
Abdullah Umar
May 26, 2025 at 12:01 PM
مکتب دیوبند اور جمود فکری ؟
(اس حوالہ سے ایک پوسٹ پر لکھا گیا کمنٹ )
مدارس نظامیہ میں شروع سے دینی اور دنیاوی تعلیم ساتھ چلی آرہی تھی ، انگریز بہادر کہ محنت سے جب علیگڑھ کا نظام تعلیم فروغ پایا تو مسلمانان ھند کے لیے اپنا دینی تشخص اور تھذیب بچانا مشکل ہوگیا کیونکہ سرسید خان کا نعرہ انگریزوں کی تقلید محض کا تھا اس پر مستزاد جنگ آزادی کے بعد روایتی علماء کے طبقہ کو چن چن کر شھید کیا جارہا تھا ، اس موقع پر علماء دیوبند نے یہ پالیسی اپنائی کہ قرآن وسنت کے ورثہ کے حفاظت کے لیے انگریزی نظام تعلیم سے کنارہ کشی اختیار کرکے روایتی ورثہ کو محفوظ کیا جائے ۔ یہ بات اس اہم تاریخی تناظر کو سمجھنے والے کے لیے قابل فہم ہوگی نہ کہ بس ظاہری تقابل کرلینا کافی ہے ۔
اب آگے چلیں برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان میں جو مدارس کا نظام رائج ہوا اس میں وقت کے ساتھ لچک آتی چلی گئی خاص کر شھر کے مدارس میں ۔ آپ کسی بھی بڑے دیوبندی مدرسے میں جاکر وزٹ فرمالیں ۔ طلباء کرام اپنی تعلیم کے ساتھ پرائیوٹ عصری تعلیم بھی حاصل کررہے ہوتے ہیں علماء کی ایک بڑی تعداد علوم عصریہ حاصل کررہی ہیں ۔ ہاں مخلوط طریقہ انتظامی اعذار کی وجہ سے چل نہ سکا کیونکہ درس نظامی کے اس وزنی نصاب کے ساتھ طالب علم کے لیے کماحقہ عصری تعلیم کو بھی وقت دینا مشکل ہے ۔ لیکن تکمیل علوم دینیہ کے بعد کوئی دیوبندی مستند عالم یا مشاھیر کی جانب سے عصری علوم و فنون کے حصول پر سختی نہیں
اس لیے از راہ کرم سطحی تقابل نہ فرمائیں جو ندوۃ العلماء کے مشاہیر ہیں وہ خود اپنا انتساب دیوبند کی طرف فرماتے ہیں ، علی میاں کو پڑھیں انہوں نے مکتب دیوبند کے منہج کو اسوہ تسلیم فرمایا ہے ۔ مغربیت کے حوالہ سے یک رخا جامد منہج وقت کی ضرورت تھی اور اس وقت کے غیر جانبدار مفکرین حضرات نے ضرورت محسوس کرتے ہوئے اس کی تصویب فرمائی تھی ۔
❤️
2