عمران خان کا سوشل میڈیا 🤑
عمران خان کا سوشل میڈیا 🤑
June 4, 2025 at 05:32 AM
عمران خان ایک بار پھر سیاسی منظرنامے پر متحرک اور پرعزم دکھائی دے رہے ہیں مگر اس بار ان کا انداز ماضی سے یکسر مختلف اور کہیں زیادہ منظم ہے۔ وہ صرف احتجاج کی کال دینے تک محدود نہیں رہے بلکہ اس تحریک کا پورا کنٹرول اپنی مٹھی میں لے لیا ہے۔ وہ وقت بیت چکا جب عمران خان احتجاج کی کال دیتے اور ادھر گنڈا پور یا گوہر پسِ پردہ اسٹیبلشمنٹ سے معاملات طے کر کے انھیں کسی مفاہمت پر قائل کرنے کی کوشش کرتے یا درمیانہ راستہ نکالا جاتا۔ اب کی بار عمران خان نے مائنس ون فارمولے"کی ہوا نکال کر پارٹی میں اپنی حیثیت کو نئی طاقت اور واضح قیادت کے ساتھ منوایا ہے۔ پارٹی کا اعلیٰ ترین عہدہ پیٹرن اِنچیف خود سنبھال کر انہوں نے نہ صرف چیئرمین کے منصب کو علامتی بنا دیا ہے بلکہ یہ بھی باور کرا دیا ہے کہ فیصلے اب براہِ راست انہی کے ہاتھ میں ہوں گے۔ عمران خان کی ہدایات پر عمر ایوب اور سیلمان اکرم راجہ پارٹی امور اور احتجاجی حکمت عملی کے کلیدی کردار ادا کریں گے جنھیں براہ راست ہدایات ملیں گی ۔ عمران خان واضح کر چکے ہیں کہ احتجاج سے متعلق تمام ہدایات وہ خود جاری کریں گے اور آئندہ بھی یہی نظام رہے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بار علی امین گنڈاپور جیسے آزمودہ مگر متنازع کرداروں کو پسِ منظر میں دھکیل کر خیبر پختونخوا میں جنید اکبر خان کو احتجاجی تنظیمی نیٹ ورک کا انچارج بنایا گیا ہے۔ اس اقدام سے واضح پیغام دیا گیا ہے کہ تحریک انصاف ایک نیا اور زیادہ مؤثر ڈھانچہ لے کر میدان میں اتر رہی ہے جہاں مزاحمتی اور تنظیمی صلاحیت کو ترجیح دی جائے گی ۔ عمران خان کی نئی حکمت عملی کا بنیادی ہدف یہ ہے کہ احتجاج کو صرف چند مخصوص شہروں تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ ملک بھر میں پھیلا کر ریاستی مشینری کو تقسیم، کمزور اور بالآخر بے بس کر دیا جائے۔ اس بار وہ احتجاج کو ایک غیرمرئی مگر منظم جال کی مانند پھیلانے جا رہے ہیں جہاں ہر کارکن، ہر حلقہ، ایک خفیہ مگر مربوط لائحہ عمل کے تحت متحرک ہو گا۔ عمران خان بلاشبہ احتجاجی سیاست کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ ان کا 126 روزہ دھرنا ملکی سیاسی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا اور منفرد مظہر تھا۔ دیگر سیاسی جماعتیں اتنے طویل احتجاج کو برقرار رکھنے کا حوصلہ اور تنظیمی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ عمران خان نے نہ صرف احتجاجی تحریک کو طوالت دی بلکہ عوامی مومنٹم کو بھی زندہ رکھا جو بذاتِ خود ایک کارنامہ تھا۔ اب وہ ایک نئی احتجاجی پالیسی کے ساتھ تاریخ رقم کرنے جا رہے ہیں جو جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے کنٹرول کی جائے گی۔ وہ واضح کر چکے ہیں کہ تمام احکامات جیل سے جاری ہوں گے اور احتجاج کی پیش رفت انہی کی رہنمائی کے تحت ہو گی۔ کسی کو اس تحریک کو روکنے یا ختم کرنے کا اختیار نہیں ہو گا۔ مذاکرات کا دروازہ بھی صرف عمران خان تک محدود ہو گا۔ نہ کوئی ثالثی کمیٹی نہ کوئی پردہ نشین قوت اب ان کے فیصلوں پہ اثرانداز ہو گی۔ عمران خان احتجاجی سیاست میں ایک منفرد تجربہ کرنے جا رہے ہیں ۔ ان کی غیرموجودگی میں بھی ان کی موجودگی پورے سیاسی نظام پر سایہ فگن ہے۔ حکومتی ایوانوں میں ایک عجیب سی بے چینی اور اضطراب دکھائی دیتا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ اصل پلان کیا ہے، احتجاج کب شروع ہو گا اور اس کا دائرہ کار کہاں تک پھیلے گا۔ حکومت محض اس خدشے سے ہی ہلکان ہے کہ عمران خان باقاعدہ احتجاج شروع کیے بغیر ہی دباؤ بڑھا چکے ہیں اور جب تحریک کا آغاز ہو گا تو صورتِ حال کن کن مرحلوں سے گزرے گی، اس کا اندازہ کسی کو نہیں۔ عمران خان ایک بار پھر سیاست کو نئی جہت، نیا رخ دینے جا رہے ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ جب وہ ایسا کرنے کا فیصلہ کر لیں تو نتائج فیصلہ کن ہوتے ہیں۔
👍 😂 5

Comments