامل فوجی کارروائی کے نتیجے میں حماس کو شکست دینے کے ساتھ اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرایا جائے گا۔ اسرائیلی فوج نے غزہ کے شمالی حصوں، خاص طور پر بیت لاہیا اور جبالیہ پناہ گزین کیمپ میں شدید فضائی اور زمینی حملے شروع کیے ہیں، جس کے نتیجے میں سینکڑوں افراد شہید ہو چکے ہیں۔ جمعہ کی صبح تک گزشتہ36گھنٹوں کے دوران250سے زاید لاشیں اسپتالوں میں پہنچائی گئیں۔ جبکہ بے شمار لوگ اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ شدید بمباری کے باعث نہ تو امدادی ٹیمیں ان تک پہنچ سکتی ہیں اور نہ ہی ان کے پاس اتنے آلات ہیں کہ وہ ملبہ ہٹا کر لاشوں کو نکال سکیں۔ ہفتہ کی صبح آپریشن عربات جدعون کے آغاز کے بعد چند گھنٹوں کے دوران60فلسطینی شہید اور130زخمی ہوگئے۔ جس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ نسل کشی کی مشین کس تیزی کے ساتھ حرکت میں آگئی ہے۔ فوجی حکمت عملی: اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ اس آپریشن میں غزہ کے تمام شہریوں کو شمالی سے جنوبی حصوں میں منتقل کیا جائے گا تاکہ حماس سے علیحدگی ممکن ہو سکے۔ اس کے علاوہ، اسرائیلی فوج ہر قبضہ شدہ علاقے میں مستقل موجودگی کے لیے اپنے مراکز قائم کرے گی تاکہ حماس کی واپسی کو روکا جا سکے۔ شمالی غزہ کے باسیوں کو فی الفور علاقہ خالی کرکے جنوب کی طرف منتقل ہونے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔ لیکن جو لوگ بے سروسامانی کے عالم میں ٹوٹے پھوٹے گھروں اور خیموں کو چھوڑ کر جان بچانے کے لیے نکلتے ہیں تو اسرائیلی طیارے انہیں بھی نشانہ بناتے ہیں۔ یہ آپریشن تین مراحل میں مکمل کرنے کا پلان ہے۔ پہلا مرحلہ شدید فضائی بمباری سے شروع کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ بحری اور زمینی حملوں کا بھی آغاز کیا گیا۔ اسی مرحلے میں شہریوں کو جنوب میں منتقل کرنے کی کوشش بھی جاری ہے۔ جبکہ دوسرے مرحلے میں زمینی افواج کو آگے بڑھانا ہے اور غزہ کے علاقوں پر قبضہ اور ممکنہ طویل مدتی فوجی موجودگی کی تیاری کرنی ہوگی اور تیسرے و آخری مرحلے میں ایک اسرائیلی سیکورٹی انتظامیہ کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ پھر فلسطینی آبادی کو دیگر مقامات (شاید بین الاقوامی سرزمین یا لیبیا) پر “رضاکارانہ” منتقلی کی اسکیم کو عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ فلسطینی کہاں جائیں گے؟ منصوبے کے تحت تباہ کن بمباری سے غزہ کے باشندوں کو رفح میں جمع کیا جائے گا۔ پھر صحرائے نقب کے قریب رامون ہوائی اڈے کے قریب واقع پناہ گزین کیمپوں میں منتقل کیا جائے گا۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ اس حوالے سے امریکی نیوز چینل “این بی سی نیوز” نے پانچ باخبر ذرائع کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ ایک منصوبے پر کام کر رہی ہے، جس کے تحت ایک ملین(10لاکھ) فلسطینیوں کو مستقل طور پر غزہ سے لیبیا منتقل کیا جائے گا۔ دو باخبر افراد اور ایک سابق امریکی اہلکار نے تصدیق کی ہے کہ یہ منصوبہ اتنا سنجیدہ ہے کہ امریکہ نے اس پر لیبیا کی قیادت کے ساتھ بات چیت بھی کی ہے۔ مزید یہ کہ فلسطینیوں کو دوبارہ آباد کرنے کے بدلے میں امریکہ وہ اربوں ڈالرز کی رقم جاری کرے گا جو واشنگٹن نے10سال سے زائد عرصے سے منجمد کر رکھی ہے۔ ایک طرف غزہ میں قیامت کا یہ سماں ہے اور فلسطینیوں کے بھوکوں مرنے کا خطرہ اب ہر گزرتے دن کے ساتھ حقیقت کا روپ دھاتا جا رہا ہے تو دوسری جانب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ پر عرب حکام کی طرف سے دولت کی بارش نے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اسرائیل کو امریکی صدر کے دورۂ خلیج کے دوران ملنے والی حمایت سے غیر معمولی حوصلہ ملا ہے۔ اس لیے “عربات جدعون” آپریشن کو وقت سے پہلے ہی شروع کیا گیا۔ عبرانی ذرائع نے اطلاع دی تھی کہ افرادی قوت کی قلت کے باعث یہ آپریشن اگلے ماہ کے وسط تک شروع کرنا تھا۔ اب اسرائیل کو یقین ہوگیا ہے کہ عرب ممالک غزہ سے مکمل لاتعلق ہو چکے ہیں اور ان کی تمام تر دلچسپی امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات پر مرکوز ہے۔ اسرائیل نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر غزہ کو صاف کرنے کا فیصلہ کن آپریشن شروع کر دیا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ غزہ کے قتل عام میں شریک ہونے کے باوجود ٹرمپ کو خلیج میں جو پذیرائی ملی ہے، اس سے امریکی اتحادی اسرائیل کو بھی شہہ ملی ہے۔ انوسٹمنٹ کے نام پر ٹرمپ نے خلیجی “اتحادیوں” سے جتنی وصولی کی ہے، اس کی مثال شاید ہی انسانی تاریخ میں مل سکے۔ یک مشت، صرف3دن میں3320ارب ڈالرز۔ بقول برادرم عارف انیس کے اتنی بڑی آگراہی سکندر اعظم، امیر تیمور، چنگیز و ہلاکو خان اپنی تمام تر مار دھاڑ کے باوجود نہ کر سکے تھے، جو ٹرمپ نے پیار پیار میں کر دکھایا۔ ایسی لوٹ مار کے لیے برطانوی سامراج کو ہندوستان پر190سال تک حکومت کرنی پڑی تھی۔ معروف معاشی ماہر اتسا پٹ نائیک کی تحقیق کے مطابق1765ءسے1938ء تک انگریز نے جو رقم لوٹ کر برطانیہ منتقل کی، اس کا اندازہ تقریباً45کھرب ڈالر لگایا گیا ہے اور ٹرمپ نے صرف3دن میں اتنی رقم جمع کی کہ تاریخ رقم ہوگئی۔3320ارب ڈالر کو اگر ہم پاکستانی کرنسی میں دیکھنا چاہیں تو یہ تقریباً925کھرب روپے بنتی ہے۔ کتنی؟925,284,000,000,000روپے۔ جس کی تفصیل یوں ہے: ‏سعودیہ عرب:720ارب ڈالر قطر:1200ارب ڈالر یو اے ای:1400ارب ڈالر یعنی ان عرب ممالک نے کل ملا کر امریکا سے3320ارب ڈالر انوسٹمنٹ کے معاہدے کیے ہیں۔ پچھلے سات دن میں، مودی کی پشت میں شرلی چھوڑنے کے علاوہ ٹرمپ نے سعودیہ، قطر اور متحدہ عرب امارات کے دوروں میں تقریباً تین ٹریلین ڈالرز کے باہمی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ اب امریکا کو عظیم بنانے کا رستہ عرب کے ریگزاروں سے ہو کر جاتا ہے۔ اس کا آدھا بھی سچ ہو جائے تو اگلے پچاس برس تک، امریکا دنیا کے سینے پر ایسے ہی مونگ دلتا رہے گا۔ باقی سب اپنی جگہ مگر آرٹ آف ڈیل کے مصنف صدر ٹرمپ نے اپنے آپ کو دنیا کا سب سے بڑا بیوپاری ثابت کر دکھایا۔ معاشی ماہرین کے بقول یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ تقریباً چار سال تک امریکا کے دفاعی بجٹ کے لیے کافی ہے۔ حالانکہ امریکا دنیا میں دفاع پر خرچ کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ سالانہ تقریباً8سو ارب ڈالر۔ جبکہ اس سے آکسفورڈ جیسی200یونیورسٹیاں بنا کر5سال تک چلائی جاسکتی ہیں اور پاکستان جیسا ملک تقریباً نصف صدی(48برس) تک اپنا پورا بجٹ اس رقم سے بناسکتا ہے۔ خلیجی حکام کی دریا دلی کی یہ خبر جب میڈیا پر آئی تو غزہ میں کھانے کے حصول کے لیے لمبی قطار میں کھڑے ایک فلسطینی بڑے جذباتی انداز میں میڈیا سے مخاطب تھا کہ ہم ایک ایک نوالے کو ترس رہے ہیں اور عرب حکام ٹرمپ کو ایک ایک ہزار ارب ڈالر دے رہے ہیں۔ حسبنا اللہ و نعم الوکیل.

😢 9
متاع گمشدہ کی تلاش
متاع گمشدہ کی تلاش
5/17/2025, 6:45:06 PM

*آخری وار شروع، اہل غزہ اب کہاں جائیں گے* قیامت کا سماں ہے، ہر سو چیخ و پکار ہے، زمین دہک رہی ہے اور تباہ کن بم برسنے کے بعد دھویں کے مرغولوں سے آسمان سیاہ ہو چکا ہے۔ ہوا میں بارود کی بُو رچی ہے اور دیواروں پر آنسوؤں کی نمی ثبت ہے۔ غزہ کے گلی کوچوں میں موت کا عفریت رقص کناں ہے۔ جہاں کبھی بچوں کی ہنسی گونجتی تھی، آج وہاں خامشی ماتم کرتی ہے۔ کسی باپ کے بازو میں بیٹے کی لاش ہے، تو کسی ماں کی گود خالی ہے، آنکھیں پتھرائی ہوئی ہیں، شاید آنسو بھی ختم ہو چکے ہیں۔ کسی کھنڈر میں دبے ہوئے ہاتھ میں ایک پرانا کھلونا ہے، جس سے ابھی زندگی لپٹی ہوئی تھی۔ کوئی بچی اپنی ماں کو آوازیں دے رہی ہے، جو ملبے کے نیچے ہمیشہ کے لیے سو گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے پورا شہر ایک اجتماعی قبر میں بدل چکا ہے، جہاں سانس لینا بھی جرم ہے۔ غزہ میں زندگی کی تعریف بدل گئی ہے، زندہ وہ نہیں جو سانس لے رہا ہے، بلکہ وہ ہے جس کی لاش کو دفنانے کی جگہ مل گئی ہو۔ دنیا تماشائی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے کاغذوں پر قراردادیں گرد اُڑا رہی ہیں، جبکہ بچوں کی چیخیں زمین پر لکھا جانے والا سب سے خاموش احتجاج بن چکی ہیں۔ بچے کھچے قدسیوں کو بھی ختم کرنے کے لیے فیصلہ کن آپریشن “عرباتِ جدعون” شروع ہو چکا ہے۔ اسپتالوں میں لاشوں اور زخمیوں کی اور قبرستانوں میں میتوں کی گنجائش ختم۔ صرف36گھنٹے میں555بے جاں وجود ادویہ و سہولیات سے خالی برائے نام شفاخانوں میں لائے جاچکے۔ جو زندہ ہیں ان کے دو ہی مشغلے ہیں، صبح شام پیاروں کی تدفین، پھر جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے نوالے کے حصول کی تگ ودو۔ کبھی لمبی قطاروں میں کھڑے ہوکر بھی خالی ہاتھ لوٹنا پڑتا ہے۔19مارچ سے محصور پٹی میں آب و دانہ کی رسائی مسدود۔ راستوں پر سنگینوں کے پہرے۔ پانی کی بوتل یا دوا کی شیشی بھی پٹی میں داخل نہیں ہو سکتی۔ اس لیے بھوک، پیاس اور افلاس مجسم ہو کر الگ سے لاغر وجودوں کو کھا رہا ہے۔65ہزار بچے غذائی قلت سے موت کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ “بے بسی” بھی ان کی بے بسی کو بیان کرنے سے بے بس۔ حقیقی معنوں میں زمین تنگ ہوچکی۔ کلیجے منہ کو آرہے ہیں۔ مگر فریاد سننے والا کوئی نہیں۔ اب تو فریاد کی بھی سکت نہیں رہی۔ دنیا کی ایسی سنگ دلی کا ایک قوم پہلی دفعہ مشاہدہ کر رہی ہے۔ تاریخ میں پہلی دفعہ کیمروں کے سامنے اور دنیا کی نگاہوں کے آگے ایک قوم کی نسل مٹائی جا رہی ہے۔ مگر ہر طرف سکوت مرگ طاری ہے۔ جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اس لیے دنیا سے مایوس ہو کر ایک سادہ مگر سنجیدہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ہم پر ایٹم بم برسا دو۔ یہ تمہارا احسان ہوگا تاکہ اس اذیت ناک اور سسکتی زندگی سے نجات ملے! یہ کوئی مبالغہ نہیں، بلکہ بین الاقوامی خبر رساں ادارے ”انٹر پریس سروس” (آئی پی ایس) نے مظلومانِ قدس کے اس مطالبے پر رپورٹ شائع کی ہے۔ صورتحال اتنی ناگفتہ بہ ہو چکی ہے کہ اب قدسی کسی روشنی کی توقع نہیں رکھتے۔ اب جسے موت اپنی آغوش میں لے لیتی ہے، اسے خوش قسمت سمجھا جاتا ہے۔ یوں غزہ میں موت بھی بہت بڑی نعمت ہے۔ بھوک کے مارے بچے جب امدادی اداروں کے مراکز سے اپنے برتن خالی لے کر واپس لوٹتے ہیں تو جابجا بکھری قبروں کے پاس گزرتے ہوئے وہ آپس میں سرگوشی کرتے ہیں کہ “احمد شہید” کتنا خوش قسمت ہے، وہ جنت کے میوے کھا رہا ہوگا اور ہم یہاں ایک نوالے کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ کاش کہ ہم بھی جلد شہید ہو جائیں۔ غزہ دردوں کا دَر اور دکھوں کا گھر ہے۔ اس کا نوحہ لکھنے کے لیے بھی کسی ابوالکلام کا قلم درکار ہے۔ وہ بھی شاید اس تکلیف کو الفاظ کا جامہ نہ پہنا سکے، جس سے اہل غزہ گزر رہے ہیں۔ الجزیرہ کے نمائندے انس الشریف نے جمعہ کی صبح سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ لکھی کہ “مجھے پتہ ہے آپ لوگ مزے سے سوئے ہوں گے۔ مگر ہم پر قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔” صہیونی فوج نے غزہ کو مکمل طور پر ملیامیٹ کرنے کے آپریشن “عرباتِ جدعون” کا آغاز کر دیا ہے۔ ہفتہ کے روز اس خوفناک مہم کی شروعات کا آفیشلی اعلان کر دیا گیا۔ یہ کئی ہفتوں کی مسلسل تیاریوں کے بعد شروع کیا گیا ہے۔ جس کا مقصد بے خانماں فلسطینیوں کو دربدر کرکے غزہ پر مکمل قبضہ اور حماس سمیت دیگر مزاحمتی قوتوں کا مکمل صفایا ہے۔ واضح رہے کہ اس آپریشن کا آغاز عین ہفتہ کے روز کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہودی مذہب میں ہفتہ کا دن (سبت) بہت مقدس ہے۔ اس دن کوئی کام بالخصوص جنگ کرنا ممنوع سمجھا جاتا ہے۔

😢 👍 🙏 10
متاع گمشدہ کی تلاش
متاع گمشدہ کی تلاش
5/16/2025, 6:25:27 AM
❤️ 🙏 2
Video
Link copied to clipboard!